شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
گمراہی سے ہدایت تک
اللہ رب العالمین کے مجھ پر ان گنت اور لاتعداد احسانات ہیں جن میں سے ایک بہت عظیم احسان راہ حق کی جانب راہنمائی اور اس پر استقامت ہے۔ کائنات کے رب کے احسانات کا کماحقہ شکر اداکرنامجھ سمیت کسی بھی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔باطل سے حق کی طرف میرے سفرکی یہ کہانی، میں آپ لوگوں کے گوش گزار اس لئے کرنا چاہتا ہوں تاکہ اللہ رب العالمین کی اس عظیم نعمت کا بطوراحسان اظہار کروں اور حسب استطاعت شکر اداکروں۔
اپنی اس آپ بیتی کو قلم بند کرنے کا خیال مجھے نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی لاجواب سوانح حیات ابقاء المنن بالقاء المحن پڑھ کر آیا۔جس کے مطالعہ سے مجھے پہلی مرتبہ علم ہوا کہ انعامات ربانی کا تذکرہ فخر و غرورکے علاوہ شکر کے طور پر بھی کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا بطور شکرگمراہی کے اندھیروں سے ہدایت کی روشنی تک کی میری یہ کہانی حسب ذیل ہے۔
میں نے ایک بریلوی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔جہاں بریلویت صرف جمعرات اور مخصوص دنوں میں نذر و نیاز اور زنانہ میلادتک ہی محدود تھی۔بریلوی مذہب کی دیگر بدعات جیسے ماہ رجب کے کونڈے، شب برات کے رنگ برنگے حلوے ،مخصوص راتوں کے خود ساختہ اعمال ،محرم الحرام کی سبیلیں،حلیم ، شربت اور مزارات پر حاضری وغیرہ سے ہمارا گھر کافی حد تک محفوظ رہا۔ اسکی وجہ اسکے سوا کچھ نہ تھی کہ ہمارا تعلق پنجاب کے علاقہ سے تھا اور مذکورہ بالا اکثر رسومات پنجاب میں نہیں ہوتیں اس لئے ہمارے خاندان کے لئے یہ بدعات اجنبی تھیں جنھیں کراچی میں ایک عرصہ قیام کے باوجود گھر والوں نے اپنانے کی کوشش نہیں کی۔کہا جاتا ہے کہ سنت آفاقی اور بدعت علاقائی ہوتی ہے ۔ہر علاقے کی اپنی مخصوص بدعات ہوتی ہیں جو دیگر علاقوں وخطوں میں ناپید ہوتی ہیں۔لہٰذا ہر بدعتی اپنے علاقے کی بدعت سے مانوس اور دوسری جگہوں کی بدعتوں سے غیر مانوس ہوتا ہے۔پس ہمارے گھرانے کا کراچی کی مخصوص بدعات سے دور رہنے کا بنیادی سبب یہی تھا۔یوں ہمارا گھر مذہبی طور پر کٹّر بریلوی گھرانہ نہیں تھا۔ماسوا میرے والد محترم کہ وہ آج تک نہایت متشدد صوفی بریلوی ہیں۔اللہ انہیں ہدایت دے۔آمین یا رب العالمین
دین و مذہب کے نام پر جو کچھ اپنے گھر اور اطراف میں دیکھافطری طور پر میں نے اسے اسلام سمجھ کرقبول کرلیا۔مجھے یاد ہے کہ ایک دو مرتبہ میں نے بعد نما ز جمعہ بریلویوں کا خود ساختہ صلوۃ وسلام بھی پڑھا۔اگرچہ اپنے شرمیلے پن کے سبب بڑی مشکل سے میں نے خود کواس’’نیکی‘‘ پر آمادہ کیا تھا ۔اللہ کے فضل و کرم سے بچپن ہی سے میرا ذہنی رجحان مذہب کی طرف رہا۔اکثر میں یہ سوچتا تھا کہ اصل زندگی وہی ہے جو اللہ کی رضا میں گزر جائے باقی دنیا کے پیچھے بھاگنا بے کار ہے۔ میری سوچ تو مذہبی تھی لیکن عملی طور پر میں مذہبی نہیں تھا۔پچپن میں کچھ عرصہ
نمازی رہا لیکن بعد میں نمازیں بھی چھوٹ گئیں۔جب میں نمازیں چھوڑ کر بے نمازی ہوگیا تو اکثر میں حسرت سے اپنے اس خوبصورت دور کو یاد کرتا تھاجب میں دیندار اور نمازی تھا۔مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے ہمیشہ نماز پڑھنے کی خواہش ہوتی لیکن کوشش کے باوجود میرے قدم مسجد کی جانب نہیں اٹھتے تھے۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت مجھے اس نیک ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے روک رہی ہو۔بہرحال وقت گزرتا رہا جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو ایک خاتون سے انکے گھر پر ٹیوشن پڑھتا تھا۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ اور مذہب سے محبت رکھنے والی خاتون تھیں جماعت اسلامی سے تعلق تھا اور تحریک آزادی کشمیرکی پرزور حامی تھیں اکثر اوقات مجھ سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بہت دکھ سے اظہارکرتی تھیں ۔کشمیر سے متعلق یونیورسٹی میں ہونے والی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں اور مجھے بھی کشمیر کی تحریک آزادی سے آگاہی پر مبنی اسٹیکرز اور پمفلٹ لاکردیتی تھیں ۔گاہے بگاہے مختلف انداز اور باتوں سے میرے اندر جذبہ جہاد بھی بیدار کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ ایک حساس اور درد دل رکھنے والی دنیاوی تعلیم سے آراستہ ایسی دین دار خاتون تھیں جو کسی بھی مذہبی شخص کی آئیڈیل بن سکتی تھیں۔ویسے تو وہ اکثر مجھے دین کی باتیں سمجھاتی تھیں لیکن ایک بات انہوں نے مجھے ایسی بتائی جو میرے ذہن سے چپک کر رہ گئی اگرچہ اس وقت میں اسکے مفہوم کو بھی درست طریقے سے نہیں سمجھ سکا تھا کیونکہ اس وقت میں نہ تو کسی فرقے کو جانتا تھا نہ ہی مسلمانوں کے درمیان مجھے کسی اختلاف کا علم تھا۔حیرت ہے کہ دیگر باتوں میں سے تو مجھے کوئی بات بھی یاد نہیں رہی اور اس ایک بات کو بھی میں نے دانستہ یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی لیکن نجانے کیوں مجھے وہ بات ہمیشہ یاد رہی۔ وہ بات یہ تھی کہ اسلام میں تقلید شخصی منع ہے۔میری زندگی کا یہ وہ قیمتی جملہ ہے جو بڑی حد تک حق کی قبولیت میں میرا معاون ثابت ہوا۔
اکیس برس کی عمر میں جب میں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ دوران سفر میں نے ایک شخص کو ایک کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا چونکہ مطالعے کے شوق کی وجہ سے مجھے کتابیں متاثر کرتی تھیں اور وہ شخص بھی میرے برابر میں بیٹھا ہوا محو مطالعہ تھا اس لئے میں نے بھی چند صفحات پڑھے اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔یہ جاننے کے لئے کہ کتاب کا نام کیا ہے میں نے اس شخص سے سرورق دکھانے کی درخواست کی اور پھر بازار سے وہ کتاب خرید لی۔وہ کتاب تھی دیوبندی عالم مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مشہور زمانہ تصنیف اختلاف امت اور صراط مستقیم۔چونکہ میں اس وقت تک بریلوی تھا اس لئے میں نے خصوصی طور پر کتاب سے صرف وہ حصہ پڑھا جو بریلویوں سے متعلق اور انکے رد میں تھا۔جب میں نے دیکھا کہ مولانا نے قرآن وحدیث کے دلائل سے بریلوی مسلک کا غلط ہونا ثابت کیاہے تو میں نے فی الفور بریلوی مسلک چھوڑ کر دیوبندی مسلک اختیار کر لیا اور اسی کو حق سمجھنے لگا۔
بس پھر کیا تھا محلے میں بریلویت کی تردید میں بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا اور میری اصلاح سے مایوس ہوکر محلے کے ایک بریلوی حضرت نے میرے بائیکاٹ کا اعلان کردیااور دیگر لوگوں کو منع کردیا کہ شاہد کے ساتھ سلام دعا نہ کریں اور نہ ہی اس کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں۔میرے والد نے بھی مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مذہبی مسئلہ پر کسی سے بلاوجہ مخالفت مول نہ لو۔آہستہ آہستہ وہ مناظرانہ جذبات سرد پڑ گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے چاروں طرف سے سخت مخالفت کا سامنا تھا لیکن میراحامی و ہم مسلک کوئی نہیں تھا۔ میں نے ارد گرد بہت کوشش کی کہ کوئی ہم مسلک ڈھونڈ لو وگرنہ مجھے ڈر تھا کہ میں دین داری سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا نہ تو کوئی مجھے میرا ہم خیال ساتھی ملا اور نہ میں اپنی نمازوں اور دین کی دیگر دوسری باتوں پر ثابت قدم رہ سکا۔نمازیں بھی چھوٹ گئیں اور جو ایک مشت داڑھی رکھی تھی اسے بھی اپنے ہاتھوں سے صاف کرلیا۔پھر نام کے دیوبندی اور کام کے دنیا دار رہ گئے۔ عجیب بات ہے کہ میں جب دیوبندی تھا اور کوئی شخص مجھ سے میرا مسلک دریافت کرتا تھا تو مجھے ہمیشہ خود کو دیوبندی کہنے میں بہت شرم آتی تھی کیونکہ یہ نام مجھے مسلمانوں کا کم او ر ہندوؤں کا زیاد ہ لگتا تھا۔
جب ہم نئے نئے حق پر مطلع ہوئے تو جوش وخروش ہی نرالا تھا۔ہمت ،توانائی اور جرات کا ایسا طوفان اندر موجزن تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں سب سے شرک و بدعت چھڑوا کر حق کو ماننے پر مجبور کردیں گے یو ں چند دنوں میں ہی ہم اپنا پورا علاقہ فتح کرلیں گے۔لیکن یہ طوفان ابتداء کے چند تجربات سے ہی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔جس طرح راقم حقیقت سے بے خبر اندھیرے میں تھا اور روبرو حق ہوتے ہی بلا حیل و حجت اسے سینے سے لگا لیااپنی سادگی اور خوش فہمی میں اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی خود پر قیاس کربیٹھا تھا۔ پہلے میں سوچتا تھا کہ جیسے ہی میں کسی کو کوئی حدیث سناؤں گا یاکسی قرآنی آیت کا حوالہ دونگا تو وہ فوراً ہی اسے تسلیم کرکے اپنے غلط اعمال و عقائد ترک کردے گا لیکن جب لوگوں سے اس سلسلے میں بات چیت کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ لوگ اتنے بھی اندھیرے میں نہیں جتنا میرا اس بارے میں خام خیال تھا۔ وہ حق کے مقابلے میں بہت سی تاویلیں اور حیلے بہانے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ پہلے جب راقم خلوص دل سے کسی سے اسلامی عقائد اور بدعات پر بات کرتاتھا تو وہ بات چیت نہ چاہتے ہوئے بھی فضول کے بحث و مباحثہ اور تلخ کلامی پر منتج ہوکر ختم ہوجاتی تھی اس پر مستزاد جو تماشہ لگتا تھا وہ الگ۔ابتداء میں تو مجھے لگا کہ شاید میری تبلیغ کا طریقہ ہی درست نہیں اور شاید میری ہی کسی غلطی کی بناپر لوگ میرے دلائل پر توجہ دینے کے بجائے مجھ سے الجھ جاتے ہیں۔لیکن متعدد واقعات کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ لوگوں کا مجھ سے جھگڑنا اور الجھنا دانستہ اور سوچی سمجھی سازش تھی جس سے مقصود و مطلوب دلائل سے توجہ ہٹانا تھا۔اپنے مخالف کی بات نہ سننے کا یہ قدیم ترین آزمودہ اور کامیاب ہتھکنڈا تھاجو کفارمکہ کے بھی زیر استعمال رہا۔ اس لئے رد شرک و بدعت کے لئے چاہے میں جو بھی طریقہ اختیارکرتا اس کا نتیجہ لڑائی جھگڑے کے علاوہ کچھ نہ نکلتا کیونکہ کوئی سچ سننا ہی نہیں چاہتا خصوصاً جب وہ اسکے مذہب کے خلاف ہو۔
ایک مرتبہ سرراہ ایک جاننے والے سے ملاقات ہوئی اور دین و مذہب پر گفتگو ہوئی جو آہستہ آہستہ بحث و مباحثہ کی شکل اختیار کرنے لگی دوران گفتگو کسی بات پر میں نے ان صاحب سے کہہ دیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم امّی تھے یعنی وہ پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے تھے ۔ان صاحب نے اپنی جہالت میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے تعبیر کیا اور شور مچا کر آنے جانے والے لوگوں کو اکھٹا کر لیا۔مجھے نہیں معلوم کہ اس خطرناک صورتحال سے میری جان کیسے چھوٹی۔بس میرے رب نے کرم فرمایا وگرنہ وہ دن میری زندگی کا آخری دن بھی ہو سکتا تھا۔بہرحال اس ایک سنگین واقعہ کے بعد میں بہت محتاط ہوگیا اور مجھے معلوم ہوگیا کہ ہربات ہر کسی کے سامنے کرنے کی نہیں ہوتی اور اسکے ساتھ ساتھ یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی کہ حق سامنے آنے پر ہر مسلمان اسے قبول بھی کرتا ہے۔جب اس واقعہ کا علم میرے والد محترم کو ہوا تو وہ اور بھی خوفزدہ ہوگئے کیونکہ وہ پہلے ہی میری تبلیغی سرگرمی کے سخت مخالف تھے اس لئے انہوں نے مجھے سختی سے اہل محلہ سے مذہبی گفتگو کرنے سے روک دیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندوستانی خطرناک لوگ ہیں،دشمنیاں پال لیتے ہیں پھر مناسب موقع ملنے پرنقصان پہنچاتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے بیٹے کو کوئی مار کر چلا جائے۔میرے والد کے خدشات کچھ ایسے بھی بے بنیاد نہیں تھے کیونکہ محلے میں ہمارا واحد پنجابیوں کا گھر تھا اور اہل علاقہ الطاف حسین کی لسانی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرنا خوب جانتے تھے۔اس کے بعد میری تبلیغی سرگرمیاں بہت محدود ہوگئیں اور سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا۔پے درپے رونما ہونے والے واقعات اور تجربات کے بعد معلوم ہوا کہ ہدایت ایسی نعمت ہے جو ہرکسی بلکہ اکثریت کی قسمت میں نہیں ہے۔وہی ہدایت کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے جس پر اسکا رب مہربان ہوتا ہے۔اس لئے چاہ کر بھی ہم کسی کو قبولیت حق پر آمادہ نہیں کرسکتے جب تک رب کی مشیت نہ ہو لہٰذا لوگوں کے تسلیم حق سے انکاری رویے پر جلنا اور کڑھنا بے کا رہے۔
ان سب کا نتیجہ دین داری سے محرومی اور دنیا داری کی جانب لوٹنے کی صورت میں برآمد ہوا ۔بظاہر یہ بری بات تھی لیکن یہ بھی اللہ کا مجھ پر کرم ہوا کیونکہ یہ بے دینی ہی بعد میں اصل حق تک رسائی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔شاید کہ اگر زندگی میں گمراہی کا یہ دور نہ آتا تو میں ازسرنو دوبارہ تحقیق نہ کرتا اور دیوبندیت پر ہی قائم رہتا۔
دین سے دنیا کی طرف پلٹنے کے بعد اس دنیا داری نے ایسی مت ماری کہ میں حددرجہ پستی میں گر گیا۔اتنا کہ جب ہوش آیا تو میں حیران رہ گیا۔ضمیر نے جھنجھوڑا کہ ایسی زندگی کا کیا فائد ہ کہ دنیا میں بھی ذلت اور رسوائی اور آخرت میں بھی حسرت اور ناکامی۔پھر اپنے رب کی توفیق سے اسکی جانب رجوع کیا۔اختلاف امت اور صراط مستقیم جو اس عرصے میں گھر سے لاپتا ہوگئی تھی کیونکہ میں نے اس کی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اس لئے کہ اپنے مطلب کا حصہ پڑھ کر میں نے کتاب کو چھوڑ دیا تھا۔چار،پانچ سال بعد میں نے وہ کتاب اپنے پڑوسی کے پاس دیکھی تو یہ کہکر کہ یہ میری کتاب ہے واپس لے لی۔اب میں نے اس کتاب کا ازسر نو مطالعہ شروع کیااور اب وہ حصے بھی پڑھے جو پہلے چھوڑ دئے تھے۔جب میں نے شیعہ سنی اختلاف ، بریلوی دیوبندی اختلاف اور مودودی کے رد والا حصہ پڑھا تو مولانا کے خیالات سے متفق ہوگیا کہ واقعی یہ تمام گمراہ فرقے ہیں کیونکہ دین میں ان تمام لوگوں کے اختلافات کو مولانا نے معقول دلائل سے ر د کیا تھا۔لیکن جب میں نے اہل حدیث کے رد والا حصہ پڑھا تو میرا دل مطمئن نہیں ہوااور شدت سے کسی کمی کا احساس ہوا۔خاص طور پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ دوسرے فرقوں کا رد کرتے ہوئے تو مولانا نے قرآن وحدیث سے دلائل پیش کئے ہیں لیکن اہل حدیث کے رد میں کوئی حدیث یا قرآنی آیت پیش نہیں کی ۔تقلید کو سمجھانے کے لئے ڈاکٹر اور مریض کی ایک مثال پیش کی اور آخر میں یہ کہہ کر بحث ختم کردی کہ تقلید کے موضوع پر چونکہ دونوں اطراف سے بہت کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لئے میں تفصیل بیا ن نہیں کرونگا۔
بس یہی وہ مقام تھا جہاں میں نے تقلید کے موضوع پر دونوں اطراف کی کتابیں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلہ کی پہلی کتاب میں نے عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی ’’ہم تقلید کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ پڑھی۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میرے دل نے گواہی دی کہ ترک تقلیدہی حق ہے۔حالانکہ بعد میں تقی عثمانی دیوبندی کی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت بھی پڑھی لیکن تقلید کے بارے میں احناف کے کمزور موقف نے بالکل بھی متاثر نہیں کیا۔
یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب میں ایک حدیث تہتر فرقوں سے متعلق بھی پڑھی تھی جس میں بہتر کے جہنم اورایک فرقے کے جنت میں جانے کی خبر تھی۔اسی دن سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس وقت تک تحقیق کا سلسلہ جاری رکھوں گا جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہے؟ اس وقت تک میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اہل حدیث بھی کسی مسئلہ میں حق پر ہوسکتے ہیں کیونکہ لڑکپن ہی سے میں اہل حدیث کوان کے دو مسائل کی بنا پر گمراہ جانتا تھا ۔پہلا مسئلہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک سمجھنا اور دوسرا مسئلہ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنا۔
مجھے اہل حدیث کا کوئی تعارف حاصل نہیں تھا لیکن معلوم نہیں کہاں سے ان کے مذکورہ بالا دو مسائل کان میں پڑ گئے تھے۔ بہرحال میں نے جان لیا کہ کم ازکم تقلید کے مسئلہ پر حق اہل حدیث کی جانب ہے لیکن اس تحقیق پر مجھے دھچکہ لگا ۔کیونکہ دیوبندی مسلک کو میں نے محدود تحقیق اور بریلویوں کے بالمقابل حق پر ہونے کی بنا پر قبول کیا تھا۔اس لئے فطری طور پر مجھے اس مسلک سے محبت تھی اور میں اسے چھوڑنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔لیکن جنتی فرقے کے بارے میں جاننے کے شوق کی وجہ سے تحقیق بھی جاری و ساری رکھنی تھی ۔اس لئے میں نے دونوں اطراف کی اختلافی مسائل پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے کے ساتھ آڈیو تقاریر سننے کا بھی آغاز کیا۔اسی دوران میں نے انٹرنیٹ پر ایک دیوبندی عالم غالباً امین اوکاڑوی کا ایک آڈیو کلپ سنا جس میں ان صاحب نے اہل حدیثوں کی گمراہی ثابت کرنے لئے کہا کہ یہ ایک ایسا فرقہ ہے جو اللہ کے بارے میں کہتا ہے کہ عرش اللہ کے وزن سے ایسے چرچرارہا ہے جیسے اونٹ کا کجا وہ اپنے سوار کے وزن سے چرچرکرتا ہے اب ایسے عقیدہ کا حامل فرقہ جو اللہ کے لئے جسم ثابت کرتا ہے کیونکر حق پر ہوسکتا ہے؟ چونکہ دیوبندی بشمول بریلوی فرقہ جات رب کائنات کی ظاہری صفات جیسے آنکھیں،ہاتھ،پنڈلی،انگلیاں،قدم اورچہرہ وغیرہ پر ایمان نہیں لاتے بلکہ اس میں سے ہر صفت کی تاویل کرتے ہیں اس لئے راقم السطور نے پہلے کبھی اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی کوئی بات نہ سنی تھی اور نہ ہی پڑھی تھی اور نہ ہی اسکے درست و صحیح ہونے کا کوئی تصور ذہن میں تھا اس لئے اس پر حیران و پریشان ہونا فطری تھا۔میں نے یہ بات سن کر سوچا کہ اگر یہ بات اہل حدیث فرقے کے بارے میں درست نکلی اور اگر واقعی ان کا اللہ کے متعلق یہی عقیدہ ہوا تو واقعی یہ فرقہ بہت گمراہ اور حق سے دور جا پڑا ہے۔ اس مرتبہ میں کچھ زیادہ ہی پریشان تھا کیونکہ مجھے دیوبندیوں اور اہل حدیثوں سے زیادہ اپنی فکر پڑ گئی تھی کہ اگر اہل حدیثوں کے متعلق یہ ناقابل یقین بات سچ ہوئی تو یہ بات طے ہوجائے گی کہ جس ناجی فرقے کی مجھے تلاش تھی وہ کم ازکم اہل حدیث فرقہ نہیں ہے اب مجھے اپنی تلاش کا رخ کسی اور فرقے کی جانب موڑنا ہوگا جبکہ بظاہر کوئی ایسا فرقہ نظر میں نہیں تھاجس کے حق پر ہونے کا کوئی امکان ہو۔ اور اب تک دیوبندی فرقے کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوچکا تھا اس سبب میں دوبارہ لوٹ کر اس کی طرف نہیں جاسکتا تھااور نہ ہی جانا چاہتا تھا کیونکہ جب تقلید کا مسئلہ جس پر دیوبندی مذہب کی بنیاد ہے غلط ثابت ہوگیا تو حنفی مذہب کی باقی عمارت کی جو تقلید کی غلط بنیادوں پر تعمیر ہوئی ہے کیا گارنٹی دی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ میری اس مسئلہ پر پریشانی مزید بڑھتی اتفاق بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دیکھئے کہ میری نظر سے سنن ابوداود کی ایک حدیث گزری جس کے الفاظ ہو بہو وہی تھے جو امین اوکاڑوی صاحب نے اہل حدیث سے منسوب کرکے بیان کئے تھے۔ملاحظہ فرمائیں یہ طویل حدیث کا ایک ٹکڑا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے اللہ کی سفارش نہیں کی جاتی کسی پر اس کی مخلوقات میں سے ۔ اللہ کی شان اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ تجھ پر افسوس ہے کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا گنبد کی طرح اور بیشک وہ عرش الہی چرچراتا ہے جس طرح کہ کجاوہ سواری کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے۔ (سنن ابو داود،باب جہمیہ کا بیان)
حقیقت حال معلوم ہونے پر میری الجھن تو سلجھ گئی لیکن فرقہ دیوبندکا مکروہ چہرہ بھی سامنے آگیا ۔مجھے اس بات پر بہت افسوس ہوا کہ دیوبندی اہل حدیث کی دشمنی میں احادیث پر تنقید سے بھی نہیں شرماتے۔ جس طرح اپنے سوتی بیان میں امین اوکاڑوی نے دانستہ یہ بات چھپائی کہ یہ عقیدہ حدیث پر مبنی ہے کیونکہ اگر وہ یہ بتا دیتے تو پھر انہیں اہل حدیث پر تنقید کا جواز نہ ملتا۔ بہرحال میرے دل میں دیوبندیت کے لئے جو عقیدت و محبت تھی اور اس فرقے کے حق پر ہونے کی جومدہم سی ایک امید باقی تھی دیوبندیوں کی یہ شرمناک حرکت اس امید کے خاتمے کے ساتھ اس مذہب کی گرتی ہوئی دیوار پر ایک زور دار دھکہ ثابت ہوئی۔
تقلید کو جاننے کے بعد پھر مجھے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔جب میں نے فاتحہ خلف الامام کا آغاز کیا تو میں بے انتہاء مشقت میں پڑگیا کیونکہ بریلوی اور دیوبندی امام کی اسپیڈ نماز پڑھاتے وقت اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ انتہائی مشکل سے میں ان کے پیچھے سورہ فاتحہ مکمل کر پاتا تھا ۔ میں عجیب مشکل کا شکار تھا کہ اگر سورہ فاتحہ پڑھتا تو رکعت رہ جانے کا ڈر اور اگر سورہ فاتحہ نہ پڑھتا تو نماز نہ ہونے کا ڈرپھر با جماعت نماز بھی بہت ضروری تھی۔اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ جب بھی نماز ختم ہوتی کوئی نہ کوئی نمازی مجھے روک لیتا کہ آپ نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کیوں پڑھی ؟ یہ تو منع ہے۔پھر وہ مجھے امام سے بھی ملوانے کی کوشش کرتے کہ ا ن سے پوچھ لو کہ جب امام نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔میری عادت تھی کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہوجاتا میں وہیں باجماعت نماز ادا کر لیتا تھا حتی کہ دوران سفر جب اذان کی آواز سنتا توبس سے اتر کر قریب ترین مسجد میں یہ دیکھے بغیر کہ یہ بریلوی مسجد ہے یا دیوبندی مسجد نماز پڑھ لیتا تھا۔اسی لئے باربار بعد نماز کسی نہ کسی کے روک لینے اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی وجہ سے میں بہت کوفت میں مبتلا ہوگیا تھا۔
ان مسائل کے ساتھ ایک نئی آفت یہ آپڑی تھی کہ میرے آفس کے ساتھی جو قریب قریب سب ہی دیوبندی تھے میر ے تبدیل ہوتے خیالات اور بدلتے نظریات سے میری اصلاح کی فکر میں مبتلا ہوگئے تھے اور اپنی بلا دلیل باتوں اور نصیحتوں سے ہی مجھے ’’راہ راست‘‘ پر لانے کی کوشش کررہے تھے اور میرے دل میں جو شبہات اور اشکالات تھے نہ تو انہیں اس سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی انکے ازالے کے لئے انکے پاس دلائل تھے۔مجھے نصیحت کرنے ،سمجھانے یاقائل کرنے کے لئے انکے اکثر جملے یہی ہوتے تھے کہ دیکھو تم غلط راہ پر جارہے ہوسیدھی راہ پر واپس آجاؤ یا انسان کو اپنا مسلک،اپنا طریقہ نہیں چھوڑنا چاہیے یا دنیا بھر میں مسلمانوں کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی پیروی کرتی ہے اتنے سارے لوگ کیسے غلط ہوسکتے ہیں جبکہ ان میں علماء بھی موجود ہیں وغیرہ وغیرہ اور ان سب باتوں اور نصیحتوں کے جواب میں میرے پاس صرف ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ ’’دلیل کیا ہے؟‘‘
سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے دور حنفیت میں دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔بس میر ا خیال تھا کہ وہی چند مسائل جن کا ذکر یوسف لدھیانوی نے اپنی کتا ب میں کیا ہے اس کے علاوہ دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن بعد میں مجھے پتا چلا کہ ان چیزوں میں بھی کلی اختلاف نہیں بلکہ جزوی اختلاف ہے۔ جیسے غیر اللہ کی نذر و نیاز جو بریلوی حضرات کرتے ہیں دیوبندی اسے غلط بلکہ حرام کہتے ہیں لیکن اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے یہ کہہ کر کہ یہ تواللہ کا رزق ہے اسے کھا لینا چاہیے۔ حالانکہ جو چیز غیر اللہ کی نذر کرنے کی وجہ سے حرام ہے وہ کھانے میں حرام کیوں نہیں؟ اسی سبب دیوبندی حضرات بریلویوں کی ان محافل میں جو غیر اللہ کی نذر و نیاز پر قائم ہوتی ہیں بڑے ذوق شوق سے شرکت کرتے اور کھاتے پیتے ہیں جیسے کونڈے،محرم کی حلیم، شب براء ت کے حلوے اور عام روزمرہ کی نذر و نیاز وغیرہ۔ اسی طرح میلاد کا مسئلہ ہے جسے دیوبندی بدعت کہتے ہیں لیکن کچھ شرائط جیسے محفل میلاد میں قیام نہ کیا جائے کے ساتھ وہ بھی ان کے ہاں جائز ہے۔وغیرہ وغیرہ
بدتدریج مجھے یہ بھی علم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رفع الیدین والی تھی۔ جب میں نے باقاعدہ رفع الیدین کا آغاز کیا تو جو بات چھپی ہوئی تھی وہ سامنے آگئی۔میرے دوستوں اور دفتر والوں کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ دیوبندی مسلک سے کسی دوسرے مسلک کی طرف اس کا سفر شروع ہوگیا ہے۔حالانکہ اس وقت تک بھی میں دیوبندی ہی تھا ۔بس میں یہ سمجھتا تھا کہ ان دو تین مسائل میں دیوبندی مسلک درست نہیں باقی سب ٹھیک ہے۔میں حقیقت میں دیوبندی مسلک چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی اہل حدیث مسلک اختیار کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ دوران تحقیق اہل حدیث کا کوئی ایسا مسئلہ یقیناًسامنے آئے گا جس سے اس فرقے کی گمراہی کا مجھے یقین ہوجائے گا اور میں اس ناپسندیدہ مسلک سے بچ جاؤں گا۔ لیکن تحقیق کا ہر دن ایک نئی مشکل اور پریشانی لے کر آتا تھا میں جو مسئلہ اٹھاتا اس میں اہل حدیث کو حق پر اور دیوبندی کو باطل پر پاتا ۔میں اس چیز پر بھی حیران تھا کہ یہاں تو ہر مسئلے پر اختلاف ہے میں جن مسائل کو متفق علیہ سمجھتا تھا وہ بھی اختلافی نکلے اور ان مسائل نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا جیسے مجھے تو یہ معلوم تھا کہ ’’اللہ ہر جگہ ہے‘‘ یہ بات بچپن ہی سے دل ودماغ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔جب مجھے یہ معلو م ہوا کہ اللہ عرش پر مستوی ہے تو اس مسئلہ کی وجہ سے میں کئی دن پریشانی میں مبتلا رہا۔بہرحال اس چیز کو قبول کرنا پڑا جو حق تھی کیونکہ میں حق کو تلاش کررہاتھا چاہے وہ مجھے اپنے پسندیدہ فرقے میں ملتی یا ناپسندیدہ فرقے میں۔اہل حدیث کی کوئی کمزوری اور گمراہی ہاتھ آنے کی امید اور دیوبندیت کے حق پر ہونے کی دلیل پانے کی امید کمزور سے کمزورتر ہوتی جارہی تھی۔
پھر وہ دن آیا جب میں دوراہے پر کھڑا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ میں سابقہ دیوبندی مسلک پر قائم رہوں جو کہ مجھے پسند تھا ۔لیکن میرا ضمیر یہ گوارا کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ کسی ایک مسئلہ پر بھی میں نے دیوبندی مسلک کو حق پر نہیں پایا تھا۔ یا اہل حدیث مسلک کو اختیار کروں جو ہر معاملے اور ہر مسئلہ پر حق ثابت ہوا۔ لیکن ایک ایسا مسلک جو میرے اطراف میں غیرمعروف اور کافی حد تک عجیب تھا کو اختیار کرنے کی میں خود میں ہمت نہیں پارہا تھا۔ اس مقام پر مجھے خواہش ہوئی کہ میں اپنے پرانے بے دینی کے دور کی طرف پلٹ جاؤں جہاں ایسی کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ سب اچھا تھا سب صحیح تھا۔جب میں نے خود کو مجبور ،بے بس اور فیصلہ کرنے کے قابل نہ پایا تو اللہ رب العالمین سے دعا کی کہ جو مسلک تیرے نزدیک حق ہے اس کی طرف میرے دل کو پھیر دے۔ اور آخر کار مایوسی اور پریشانی کے بادل چھٹ گئے او ر میرے رب نے مجھ پر بہت زیادہ رحم کرتے ہوئے میرے دل کو اہل حدیث مسلک کی طرف مائل کردیا۔الحمداللہ ثم الحمداللہ
متلاشیان حق میں سے جو شخص بھی باطل سے حق کی جانب گامزن ہو اس پر ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے جب وہ خود کو اس مقام یا دوراہے پر موجود پاتا ہے جہاں اس کی قوت فیصلہ جواب دے جاتی ہے جب باطل اور حق اسے ہم وزن لگنے لگتے ہیں۔ایسا ہر اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو باطل پر اس لئے ہو کہ وہ اسے حق سمجھے بیٹھا ہوپھر جب اصل حق سے اس کا آمنا سامنا ہوجائے تو حیران و پریشان ہوجاتا ہے۔راقم السطور بھی دوران تحقیق اس نازک منزل پر پہنچا جہاں ہر سو اندھیرا تھاجہاں میں نہ پیچھے لوٹ سکتا تھا اور نہ آگے قدم بڑھا سکتا تھا۔وہاں نہ حق کو پہچاننے کی قوت میں خود میں پاتا تھا اور نہ ہی طرفین کے دلائل کو موازنہ کرنے کی صلاحیت مجھ میں باقی رہی تھی۔میں اچانک بالکل خالی الذہن اور خالی الوجود ہوگیا تھا۔اس منزل کی سنگینی اور خطرناکی کا صحیح معنوں میں صرف وہی شخص ادراک کرسکتا ہے جو خود اس منزل سے گزرا ہو۔یہی وہ وقت تھا جب میرے دل نے شدت سے یہ آرزو کی کہ کاش میں اس تحقیق میں مبتلا نہ ہو ا ہوتا ۔کاش میں مذاہب کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنے کے اس راستے پر نہ چلا ہوتا۔پھر ایسی بے بسی کے وقت خالق کائنات سے حق و باطل میں تمیز کرنے اور حق کو پہچاننے اور اسے اپنانے کے لئے مدد طلب کی۔پس میرے رب نے بے قرار دل (جو صرف حق کا متلاشی تھا )کی دعا کو شرف قبولیت بخشی اور مجھے سیدھے راستے کی ہدایت کی۔اگر میر ا رب مجھ پر مہربان نہ ہوتا تو میری گمراہی یقینی تھی۔نجانے کتنے لوگ ہیں جو ایسے مقام و منزل پر پہنچ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔پس حقیقت یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا عالی دماغ عالم ہی کیوں نہ ہو وہ اللہ کی مدد کے بغیر حق کو نہیں پہچان سکتا اور اگر پہچان بھی لے تو اسے اپنا نہیں سکتا۔امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ جنہوں نے گمراہی سے ہدایت کی جانب کامیاب سفر کیا وہ بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوئے پھر رب کائنات کی مہربانی اور مدد کے ذریعہ اس مشکل صورتحال سے باہر نکلے۔یہ حوالہ ملاحظہ فرمائیں: امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ پندرہ دن غائب رہے۔پھر جامع مسجد آکر منبر پر چڑھے اور کہا: لوگو! میں اتنی مدت غائب رہا میں نے غور کیا تو مجھے تمام ادلہ برابر لگیں کچھ بھی راجح معلوم نہ ہوا۔پھر میں نے اللہ سے ہدایت طلب کی اللہ نے مجھے اس کی ہدایت دے دی جو میں نے اپنی کتب میں لکھا ہے۔(الانۃ باعن اصول الد یانۃ مترجم،ص 21)
میں اپنی اکثر نمازیں گھر سے قریب بریلویوں کی مسجد میں ادا کرتا تھا ۔جب مجھے علم ہوا کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے تو میں نے اسے ترک کردیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی نماز ختم ہوتی امام صاحب مقتدیوں سمیت اجتماعی دعا شروع کردیتے اور میں صف میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ۔صف سے فوراً نکلنا اس لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ پیچھے وہ نمازی اپنی نماز مکمل کررہے ہوتے تھے جن کی کچھ رکعات رہ گئی ہوتی تھیں۔اس بات کو ان بریلوی امام صاحب نے جلد ہی نوٹ کرلیا کہ میں اجتماعی دعا میں شریک نہیں ہوتا ۔ انہوں نے براہ راست تو مجھے کچھ نہیں کہا لیکن گاہے بگاہے نماز کے بعد درس میں کہنے لگے کہ میں اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ سب لوگ دعا میں شریک ہوں اور ایک شخص یوں ہی بیٹھا رہے۔ ارے دعا تو ایک عبادت ہے آخر دعا میں شریک ہونے میں حرج ہی کیا ہے؟ دعا سے محروم رہنا تو بدنصیبی ہے۔ پھر کسی نے ان امام صاحب کو جماعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی بھی خبر کردی ۔جس پر انہوں نے کہا ۔امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے میں کون سا کمال ہے یہ تو سب کو آتی ہے۔ارے اگر اتنا ہی قرآن آتا ہے تو سورہ فاتحہ کے بعدمیں جو سورتیں پڑھتا ہوں وہ پڑھو تو جانوں۔ ابھی یہ مسائل چل رہے تھے کہ میرے علم میں اضافہ ہوا کہ جمعہ کے دن خطبہ شروع ہونے سے پہلے حسب استطاعت نوافل پڑھنے چاہیے۔جب جمعہ آیا اور میں مسجد میں آیا تو امام صاحب تقریر کر رہے تھے کیونکہ ہم خطبہ اسی کو سمجھتے تھے جو تقریر کے بعد احناف عربی میں پڑھتے ہیں اس لئے میں نے تقریر سننے کے بجائے نوافل پڑھنا شروع کردئے۔امام صاحب نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی تقریر تو بھول گئے اور فرمانے لگے کہ نوافل تو کسی بھی وقت ادا کئے جاسکتے ہیں اس وقت تو ضروری تھا کہ تقریر سنتے۔ بس ان امام صاحب کے کان کھڑے ہوگئے انہیں لگا کہ میں مسجد میں فتنہ پھیلانے آتا ہوں لہذا انھوں نے مجھے نشانے پر رکھ لیا۔جب یہ معاملات شروع ہوئے تو میں قریب قریب مسلک اہل حدیث کو اختیار کر چکا تھا ۔لہذا کچھ کوشش کے بعد علاقے ہی میں اہل حدیث مسجد ڈھونڈ لی۔
جماعت اہل حدیث کا پہلا مجلہ جس سے مجھے تعارف حاصل ہوا وہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ تھا جس کا نام بعد ازاں تبدیل کرکے ’’اشاعتہ الحدیث‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ جب پہلے پہل کتابوں کی دکان پر میں نے اس رسالے کو دیکھا اور خریدنے کی نیت سے اٹھایاتو سرورق پر موجود ایک تحریر کا عنوان ’’ہرنی کا قصہ‘‘ دیکھ کر کھولے بغیر ہی واپس رکھ دیا۔اس عنوان سے میں یہ سمجھا کہ اہل حدیث کے ہاں بھی دیوبندیوں اور بریلویوں کی طرح دین و مذہب میں قصے کہانیوں کا رواج ہے۔ الحدیث رسالے کا یہ پہلا خراب تاثر ہی تھاکہ پھر کئی ماہ تک میں نے اس رسالے کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔بعد میں جب میری غلط فہمی دور ہوئی اور مجھے معلوم ہوا کہ جس عنوان سے میں شک و شبہ میں مبتلا ہوا اصل میں وہ’’الحدیث‘‘ کا ایک مستقل سلسلہ ہے جس میں عوام میں مشہور غلط ،سنداً ضعیف اور غیرثابت شدہ قصوں کو دلائل سے رد کیا جاتا ہے۔بعد میں الحدیث کو خریدنے اور پڑھنے کے بعد اس رسالے نے اپنے اعلیٰ معیار کی بدولت میرے دل میں ایسی جگہ بنائی کہ یہ میرامحبوب ترین مجلہ بن گیااور مدیر رسالہ جناب حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ میری پسندیدہ ترین شخصیت میں بدل گئے۔’’الحدیث‘‘ سے میرے ابتدائی دور کی بہت سی حسین یادیں وابستہ ہیں۔مذہب اہل حدیث کا درست تعارف مجھے اسی رسالے کے طفیل حاصل ہوا اور اسی رسالے کے ذریعہ میں نے دینی مسائل کا علم حاصل کیا۔میرا تحقیقی مزاج بھی اسی رسالے کی وجہ سے بنا اور تحریر لکھنے کا سلیقہ بھی اسی رسالے سے سیکھا۔
جب میں حق جاننے کا متلاشی تھا تو میری خواہش تھی کہ کاش مجھے کوئی ایسا شخص دستیاب ہوجائے جو دلائل سے مجھے ایک ایک فرقے کی گمراہی سے آگاہ کرنے کے بعد ناجی فرقے کی نشاندہی کردے یا پھر کوئی ایسی کتاب مل جائے جو اس مسئلہ کا حل پیش کرتی ہو کیونکہ یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب اختلاف امت صراط مستقیم کے سادہ اور عام فہم انداز نے مجھے حد درجہ متاثر کیا تھا اس لئے میں کسی اہل حدیث مصنف کی ایسی ہی تصنیف کی تلاش میں تھاجس میںیوسف لدھیانوی کی ’’اختلاف امت اورصراط مستقیم‘‘ کی طرز پر مروجہ فرقوں کی گمراہی بیان کرکے اہل حق فرقے کی نشاندہی کی گئی ہو۔دوران تلاش میری نظر سے صغیر احمد بہاری کی کتاب بنام صراط مستقیم اور اختلاف امت گزری اسے دیکھ کر متوقع گوہر مقصود پالینے کے احساس سے میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔لیکن جب کتاب اٹھا کر میں نے اسے کھولا تو نہ صرف یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ یہ میری مطلوبہ کتاب کے بجائے یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب خصوصاً اہل حدیث کے متعلق ان کے باب کا جواب ہے بلکہ کتاب کے ایک مقام پر جہاں یوسف لدھیانوی صاحب پر قدرے سخت تنقید کی گئی تھی نظر پڑجانے کی وجہ سے مجھے بہت دکھ ہوااوررنج و دکھ کا یہ احساس تا دیر میرے دل میں موجود رہا اس لئے مذکورہ کتاب میرے دل سے اتر گئی اورمیں صاحب کتاب سے بھی بد ظن ہوگیا۔جبکہ میں اس کتاب کو دیکھتے ہی اسے خریدنے کا فیصلہ کرچکاتھا لیکن اس فیصلے کو مجھے ملتوی کرنا پڑا پھر ایک مدت تک میں نے اس کتاب کو نہ خریدا اور نہ ہی پڑھا۔میرے دل میں یہ بات آئی کہ صحیح بات بیان کرتے ہوئے اور مخالف کی غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے سخت کے بجائے نرم لہجہ بھی اختیار کیا جاسکتا تھا لیکن مصنف نے اس بات کا خیال نہیں رکھا جس سے میری دل آزاری ہوئی ۔چونکہ میرے دل میں یوسف لدھیانوی صاحب کی عقیدت و احترام موجود تھا اس لئے مجھے ان پر تنقید برادشت نہیں ہوئی بلکہ الٹا تنقید نگار پر غصہ آیا۔بعد میں جب حق میرے دل میں جاگزیں ہوگیا اور میں نے صغیر احمد بہاری کی کتاب کو مکمل پڑھا تو معلوم ہوا کہ مصنف کی یوسف لدھیانوی پر تنقید بالکل جائز تھی اور تنقید میں ادب اوراخلاق کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا تھا۔جہاں تک اس معاملہ میں میری جذباتیت کا تعلق ہے تو اسکا سبب یہ تھا کہ میں نے سیاق سباق سے ہٹ کر کتاب کاصرف ایک جملہ پڑھا تھااس لئے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوکر غم و غصہ کا شکار ہوگیا تھااور دل میں یوسف لدھیانوی صاحب کا خصوصی مقام ہونے کی وجہ سے ایک جائز تنقید بھی مجھے ناجائز لگی ۔جبکہ دوسری جانب خود یوسف لدھیانوی نے بھی اپنی کتاب میں مخالفین پر جابجا ایسی ہی تنقیدیں کر رکھی تھیں۔جو عقیدت کی پٹی آنکھوں پر بندھی ہونے کی وجہ سے پہلے میری نظروں سے اوجھل تھیں۔
میرے اندر پیدا ہونی والی تبدیلیوں میں پہلی تبدیلی تقلید سے بے زاری کی تھی ،دوسری اہم تبدیلی فا تحہ خلف الامام کی تھی،تیسری تبدیلی تبدیلی رفع الیدین کرنے کی اور چوتھی بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی تھی۔ میرے آفس کے ساتھیوں میں ایک ساتھی میری والد کی عمر کے تھے جو مجھ سے بہت قریب اور بے تکلف تھے ۔مجھے مسلک اہل حدیث سے متاثرہونے سے بچانے میں سب سے زیادہ کوششیں انہیں کی تھیں ۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ مجھے رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری خباثت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے‘‘۔ جب انہوں نے یقین کرلیا کہ میں انکی باتوں سے قائل ہوکر دیوبندی مسلک میں واپس نہیں آؤنگا تو انہوں نے اس کی ترکیب یہ نکالی کہ ایک تبلیغی جماعت کے سرگرم کارکن (جو انکے بڑے بھائی تھے اور جو انکے نزدیک دین کی بہت زیادہ معلومات رکھتے تھے) سے میری نشست رکھوائی جائے۔ میں نے تو اس نشست کے لئے حامی بھرلی لیکن جب انہوں نے اس سلسلے میں اپنے بھائی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ لڑکا اہل حدیث ہوگیا ہے تو اس سے بات کرنا بے کار ہے کیونکہ اہل حدیث ہٹ دھرم ہوتے ہیں کسی کی بات نہیں مانتے۔اس طرح افہام وتفہیم کی وہ متوقع نشست منسوخ ہوگئی۔ اس کے بعد جب بھی وہ بحث و مباحثہ کے دوران لاجواب ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ میرے بھائی نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ اہل حدیثوں سے بحث کرنا بے کار ہے یہ لوگ کسی کی بات نہیں مانتے۔ او ر میں کہتا تھا کہ ہاں بلا دلیل بات نہیں مانتے۔
میں جب دیوبندیت سے متنفر ہورہا تھا تو میں نے اپنے دفتر کے ایک دیوبندی ساتھی کے سامنے بہشتی زیور کے کچھ مسائل رکھے،پہلے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ خود کو مسلمان کہنے والا کوئی بھی عالم دین ایسے مسائل بیان نہیں کرسکتا کجا یہ کہ دیوبندی علما ء عقل اور حیا سے عاری ایسے مسائل بیان کریں۔ پھر انہوں نے ان مسائل کو فرضی قرار دیتے ہوئے بہشتی زیور میں ان کی موجودگی سے بھی انکار کیا۔اس پر جب میں نے انہیں اصل کتاب دکھانے کی یقین دہانی کروائی تو انہوں نے اپنا بیان بدلتے ہوئے فرمایا جس کسی نے بھی دین کے نام پر یہ باتیں بیان کی ہیں میں اسے غلط اور گمراہ سمجھتا ہوں چاہے اس کا تعلق میرے اپنے فرقے سے ہو یا وہ کسی مخالف فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔آخرکار میں نے اگلے دن انہیں بہشتی زیور لاکر وہ مسائل دکھاد ئیے شایدیہ سب کچھ ان کے لئے بالکل ہی غیرمتوقع تھا اورانہیں بالکل بھی یقین نہیں تھایہ مسائل ان کے اپنے ہی مذہب کے حوالے سے سچ ثابت ہونگے اس لئے انہوں نے چپ سادھ لی اور الٹا مجھ پر ہی چڑھ دوڑے کہ تم راہ راست سے ہٹ گئے ہو اور غلط راستے پر چل رہے ہو لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں مجھ پر یہ احسان عظیم فرمایا کہ مجھے اپنے محلے کے ایک شخص سے ملوایا تاکہ بقول انکے میں راہ راست پر آجاؤں اور اہل حدیثیت کی گمراہی میں نہ پڑوں ۔ وہ صاحب پھل فروش تھے لیکن مناظروں ، مجادلوں اور مناقشوں کے ازحد شوقین، بچپن میں انھوں نے کچھ عرصہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی جس کی وجہ سے عربی جانتے تھے ۔امین اوکاڑوی سے حد درجہ متاثر تھے بلکہ اوکاڑوی صاحب کو اپنا روحانی استاد گردانتے تھے اور اپنے روحانی استاد ہی کی طرح بداخلاق ،جھوٹے اور مغالطہ بازتھے ۔پہلے تو انھوں نے مجھ سے میرے اشکالات پوچھے ۔ میں نے جب’’بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام‘‘ نامی کتاب کے توسط سے فقہ حنفی کے کچھ مسائل پیش کیے تو ہردیوبندی کے محبوب مشغلے کی طرح انہوں نے بھی ارشادفرمایا کہ اہل حدیثوں نے فقہ حنفی کی عبارات کا صحیح ترجمہ نہیں کیا اور عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا ہے۔اور اسکا مطلب یہ نہیں ،یہ ہے۔یعنی محض تاویلات کے ذریعے اپنے مسائل کو صحیح بارور کروانے کی ناکام کوشش کی۔اور تاویلات بھی ایسی کہ کسی سلیم الفطرت شخص کا دل انہیں قبول نہ کرے۔ظاہر ہے میں ان سے مناظرہ یا مباحثہ کرنے نہیں بلکہ حق جاننے آیا تھا اس لئے انکے حنفی مسائل کے دفاعی رویے نے مجھے بہت مایوس کیا۔جب ان سے میری دو تین ملاقاتیں ہوئیں اور میں انکے جارحانہ دلائل سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہوااور وہ بھی اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ یہ واپس دیوبندی مذہب میں پلٹنے والا نہیں اور اس پر مزید وقت صرف کرنا بے کار ہے تو انہوں نے اخلاق اور ہمدردی کا لبادہ اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور بدتمیزی اور اہل حدیث پر طعن و تشنیع پر اتر آئے۔انہوں نے مجھے اپنے متعلق بتایاکہ جب تک میں اہل حدیثوں سے نہیں ملا تھاتب تک بریلویوں سے مناظر ے کرتا تھااور مسلکی اختلاف کی بناء پر ان سے مجھے بہت نفرت تھی۔لیکن جب اہل حدیثوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے مناظرے شروع ہوئے تو بریلویوں سے محبت ہوگئی اور نفرت اور اختلاف کا سارا رخ اہل حدیث کی جانب مڑ گیا۔کہنے لگے کہ بریلوی ہمارے بھائی ہیں ،ان میں اور ہم میں معمولی اختلاف ہے اگر یہ اختلاف برقرار بھی رہے پھر بھی وہ ہماری فقہ اورہمارے امام کا دفاع کرنے والے ہیں اور ہماری محبتوں کے مستحق ہیں۔لیکن اہل حدیثوں سے کسی صورت اتحاد ممکن نہیں،اصل توانیاں تو انہیں اہل حدیثوں کی تردید میں خرچ ہونی چاہئیں ۔دیوبندیوں کے ایک حق کے متلاشی شخص کے ساتھ اس طرح کے رویے نے مجھے دال میں کچھ کالا ہونے کا احساس دلا دیا تھا۔اس لئے میں نے تحقیق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سچ ہے کہ انسان ایک مرتبہ تعصب سے بالاتر ہوکر تحقیق کے میدان میں اتر پڑے تو باطل پرستوں کے مغالطے ، جھوٹ اور فریب زیادہ دیرتک اس سے اصل حقیقت کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ اور میرا بھی وہ وقت آن پہنچا تھاجہاں دیوبندیوں کے اپنے باطل مذہب پر قائم رہنے اور دوسروں کو قائم رکھنے کی بے جا ضد اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سادہ لوح اور ناواقف لوگوں کو راہ حق سے روکنے کی کوششوں نے مجھے میری اصل منزل کے اورزیادہ قریب کردیا تھا۔ اور بالآخرمیں نے بعد تحقیق کے مسلک اہل حدیث کی حقانیت کو دل وجان سے تسلیم کرلیا تھا۔چونکہ تحقیق نہ کرنے کے سبب میں پہلے ہی دیوبندی مذہب کو صراط مستقیم سمجھنے کی زبردست غلطی میں مبتلاء ہوچکا تھا اس لئے میں نے اس غلطی کو آئندہ نہ دھرانے کا عزم کرتے ہوئے اہل حدیث ہونے کے باوجود کبھی بھی تحقیق کو نہیں چھوڑا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ میرا یہ یقین پختہ سے پختہ ہوتا چلا گیاکہ اس روئے زمین پر مسلک اہل حدیث کے علاوہ کوئی صراط مستقیم نہیں۔
اہل حدیث مسلک کے قبول و اعلان کے بعد مجھے گھر،دفتر اوردوست احباب کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرناپڑا۔ میرے والد جو صوفی ہونے کی وجہ سے اہل حدیثوں سے شدید ترین نفرت کرتے تھے انہیں کسی طرح میرا مسلک قبول نہیں تھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ دیوبندی تو پھر بھی ہمیں قابل قبول ہیں لیکن اہل حدیث مسلک تو کسی طور قابل برداشت نہیں۔اہل حدیث مسلک کے بارے میں میرے والد کا کہنا تھا کہ یہ وہ یتیم مذہب ہے کہ ہمارے پچپن میں اس کے ماننے والے دور دور تک نظر نہیں آتے تھے بلکہ سنتے تھے کہ فلاں فلاں گاؤں میں ایک وہابی رہتا ہے۔ جس مسلک کوکوئی پوچھتا نہیں تھا اور جس مذہب سے مجھے سخت نفرت تھی اسے میرے بیٹے نے اختیار کرلیا۔والد سے آئے روز کے جھگڑوں اور بحث و مباحثہ نے ان کے اور میرے بیچ اختلاف اور دوریوں کی ایک مضبوط دیوار قائم کردی ۔حتی کہ میں نے بات چیت بھی ترک کردی۔وقت گزرنے کے بعد جب والد کا غصہ کچھ کم ہوا تو انہوں نے مجھے میرے مسلک کے ساتھ قبو ل کرلیا اور مجھے تنبیہ کی کہ ٹھیک ہے تم اپنے مسلک پر قائم رہو۔لیکن گھر میں کسی دوسرے کو اس کی دعوت مت دو۔میں کہاں باز آنے والا تھا ۔والد کی غیر موجودگی میں ، میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اللہ نے میری دو بہنوں اور والدہ کو میرے ذریعے اہل حدیث بنا دیا۔الحمداللہ
Last edited: