• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گمراہی سے ہدایت تک

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
گمراہی سے ہدایت تک


اللہ رب العالمین کے مجھ پر ان گنت اور لاتعداد احسانات ہیں جن میں سے ایک بہت عظیم احسان راہ حق کی جانب راہنمائی اور اس پر استقامت ہے۔ کائنات کے رب کے احسانات کا کماحقہ شکر اداکرنامجھ سمیت کسی بھی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔باطل سے حق کی طرف میرے سفرکی یہ کہانی، میں آپ لوگوں کے گوش گزار اس لئے کرنا چاہتا ہوں تاکہ اللہ رب العالمین کی اس عظیم نعمت کا بطوراحسان اظہار کروں اور حسب استطاعت شکر اداکروں۔
اپنی اس آپ بیتی کو قلم بند کرنے کا خیال مجھے نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی لاجواب سوانح حیات ابقاء المنن بالقاء المحن پڑھ کر آیا۔جس کے مطالعہ سے مجھے پہلی مرتبہ علم ہوا کہ انعامات ربانی کا تذکرہ فخر و غرورکے علاوہ شکر کے طور پر بھی کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا بطور شکرگمراہی کے اندھیروں سے ہدایت کی روشنی تک کی میری یہ کہانی حسب ذیل ہے۔

میں نے ایک بریلوی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔جہاں بریلویت صرف جمعرات اور مخصوص دنوں میں نذر و نیاز اور زنانہ میلادتک ہی محدود تھی۔بریلوی مذہب کی دیگر بدعات جیسے ماہ رجب کے کونڈے، شب برات کے رنگ برنگے حلوے ،مخصوص راتوں کے خود ساختہ اعمال ،محرم الحرام کی سبیلیں،حلیم ، شربت اور مزارات پر حاضری وغیرہ سے ہمارا گھر کافی حد تک محفوظ رہا۔ اسکی وجہ اسکے سوا کچھ نہ تھی کہ ہمارا تعلق پنجاب کے علاقہ سے تھا اور مذکورہ بالا اکثر رسومات پنجاب میں نہیں ہوتیں اس لئے ہمارے خاندان کے لئے یہ بدعات اجنبی تھیں جنھیں کراچی میں ایک عرصہ قیام کے باوجود گھر والوں نے اپنانے کی کوشش نہیں کی۔کہا جاتا ہے کہ سنت آفاقی اور بدعت علاقائی ہوتی ہے ۔ہر علاقے کی اپنی مخصوص بدعات ہوتی ہیں جو دیگر علاقوں وخطوں میں ناپید ہوتی ہیں۔لہٰذا ہر بدعتی اپنے علاقے کی بدعت سے مانوس اور دوسری جگہوں کی بدعتوں سے غیر مانوس ہوتا ہے۔پس ہمارے گھرانے کا کراچی کی مخصوص بدعات سے دور رہنے کا بنیادی سبب یہی تھا۔یوں ہمارا گھر مذہبی طور پر کٹّر بریلوی گھرانہ نہیں تھا۔ماسوا میرے والد محترم کہ وہ آج تک نہایت متشدد صوفی بریلوی ہیں۔اللہ انہیں ہدایت دے۔آمین یا رب العالمین

دین و مذہب کے نام پر جو کچھ اپنے گھر اور اطراف میں دیکھافطری طور پر میں نے اسے اسلام سمجھ کرقبول کرلیا۔مجھے یاد ہے کہ ایک دو مرتبہ میں نے بعد نما ز جمعہ بریلویوں کا خود ساختہ صلوۃ وسلام بھی پڑھا۔اگرچہ اپنے شرمیلے پن کے سبب بڑی مشکل سے میں نے خود کواس’’نیکی‘‘ پر آمادہ کیا تھا ۔اللہ کے فضل و کرم سے بچپن ہی سے میرا ذہنی رجحان مذہب کی طرف رہا۔اکثر میں یہ سوچتا تھا کہ اصل زندگی وہی ہے جو اللہ کی رضا میں گزر جائے باقی دنیا کے پیچھے بھاگنا بے کار ہے۔ میری سوچ تو مذہبی تھی لیکن عملی طور پر میں مذہبی نہیں تھا۔پچپن میں کچھ عرصہ

نمازی رہا لیکن بعد میں نمازیں بھی چھوٹ گئیں۔جب میں نمازیں چھوڑ کر بے نمازی ہوگیا تو اکثر میں حسرت سے اپنے اس خوبصورت دور کو یاد کرتا تھاجب میں دیندار اور نمازی تھا۔مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے ہمیشہ نماز پڑھنے کی خواہش ہوتی لیکن کوشش کے باوجود میرے قدم مسجد کی جانب نہیں اٹھتے تھے۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت مجھے اس نیک ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے روک رہی ہو۔بہرحال وقت گزرتا رہا جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو ایک خاتون سے انکے گھر پر ٹیوشن پڑھتا تھا۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ اور مذہب سے محبت رکھنے والی خاتون تھیں جماعت اسلامی سے تعلق تھا اور تحریک آزادی کشمیرکی پرزور حامی تھیں اکثر اوقات مجھ سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بہت دکھ سے اظہارکرتی تھیں ۔کشمیر سے متعلق یونیورسٹی میں ہونے والی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں اور مجھے بھی کشمیر کی تحریک آزادی سے آگاہی پر مبنی اسٹیکرز اور پمفلٹ لاکردیتی تھیں ۔گاہے بگاہے مختلف انداز اور باتوں سے میرے اندر جذبہ جہاد بھی بیدار کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ ایک حساس اور درد دل رکھنے والی دنیاوی تعلیم سے آراستہ ایسی دین دار خاتون تھیں جو کسی بھی مذہبی شخص کی آئیڈیل بن سکتی تھیں۔ویسے تو وہ اکثر مجھے دین کی باتیں سمجھاتی تھیں لیکن ایک بات انہوں نے مجھے ایسی بتائی جو میرے ذہن سے چپک کر رہ گئی اگرچہ اس وقت میں اسکے مفہوم کو بھی درست طریقے سے نہیں سمجھ سکا تھا کیونکہ اس وقت میں نہ تو کسی فرقے کو جانتا تھا نہ ہی مسلمانوں کے درمیان مجھے کسی اختلاف کا علم تھا۔حیرت ہے کہ دیگر باتوں میں سے تو مجھے کوئی بات بھی یاد نہیں رہی اور اس ایک بات کو بھی میں نے دانستہ یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی لیکن نجانے کیوں مجھے وہ بات ہمیشہ یاد رہی۔ وہ بات یہ تھی کہ اسلام میں تقلید شخصی منع ہے۔میری زندگی کا یہ وہ قیمتی جملہ ہے جو بڑی حد تک حق کی قبولیت میں میرا معاون ثابت ہوا۔

اکیس برس کی عمر میں جب میں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ دوران سفر میں نے ایک شخص کو ایک کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا چونکہ مطالعے کے شوق کی وجہ سے مجھے کتابیں متاثر کرتی تھیں اور وہ شخص بھی میرے برابر میں بیٹھا ہوا محو مطالعہ تھا اس لئے میں نے بھی چند صفحات پڑھے اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔یہ جاننے کے لئے کہ کتاب کا نام کیا ہے میں نے اس شخص سے سرورق دکھانے کی درخواست کی اور پھر بازار سے وہ کتاب خرید لی۔وہ کتاب تھی دیوبندی عالم مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مشہور زمانہ تصنیف اختلاف امت اور صراط مستقیم۔چونکہ میں اس وقت تک بریلوی تھا اس لئے میں نے خصوصی طور پر کتاب سے صرف وہ حصہ پڑھا جو بریلویوں سے متعلق اور انکے رد میں تھا۔جب میں نے دیکھا کہ مولانا نے قرآن وحدیث کے دلائل سے بریلوی مسلک کا غلط ہونا ثابت کیاہے تو میں نے فی الفور بریلوی مسلک چھوڑ کر دیوبندی مسلک اختیار کر لیا اور اسی کو حق سمجھنے لگا۔

بس پھر کیا تھا محلے میں بریلویت کی تردید میں بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا اور میری اصلاح سے مایوس ہوکر محلے کے ایک بریلوی حضرت نے میرے بائیکاٹ کا اعلان کردیااور دیگر لوگوں کو منع کردیا کہ شاہد کے ساتھ سلام دعا نہ کریں اور نہ ہی اس کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں۔میرے والد نے بھی مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مذہبی مسئلہ پر کسی سے بلاوجہ مخالفت مول نہ لو۔آہستہ آہستہ وہ مناظرانہ جذبات سرد پڑ گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے چاروں طرف سے سخت مخالفت کا سامنا تھا لیکن میراحامی و ہم مسلک کوئی نہیں تھا۔ میں نے ارد گرد بہت کوشش کی کہ کوئی ہم مسلک ڈھونڈ لو وگرنہ مجھے ڈر تھا کہ میں دین داری سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا نہ تو کوئی مجھے میرا ہم خیال ساتھی ملا اور نہ میں اپنی نمازوں اور دین کی دیگر دوسری باتوں پر ثابت قدم رہ سکا۔نمازیں بھی چھوٹ گئیں اور جو ایک مشت داڑھی رکھی تھی اسے بھی اپنے ہاتھوں سے صاف کرلیا۔پھر نام کے دیوبندی اور کام کے دنیا دار رہ گئے۔ عجیب بات ہے کہ میں جب دیوبندی تھا اور کوئی شخص مجھ سے میرا مسلک دریافت کرتا تھا تو مجھے ہمیشہ خود کو دیوبندی کہنے میں بہت شرم آتی تھی کیونکہ یہ نام مجھے مسلمانوں کا کم او ر ہندوؤں کا زیاد ہ لگتا تھا۔

جب ہم نئے نئے حق پر مطلع ہوئے تو جوش وخروش ہی نرالا تھا۔ہمت ،توانائی اور جرات کا ایسا طوفان اندر موجزن تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں سب سے شرک و بدعت چھڑوا کر حق کو ماننے پر مجبور کردیں گے یو ں چند دنوں میں ہی ہم اپنا پورا علاقہ فتح کرلیں گے۔لیکن یہ طوفان ابتداء کے چند تجربات سے ہی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔جس طرح راقم حقیقت سے بے خبر اندھیرے میں تھا اور روبرو حق ہوتے ہی بلا حیل و حجت اسے سینے سے لگا لیااپنی سادگی اور خوش فہمی میں اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی خود پر قیاس کربیٹھا تھا۔ پہلے میں سوچتا تھا کہ جیسے ہی میں کسی کو کوئی حدیث سناؤں گا یاکسی قرآنی آیت کا حوالہ دونگا تو وہ فوراً ہی اسے تسلیم کرکے اپنے غلط اعمال و عقائد ترک کردے گا لیکن جب لوگوں سے اس سلسلے میں بات چیت کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ لوگ اتنے بھی اندھیرے میں نہیں جتنا میرا اس بارے میں خام خیال تھا۔ وہ حق کے مقابلے میں بہت سی تاویلیں اور حیلے بہانے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ پہلے جب راقم خلوص دل سے کسی سے اسلامی عقائد اور بدعات پر بات کرتاتھا تو وہ بات چیت نہ چاہتے ہوئے بھی فضول کے بحث و مباحثہ اور تلخ کلامی پر منتج ہوکر ختم ہوجاتی تھی اس پر مستزاد جو تماشہ لگتا تھا وہ الگ۔ابتداء میں تو مجھے لگا کہ شاید میری تبلیغ کا طریقہ ہی درست نہیں اور شاید میری ہی کسی غلطی کی بناپر لوگ میرے دلائل پر توجہ دینے کے بجائے مجھ سے الجھ جاتے ہیں۔لیکن متعدد واقعات کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ لوگوں کا مجھ سے جھگڑنا اور الجھنا دانستہ اور سوچی سمجھی سازش تھی جس سے مقصود و مطلوب دلائل سے توجہ ہٹانا تھا۔اپنے مخالف کی بات نہ سننے کا یہ قدیم ترین آزمودہ اور کامیاب ہتھکنڈا تھاجو کفارمکہ کے بھی زیر استعمال رہا۔ اس لئے رد شرک و بدعت کے لئے چاہے میں جو بھی طریقہ اختیارکرتا اس کا نتیجہ لڑائی جھگڑے کے علاوہ کچھ نہ نکلتا کیونکہ کوئی سچ سننا ہی نہیں چاہتا خصوصاً جب وہ اسکے مذہب کے خلاف ہو۔

ایک مرتبہ سرراہ ایک جاننے والے سے ملاقات ہوئی اور دین و مذہب پر گفتگو ہوئی جو آہستہ آہستہ بحث و مباحثہ کی شکل اختیار کرنے لگی دوران گفتگو کسی بات پر میں نے ان صاحب سے کہہ دیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم امّی تھے یعنی وہ پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے تھے ۔ان صاحب نے اپنی جہالت میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے تعبیر کیا اور شور مچا کر آنے جانے والے لوگوں کو اکھٹا کر لیا۔مجھے نہیں معلوم کہ اس خطرناک صورتحال سے میری جان کیسے چھوٹی۔بس میرے رب نے کرم فرمایا وگرنہ وہ دن میری زندگی کا آخری دن بھی ہو سکتا تھا۔بہرحال اس ایک سنگین واقعہ کے بعد میں بہت محتاط ہوگیا اور مجھے معلوم ہوگیا کہ ہربات ہر کسی کے سامنے کرنے کی نہیں ہوتی اور اسکے ساتھ ساتھ یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی کہ حق سامنے آنے پر ہر مسلمان اسے قبول بھی کرتا ہے۔جب اس واقعہ کا علم میرے والد محترم کو ہوا تو وہ اور بھی خوفزدہ ہوگئے کیونکہ وہ پہلے ہی میری تبلیغی سرگرمی کے سخت مخالف تھے اس لئے انہوں نے مجھے سختی سے اہل محلہ سے مذہبی گفتگو کرنے سے روک دیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندوستانی خطرناک لوگ ہیں،دشمنیاں پال لیتے ہیں پھر مناسب موقع ملنے پرنقصان پہنچاتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے بیٹے کو کوئی مار کر چلا جائے۔میرے والد کے خدشات کچھ ایسے بھی بے بنیاد نہیں تھے کیونکہ محلے میں ہمارا واحد پنجابیوں کا گھر تھا اور اہل علاقہ الطاف حسین کی لسانی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرنا خوب جانتے تھے۔اس کے بعد میری تبلیغی سرگرمیاں بہت محدود ہوگئیں اور سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا۔پے درپے رونما ہونے والے واقعات اور تجربات کے بعد معلوم ہوا کہ ہدایت ایسی نعمت ہے جو ہرکسی بلکہ اکثریت کی قسمت میں نہیں ہے۔وہی ہدایت کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے جس پر اسکا رب مہربان ہوتا ہے۔اس لئے چاہ کر بھی ہم کسی کو قبولیت حق پر آمادہ نہیں کرسکتے جب تک رب کی مشیت نہ ہو لہٰذا لوگوں کے تسلیم حق سے انکاری رویے پر جلنا اور کڑھنا بے کا رہے۔
ان سب کا نتیجہ دین داری سے محرومی اور دنیا داری کی جانب لوٹنے کی صورت میں برآمد ہوا ۔بظاہر یہ بری بات تھی لیکن یہ بھی اللہ کا مجھ پر کرم ہوا کیونکہ یہ بے دینی ہی بعد میں اصل حق تک رسائی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔شاید کہ اگر زندگی میں گمراہی کا یہ دور نہ آتا تو میں ازسرنو دوبارہ تحقیق نہ کرتا اور دیوبندیت پر ہی قائم رہتا۔

دین سے دنیا کی طرف پلٹنے کے بعد اس دنیا داری نے ایسی مت ماری کہ میں حددرجہ پستی میں گر گیا۔اتنا کہ جب ہوش آیا تو میں حیران رہ گیا۔ضمیر نے جھنجھوڑا کہ ایسی زندگی کا کیا فائد ہ کہ دنیا میں بھی ذلت اور رسوائی اور آخرت میں بھی حسرت اور ناکامی۔پھر اپنے رب کی توفیق سے اسکی جانب رجوع کیا۔اختلاف امت اور صراط مستقیم جو اس عرصے میں گھر سے لاپتا ہوگئی تھی کیونکہ میں نے اس کی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اس لئے کہ اپنے مطلب کا حصہ پڑھ کر میں نے کتاب کو چھوڑ دیا تھا۔چار،پانچ سال بعد میں نے وہ کتاب اپنے پڑوسی کے پاس دیکھی تو یہ کہکر کہ یہ میری کتاب ہے واپس لے لی۔اب میں نے اس کتاب کا ازسر نو مطالعہ شروع کیااور اب وہ حصے بھی پڑھے جو پہلے چھوڑ دئے تھے۔جب میں نے شیعہ سنی اختلاف ، بریلوی دیوبندی اختلاف اور مودودی کے رد والا حصہ پڑھا تو مولانا کے خیالات سے متفق ہوگیا کہ واقعی یہ تمام گمراہ فرقے ہیں کیونکہ دین میں ان تمام لوگوں کے اختلافات کو مولانا نے معقول دلائل سے ر د کیا تھا۔لیکن جب میں نے اہل حدیث کے رد والا حصہ پڑھا تو میرا دل مطمئن نہیں ہوااور شدت سے کسی کمی کا احساس ہوا۔خاص طور پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ دوسرے فرقوں کا رد کرتے ہوئے تو مولانا نے قرآن وحدیث سے دلائل پیش کئے ہیں لیکن اہل حدیث کے رد میں کوئی حدیث یا قرآنی آیت پیش نہیں کی ۔تقلید کو سمجھانے کے لئے ڈاکٹر اور مریض کی ایک مثال پیش کی اور آخر میں یہ کہہ کر بحث ختم کردی کہ تقلید کے موضوع پر چونکہ دونوں اطراف سے بہت کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لئے میں تفصیل بیا ن نہیں کرونگا۔

بس یہی وہ مقام تھا جہاں میں نے تقلید کے موضوع پر دونوں اطراف کی کتابیں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلہ کی پہلی کتاب میں نے عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی ’’ہم تقلید کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ پڑھی۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میرے دل نے گواہی دی کہ ترک تقلیدہی حق ہے۔حالانکہ بعد میں تقی عثمانی دیوبندی کی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت بھی پڑھی لیکن تقلید کے بارے میں احناف کے کمزور موقف نے بالکل بھی متاثر نہیں کیا۔

یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب میں ایک حدیث تہتر فرقوں سے متعلق بھی پڑھی تھی جس میں بہتر کے جہنم اورایک فرقے کے جنت میں جانے کی خبر تھی۔اسی دن سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس وقت تک تحقیق کا سلسلہ جاری رکھوں گا جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہے؟ اس وقت تک میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اہل حدیث بھی کسی مسئلہ میں حق پر ہوسکتے ہیں کیونکہ لڑکپن ہی سے میں اہل حدیث کوان کے دو مسائل کی بنا پر گمراہ جانتا تھا ۔پہلا مسئلہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک سمجھنا اور دوسرا مسئلہ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنا۔

مجھے اہل حدیث کا کوئی تعارف حاصل نہیں تھا لیکن معلوم نہیں کہاں سے ان کے مذکورہ بالا دو مسائل کان میں پڑ گئے تھے۔ بہرحال میں نے جان لیا کہ کم ازکم تقلید کے مسئلہ پر حق اہل حدیث کی جانب ہے لیکن اس تحقیق پر مجھے دھچکہ لگا ۔کیونکہ دیوبندی مسلک کو میں نے محدود تحقیق اور بریلویوں کے بالمقابل حق پر ہونے کی بنا پر قبول کیا تھا۔اس لئے فطری طور پر مجھے اس مسلک سے محبت تھی اور میں اسے چھوڑنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔لیکن جنتی فرقے کے بارے میں جاننے کے شوق کی وجہ سے تحقیق بھی جاری و ساری رکھنی تھی ۔اس لئے میں نے دونوں اطراف کی اختلافی مسائل پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے کے ساتھ آڈیو تقاریر سننے کا بھی آغاز کیا۔اسی دوران میں نے انٹرنیٹ پر ایک دیوبندی عالم غالباً امین اوکاڑوی کا ایک آڈیو کلپ سنا جس میں ان صاحب نے اہل حدیثوں کی گمراہی ثابت کرنے لئے کہا کہ یہ ایک ایسا فرقہ ہے جو اللہ کے بارے میں کہتا ہے کہ عرش اللہ کے وزن سے ایسے چرچرارہا ہے جیسے اونٹ کا کجا وہ اپنے سوار کے وزن سے چرچرکرتا ہے اب ایسے عقیدہ کا حامل فرقہ جو اللہ کے لئے جسم ثابت کرتا ہے کیونکر حق پر ہوسکتا ہے؟ چونکہ دیوبندی بشمول بریلوی فرقہ جات رب کائنات کی ظاہری صفات جیسے آنکھیں،ہاتھ،پنڈلی،انگلیاں،قدم اورچہرہ وغیرہ پر ایمان نہیں لاتے بلکہ اس میں سے ہر صفت کی تاویل کرتے ہیں اس لئے راقم السطور نے پہلے کبھی اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی کوئی بات نہ سنی تھی اور نہ ہی پڑھی تھی اور نہ ہی اسکے درست و صحیح ہونے کا کوئی تصور ذہن میں تھا اس لئے اس پر حیران و پریشان ہونا فطری تھا۔میں نے یہ بات سن کر سوچا کہ اگر یہ بات اہل حدیث فرقے کے بارے میں درست نکلی اور اگر واقعی ان کا اللہ کے متعلق یہی عقیدہ ہوا تو واقعی یہ فرقہ بہت گمراہ اور حق سے دور جا پڑا ہے۔ اس مرتبہ میں کچھ زیادہ ہی پریشان تھا کیونکہ مجھے دیوبندیوں اور اہل حدیثوں سے زیادہ اپنی فکر پڑ گئی تھی کہ اگر اہل حدیثوں کے متعلق یہ ناقابل یقین بات سچ ہوئی تو یہ بات طے ہوجائے گی کہ جس ناجی فرقے کی مجھے تلاش تھی وہ کم ازکم اہل حدیث فرقہ نہیں ہے اب مجھے اپنی تلاش کا رخ کسی اور فرقے کی جانب موڑنا ہوگا جبکہ بظاہر کوئی ایسا فرقہ نظر میں نہیں تھاجس کے حق پر ہونے کا کوئی امکان ہو۔ اور اب تک دیوبندی فرقے کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوچکا تھا اس سبب میں دوبارہ لوٹ کر اس کی طرف نہیں جاسکتا تھااور نہ ہی جانا چاہتا تھا کیونکہ جب تقلید کا مسئلہ جس پر دیوبندی مذہب کی بنیاد ہے غلط ثابت ہوگیا تو حنفی مذہب کی باقی عمارت کی جو تقلید کی غلط بنیادوں پر تعمیر ہوئی ہے کیا گارنٹی دی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ میری اس مسئلہ پر پریشانی مزید بڑھتی اتفاق بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دیکھئے کہ میری نظر سے سنن ابوداود کی ایک حدیث گزری جس کے الفاظ ہو بہو وہی تھے جو امین اوکاڑوی صاحب نے اہل حدیث سے منسوب کرکے بیان کئے تھے۔ملاحظہ فرمائیں یہ طویل حدیث کا ایک ٹکڑا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے اللہ کی سفارش نہیں کی جاتی کسی پر اس کی مخلوقات میں سے ۔ اللہ کی شان اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ تجھ پر افسوس ہے کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا گنبد کی طرح اور بیشک وہ عرش الہی چرچراتا ہے جس طرح کہ کجاوہ سواری کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے۔ (سنن ابو داود،باب جہمیہ کا بیان)
حقیقت حال معلوم ہونے پر میری الجھن تو سلجھ گئی لیکن فرقہ دیوبندکا مکروہ چہرہ بھی سامنے آگیا ۔مجھے اس بات پر بہت افسوس ہوا کہ دیوبندی اہل حدیث کی دشمنی میں احادیث پر تنقید سے بھی نہیں شرماتے۔ جس طرح اپنے سوتی بیان میں امین اوکاڑوی نے دانستہ یہ بات چھپائی کہ یہ عقیدہ حدیث پر مبنی ہے کیونکہ اگر وہ یہ بتا دیتے تو پھر انہیں اہل حدیث پر تنقید کا جواز نہ ملتا۔ بہرحال میرے دل میں دیوبندیت کے لئے جو عقیدت و محبت تھی اور اس فرقے کے حق پر ہونے کی جومدہم سی ایک امید باقی تھی دیوبندیوں کی یہ شرمناک حرکت اس امید کے خاتمے کے ساتھ اس مذہب کی گرتی ہوئی دیوار پر ایک زور دار دھکہ ثابت ہوئی۔

تقلید کو جاننے کے بعد پھر مجھے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔جب میں نے فاتحہ خلف الامام کا آغاز کیا تو میں بے انتہاء مشقت میں پڑگیا کیونکہ بریلوی اور دیوبندی امام کی اسپیڈ نماز پڑھاتے وقت اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ انتہائی مشکل سے میں ان کے پیچھے سورہ فاتحہ مکمل کر پاتا تھا ۔ میں عجیب مشکل کا شکار تھا کہ اگر سورہ فاتحہ پڑھتا تو رکعت رہ جانے کا ڈر اور اگر سورہ فاتحہ نہ پڑھتا تو نماز نہ ہونے کا ڈرپھر با جماعت نماز بھی بہت ضروری تھی۔اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ جب بھی نماز ختم ہوتی کوئی نہ کوئی نمازی مجھے روک لیتا کہ آپ نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کیوں پڑھی ؟ یہ تو منع ہے۔پھر وہ مجھے امام سے بھی ملوانے کی کوشش کرتے کہ ا ن سے پوچھ لو کہ جب امام نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔میری عادت تھی کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہوجاتا میں وہیں باجماعت نماز ادا کر لیتا تھا حتی کہ دوران سفر جب اذان کی آواز سنتا توبس سے اتر کر قریب ترین مسجد میں یہ دیکھے بغیر کہ یہ بریلوی مسجد ہے یا دیوبندی مسجد نماز پڑھ لیتا تھا۔اسی لئے باربار بعد نماز کسی نہ کسی کے روک لینے اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی وجہ سے میں بہت کوفت میں مبتلا ہوگیا تھا۔

ان مسائل کے ساتھ ایک نئی آفت یہ آپڑی تھی کہ میرے آفس کے ساتھی جو قریب قریب سب ہی دیوبندی تھے میر ے تبدیل ہوتے خیالات اور بدلتے نظریات سے میری اصلاح کی فکر میں مبتلا ہوگئے تھے اور اپنی بلا دلیل باتوں اور نصیحتوں سے ہی مجھے ’’راہ راست‘‘ پر لانے کی کوشش کررہے تھے اور میرے دل میں جو شبہات اور اشکالات تھے نہ تو انہیں اس سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی انکے ازالے کے لئے انکے پاس دلائل تھے۔مجھے نصیحت کرنے ،سمجھانے یاقائل کرنے کے لئے انکے اکثر جملے یہی ہوتے تھے کہ دیکھو تم غلط راہ پر جارہے ہوسیدھی راہ پر واپس آجاؤ یا انسان کو اپنا مسلک،اپنا طریقہ نہیں چھوڑنا چاہیے یا دنیا بھر میں مسلمانوں کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی پیروی کرتی ہے اتنے سارے لوگ کیسے غلط ہوسکتے ہیں جبکہ ان میں علماء بھی موجود ہیں وغیرہ وغیرہ اور ان سب باتوں اور نصیحتوں کے جواب میں میرے پاس صرف ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ ’’دلیل کیا ہے؟‘‘

سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے دور حنفیت میں دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔بس میر ا خیال تھا کہ وہی چند مسائل جن کا ذکر یوسف لدھیانوی نے اپنی کتا ب میں کیا ہے اس کے علاوہ دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن بعد میں مجھے پتا چلا کہ ان چیزوں میں بھی کلی اختلاف نہیں بلکہ جزوی اختلاف ہے۔ جیسے غیر اللہ کی نذر و نیاز جو بریلوی حضرات کرتے ہیں دیوبندی اسے غلط بلکہ حرام کہتے ہیں لیکن اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے یہ کہہ کر کہ یہ تواللہ کا رزق ہے اسے کھا لینا چاہیے۔ حالانکہ جو چیز غیر اللہ کی نذر کرنے کی وجہ سے حرام ہے وہ کھانے میں حرام کیوں نہیں؟ اسی سبب دیوبندی حضرات بریلویوں کی ان محافل میں جو غیر اللہ کی نذر و نیاز پر قائم ہوتی ہیں بڑے ذوق شوق سے شرکت کرتے اور کھاتے پیتے ہیں جیسے کونڈے،محرم کی حلیم، شب براء ت کے حلوے اور عام روزمرہ کی نذر و نیاز وغیرہ۔ اسی طرح میلاد کا مسئلہ ہے جسے دیوبندی بدعت کہتے ہیں لیکن کچھ شرائط جیسے محفل میلاد میں قیام نہ کیا جائے کے ساتھ وہ بھی ان کے ہاں جائز ہے۔وغیرہ وغیرہ

بدتدریج مجھے یہ بھی علم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رفع الیدین والی تھی۔ جب میں نے باقاعدہ رفع الیدین کا آغاز کیا تو جو بات چھپی ہوئی تھی وہ سامنے آگئی۔میرے دوستوں اور دفتر والوں کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ دیوبندی مسلک سے کسی دوسرے مسلک کی طرف اس کا سفر شروع ہوگیا ہے۔حالانکہ اس وقت تک بھی میں دیوبندی ہی تھا ۔بس میں یہ سمجھتا تھا کہ ان دو تین مسائل میں دیوبندی مسلک درست نہیں باقی سب ٹھیک ہے۔میں حقیقت میں دیوبندی مسلک چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی اہل حدیث مسلک اختیار کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ دوران تحقیق اہل حدیث کا کوئی ایسا مسئلہ یقیناًسامنے آئے گا جس سے اس فرقے کی گمراہی کا مجھے یقین ہوجائے گا اور میں اس ناپسندیدہ مسلک سے بچ جاؤں گا۔ لیکن تحقیق کا ہر دن ایک نئی مشکل اور پریشانی لے کر آتا تھا میں جو مسئلہ اٹھاتا اس میں اہل حدیث کو حق پر اور دیوبندی کو باطل پر پاتا ۔میں اس چیز پر بھی حیران تھا کہ یہاں تو ہر مسئلے پر اختلاف ہے میں جن مسائل کو متفق علیہ سمجھتا تھا وہ بھی اختلافی نکلے اور ان مسائل نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا جیسے مجھے تو یہ معلوم تھا کہ ’’اللہ ہر جگہ ہے‘‘ یہ بات بچپن ہی سے دل ودماغ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔جب مجھے یہ معلو م ہوا کہ اللہ عرش پر مستوی ہے تو اس مسئلہ کی وجہ سے میں کئی دن پریشانی میں مبتلا رہا۔بہرحال اس چیز کو قبول کرنا پڑا جو حق تھی کیونکہ میں حق کو تلاش کررہاتھا چاہے وہ مجھے اپنے پسندیدہ فرقے میں ملتی یا ناپسندیدہ فرقے میں۔اہل حدیث کی کوئی کمزوری اور گمراہی ہاتھ آنے کی امید اور دیوبندیت کے حق پر ہونے کی دلیل پانے کی امید کمزور سے کمزورتر ہوتی جارہی تھی۔

پھر وہ دن آیا جب میں دوراہے پر کھڑا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ میں سابقہ دیوبندی مسلک پر قائم رہوں جو کہ مجھے پسند تھا ۔لیکن میرا ضمیر یہ گوارا کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ کسی ایک مسئلہ پر بھی میں نے دیوبندی مسلک کو حق پر نہیں پایا تھا۔ یا اہل حدیث مسلک کو اختیار کروں جو ہر معاملے اور ہر مسئلہ پر حق ثابت ہوا۔ لیکن ایک ایسا مسلک جو میرے اطراف میں غیرمعروف اور کافی حد تک عجیب تھا کو اختیار کرنے کی میں خود میں ہمت نہیں پارہا تھا۔ اس مقام پر مجھے خواہش ہوئی کہ میں اپنے پرانے بے دینی کے دور کی طرف پلٹ جاؤں جہاں ایسی کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ سب اچھا تھا سب صحیح تھا۔جب میں نے خود کو مجبور ،بے بس اور فیصلہ کرنے کے قابل نہ پایا تو اللہ رب العالمین سے دعا کی کہ جو مسلک تیرے نزدیک حق ہے اس کی طرف میرے دل کو پھیر دے۔ اور آخر کار مایوسی اور پریشانی کے بادل چھٹ گئے او ر میرے رب نے مجھ پر بہت زیادہ رحم کرتے ہوئے میرے دل کو اہل حدیث مسلک کی طرف مائل کردیا۔الحمداللہ ثم الحمداللہ

متلاشیان حق میں سے جو شخص بھی باطل سے حق کی جانب گامزن ہو اس پر ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے جب وہ خود کو اس مقام یا دوراہے پر موجود پاتا ہے جہاں اس کی قوت فیصلہ جواب دے جاتی ہے جب باطل اور حق اسے ہم وزن لگنے لگتے ہیں۔ایسا ہر اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو باطل پر اس لئے ہو کہ وہ اسے حق سمجھے بیٹھا ہوپھر جب اصل حق سے اس کا آمنا سامنا ہوجائے تو حیران و پریشان ہوجاتا ہے۔راقم السطور بھی دوران تحقیق اس نازک منزل پر پہنچا جہاں ہر سو اندھیرا تھاجہاں میں نہ پیچھے لوٹ سکتا تھا اور نہ آگے قدم بڑھا سکتا تھا۔وہاں نہ حق کو پہچاننے کی قوت میں خود میں پاتا تھا اور نہ ہی طرفین کے دلائل کو موازنہ کرنے کی صلاحیت مجھ میں باقی رہی تھی۔میں اچانک بالکل خالی الذہن اور خالی الوجود ہوگیا تھا۔اس منزل کی سنگینی اور خطرناکی کا صحیح معنوں میں صرف وہی شخص ادراک کرسکتا ہے جو خود اس منزل سے گزرا ہو۔یہی وہ وقت تھا جب میرے دل نے شدت سے یہ آرزو کی کہ کاش میں اس تحقیق میں مبتلا نہ ہو ا ہوتا ۔کاش میں مذاہب کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنے کے اس راستے پر نہ چلا ہوتا۔پھر ایسی بے بسی کے وقت خالق کائنات سے حق و باطل میں تمیز کرنے اور حق کو پہچاننے اور اسے اپنانے کے لئے مدد طلب کی۔پس میرے رب نے بے قرار دل (جو صرف حق کا متلاشی تھا )کی دعا کو شرف قبولیت بخشی اور مجھے سیدھے راستے کی ہدایت کی۔اگر میر ا رب مجھ پر مہربان نہ ہوتا تو میری گمراہی یقینی تھی۔نجانے کتنے لوگ ہیں جو ایسے مقام و منزل پر پہنچ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔پس حقیقت یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا عالی دماغ عالم ہی کیوں نہ ہو وہ اللہ کی مدد کے بغیر حق کو نہیں پہچان سکتا اور اگر پہچان بھی لے تو اسے اپنا نہیں سکتا۔امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ جنہوں نے گمراہی سے ہدایت کی جانب کامیاب سفر کیا وہ بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوئے پھر رب کائنات کی مہربانی اور مدد کے ذریعہ اس مشکل صورتحال سے باہر نکلے۔یہ حوالہ ملاحظہ فرمائیں: امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ پندرہ دن غائب رہے۔پھر جامع مسجد آکر منبر پر چڑھے اور کہا: لوگو! میں اتنی مدت غائب رہا میں نے غور کیا تو مجھے تمام ادلہ برابر لگیں کچھ بھی راجح معلوم نہ ہوا۔پھر میں نے اللہ سے ہدایت طلب کی اللہ نے مجھے اس کی ہدایت دے دی جو میں نے اپنی کتب میں لکھا ہے۔(الانۃ باعن اصول الد یانۃ مترجم،ص 21)

میں اپنی اکثر نمازیں گھر سے قریب بریلویوں کی مسجد میں ادا کرتا تھا ۔جب مجھے علم ہوا کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے تو میں نے اسے ترک کردیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی نماز ختم ہوتی امام صاحب مقتدیوں سمیت اجتماعی دعا شروع کردیتے اور میں صف میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ۔صف سے فوراً نکلنا اس لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ پیچھے وہ نمازی اپنی نماز مکمل کررہے ہوتے تھے جن کی کچھ رکعات رہ گئی ہوتی تھیں۔اس بات کو ان بریلوی امام صاحب نے جلد ہی نوٹ کرلیا کہ میں اجتماعی دعا میں شریک نہیں ہوتا ۔ انہوں نے براہ راست تو مجھے کچھ نہیں کہا لیکن گاہے بگاہے نماز کے بعد درس میں کہنے لگے کہ میں اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ سب لوگ دعا میں شریک ہوں اور ایک شخص یوں ہی بیٹھا رہے۔ ارے دعا تو ایک عبادت ہے آخر دعا میں شریک ہونے میں حرج ہی کیا ہے؟ دعا سے محروم رہنا تو بدنصیبی ہے۔ پھر کسی نے ان امام صاحب کو جماعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی بھی خبر کردی ۔جس پر انہوں نے کہا ۔امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے میں کون سا کمال ہے یہ تو سب کو آتی ہے۔ارے اگر اتنا ہی قرآن آتا ہے تو سورہ فاتحہ کے بعدمیں جو سورتیں پڑھتا ہوں وہ پڑھو تو جانوں۔ ابھی یہ مسائل چل رہے تھے کہ میرے علم میں اضافہ ہوا کہ جمعہ کے دن خطبہ شروع ہونے سے پہلے حسب استطاعت نوافل پڑھنے چاہیے۔جب جمعہ آیا اور میں مسجد میں آیا تو امام صاحب تقریر کر رہے تھے کیونکہ ہم خطبہ اسی کو سمجھتے تھے جو تقریر کے بعد احناف عربی میں پڑھتے ہیں اس لئے میں نے تقریر سننے کے بجائے نوافل پڑھنا شروع کردئے۔امام صاحب نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی تقریر تو بھول گئے اور فرمانے لگے کہ نوافل تو کسی بھی وقت ادا کئے جاسکتے ہیں اس وقت تو ضروری تھا کہ تقریر سنتے۔ بس ان امام صاحب کے کان کھڑے ہوگئے انہیں لگا کہ میں مسجد میں فتنہ پھیلانے آتا ہوں لہذا انھوں نے مجھے نشانے پر رکھ لیا۔جب یہ معاملات شروع ہوئے تو میں قریب قریب مسلک اہل حدیث کو اختیار کر چکا تھا ۔لہذا کچھ کوشش کے بعد علاقے ہی میں اہل حدیث مسجد ڈھونڈ لی۔

جماعت اہل حدیث کا پہلا مجلہ جس سے مجھے تعارف حاصل ہوا وہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ تھا جس کا نام بعد ازاں تبدیل کرکے ’’اشاعتہ الحدیث‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ جب پہلے پہل کتابوں کی دکان پر میں نے اس رسالے کو دیکھا اور خریدنے کی نیت سے اٹھایاتو سرورق پر موجود ایک تحریر کا عنوان ’’ہرنی کا قصہ‘‘ دیکھ کر کھولے بغیر ہی واپس رکھ دیا۔اس عنوان سے میں یہ سمجھا کہ اہل حدیث کے ہاں بھی دیوبندیوں اور بریلویوں کی طرح دین و مذہب میں قصے کہانیوں کا رواج ہے۔ الحدیث رسالے کا یہ پہلا خراب تاثر ہی تھاکہ پھر کئی ماہ تک میں نے اس رسالے کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔بعد میں جب میری غلط فہمی دور ہوئی اور مجھے معلوم ہوا کہ جس عنوان سے میں شک و شبہ میں مبتلا ہوا اصل میں وہ’’الحدیث‘‘ کا ایک مستقل سلسلہ ہے جس میں عوام میں مشہور غلط ،سنداً ضعیف اور غیرثابت شدہ قصوں کو دلائل سے رد کیا جاتا ہے۔بعد میں الحدیث کو خریدنے اور پڑھنے کے بعد اس رسالے نے اپنے اعلیٰ معیار کی بدولت میرے دل میں ایسی جگہ بنائی کہ یہ میرامحبوب ترین مجلہ بن گیااور مدیر رسالہ جناب حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ میری پسندیدہ ترین شخصیت میں بدل گئے۔’’الحدیث‘‘ سے میرے ابتدائی دور کی بہت سی حسین یادیں وابستہ ہیں۔مذہب اہل حدیث کا درست تعارف مجھے اسی رسالے کے طفیل حاصل ہوا اور اسی رسالے کے ذریعہ میں نے دینی مسائل کا علم حاصل کیا۔میرا تحقیقی مزاج بھی اسی رسالے کی وجہ سے بنا اور تحریر لکھنے کا سلیقہ بھی اسی رسالے سے سیکھا۔

جب میں حق جاننے کا متلاشی تھا تو میری خواہش تھی کہ کاش مجھے کوئی ایسا شخص دستیاب ہوجائے جو دلائل سے مجھے ایک ایک فرقے کی گمراہی سے آگاہ کرنے کے بعد ناجی فرقے کی نشاندہی کردے یا پھر کوئی ایسی کتاب مل جائے جو اس مسئلہ کا حل پیش کرتی ہو کیونکہ یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب اختلاف امت صراط مستقیم کے سادہ اور عام فہم انداز نے مجھے حد درجہ متاثر کیا تھا اس لئے میں کسی اہل حدیث مصنف کی ایسی ہی تصنیف کی تلاش میں تھاجس میںیوسف لدھیانوی کی ’’اختلاف امت اورصراط مستقیم‘‘ کی طرز پر مروجہ فرقوں کی گمراہی بیان کرکے اہل حق فرقے کی نشاندہی کی گئی ہو۔دوران تلاش میری نظر سے صغیر احمد بہاری کی کتاب بنام صراط مستقیم اور اختلاف امت گزری اسے دیکھ کر متوقع گوہر مقصود پالینے کے احساس سے میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔لیکن جب کتاب اٹھا کر میں نے اسے کھولا تو نہ صرف یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ یہ میری مطلوبہ کتاب کے بجائے یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب خصوصاً اہل حدیث کے متعلق ان کے باب کا جواب ہے بلکہ کتاب کے ایک مقام پر جہاں یوسف لدھیانوی صاحب پر قدرے سخت تنقید کی گئی تھی نظر پڑجانے کی وجہ سے مجھے بہت دکھ ہوااوررنج و دکھ کا یہ احساس تا دیر میرے دل میں موجود رہا اس لئے مذکورہ کتاب میرے دل سے اتر گئی اورمیں صاحب کتاب سے بھی بد ظن ہوگیا۔جبکہ میں اس کتاب کو دیکھتے ہی اسے خریدنے کا فیصلہ کرچکاتھا لیکن اس فیصلے کو مجھے ملتوی کرنا پڑا پھر ایک مدت تک میں نے اس کتاب کو نہ خریدا اور نہ ہی پڑھا۔میرے دل میں یہ بات آئی کہ صحیح بات بیان کرتے ہوئے اور مخالف کی غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے سخت کے بجائے نرم لہجہ بھی اختیار کیا جاسکتا تھا لیکن مصنف نے اس بات کا خیال نہیں رکھا جس سے میری دل آزاری ہوئی ۔چونکہ میرے دل میں یوسف لدھیانوی صاحب کی عقیدت و احترام موجود تھا اس لئے مجھے ان پر تنقید برادشت نہیں ہوئی بلکہ الٹا تنقید نگار پر غصہ آیا۔بعد میں جب حق میرے دل میں جاگزیں ہوگیا اور میں نے صغیر احمد بہاری کی کتاب کو مکمل پڑھا تو معلوم ہوا کہ مصنف کی یوسف لدھیانوی پر تنقید بالکل جائز تھی اور تنقید میں ادب اوراخلاق کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا تھا۔جہاں تک اس معاملہ میں میری جذباتیت کا تعلق ہے تو اسکا سبب یہ تھا کہ میں نے سیاق سباق سے ہٹ کر کتاب کاصرف ایک جملہ پڑھا تھااس لئے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوکر غم و غصہ کا شکار ہوگیا تھااور دل میں یوسف لدھیانوی صاحب کا خصوصی مقام ہونے کی وجہ سے ایک جائز تنقید بھی مجھے ناجائز لگی ۔جبکہ دوسری جانب خود یوسف لدھیانوی نے بھی اپنی کتاب میں مخالفین پر جابجا ایسی ہی تنقیدیں کر رکھی تھیں۔جو عقیدت کی پٹی آنکھوں پر بندھی ہونے کی وجہ سے پہلے میری نظروں سے اوجھل تھیں۔

میرے اندر پیدا ہونی والی تبدیلیوں میں پہلی تبدیلی تقلید سے بے زاری کی تھی ،دوسری اہم تبدیلی فا تحہ خلف الامام کی تھی،تیسری تبدیلی تبدیلی رفع الیدین کرنے کی اور چوتھی بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی تھی۔ میرے آفس کے ساتھیوں میں ایک ساتھی میری والد کی عمر کے تھے جو مجھ سے بہت قریب اور بے تکلف تھے ۔مجھے مسلک اہل حدیث سے متاثرہونے سے بچانے میں سب سے زیادہ کوششیں انہیں کی تھیں ۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ مجھے رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری خباثت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے‘‘۔ جب انہوں نے یقین کرلیا کہ میں انکی باتوں سے قائل ہوکر دیوبندی مسلک میں واپس نہیں آؤنگا تو انہوں نے اس کی ترکیب یہ نکالی کہ ایک تبلیغی جماعت کے سرگرم کارکن (جو انکے بڑے بھائی تھے اور جو انکے نزدیک دین کی بہت زیادہ معلومات رکھتے تھے) سے میری نشست رکھوائی جائے۔ میں نے تو اس نشست کے لئے حامی بھرلی لیکن جب انہوں نے اس سلسلے میں اپنے بھائی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ لڑکا اہل حدیث ہوگیا ہے تو اس سے بات کرنا بے کار ہے کیونکہ اہل حدیث ہٹ دھرم ہوتے ہیں کسی کی بات نہیں مانتے۔اس طرح افہام وتفہیم کی وہ متوقع نشست منسوخ ہوگئی۔ اس کے بعد جب بھی وہ بحث و مباحثہ کے دوران لاجواب ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ میرے بھائی نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ اہل حدیثوں سے بحث کرنا بے کار ہے یہ لوگ کسی کی بات نہیں مانتے۔ او ر میں کہتا تھا کہ ہاں بلا دلیل بات نہیں مانتے۔

میں جب دیوبندیت سے متنفر ہورہا تھا تو میں نے اپنے دفتر کے ایک دیوبندی ساتھی کے سامنے بہشتی زیور کے کچھ مسائل رکھے،پہلے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ خود کو مسلمان کہنے والا کوئی بھی عالم دین ایسے مسائل بیان نہیں کرسکتا کجا یہ کہ دیوبندی علما ء عقل اور حیا سے عاری ایسے مسائل بیان کریں۔ پھر انہوں نے ان مسائل کو فرضی قرار دیتے ہوئے بہشتی زیور میں ان کی موجودگی سے بھی انکار کیا۔اس پر جب میں نے انہیں اصل کتاب دکھانے کی یقین دہانی کروائی تو انہوں نے اپنا بیان بدلتے ہوئے فرمایا جس کسی نے بھی دین کے نام پر یہ باتیں بیان کی ہیں میں اسے غلط اور گمراہ سمجھتا ہوں چاہے اس کا تعلق میرے اپنے فرقے سے ہو یا وہ کسی مخالف فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔آخرکار میں نے اگلے دن انہیں بہشتی زیور لاکر وہ مسائل دکھاد ئیے شایدیہ سب کچھ ان کے لئے بالکل ہی غیرمتوقع تھا اورانہیں بالکل بھی یقین نہیں تھایہ مسائل ان کے اپنے ہی مذہب کے حوالے سے سچ ثابت ہونگے اس لئے انہوں نے چپ سادھ لی اور الٹا مجھ پر ہی چڑھ دوڑے کہ تم راہ راست سے ہٹ گئے ہو اور غلط راستے پر چل رہے ہو لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں مجھ پر یہ احسان عظیم فرمایا کہ مجھے اپنے محلے کے ایک شخص سے ملوایا تاکہ بقول انکے میں راہ راست پر آجاؤں اور اہل حدیثیت کی گمراہی میں نہ پڑوں ۔ وہ صاحب پھل فروش تھے لیکن مناظروں ، مجادلوں اور مناقشوں کے ازحد شوقین، بچپن میں انھوں نے کچھ عرصہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی جس کی وجہ سے عربی جانتے تھے ۔امین اوکاڑوی سے حد درجہ متاثر تھے بلکہ اوکاڑوی صاحب کو اپنا روحانی استاد گردانتے تھے اور اپنے روحانی استاد ہی کی طرح بداخلاق ،جھوٹے اور مغالطہ بازتھے ۔پہلے تو انھوں نے مجھ سے میرے اشکالات پوچھے ۔ میں نے جب’’بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام‘‘ نامی کتاب کے توسط سے فقہ حنفی کے کچھ مسائل پیش کیے تو ہردیوبندی کے محبوب مشغلے کی طرح انہوں نے بھی ارشادفرمایا کہ اہل حدیثوں نے فقہ حنفی کی عبارات کا صحیح ترجمہ نہیں کیا اور عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا ہے۔اور اسکا مطلب یہ نہیں ،یہ ہے۔یعنی محض تاویلات کے ذریعے اپنے مسائل کو صحیح بارور کروانے کی ناکام کوشش کی۔اور تاویلات بھی ایسی کہ کسی سلیم الفطرت شخص کا دل انہیں قبول نہ کرے۔ظاہر ہے میں ان سے مناظرہ یا مباحثہ کرنے نہیں بلکہ حق جاننے آیا تھا اس لئے انکے حنفی مسائل کے دفاعی رویے نے مجھے بہت مایوس کیا۔جب ان سے میری دو تین ملاقاتیں ہوئیں اور میں انکے جارحانہ دلائل سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہوااور وہ بھی اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ یہ واپس دیوبندی مذہب میں پلٹنے والا نہیں اور اس پر مزید وقت صرف کرنا بے کار ہے تو انہوں نے اخلاق اور ہمدردی کا لبادہ اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور بدتمیزی اور اہل حدیث پر طعن و تشنیع پر اتر آئے۔انہوں نے مجھے اپنے متعلق بتایاکہ جب تک میں اہل حدیثوں سے نہیں ملا تھاتب تک بریلویوں سے مناظر ے کرتا تھااور مسلکی اختلاف کی بناء پر ان سے مجھے بہت نفرت تھی۔لیکن جب اہل حدیثوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے مناظرے شروع ہوئے تو بریلویوں سے محبت ہوگئی اور نفرت اور اختلاف کا سارا رخ اہل حدیث کی جانب مڑ گیا۔کہنے لگے کہ بریلوی ہمارے بھائی ہیں ،ان میں اور ہم میں معمولی اختلاف ہے اگر یہ اختلاف برقرار بھی رہے پھر بھی وہ ہماری فقہ اورہمارے امام کا دفاع کرنے والے ہیں اور ہماری محبتوں کے مستحق ہیں۔لیکن اہل حدیثوں سے کسی صورت اتحاد ممکن نہیں،اصل توانیاں تو انہیں اہل حدیثوں کی تردید میں خرچ ہونی چاہئیں ۔دیوبندیوں کے ایک حق کے متلاشی شخص کے ساتھ اس طرح کے رویے نے مجھے دال میں کچھ کالا ہونے کا احساس دلا دیا تھا۔اس لئے میں نے تحقیق جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سچ ہے کہ انسان ایک مرتبہ تعصب سے بالاتر ہوکر تحقیق کے میدان میں اتر پڑے تو باطل پرستوں کے مغالطے ، جھوٹ اور فریب زیادہ دیرتک اس سے اصل حقیقت کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ اور میرا بھی وہ وقت آن پہنچا تھاجہاں دیوبندیوں کے اپنے باطل مذہب پر قائم رہنے اور دوسروں کو قائم رکھنے کی بے جا ضد اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سادہ لوح اور ناواقف لوگوں کو راہ حق سے روکنے کی کوششوں نے مجھے میری اصل منزل کے اورزیادہ قریب کردیا تھا۔ اور بالآخرمیں نے بعد تحقیق کے مسلک اہل حدیث کی حقانیت کو دل وجان سے تسلیم کرلیا تھا۔چونکہ تحقیق نہ کرنے کے سبب میں پہلے ہی دیوبندی مذہب کو صراط مستقیم سمجھنے کی زبردست غلطی میں مبتلاء ہوچکا تھا اس لئے میں نے اس غلطی کو آئندہ نہ دھرانے کا عزم کرتے ہوئے اہل حدیث ہونے کے باوجود کبھی بھی تحقیق کو نہیں چھوڑا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ میرا یہ یقین پختہ سے پختہ ہوتا چلا گیاکہ اس روئے زمین پر مسلک اہل حدیث کے علاوہ کوئی صراط مستقیم نہیں۔

اہل حدیث مسلک کے قبول و اعلان کے بعد مجھے گھر،دفتر اوردوست احباب کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرناپڑا۔ میرے والد جو صوفی ہونے کی وجہ سے اہل حدیثوں سے شدید ترین نفرت کرتے تھے انہیں کسی طرح میرا مسلک قبول نہیں تھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ دیوبندی تو پھر بھی ہمیں قابل قبول ہیں لیکن اہل حدیث مسلک تو کسی طور قابل برداشت نہیں۔اہل حدیث مسلک کے بارے میں میرے والد کا کہنا تھا کہ یہ وہ یتیم مذہب ہے کہ ہمارے پچپن میں اس کے ماننے والے دور دور تک نظر نہیں آتے تھے بلکہ سنتے تھے کہ فلاں فلاں گاؤں میں ایک وہابی رہتا ہے۔ جس مسلک کوکوئی پوچھتا نہیں تھا اور جس مذہب سے مجھے سخت نفرت تھی اسے میرے بیٹے نے اختیار کرلیا۔والد سے آئے روز کے جھگڑوں اور بحث و مباحثہ نے ان کے اور میرے بیچ اختلاف اور دوریوں کی ایک مضبوط دیوار قائم کردی ۔حتی کہ میں نے بات چیت بھی ترک کردی۔وقت گزرنے کے بعد جب والد کا غصہ کچھ کم ہوا تو انہوں نے مجھے میرے مسلک کے ساتھ قبو ل کرلیا اور مجھے تنبیہ کی کہ ٹھیک ہے تم اپنے مسلک پر قائم رہو۔لیکن گھر میں کسی دوسرے کو اس کی دعوت مت دو۔میں کہاں باز آنے والا تھا ۔والد کی غیر موجودگی میں ، میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اللہ نے میری دو بہنوں اور والدہ کو میرے ذریعے اہل حدیث بنا دیا۔الحمداللہ
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جب میرے والد محترم کا ذکر چل رہا ہے تو عرض ہے کہ والد محترم سے دین پر بحث و تکرار سے پہلے مجھے قطعاً علم نہیں تھا کہ وہ اپنے مذہب پر کس قدر پختہ ہیں اور کس قدر خطرناک اور گمراہ کن عقائد کے حامل ہیں۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے تصوف پر مبنی اپنے والد کے پیر کی تصنیف کردہ کتاب یونہی اٹھائی اور کھولی تو اتفاقاً ایک ایسا صفحہ میرے سامنے کھل گیا جس کی عبارت نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔اسے پڑھنے کے بعد میرے دل نے گواہی دی کہ کوئی بھی مسلمان چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو کبھی اس بات کی تصدیق نہیں کرے گا بلکہ اسکی مذمت کرے گا۔اس لئے مجھے یقین تھا کہ جب میں اس بات کا ذکر اپنے والد سے کروں گا تو یا تووہ اس عبارت سے لاعلمی کا اظہارکریں گے اور اگر ایسا نہ ہوا توعبارت کا انکار کریں گے یا پھر کہیں گے کہ میں نے اس مخصوص عبارت کا غلط مطلب سمجھا ہے اور وہ اپنے طور پر اس کا صحیح مطلب سمجھانے کی کوشش کریں گے جو انکے نزدیک درست ہوگا۔وہ عبارت ملاحظہ فرمائیں: خواجہ صوفی محمد عبدالغنی شاہ صاحب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان عظیم باندھتے ہوئے لکھتے ہیں: مجھے حضوؐر کی وہ حدیث یاد آگئی جب کبھی حضوؐر جوش عشق میں فرماتے میں ہی اللہ ہوں میری عبادت کرو۔(اسرار معرفت ،صفحہ 298)
لیکن میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب میں نے اپنی والدہ محترمہ کی موجودگی میں والد کے سامنے اس عبارت کا ذکر کیا اور بطور خاص اپنی والدہ کو بتایا کہ ابو کی کتاب میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیتے تھے۔ اس پر میری توقع کے برعکس والد صاحب نے نہ صرف اس عبارت کی کتاب میں موجودگی کا اعتراف کیا بلکہ بغیر کسی تمہید یا تاویل کے اسے بالکل صحیح قرار دیا۔ جبکہ میری والدہ نے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے گمراہ کن قرار دیا۔ اور یہی مجھے مقصود و مطلوب تھا۔والد کے بارے میں تو مجھے کسی حد تک یقین تھا کہ وہ اپنے صوفیانہ عقائد سے پھرنے والے نہیں ۔اس لئے میں بطور خاص صوفیت و بریلویت کی تردید سے متعلق ہربات والد کے ہوتے ہوئے والدہ کے سامنے کرتا تھا ۔اس سے ایک طرف تو میں صوفیت اور بریلویت کے متعلق اپنی والدہ کے علم میں اضافہ کرنا چاہتا تھا اور دوسری طرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ والد کے پاس اپنی سچائی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔مسئلہ یہ تھا کہ والدہ نئی نئی اہل حدیث ہوئیں تھیں اس لئے ابھی عقیدہ توحید پختہ نہیں تھا اوران کے ذہن سے کچھ بدعات کا قلع قمع کرنا بھی باقی تھا جنھیں وہ درست سمجھتی تھیں۔مصیبت یہ بھی تھی کہ والدہ والدمحترم سے متاثر تھیں اسی وجہ سے میں بار بار گھر کا ماحوال خراب کرکے والد کے عقائد کی خطرناکی اور ہولناکی کو طشت ازبام کرنے پر مجبور تھا تاکہ انہیں والد کے مذہب کے اثرات سے بچایا جاسکے۔اس طرح کی صورتحال میں شروع شروع میں تو والد محترم لڑائی جھگڑے کے ذریعہ بات ہی ختم کردیتے تھے اور میں بھی جھگڑے کو بڑھاوا دینے کے بجائے خاموشی کو بہتر سمجھتا تھا اور والد کی غیرموجودگی میں وضاحت سے والدہ کو اس مسئلہ کے متعلق سمجھا دیتا تھا۔ جب میر ے والد بار بار کی تکرار اور لڑائی سے مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام ہوگئے اور ان کی تمامتر کوششوں کے باوجود بھی میرا دعوتی کام جاری رہا تو مجبوراً انہیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی پھر یا تو والد خاموش رہتے تھے یا پھر غصہ کرتے ہوئے احتجاجاً وہاں سے رخصت ہوجاتے تھے یا پھر انتہائی بودی اور مضحکہ خیز مثالوں سے صوفیت اور بریلویت کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے تھے۔اور ان میں سے ہر صورت والدہ کو یہ یقین دلانے کے لئے کافی ہوتی تھی کہ واقعتا میری بات درست ہے اور ابو دلائل سے محروم ہیں۔

گھر میں حق و باطل کے مقابلے کی ایک دلچسپ صورتحال برپا تھی۔ میری تبلیغ کی وجہ سے والد محترم کو پہلی مرتبہ اپنے ہی گھر میں اپنے مذہب کادفاع اور جارحانہ تبلیغ کرنا پڑ رہی تھی۔جس طرح میں اپنی والدہ کو توحید کی طرف لانے کی کوشش کررہا تھا اسی طرح میرے والد بھی انہیں واپس اپنے مذہب میں لانے کے لئے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اپنے خاندان کے بڑے لوگوں اور مشترکہ پیروں فقیروں کا حوالہ دے کر سمجھا رہے تھے کہ ہمارے آباؤاجداد کا مذہب و مسلک غلط نہیں ہے۔کیا ہمارے خاندانی بزرگ ہمارے باپ دادا اور یہ باہمی پیر و مرشد غلط ہوسکتے ہیں؟ یادرہے کہ میرے والدین آپس میں کزن بھی ہیں اور پہلے سے بھی کئی رشتہ داریاں چلی آرہی ہیں جس وجہ سے ان کا خاندان اور بزرگ بھی مشترکہ واقع ہوئے ہیں۔بعض اوقات مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے والد یہ خاندانی بزرگوں کا واسطہ والدہ پر کارگر ثابت ہورہا ہے۔اگرچہ والدہ شرک کے معاملات میں تو کافی حد تک راہ راست پر آچکی تھیں اور اس سلسلے میں والد کی کوئی بات نہیں مانتی تھیں تاہم راسخ العقیدہ اہل حدیث نہ ہونے کی وجہ سے محفل میلاد میں ذوق و شوق سے شرکت کرتی تھیں ۔زبانی مذمت کے باوجودنذرو نیاز کودل سے برا نہیں سمجھتیں تھیں اور ایسا کھانا کھا بھی لیتی تھیں اور اسی طرح کی دیگرچھوٹی موٹی بداعمالیوں میں مبتلا تھیں ۔اسی لئے میں اکثر بیشتر والد کی موجودگی میں والدہ کو صوفیوں اور بریلویوں کے عقائد و نظریات بتا کر قرآن و حدیث کے ذریعے انہیں سمجھاتا تھا کہ صوفی و بریلوی نظریات سراسر اسلامی مزاج کے خلاف ہیں۔یوں میں ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا ایک تو اپنی والدہ کو والد کی باتوں کی اثرپذیری سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا کیوں کہ والد اب باقاعدگی سے تصوف کی کتابوں سے اقتباسات پڑھ کر والدہ کو سناتے اور آسان لفظوں میں اسکے مطالب سمجھاتے تھے یوں وہ میری تبلیغ کے اثر کو کم سے کم کرنا چاہتے تھے۔اور دوسرا میں اپنے والد کو ان ڈائرکیٹ اسلام کی صحیح تعلیمات پہنچانا چاہتا تھا کیونکہ وہ براہ راست دین کی کوئی بات مجھ سے نہیں سنتے تھے ۔
چناچہ مجھے جو بات والد کو بتانی ہوتی تھی اس کے لئے والدہ کا کندھا استعمال کرتا تھا۔اس پر والد کے ردعمل سے میں جان لیتا تھا کہ انکا اس عقیدہ یا نظریہ کے بارے میں کیا خیال ہے کیونکہ وہ براہ راست مجھ سے دینی موضوعات پر گفتگو نہیں کرتے تھے اس لئے مجھے پہلے کبھی پتا ہی نہیں چلا کہ وہ صوفی مذہب میں کس قدر پختہ ہیں یا انکے عقائد کس قدر حق سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ایک مرتبہ میں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ صوفیوں کے نزدیک انبیاء اور انکے مخالفین دونوں حق پر تھے۔بس انکے راستے اور طریقے جدا تھے لیکن منزل ایک ہی تھی یعنی رب کی رضا کا حصول۔اگر نبی اللہ کی عبادت کرکے اللہ کو پانے کی سعی کرتا تھا تو انکی مخالف قوم بھی بتوں کی اسی غرض سے عبادت کرتی تھی چونکہ صوفیوں کے نزدیک ہر ذرے اور ہر شے میں خدا حلول کئے ہوئے ہے اس لئے وہ بت کی نہیں بلکہ بت میں موجود اللہ کی عبادت کرتے تھے اس طرح نبی اور اسکی باغی قوم میں در حقیقت کوئی اختلاف نہیں تھا۔میری گفتگو سننے کے بعدوالد نے خاموشی اختیار کی جس پر مجھے افسوس بھی ہوا اور انکی گمراہ کن سوچ کا اندازہ بھی جبکہ مجھے امید تھی کہ اتنی سنگین بات سننے کے بعد وہ اس کی تردید کرینگے یا کوئی تاویل کریں گے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہواجس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس بات کو درست جانتے تھے۔

ہم نے کبھی اپنے والد کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور جب کبھی والدہ ان کے نماز نہ پڑھنے کی شکایت کرتی تھیں تو ہماری دادی اپنے بیٹے کے دفاع میں فرماتی تھیں کہ اسے نماز پڑھنے کے لئے نہ کہو اور نہ ہی یہ اعتراض کرو کیونکہ تمھیں نہیں معلوم کہ یہ کون سی نماز پڑھتا ہے۔یہ تو ہر وقت نماز میں رہتا ہے۔مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہماری دادی جنھیں ہم اماں کہتے تھے کا یہ ’’فرمان عالی شان‘‘صوفیانہ تعلیمات کے عین مطابق تھاچناچہ دادی اور والد کے مشترک مرشد اپنی تصنیف ’’اسرار معرفت‘‘میں اس بابت مولانا رومی کے ایک شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: پانچ وقت کی نماز عوام کے لئے مقرر ہوئی ہے ۔مگر عاشقوں کے لئے نہیں، ان کے لئے صلوٰۃ دائمون ہے۔(صفحہ 342) اب بڑھاپے میں آکر والد نے والدہ کے بہت اصرار اور مجبور کرنے پر نماز شروع کی ہے لیکن آج بھی وہ نماز کو ضروری نہیں سمجھتے۔

دوران بحث اپنی بات منوانے کے لئے یا پھر دینی اور دنیاوی گفتگو کرتے ہوئے اپنی بات میں وزن پید اکرنے کے لئے والد محترم کاپسندیدہ طریقہ کار یہ تھا کہ فوراً اپنی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ لگا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ حضوؐر نے فرمایا ہے یا کہ ایساحدیث میں آیا ہے۔یہ جملے ہمیشہ انکی نوک زبان پر رہتے تھے۔میں انہیں بتاتا کہ بغیر علم کے کسی بات کی نسبت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بہت بھاری ذمہ داری ہے جس کا انجام جہنم میں یقینی ٹھکانا بھی ہوسکتا ہے۔جب وہ میری تنبیہات پر بھی اپنی روش سے باز نہ آئے تو میں نے ان سے حدیث کے حوالے مانگنا اور ان کے اس طرح کے فرضی دعووں کی تردید کرنا شروع کردی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش نہ کرسکنے کے خوف سے انہوں نے کم ازکم میرے سامنے ایسے جملوں سے اجتناب کرنا شروع کردیا۔

صوفیاء کے ہاں بیوی بچے ایک وبال بلکہ بوجھ ہیں جس سے چھٹکارا پانا صرف خوش نصیبوں کا کام ہے۔چناچہ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں والد صاحب کو بھی یہ بوجھ سر سے اتارنے کا شوق چرایا تھا اور وہ اپنے بال بچوں اور گھربار کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر کہیں چلے جانا چاہتے تھے ایک دن اسی مقصد سے انہوں نے اپنا بوریا بستر باندھاتاہم جب گھر والوں کو انکے اس’’ نیک ارادے‘‘ کا علم ہوا تو گھر میں ایک طرح کی صف ماتم بچھ گئی ۔والد محترم ایک فرض شناس اور انتہائی ذمہ دار شوہر اور باپ تھے چناچہ گھر والوں کے رونے دھونے اور ان کے والدین کے سمجھانے بجھانے پر بڑی مشکل سے اپنے ارادے سے باز آئے۔مقام شکر ہے کہ بعد میں پھر کبھی انہیں دنیا تیاگ دینے کا خیال نہیں آیا۔

چونکہ میرے قبول مسلک کے پیچھے کسی شخص کی ذاتی کوشش و کاوش نہیں تھی اس لئے میں یکدم اہل حدیث نہیں ہوا بلکہ بدتدریج اور آہستہ آہستہ اہل حدیث ہوا۔تحقیق و مطالعہ کے نتیجہ میں تھوڑے تھوڑے دن بعد ایک مسئلہ معلوم ہوتا اور میں ہر نئے مسئلہ کے انکشاف پر یہ سمجھتا کہ میرے علم میں آنے والا یہ آخری مسئلہ تھا اب میرا تحقیقی سفر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے لیکن پھر کچھ دن گزرتے ایک اور نیا مسئلہ سامنے موجود ہوتا اور حیرت ہوتی کہ یہ مسئلہ بھی غلط تھا گویا حیرتوں اور انکشافات کاایک طوفان تھا جو کسی صورت تھمنے میں نہیں آتا تھااس لئے حیرانگی کا یہ سفر طویل عرصہ جاری رہا اور میں ہر نیا مسئلہ علم میں آنے پراپنا عقیدہ اور عمل سابقہ مسئلہ کو ترک کرکے معلوم شدہ صحیح مسئلہ کے مطابق ڈھالتا رہا۔آخر کار مجھ پر انکشاف ہوا کہ قبل پیدائش سے لے کر بعد وفات تک قریب قریب ہر مسئلہ میں اہل حدیث اوراحناف میں اختلاف واقع ہوا ہے جس میں ہرمسئلہ میں اہل حدیث حق پر ہیں۔الحمدللہ

باطل سے حق تک پہنچنے کے اس سفر میں میری چھوٹی بہن پہلے دن سے میرے ہمقدم رہی ۔جونہی میرے کسی سابقہ عقیدہ کی درستگی ہوتی یا غلط مسئلہ سے صحیح مسئلہ تک پہنچتا تو میں اپنی وہ تحقیق فوراً اپنی بہن کو بتاتا اور وہ امنا و صدقنا کی تصویر بنی میرے ہر بیان کو تسلیم کرلیتی اور ساتھ ہی وہ معلومات اپنی دوقریبی دوستوں جو کہ ہماری محلے دار بھی تھیں کو بتا کر انہیں بھی اس سفر میں شامل کرلیتی ۔یوں اپنے اس تحقیقی سفر میں،میں تنہا نہیں تھا بلکہ اس میں میری بہن اور اسکی دو عزیزترین سہیلیاں بھی ہر لمحہ شریک سفر تھیں۔یہ چارلوگوں کا مختصر قافلہ تھا جس کا امیر میں تھا۔اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ جب کسی مسئلہ پر میری تحقیق بدلتی تو ان تینوں کی بھی بدل جاتی ۔بارہا ایسا ہوا کہ میں نے سابقہ مسئلہ کو چھوڑا تو ان تینوں نے بھی چھوڑ دیا اور جب کسی مسئلہ پر مجھے معلوم ہوا کہ میری پچھلی تحقیق غلط تھی پھر میں نے اس سے رجوع کیا تو بغیر کسی اعتراض و سوال کے ان تینوں نے بھی رجوع کرلیا۔حالانکہ اس دوران میری بہن اور اسکی سہیلیاں ایک دیوبندی مدرسہ میں زیر تعلیم تھیں۔وہ مجھ سے مسائل سن کر اپنی استانی سے بھی سوال و جواب کرلیتی تھیں۔جیسے انہوں نے عورتوں کے الگ طریقہ نماز اور سجدہ میں کتے کی طرح بازو بچھانے کی ممانعت سے متعلق احادیث اپنی استانی کے سامنے رکھیں اور انکے غیر مطمئن اور غیر تسلی بخش جواب سے انہیں میری فراہم کردہ معلومات کے حق اور صحیح ہونے کا یقین ہوا۔انہوں نے وہ معلومات مدرسہ کی دیگر ساتھیوں تک بھی پہنچانے کی کوشش کی لیکن وقت گزرنے پر جب مجھے اور میرے ساتھ ان کو علم ہوا کہ دیوبندیوں کا تقریباً ہر مسئلہ ہی غلط ہے تومیری بہن اور اسکی سہیلیوں نے مدرسہ چھوڑ دیا۔

اس علمی اور دینی سفر میں میرے زیر رہنمائی ہر دن و ہر لمحہ میری بہن تو میرے ساتھ تھی ہی لیکن اسکے ساتھ ساتھ مجھے جب بھی موقع ملتا میں اپنے جاننے والوں اور دوستوں کو بھی اپنی نئی دریافتوں میں شامل کرتا رہتا تھا۔میری سوچ ایسی نہیں تھی کہ جب میری تحقیق مکمل ہوجائے گی اور جب میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ کراپنی منزل مقصود کو پالوں گا تب دوسروں کو دعوت دوں گا۔یہ ایک غیرصحتمندانہ سوچ ہے جیسا کہ بعض الناس کسی بھی نیک کام کے لئے خود سے ایک معیار مقرر کرکے رک جاتے ہیں اور نہ پھر وہ معیار حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی نیکی کی توفیق ہوتی ہے۔ ہمارے دفتر کے ایک ساتھی جو ادھیڑ عمر اور نمازی تھے۔دفتر میں کام کرنے والے ان کے دوست اکثر بیشتر انہیں داڑھی رکھنے کی ترغیب دیتے رہتے تھے جس پر ان کا جواب یہ ہوتا تھا کہ میں نے ایک مخصوص معیار طے کیا ہے جب میں اس معیار پر پورا اتروں گا تو میں داڑھی رکھ لوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میں کوئی بری حرکت کروں اور لوگ میری داڑھی کو نشانے پر رکھ لیں اور کہیں کہ دیکھو داڑھی رکھ کر فلاں یہ حرکت کرتا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میں داڑھی اس وقت رکھوں جب میں تقویٰ کے ایک بہتر معیار تک پہنچ جاؤں۔بظاہر تو ان کی سوچ اچھی تھی لیکن نیکی سے روکنے کے لئے یہ ایک شیطانی تلبیس ہے ۔انسان ایک نیکی کرنے کی ہمت کرتا ہے تو اللہ اس میں برکت ڈالتے ہوئے اسے دوسری نیکی کی بھی توفیق دیتا ہے۔بہرحال میں ایسی سوچ کا حامل نہیں تھا اس لئے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے کر چلنے کو کوشش کررہا تھا۔

اسی دعوتی سلسلے کے تحت دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے میرے ایک بہت ہی قریبی اور پیارے دوست کے سامنے میں نے بہشتی زیور کے کچھ خلاف عقل و شرع مسائل کا تذکرہ کیا تو اسے یقین نہ آیا کیونکہ بہشتی زیور اسکے زیر مطالعہ رہ چکی تھی۔تاہم جب میں نے اصل بہشتی زیورسے ان مسائل کی نشاندہی کی تو اسے بہت حیرت ہوئی۔اس نے کہا کہ میں یہ سارے مسائل پڑھ چکا ہوں لیکن مجھے دوران مطالعہ ان میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی کیونکہ میں نے عقیدت کی نظر سے انہیں پڑھا تھا ۔اب تنقیدی نظر ڈالنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو بالکل ہی غلط ہیں۔موقع غنیمت جانتے ہوئے میں نے دیگر اختلافی مسائل بھی اس کے گوش گزار کئے جنھیں سن کر وہ کافی پریشان رہا۔پھر اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ مجھے دیوبندیوں کے مشہور و معروف مدرسہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے دارلافتاء لے گیا ۔وہاں موجود مفتی صاحب کے سامنے میں نے اپنے دوست کی موجودگی میں نمازکے کچھ مسائل رکھے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں انکے جوابات طلب کئے اور ان کے خاطر خواہ جواب نہ دینے پر ان سے معمولی بحث کی اور وہاں سے چلے آئے۔تاہم وہاں جانے کا میر ا جو مقصد تھا وہ پورا ہوگیا تھاکیونکہ میرا دوست اپنے مذہب کی کمزوری اور بلادلیل ہونے پر قائل ہوگیا تھا۔اس دوران وہ اپنی معاشی سرگرمیوں میں مصرو ف ہوگیا اور کافی عرصہ میری اس سے ملاقات نہ ہوئی ۔اس غیر حاضری میں مجھے یقین تھا میری جب اس سے بالمشافہ ملاقات ہوگی تو مجھے اس کے اہل حدیث ہونے کا مژدہ سننے کو ملے گا میں یہ خوشخبری سننے کا منتظر تھا اور مجھے یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔لیکن جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو اسکے خیالات جان کر سارے خواب چکناچور ہوگئے کہ وہ اس دوران دیوبندی مسلک سے متنفر ہونے کے بعد کافی حد تک انکار حدیث کی طرف مائل ہوچکا تھااس کے کسی دوست نے احادیث کے متعلق شکوک شبہات کا زہر اس کے کانوں میں انڈیل دیا تھا جو کانوں سے ہوتا ہوا سکے دل میں اترگیا تھا۔ہرچندکہ میں نے اسے زبانی طور پر سمجھانے کی بہت کوشش کی اور اپنے تئیں اسکے اشکالات بھی دور کرنے کی سعی کی اور اسکے ساتھ عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’آئینہ پروزیت‘‘ بھی مطالعہ کے لئے دی لیکن اسکے اشکالات مرغے کی ایک ٹانگ کی طرح اپنی جگہ موجود رہے۔میں نے محسوس کیا کہ وہ اس موضوع پر زیادہ بات کرنے کوتیار نہیں ہے۔پھر اس نے اپنی رہائش ہی دوسرے علاقے میں منتقل کرلی یوں یہ باب بند ہوگیا۔مجھے اپنے اس دوست کا غیرمعقول اشکالات کا شکار ہوکر فتنہ انکار حدیث سے متاثرہوجانے کا مجھے بہت دکھ اور افسوس تھااور میں اسکا سبب سمجھنے سے قاصر تھا کیونکہ میرا یہ دوست انتہائی ذہین فطین اور سلیم الفطرت طبع کا مالک تھا۔ضد ،غصہ،انااور جھگڑے کا اس کی طبیعت میں شائبہ تک نہیں تھا۔ عام طور پر یہی وہ چند صفات ہیں جو قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں لیکن خوش قسمتی سے میرا یہ دوست ان بری صفات سے متصف نہیں تھا یعنی کافی معقول ،شریف اور ہر دلعزیز شخص تھا ہر چیز کو مثبت طور پر لینے کا عادی تھا۔ اس کے بارے میں مجھے سو فیصد یقین تھا کہ دیوبندیت کی طرح جب اس پر نظریہ انکار حدیث کا بطلان واضح ہوگا تو وہ اسے چھوڑ کر حق و صواب کی طرف لپکے گا۔لیکن میری توقعات کے برعکس وہ سمجھانے بجھانے کے باوجود عقل و فہم سے عاری مسلک انکار حدیث سے چپکا بیٹھا رہا اور کسی عقل کو بات کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوا۔اس صورتحال سے میرااس بات پر یقین مزید پختہ ہوا کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کا فعل ہے ۔بظاہر کوئی شخص کتنا ہی عقل والا کیوں نہ ہو اگر اسکی ہدایت کا فیصلہ اللہ رب العالمین نے نہیں کیا تو اسکی عقل پر بھی پتھر پڑ جاتے ہیں اور وہ آسان اور واضح بات کو بھی سمجھنے کے قابل نہیں رہتا۔

میرے رب کا مجھ پر رحم وکرم دیکھئے کہ اس نے گمراہی کا سبب بننے والے لوازمات کو مجھ سے دور کئے رکھا جبکہ وہ میرے آس پاس ہی تھے چناچہ شعوری طور پر مسلک اہل حدیث کو اختیار کرنے کے بعد میری نظر سے امین اوکاڑوی کی بعض تحریریں گزریں جنہیں پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اگر دوران تحقیق میں امین اوکاڑوی کی کتابیں یا تحریرں دیکھ لیتا تو شاید میں کبھی بھی اہل حدیث نہ ہوتا اور دیوبندی مذہب کی جانب دوبارہ لوٹ جاتا۔اختلافی مسائل میں فریقین کا نقطہ نظر جاننے کے لئے میں دیوبندی،بریلوی اور اہل حدیث کے مکتبہ جات سے کتابیں خرید کر پڑھتا تھایا پھر اس مقصد کی خاطر انٹرنیٹ سے استفادہ کرتا تھا اور ان تمام جگہوں پر ہی امین اوکاڑوی کی تصنیفات باآسانی دستیاب تھیں۔اللہ تعالیٰ کی مددمیرے شامل حال تھی کہ ایسی کوئی بھی کتاب میری دسترس میں نہیں آئی اور یہ میرے حق میں بالکل درست تھاکیونکہ ہر تحریر اور کتاب پڑھنے کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ وقت ہی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کتاب پڑھنے والے کے لئے گمراہی کا باعث بنتی ہے یاپھر ہدایت کا۔اگرچہ امین اوکاڑوی کی کتابیں وہی تھیں لیکن اگر میں شروع میں انہیں پڑھ لیتا توشاید میری ہدایت میں رکاوٹ بن جاتیں اور بعد میں پڑھیں تو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ دیوبندیت کا بطلان اور واضح ہوگیا کیونکہ پہلے میرے پاس وہ مطلوبہ علم نہیں تھا جس کی کسوٹی پر پرکھ کر ان تحریروں کا جھوٹ پکڑ سکتا۔اس بات سے اندازہ کرلیں کہ امین اوکاڑوی کی تحریریں کیسے کیسے مغالطوں اور مکروفریب سے پر ہیں۔ایک دیوبندی کے توسط سے یہ بات میرے علم میں آئی کہ کتنے ہی دیوبندیوں کو جو اہل حدیث مسلک کی طرف مائل ہورہے تھے امین اوکاڑوی کی تحریریں اور کتابیں دکھاا ور پڑھا کر اہل حدیث ہوجانے سے روکا گیا ہے۔اس خاص مقصد کے لئے اوکاڑوی کی کتابیں انتہائی کارگر ثابت ہوئی ہیں۔اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ بروقت اور باقاعدہ امین اوکاڑوی کی تمام تحریروں کا موثر اور مدلل جواب دیا جاتا لیکن افسوس کہ علمائے اہل حدیث نے اس جانب التفات نہیں کیا۔ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے اس ضرورت کا ادراک کیا اور اوکاڑوی صاحب کی مغالطہ انگریز اور پر فریب تحریروں کے تعاقب کا باقاعدہ ایک سلسلہ شروع کیا جو انکی زندگی کی بے وفائی کے سبب پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
کاش کہ کوئی امت کا درد دل رکھنے والا اس جانب بھی توجہ دے کیونکہ امین اوکاڑوی کی زہریلی کتابیں نئے اور کچے اہل حدیثوں بطور خاص ایسوں کے لئے جو دیوبندی مذہب کو خیربادکہہ کر جماعت اہل حدیث میں آئے ہیں انتہائی مہلک اور خطرناک ہیں۔

میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ میں اپنی ذاتی تگ ودوکی بنیاد پر اہل حدیث ہوا تھاجبکہ کسی بھی اہل علم کی راہنمائی مجھے میسر نہیں تھی۔جہاں اس بات کے کچھ فوائد ہیں تو بعض نقصانات بھی ہیں۔مجھے جو اس کا نقصان اٹھانا پڑا وہ انتہاپسندی کا مرض تھا۔ یہاں میں ایک مثال کے ذریعہ اپنی انتہا پسندی کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جسے انتہاء پسندی سے زیادہ بے اعتدالی کہنا زیادہ درست ہے جس کا شاخسانہ بلاشبہ کم علمی یا لاعلمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔اس کا ذکر مضمون کے آخر میں راقم الحروف نے تفصیل سے کیا ہے۔جیسا کہ میں نے سطور بالا میں ذکر کیا کہ مذہبی اختلاف پر میرا دل اپنے والد کی جانب سے بہت برا ہوگیا تھااوریہ باہمی اختلاف رفتہ رفتہ نفرت اور بعض کی شکل اختیار کرگیا تھا۔جب میں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی کہ : (َا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآءَ ھُمْ اَوْ اَبْنَآءَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُم) جو لوگ خدا پر اور روزقیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہیں دیکھوگے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔(سورہ المجادلۃ:۲۲)
تو والد کے خلاف دل میں سر اٹھانے والی نفرت اس قدر شدت اختیار کرگئی کہ ان سے کلام کرنا تو بڑی بات انہیں دیکھنا تک مجھے گوارا نہ تھا۔تھوڑا وقت گزرنے کے ساتھ والد تو مجھ سے ہم کلام ہونے کی کوشش کرتے تھے لیکن میں انکی کسی بات کا جواب نہیں دیتا تھا حتی کہ ان کا مجھے مخاطب کرنا بھی مجھے آگ بگولہ کردیتا تھا۔ میرے رویے میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کو گھر کے دیگر افراد نے فوراً ہی نوٹ کرلیا اور مجھے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ میرا رویہ اپنے والد سے غیرمناسب ہے۔ اسی دوران میرے علم میں قرآن کی یہ آیت آئی کہ : ( وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا) ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود)کو شریک ٹھہرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔(سورہ العنکبوت: ۸) اسکے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ قرآن کے ایک حکم پر عمل کرتے کرتے میرے ہاتھ سے اعتدال کا دامن چھوٹ گیا تھا اور اس معاملے میں ،میں کچھ زیادہ ہی متشدد ہوگیا تھا جبکہ مشرک والدین سے حسن سلوک بھی قرآن ہی کا حکم ہے۔میں اپنی کم علمی کی بدولت قرآن کا حکم ومنشاسمجھنے میں ناکام رہااور علماء کی جانب رجوع کے بغیر ہی بزعم خویش فیصلہ کر بیٹھا کہ میں نے جو قرآن کی آیت سے سمجھا ہے وہی درست ہے اور میں حکم خداوندی پر عمل کرکے اپنے رب کو راضی کررہا ہوں جبکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد جب میں نے اپنے رویے کو درست کرنے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ بے خبری میں اس نفرت کو میں اپنے رگ و پے میں اتار چکا ہوں اوراب یہ میری فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔اس لئے میرا دل و دماغ اس نئی تبدیلی کے لئے ہرگز تیار نہ تھا چناچہ مجھے اپنے ہی مزاج کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا بالآخر مسلسل جدوجہد کے بعد حالات اوراپنے رویہ کو معمول پر لانے کے لئے مجھے طویل عرصہ لگا۔
حسن اتفاق دیکھئے کہ میں اس بے اعتدالی میں تنہا نہیں تھا بلکہ مسلک اہل حدیث کا ہر دوسرا شخص خصوصاً نووارداہل حدیث مجھے اسی راہ کا مسافر نظر آیا جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اہل حدیثوں کے طریقہ کار میں کوئی تو نقص ایسا ہے جو لوگوں کو اعتدال کی ڈگر سے ہٹا دیتا ہے۔اس کی مزید ایک مثال پیش خدمت ہے۔ہمارے ایک اہل حدیث بھائی جو مجھ سے چند سال قبل دیوبندیت چھوڑ کر داخل مسلک اہل حدیث ہوئے تھے وہ بھی قرآن کی سورہ مجادلہ کی آیت نمبر22 کو لے کر اتنے متشدد ہوئے کہ اہل حدیث ہونے کے بعد اپنے مشرک والدین سے عملاً قطع تعلق کرلیا ۔یہاں تک کہ ایک ہی گھر میں سکونت پذیر ہوتے ہوئے بھی سلام و کلام تک ترک کردیا۔وہ اپنی والدہ کے ہاتھ کے پکے ہونے کھانے کے بجائے ہوٹل کے کھانے کو ترجیح دیتے تھے کہ شایدان کے نزدیک مشرک کے کھانے میں بھی شرک کی آمیزش ہوتی ہے؟! موصوف نے گھر والوں سے ناراض ہوکر گھر بار بھی چھوڑ دیا تھا اور کافی دن تک امام مسجد کے مہمان بن کرمسجد میں رہائش پذیر رہے ۔ انہوں نے شروع شروع میں اپنے والدین کو تبلیغ کرنے اور شرک سے بچانے کی کوشش کی لیکن والدین کے نہ ماننے پر ان سے ہر طرح کا تعلق منقطع کردیا۔اگرچہ میں نے اور مجھ سے پہلے بھی لوگوں نے انہیں بہیترا سمجھانے کی کوشش کی کہ بھائی چاہے آپ کے والدین مشرک ہیں لیکن پھر بھی ان سے مکمل قطع تعلق شریعت کے خلاف ہے اور آپ اس معاملہ میں سخت غلطی پر ہیں لیکن وہ بضد تھے کہ انہوں نے قرآن کی آیت اور اکا دکا کتابیں پڑھ کر جو سمجھا ہے وہی درست ہے۔ وہ اپنی انہی حرکتوں کے باعث پورے محلہ اور علاقے میں بدنام ہوچکے تھے پھر اس پر سونے پہ سہاگا یہ کہ ان کے والدکا انتقال ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کراپنے والد کے نماز جنازہ میں شرکت سے انکار کردیا کہ میرا باپ مشرک تھا ۔ان بھائی کی سابقہ شہرت کے باعث یہ بات جنگل کی آگ کی طرح علاقے بھر میں پھیل گئی ۔اگرچہ انہوں نے اپنے والد کو غسل دیا تھا،میت کو کاندھا دینے کے علاوہ قبرستان بھی گئے تھے اور تدفین میں بھی شامل تھے لیکن مشرک کی نماز جنازہ پڑھنے کی شریعت میں ممانعت کے باعث والد کا صرف جنازہ نہیں پڑھا تھا۔لیکن بریلویوں کو یہ بات کون سمجھائے انہیں تو کچھ بھی یاد نہیں تھا سوائے اس بات کہ ایک اہل حدیث نے اپنے باپ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ان کے ہاتھ تو اہل حدیث کو بدنام کرنے کا ایک نادر موقع ہاتھ آگیاتھا جسے انہوں نے خوب کیش کروایا۔ان اہل حدیث بھائی کے عمل کا یہ حوالہ اس قدر زبان زد عام ہوا کہ میں جب بھی گھر میں تبلیغ کی کوشش کرتا تو میری بات سننے کے بجائے مجھے یہ طعنہ سننے کو ملتا کہ انکے فرقے کے لوگ تو باپ کے مرنے پر اس کا جنازہ تک نہیں پڑھتے تو ان انتہاء پسند لوگوں کی دعوت کیسے درست ہوسکتی ہے؟ پھر مجھ سے بھی یہ سوال کیا جاتا کہ کیونکہ تمہارے نزدیک بھی تمہارا باپ مشرک ہے تو کیا تم بھی ان کے مرنے پر ان کا جنازہ نہیں پڑھوگے؟ یہ سوال میری دکھتی رگ تھا جس پر میں خاموشی ہی بہتر سمجھتا تھا کیونکہ میں اس سوال کا جواب دے کر گھروالوں کو قبل از وقت اپنے خلاف نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آئے روز مجھے اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور بالخصوص میرے چھوٹے بھائی کی سوئی تو اسی ایک سوال پر ہمیشہ اٹکی رہتی تھی۔جواب نہ دینے کے باوجود بھی مجھے انسانیت سے عاری لوگ،غالی فرقہ ،متشدد اور گمراہ جماعت جیسے طنزیہ کلمات سننے کو ملتے تھے۔

جب میری دادی کا انتقال ہوا تومیں سخت دباؤ میں تھا کیونکہ انکے شرک پر خاتمے کے سبب میں ہرگز انکی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن سب کی نظریں مجھ پر تھیں کہ یہ اپنے دوست کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مشرک کا نماز جنازہ پڑھتا ہے یا نہیں۔اس نازک موقع پر مصلحت سے کام لینے یا جارحانہ انداز اپنانے سے متعلق میرے وجود میں کشمکش جاری تھی بالآخر میں نے اس لڑائی میں جارحانہ انداز اپنا کر سب کو اپنی جانب متوجہ کرنے سے گریزکا فیصلہ کیا اور نماز جنازہ میں بغیر نماز کی نیت سے محض لوگوں کو دکھانے کی غرض سے شرکت کرلی۔مجھے اس وقت یہی درست لگاوگرنہ مجھ پر ہمیشہ کے لئے ٹھپہ لگ جاتا اور زندگی بھر خاندان اور گھر والوں کے طنز و تشنیع کاسامنا رہتا اور میری تبلیغ بھی غیر موثر ہوکر رہ جاتی کیونکہ کوئی میری بات سنتا ہی نہیں ۔میں دین کی بات کرنے لگتا تو میری بات کاٹ کر مجھ سے دادی کے نماز جنازہ میں شرکت نہ کرنے کا سبب دریافت کیا جاتا اور میرا ہر عذر ناقابل قبول ٹھہرتا اور انہیں انکی خواہش کے عین مطابق اس بہانے کے ذریعے حق بات سننے سے فرار کا موقع مل جاتا۔
اندازہ کریں کہ اس اہل حدیث بھائی کی ناقص فہمی اور اس پر ڈھٹائی نے اہل حدیثوں کو کتنا نقصان پہنچایا ۔اگر وہ اللہ کے حکم کے مطابق اپنے مشرک والدین سے اچھا سلوک کرتے ان کے حقوق جو شریعت نے اولاد پر عائد کئے ہیں انہیں پورا کرتے اور پھر اپنے والد کی نمازجنازہ میں لوگوں کو شریعت کا حکم بتا کر شریک نہ ہوتے تو ہرگز علاقے میں اتنے بدنام نہ ہوتے اور نہ لوگوں کو بات کا بتنگڑ بنانے کا موقع ہاتھ آتا۔لیکن موصوف خود بھی بدنام ہوئے اور اپنی غلط حکمت عملی اور غلط کاریوں کی وجہ سے دیگر اہل حدیثوں کی دعوت کی راہ میں بھی مشکلات کھڑی کردیں۔دعا ہے اللہ ان جذباتی اہل حدیثوں کو ہدایت دے کہ یہ کسی بھی موقع پر اپنے فہم پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے علماء سے رجوع کریں کیونکہ قلت علم کے ہوتے ہوئے اپنے فہم پر بھروسہ کرنا ’’نیم ملا خطرہ ایمان‘‘ جیسے محاورے کے مترادف ہے۔

ان اہل حدیث بھائی سے آئے دن کی ملاقاتوں اور گفتگو کے نتیجہ میں، بہت سوچ و بچار اور غوروفکر کے بعد انکی شدت پسندی کا سبب مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنے محدود مطالعہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور علماء سے رجوع کو کسرشان سمجھتے ہیں۔ اپنے مطالعہ کے نتیجہ میں وہ جو نظریات اور تصورات قائم کرتے ہیں وہ انکے نزدیک اتنے مستند ہوتے ہیں کہ انہیں کسی عالم سے اس بارے میں سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی اور اگر کسی عالم کی رائے انکے خلاف پڑ جائے تو اگر تو وہ انکے مخالف گروپ سے تعلق رکھتا ہو تو وہ مفاد پرست اور حق سے روگردانی کرنے والا قرار پاتا ہے اور اگر وہ عالم ان ہی کے گروپ کا ہو تو اس کی تقلید ان پر واجب نہیں ہوتی۔گروپ کی بات میں نے اس لئے کی کہ ان کا تعلق جمعیت اہل حدیث سندھ سے ہے اور ان کے نزدیک جمیع اہل حدیث میں صرف یہی جماعت حق پر ہے۔ اس جماعت کے حق پر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اسکی اکثریت رکوع کے بعد ہاتھ باندھتی ہے اور انکے نزدیک رکوع کے بعد ہاتھ باندھے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔انکے تشدد کی شدت کی انتہاء یہ ہے کہ وہ ارسال الیدین بعدالرکوع والے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے کیونکہ بقول ان کے وہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کی ثابت شدہ اور واضح سنت کا تارک ہے۔ راقم السطور نے کئی بار ان سے پوچھا کہ آپ اپنے مخالف کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں یا نہیں؟ لیکن اس سوال پر انہوں نے ہمیشہ خاموشی اختیار کی اور بات کو ٹال گئے۔لیکن میرا غالب گمان یہی ہے کہ وہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے والے امام کو مسلما ن بھی نہیں سمجھتے کیونکہ اس کا جرم ان کے نزدیک صرف سنت کا ترک ہی نہیں بلکہ وہ ایک سنت کو سنت ماننے سے بھی انکاری ہے یعنی دوہرے اور سنگین جرم کا مرتکب ہے۔حالانکہ انہی کی جماعت کے علماء بشمول عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ وضع الیدین و ارسال الیدین بعد الرکوع کو ایک اجتہادی مسئلہ قرار دے چکے ہیں ۔لیکن ان خودساختہ مفتیوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہ کسی صورت بھی اس مسئلہ کواجتہادی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ان کے نزدیک رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا صریح اور صحیح حدیث سے ثابت ہے جس میں چوں چراں کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں اور اس کا مخالف قابل ملامت ہے۔انااللہ واناالیہ راجعون!
ایک مرتبہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا نہ باندھنے کے مسئلہ پر میری ان سے بحث ہوگئی اور بحث طول پکڑ گئی ۔بحث کے دوران میں نے کہہ دیا ’’اللہ کی قسم رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا سنت نہیں ہے۔‘‘ اس بات کو انہوں نے اتنا سنجیدہ لیا کہ میری اس گستاخی پر مجھ سے ہمیشہ کے لئے قطع تعلق کرلیا ان کا کہنا تھا کہ ایک صریح اور واضح سنت کے بارے میں یہ جملہ ناقابل معافی ہے۔بعد میں، میں ان سے بات کرنے اور صلح کرنے کی اپنی کوشش کرتا رہا لیکن وہ کسی صورت راضی نہ ہوئے بالآخر میں نے مشترکہ دوستوں کو صلح صفائی کے لئے بیچ میں ڈالا اور ان سے اس جملہ کے لئے معافی مانگی پھر کہیں جاکر تعلقات بحال ہوئے۔

سچ ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے چناچہ جب حق کی جانب میرے سفر کا آغاز ہوا تو ہدایت کے تمام لوازمات میرے اردگرد ہی موجود تھے لیکن موجود ہوتے ہوئے بھی میرے لئے غیر موجود تھے کیونکہ مجھے ان تک رسائی حاصل نہ تھی۔ جب میں اہل حدیث ہوگیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں جس دفتر میں جن لوگوں کے ساتھ سالہا سال سے کام کررہا ہوں ان میں ایک باپ اور بیٹا خاندانی اہل حدیث ہیں۔لیکن اس پورے عرصے میں جب میں حق کی تلاش میں سرگرداں تھا انھوں نے میری کوئی رہنمائی نہیں کی ۔بلکہ مذہب پر میں نے ان دونوں کو کبھی کسی سے گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔اگر مجھے پہلے ان کے اہل حدیث ہونے کا علم ہوجاتا تو میری تلاش کا سفر قدرے بلکہ بہت آسان ہوجاتا اور ان دونوں حضرات ہی سے مجھے اپنے تمام سوالوں کے جوابات دستیاب ہو جاتے۔لیکن چونکہ قدرت کی جانب سے میرے اس سفر میں ان دونوں کا کوئی کردار یا حصہ نہ تھا اور نہ ہی تلاش حق کے اس سفر کو اتنا سہل ہونا تھا اس لئے انکی مذہبی حیثیت مجھ پر مخفی رہی اور اہل حدیث ہوجانے کے بعد میرے علم میں یہ بات آئی۔اسی طرح اہل حدیث کی مساجد بھی جگہ جگہ موجود تھیں جہاں سے سچ تک رسائی حاصل کی جاسکتی تھی لیکن قبل از وقت یہ مساجد نظر ہی نہیں آئیں کہ شاید آنکھوں کے آگے پردہ پڑا ہواتھا ۔اہل حدیث مکتبہ جات بھی میرے آس پاس تھے لیکن ایک عرصہ تک میں چاہ کر بھی ان میں قدم نہ رکھ سکا ایک جھجک تھی جو میرے قدم روک لیتی تھی۔اہل حدیث علماء کا بھی کوئی اتا پتا نہ تھا اور نہ ہی انکے بارے میں معلومات دستیاب ہو رہی تھیں کیونکہ ابھی تلاش حق کا سفر جس پر میں تن تنہا چل رہا تھا ختم نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ طے شدہ وقت آیا تھاجس کا قدرت نے پہلے ہی سے میرے لئے فیصلہ کر رکھاتھا۔پھر جب وہ وقت آیا تو تمام چیزیں یقدم یوں میرے سامنے آشکار ہوگئیں جیسے اپنے طے شدہ مقررہ وقت کی منتظر تھیں۔پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اپنے دفتری ساتھیوں کی مدد حاصل کرپاتا جبکہ ان کی مدد میرے مقدر میں لکھی ہی نہیں تھی البتہ یہ سعادت مجھے ضرور حاصل ہونے والی تھی کہ میں کسی اہل حدیث کو اسکے مذہب سے متعارف کرواتا لہٰذا اپنے اہل حدیث ہونے کے بعد میں نے اس اہل حدیث بیٹے کوجس کا نام عتیق تھا اور جو میرا دوست بھی تھا بتایا کہ بھائی آپ اہل حدیث ہو اور اہل حدیث کے یہ مسائل اور یہ امتیازات ہیں۔ عتیق کو صرف یہ پتا تھا کہ ہم اس طرح نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن اس طرح یعنی رفع الیدین سے نماز کیوں پڑھتے ہیں یہ علم نہیں تھا ۔اس میں ظاہر ہے ان کے والد کا بہت زیادہ قصور تھا کیونکہ ایک مرتبہ جب میری عتیق کے والد سے مذہب پر بات ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اختلافی مسائل میں ہر طرف احادیث موجود ہیں جو احادیث احناف کو ملیں انھوں نے اس پر عمل کر لیا اور جو اہل حدیث کو ملیں اس پر وہ عمل کرتے ہیں مطلب کہ حنفی اور اہل حدیث دونوں عامل بالحدیث ہیں۔ان کی ان فضول اور جاہلانہ سوچ پر مجھے بہت افسوس ہوا۔میں نے دل میں سوچا کہ اگر حقیقت یہی ہوتی تو مجھے کیا ضرورت تھی کہ دیوبندیت چھوڑ کر اہل حدیث ہوتا اور اتنی مخالفتیں مول لیتا۔اللہ ان خاندانی اہل حدیثوں کو ہدایت دے کہ یہی لوگ دیوبندیوں حتی کے بریلویوں کے پیچھے بھی نماز ادا کرتے ہیں۔اور مسلک اہل حدیث کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اگر ان بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے تو اہل حدیثوں کو اپنی مساجد الگ بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

مضمون کے آخر میں ،میں خود پر گزرنے والی اس کیفیت کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جس سے کم و بیش تمام نوواردلوگ ہی گزرتے ہیں ۔اس حالت میں درست راہنمائی نہ ملنے یا درست راہنمائی مل جانے پر اسے قبول نہ کرنے کی صورت میں صراط مستقیم سے بھٹک جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ہر شخص کو اس میں غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عبرت اور سبق دونوں سے لبریز ہے۔مجھ پر دینداری کے دو ادوار گزرے ہیں ایک نہایت کم عمری میں جب میں مذاہب و مسالک اور فرقوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتاتھا اور جانے انجانے میں اپنے گھر والوں کے مسلک پر تھا۔دوسرا دور اہل حدیث ہونے کے بعد کا ابتدائی دور ہے میں ان دونوں ادواروں میں ایک مسئلہ کا بری طرح شکار رہااور یہ مسئلہ بے اعتدالی کا تھا۔اعتدال ایک مشکل چیز ہے چناچہ جب میں کم عمری میں اورپھر اہل حدیث ہونے کے بعد نیا نیا دیندار ہوا تو اپنی کم علمی اورکسی راہنمایا علماء کی صحبت دستیاب نہ ہونے کے سبب ہر معاملے میں افراط وتفریط کا شکار ہوجاتا تھا۔شروع شروع میں جب مجھے معلوم ہوا کہ تجسس کرنا درست نہیں تو میں نے تجسس پر ایسا قابو پایا کہ میری طبیعت سے تجسس ہی ختم ہوگیا۔میری اس حالت کا اس ایک مثال سے اندازہ کرلیں کہ لڑکپن میں جب میرے دوست احباب مجھے دوسرے شہروں اور ملکوں سے خطوط لکھتے تھے تو خطوط موصول ہونے کے بھ ی کئی کئی دن بعد میں انہیں کھولتا تھا۔میری اس حرکت پر میرے قریبی دوست اور گھر والے حیرت زدہ ہوتے تھے کہ وہ تو اپنے نام خط حاصل ہونے کے بعد ایک لمحہ کا انتظار نہیں کرسکتے اور خط کھول کر فوراً پڑھ لیتے ہیں اور میں کیسے کسی بے چینی میں مبتلا ہوئے بغیر یہ ناقابل یقین کا م سرانجام دے پاتا ہوں۔ابتدا میں تو تجسس پر قابو پانا مجھے بہت مشکل معلوم ہوا لیکن مسلسل مشق کے ذریعہ تجسس سے بے پرواہی میرے مزاج کا حصہ بن گئی۔بہت دیر بعد جب میرے علم میں اضافہ ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی جس حدیث(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تجسس نہ کرو) میں،میں نے تجسس کی مذمت پڑھی تھی وہ خاص معنوں میں تھی اور اسکا تعلق بھی خاص حالات سے تھا۔جیسے بغیر اجازت کسی کی باتیں سننا ،کسی کے رازاور عیبوں کی ٹوہ لینا اوربلا ضرورت دوسروں کے معاملات اورحالات جاننے کے تجسس میں مبتلا ہونااور اس کے لئے کوشش کرناوغیرہ۔جبکہ اپنی جہالت میں میں نے اس سے مطلق تجسس کی نفی مراد لی اور اس کیفیت ہی سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔جبکہ تجسس ایک ایسی انسانی کیفیت ہے جو ناجائز یا بری نہیں بلکہ اسکا غلط استعمال منع ہے۔یہ تھا نتیجہ اپنی ناقص عقل اور کم علمی پر بھروسہ کرنے کا۔
اسی طرح جب میں نے ان احادیث کا مطالعہ کیا جن میں غصہ پی جانے کی فضیلت بیان کی گئی تھی اور اس شیطانی کیفیت پر قابو پانے کی ترغیب دی گئی تھی تو میں نے اپنے غصہ پر ایسی مشق کی کہ مزاج سے غصہ کا عنصر ہی غائب ہوگیا۔پھر بعض مواقع ایسے بھی آئے کہ جہاں غصہ نہ آنے پر مجھے غصہ آیا۔یعنی کچھ واقعات ایسے رونما ہوئے جن پر ہر غیرت مند انسان کو غصہ آتا ہے اور مزاج برہم نہ ہونے کی صورت میں اسکی غیرت پر سوالیہ نشان قائم ہوجاتا ہے ۔لیکن مجھے ایسے مواقع پر بھی غصہ نہ آنے کی وجہ سے اپنی ہی ذات کے سامنے سخت شرمندگی سے دوچار ہونا پڑاپھر میں نے اپنے مزاج کے خلاف کوشش کرکے غصہ کا اظہارکیا۔اور مجھے شدت سے احساس ہوا کہ اپنی کم فہمی کی بنا پر میں نے غصہ سے مکمل طور پر دامن چھڑا کر سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔جبکہ ایک معتدل آدمی کی شخصیت میں غصہ کے عنصرکا موجود ہونا ضروری ہے اور اعتدال یہ ہے کہ جہاں ضرورت ہو اسکا استعمال و اظہار کیا جائے اور جہاں ضرورت نہ ہو غصہ پر ضبط کیا جائے۔اللہ نے انسان کی فطرت میں جو کیفیات رکھی ہیں نہ تو ان کا خاتمہ درست ہے اور نہ ہی انکا حد سے متجاوز استعمال درست ہے بلکہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اپنانا لازمی و ناگزیر ہے۔
اس کے بعد جب میں نے احادیث میں قہقہہ لگانے اور کثرت سے ہنسنے کی ممانعت پڑھی تو ایک مرتبہ پھر میں پٹری سے اتر گیا اور ہنسنا ایسے چھوڑ دیا کہ میں واقعتا ہنسنا بھول گیا۔پہلے میں آواز کے ساتھ ہنستا تھا لیکن پھر مجھے وہ کیفیت یاد ہی نہیں رہی حتی کہ میں نے بعد میں کوشش بھی کہ میں وہ ہنسنا یاد کروں لیکن کوشش کے باوجود اس پر قادر نہ ہوسکا کیونکہ میں آواز کے ساتھ ہنسنا بھول گیا تھا ۔اگر بات یہیں تک محدود ہوتی تو پھر بھی غنیمت تھا لیکن میں اس معاملہ میں ایک مرتبہ پھر ایسا تفریط کا شکار ہوا کہ بلاآواز ہنسنا تو دور کی بات میں نے مسکرانا تک چھوڑ دیا اور میں ہروقت غمگین صورت بنائے رکھتا تھا میں نے اداسی کو خود پر طاری کر لیا تھا۔اس غم و اداسی نے آہستہ آہستہ میرے وجود میں سرایت کرنا شروع کردیا تھا اس سے پہلے کہ یہ میری عادت ثانیہ بن جاتی۔بھلا ہو میرے دفتری ساتھیوں کا جنھوں نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھے روکنا اور ٹوکنا شروع کیا اورمیری توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ خوش ہونا اور خوشی کا اظہار کرنا بھی اسلام میں ہے اور تمام وقت رونے والا منہ بنائے رکھنا غلط اور اعتدال کے خلاف ہے۔
پھر جب مطالعہ کے نتیجہ میں مجھے معلوم ہوا کہ غیرمحرم کی جانب جان بوجھ کر دیکھنا گناہ ہے تو میں نے نظریں اٹھانا ہی چھوڑ دیں۔راستہ چلتے کے علاوہ آفس میں بھی اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے زیادہ تر میری نظریں جھکی ہی رہتی تھیں مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں اس دنیا میں موجود ہوتے ہوئے بھی دنیا میں موجود نہیں ہوں کیونکہ میں نے گفتگو کرتے ہوئے بھی نظریں چار ہونے کے ڈر سے مخاطب کی جانب دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔میں اپنی جانب سے اسلام کے احکامات پر عمل کررہا تھا لیکن میری کم عقلی اور اپنے ادھورے علم پرمیرا بھروسہ مجھے کسی اور ہی سمت میں لے جارہے تھے۔کیونکہ میں نے عورتوں کے ساتھ مردوں کو دیکھنا بھی ترک کردیا تھا۔ اخبارات و رسائل دیکھنا بھی چھوڑ دئیے تھے کہ مبادا کسی غیر محرم کی تصویر پر نظر ہی نہ پڑجائے۔ہر ایسی مفید اور غیرمفید کتاب سے منہ موڑ لیا تھا جس میں کسی انسانی تصویر کے پائے جانے کا امکان ہوسکتا تھا۔گھر میں باقاعدہ میں ٹیلی وژن سے پردہ کرتا تھا اگرکسی ضروری کام سے اس کمرہ میں داخل ہونا پڑتایا اس کمرہ سے گزرنا پڑتاجس میں ٹیلی وژن تھاتو میں اپنی آنکھوں پر اپنے ہاتھوں سے آڑ بنا لیتا تھا تاکہ غلطی سے بھی میری نظر ٹیلی وژن پر نہ پڑے اور تصاویر ہی کے سبب گھر میں موجود درسی کتب بھی کھول کر نہیں دیکھتا تھا جبکہ اس سے پہلے میں اپنے بہن بھائیوں کی درسی کتابوں کابھی کبھی کبھی مطالعہ کرلیتا تھا۔ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ انسانی تصاویر کے ساتھ میں نے جانوروں کی تصاویر دیکھنے سے بھی پرہیز کرنا شروع کردیا تھا۔گھر والے اکثر اوقات میر اتمسخر اڑاتے اور ازراہ مذاق ملنے جلنے والوں کوبتاتے کہ ہمارا لڑکا ٹیلی وژن سے پردہ کرتا ہے۔بیان کردہ ان واقعات سے باآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کم علمی کتنی خطرناک چیز ہے کہ انسان بجائے فائدہ حاصل کرنے کے الٹا نقصان اٹھاتا ہے۔کم علمی کے اسی نقصان کے پیش نظر نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملاں خطرہ ایمان جیسی کہاوت معرض وجود میں آئی ہے۔ اسکے علاوہ علماء کی صحبت اختیار نہ کرنا اور ان سے راہنمائی لینے کے بجائے اپنی ناقص عقل و سمجھ پر بھروسہ کرنا کسی بڑی گمراہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔اسی تناظر میں مجھے جماعت اہل حدیث سے یہ بڑی شکایت ہے کہ اس جماعت میں نئے داخل ہونے والے لوگوں کو قرآن وحدیث براہ راست سمجھنے کی ترغیب تو دی جاتی ہے لیکن ان کی درست راہنمائی نہیں کی جاتی اور انہیں اس سلسلے میں کسی حدود و قیود سے آگاہ نہیں کیا جاتایہ نہیں بتایا جاتا کہ ذاتی مطالعہ کے نتیجے میں انہیں قرآن وحدیث سے جو کچھ سمجھ میں آئے اس کا سلف صالحین کے فہم سے موازنہ ضروری ہے۔خصوصاً فہم سلف سے ٹکراؤ کی صورت میں ایسے خیالات کا ترک کرنا ضروری ہے ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے ۔جماعت کی اسی غلط روش کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہر اہل حدیث مفتی بنا پھرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خود ساختہ اور بے علم مفتیوں کی جس قدر تعداد جماعت اہل حدیث میں پائی جاتی ہے اس کا عشر عشیر بھی دیگر فرقوں میں نظر نہیں آتا۔پھر مسند افتاء پر بیٹھے یہ بناوٹی مفتیان ایسے ہیں کہ اپنی فہم و عقل کے آگے بڑے سے بڑے مستند عالم کی بر مبنی کتاب وسنت رائے کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے۔راقم السطور کے مشاہد اور تجربے کے مطابق کم یا زیادہ یہ جراثیم ہر اہل حدیث میں پائے جاتے ہیں۔الاّماشاء اللہ کیونکہ انکی تربیت ہی اس نہج پر ہوتی ہے کہ کسی عالم دین کی رہنمائی کے بغیر قرآن و حدیث کے مطالعہ سے انہیں جو کچھ سمجھ میں آتا ہے وہی ان کے نزدیک حرف آخر اور ناقابل چیلنج ہوتا ہے۔اس کا نتیجہ اکثر جزوی یا مکمل گمراہی کی صور ت میں برآمد ہوتا ہے ۔کتنے ہی اہل حدیثوں کو ہم نے اپنے ذاتی فہم پر بھروسہ کرکے گمراہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
اگرچہ بہت سوں کو علم میں اضافہ کے بعد یہ صحیح بات کہ کتاب وسنت کو فہم سلف کے ذریعہ سمجھنا ہے معلوم ہوجاتی ہے لیکن بعض لوگوں کے لئے کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے اور پانی سر سے گزر گیا ہوتا ہے اگر ابتداء ہی میں ان کی صحیح تربیت کردی جائے تو اکثر کو گمراہی سے بچایا جاسکتا ہے۔
اہل حدیث کے مخالفین بھی ان پر یہ الزام عائد کرتے ہیں جو کہ کسی حدتک درست ہے۔دیوبندیوں کے اکابر مولانا اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں: غیر مقلد اپنی فہم کے ذریعہ حدیث پر عمل کرتے ہیں اور مقلد سلف کے ذریعہ حدیث پر عمل کرتے ہیں اور سلف صالحین کی فہم و عقل و درع و تقویٰ و دیانت و امانت و خشیت و احتیاط ہمارے اور آپ سے زیادہ تھی توبتلاؤ عمل بالحدیث کس کا کامل ہوااہل انصاف خود فیصلہ کریں۔(ہدیہ اہلحدیث،ص238)
ٹھیک ہے نووارد اہل حدیثوں کی براہ راست قرآن و حدیث کے مطالعہ کے لئے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن ساتھ میں انکے پلّو کے ساتھ یہ نصیحت ضرور باندھنی چاہیے کہ مذہب اہل حدیث قرآن وحدیث پر فہم سلف کی روشنی میں چلنے کا نام ہے ناکہ اپنی مرضی اور من مانی کرنے کا نام۔
ایک اور مقام پر اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں: یہ غیرمقلد بڑے مدعی ہیں اجتہاد کے لئے،ہر شخص ان میں سے اپنے کو مجتہد خیال کرتا ہے۔(ہدیہ اہلحدیث،ص210)
ہم اس پر صرف یہ عرض کریں گے کہ
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
ہر عامل بالحدیث کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مسلک اہل حدیث میں کوئی مقلد نہیں ہوتا لیکن اسکے باوجوداہل حدیث میں جو عامی یعنی عوام ہے ان کا اجتہاد محض صحیح عالم کے انتخاب تک محدود ہے ایسا عالم جو انہیں انکے مسائل کا حل قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں بتا سکے۔جیسا کہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اس مسئلہ کی وضاحت میں فرماتے ہیں: مسئلہ پوچھنے کے لئے ایک صحیح عالم دین کی تلاش اور انتخاب ہی عامی کی تحقیق اور اجتہاد ہے۔(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر55،ص3)
ہر شخص کے اجتہاد کرنے کی صلاحیت اسکے علمی مقام و مرتبہ پر منحصر ہے جو جس درجہ کا عالم ہوگا اس کا اجتہاد بھی اسی درجہ کا ہوگا ۔کم علم شخص کے اجتہاد کا دائرہ بھی کم ہوگا جبکہ عامی کے اجتہاد کا دائرہ نہایت مختصر ہوگایعنی صرف ایک اہل حدیث عالم کی تلاش جو اپنی بلا دلیل رائے کے بجائے اسے قرآن و حدیث کی بات بتا سکے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کوئی اپنی حدود سے واقف ہی نہیں اور نہ ہی کوئی راہنما ہے جو انہیں ان کا حدود اربعہ سمجھا سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر کوئی تھوڑا سا علم آجانے پر بے لگام اور بے مہار ہے اور جس کے پاس علم نہیں اسکا بھی حال دوسروں سے چنداں مختلف نہیں۔جبکہ عوام اہل حدیث کا قطعاً یہ منصب نہیں کہ قلیل علم کے ساتھ خود ہی مفتی یا مجتہد مطلق بن بیٹھیں اور علماء کی جانب رجوع سے خود کو مستثنیٰ سمجھنے لگیں۔مگر افسوس کہ یہ بیماری اہل حدیث عوام میں کسی وبائی مرض کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔جماعت اہل حدیث کے ذمہ داران اور علماء کو اس بیماری کے عوامل و اسباب جاننے کی سخت ضرورت ہے تاکہ اس مرض کا علاج اورتدارک کیا جاسکے اورکوئی مناسب لائحہ عمل طے کرکے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مستقبل میں نووارد اہل حدیث کسی ایسی صورتحال سے دوچار نہ ہونے پائیں۔

جب راقم مندرجہ بالا سطور ضبط میں لا رہا تھا تو ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جوہمارے اس زیر بحث موقف کی پرزور تائید کرتا ہے لہٰذا اس سلسلے کے تازہ ترین سانحہ کا یہ فکر انگریزاحوال بھی گوش گزار کرلیں تاکہ اسے پڑھ کر جماعت اہل حدیث کے حلقہ بگوش ہونے والے مبتدی حضرات عبرت پکڑیں ،کچھ نصیحت حاصل کریں اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں اپناقبلہ درست رکھیں۔عرض ہے کہ اورنگی ٹاؤن کراچی کے رہائشی ایک اہل حدیث عالم دین جن کا اسم گرامی عبدالرحیم اشرف رحمانی ہے۔موصوف جامع مسجد عثمانیہ کے خطیب ہیں اور عیدین کی امامت بھی فرماتے ہیں۔راقم الحروف بھی عید کی نماز انہی کے پیچھے پڑھتا ہے ۔یہ عالم صاحب ویسے تو اکثر بیشتر شوشے چھوڑتے رہتے ہیں لیکن لوگ اس پر زیادہ توجہ اس لئے نہیں دیتے کہ ان باتوں کا تعلق عموماًفروعی مسائل سے ہوتا ہے جس میں کسی بھی عالم کی تحقیق مختلف ہوسکتی ہے اور اپنی تحقیق پر کاربند رہنا اور اس پر اصرار کرنا کسی بھی محقق کا بنیادی حق ہے ۔یہاں تک تو بات قابل برداشت تھی لیکن اب معلوم ہواہے کہ ایک نئی تحقیق کے بموجب موصوف قادیانی کو کافر نہیں سمجھتے اور افسوس کا مقام اور لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ اس بے ہودہ تحقیق کی اشاعت میں بھی مصروف عمل ہیں۔اسی سلسلے میں جب ان سے استفسار کیا گیا توموصوف نے اس کا جواب مرحمت فرماتے ہوئے اہل حدیثوں کے علاقائی وٹس اپ گروپ میں آڈیو میسج کے ذریعہ ارشاد کیا:
میں نبی کی حدیث ہی سنا سکتا ہوں اس بات پر،میرے اور آپکے نبی نے فرمایا میری امت کے گروہ ۷۳ ہوں گے ہر ایک اپنے آپ کو حق سمجھتا ہوگا لیکن ان میں سے گروہ ایک ہی حق پر ہوگااور وہ ،وہ ہوگا ماانا علیہ و اصحابی جس پر میں اور میرے صحابہ موجود ہیں،وہ تہترواں ہوگا لیکن اسکے علاوہ جو ۷۲ہوں گے وہ جہنم میں ہونگے وہ غلط راستے پر ہوں گے وہ نبی کے طریقے پر نہیں ہونگے ان میں سے ایک گروہ شیعہ بھی ہیں اور ان میں سے ایک گروہ قادیانی بھی ہیں اور ان میں سے اوربہت سارے اور بھی ہیں جو قبر کو شجر کودرخت کو مزار کو اور تعزیہ کو اور بھی بہت ساری چیزوں کو اپنا حاجت روا سمجھتے ہیں یہ سب مسلمانو ں کے گروہ ہیں جب شیعہ مسلمانوں کا گروہ ہے تو یقیناًپھر قادیانی بھی ہے میرے ناقص علم کے مطابق ،دنیا والے کچھ بھی سوچتے ہیں اورسمجھتے ہیں سوچتے رہیں وہ انکی اپنی سوچ ہے ۔ بس حدیث سےمیں نے یہ سمجھا ہے ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں میری کوئی حیثیت نہیں ہے اور مجھے پتا ہے کہ امت مسلمہ میں بہت ساری اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جنتی ہیں ہم جنت میں جائیں گے اور یہ جو قادیانی ہیں پیدا ہی اس لئے (ہوئے ہیں) کہ جہنم میں جائیں۔تو یہ بھی سوچ غلط ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : انصر اخاک ظالماً او مظلوماً اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو مظلوم ہو صحابہ نے پوچھا اللہ کے نبی مظلوم کی مدد تو سمجھ آتی ہے ظالم کی کیسے کریں؟ فرمایا اس کو ظلم سے روکو یہ اس کی مدد ہے ۔کیا میں اور آپ اورہم سب اپنے ہر غیر سوچ والے اور غیر مذہب اور غیرمسلک والے لوگوں سے ایسی محبت کرتے ہیں ؟ سوال ہے میرا میرے لئے اور آپ کے لئے اللہ مجھے اور آپ کو ہدایت دے اور یقیناًجب آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا تو یقیناًآپ کے سوال کا جواب بھی مل جائے گا جو آپ سوال کر رہے تھے کہ آیا قادیانی مسلمان ہیں یا غیر مسلم ؟ دیکھیں میری کوئی اوقات نہیں ہے نہ آپ کی کہ آپ اور میں کسی کو غیرمسلم کہیں ۔امام مہدی سمجھتے ہیں اپنے بڑے کو غلام احمد قادیانی کو امام مہدی سمجھتے ہیں اور ایسے بہت سارے لوگ ابھی آچکے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ میں امام مہدی ہوں ۔اور آپ یقین جانیں میری بھی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے جن کی نمازیں بڑی لمبی تھیں جن کے روزے بڑے لمبے تھے جن کا تقویٰ بڑا لمبا تھا بڑی عاجزی انکساری تھی ان کے اندر لیکن جب ان کی باتیں سنیں تو بدترین تھے اور میں ایسے لوگوں کو خارجی سمجھتا ہوں وہ خارجی ہیں جو نام نبی کا لیتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں نبی کو یہ انہیں لوگوں میں سے ہیں لیکن پھر بھی ان کے آنے والے لوگوں سے تومحبت کرنی ہے ناں! میں اور آپ محبت کریں گے تو ان کودعوت دیں گے اوراصلاح کریں گے اگر میں اور آپ ان سے نفرت کریں اور ان کو کافرسمجھیں تو یقیناًیہ ہماری بات کبھی نہیں سنیں گے نہ سمجھیں گے ہمیں ان سے محبت کرنی ہے ہمیں ان سے پیار کرنا ہے ہمیں ان کی ان کی اصلاح کرنی ہے ہمیں ان کو دعوت دینی ہے کب تک؟ جب تک یہ زندہ ہیں اور جب تک یہ زندہ ہیں اگر یہ مانتے ہیں تو ان کا فائد ہ ہوگا اور نہیں مانتے تو اللہ نے مجھے اور آپ کو دروغہ نہیں بنایا۔
اس سارے بیان میں ’’ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں‘‘محض بھرتی کااور تکلّفانہ جملہ ہے جسے ڈھکوسلہ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس سارے بیان میں جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اسکے مطابق آپ اپنی ذاتی رائے کو ہی مسلم سمجھتے ہیں جس کی بنیاد بھی ماشاء اللہ بقول آپ کے ’’ناقص علم‘‘ پر ہے جبکہ مخالفین کے بارے میں آپ بے پرواہی سے فرماتے ہیں کہ جس کو جو کچھ سمجھنا ہے سوچنا ہے سوچے کیونکہ میں نے حدیث سے یہی سمجھا ہے۔دراصل یہ جملہ جس گمراہ کن سوچ پر مبنی ہے یہی اہل حدیثوں کی اصل بیماری ہے ۔اگر ہر شخص کا سمجھا ہوا اتنا ہی درست اور مستندہوتا جتنا اشرف رحمانی صاحب اپنی عقل وسمجھ کے بارے میں گمان کئے بیٹھے ہیں توحدیث کے ساتھ ساتھ راویان حدیث خصوصاً صحابہ کی احادیث سے متعلق افہام،آراء اور اقوال امت کو نقل اور محفوظ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اب ان بھولے بادشاہوں کو جن کی مسلک اہل حدیث میں بھرمار ہے کون عقل دے کہ ہمیں حدیث کا فہم بھی انہی سے لینا ہے جنہوں نے وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی اسے یاد رکھا اور ہم تک پہنچایا کیونکہ کسی حدیث کا مطلب اس حدیث کے راوی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔پس اگر ’’میں نے حدیث سے یہی سمجھا ہے‘‘ کو پس پشت ڈال کر صحابہ نے حدیث سے جو سمجھا اسے لے لیا جائے تو خیر ہے وگرنہ پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔پھر جتنے لوگ اتنے فہم ، اتنے ہی فتوے اور اتنے ہی فتنے۔اشرف رحمانی جیسے کم علم اور کم فہم لوگوں کی کرم فرمائیوں کے سبب آج فتنوں کا بازارپوری طرح گرم ہے۔ ایک ہی مسئلہ میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ حالانکہ کم علمی اور کم فہمی کوئی عیب یا نقص نہیں ہے کیونکہ اس کا علاج اللہ رب العالمین نے علماء کی صورت میں مہیا کردیا ہے۔لیکن علماء سے سوال کرے کون ؟ اس میں تو فرد واحد کی شان گھٹتی ہے اس کی علمیت پر سوال کھڑا ہوتا ہے۔یہاں تو خیر سے ہر شخص خود اپنی ذات میں انجمن ہے۔

برسبیل تذکرہ مجھے ایک اور بات یاد آئی جس کا تعلق براہ راست مذکورہ بحث ہی سے ہے لہٰذا میں اس بات کو بھی سپرد قلم کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔دراصل جو بات میں بیان کرنے جا رہا ہوں یہ بھی ایک مرض ہے اوراس مرض کابھی میں ذاتی طوررپر شکار رہاہوں۔چناچہ جب راقم الحروف نیا نیا اہل حدیث ہوا اور تحقیق و مطالعہ کے نتیجہ میں علم بڑھنا شروع ہواتو اس علم کو دوسروں تک منتقل کرنے کا جوش و جذبہ بھی عروج پر تھا یا یوں کہیں کہ علم حاصل کرنے سے زیادہ اسے دوسروں کو بتانے کی عجلت زیادہ تھی۔اور اس پر مستزاد کہ اپنے تھوڑے سے علم کو مکمل علم سمجھنے کی غلطی یا خوش فہمی میں بھی مبتلا تھے۔اس وقت میں اردو مجلس فورم کا ممبر تھا۔جب اردو مجلس پر شرعی مسائل کے سوال و جواب کا نیا سلسلہ شروع ہوا تو جب بھی کوئی سائل وہاں سوال پوچھتا تو عالم سے پہلے ہی میں اور میرے جیسے متبدی جواب دے دیتے تھے پھر بیچارا عالم اپنا علمی جواب داخل کرتا تھا ۔یہ بات ہمیں کسی نے نہیں سمجھائی کہ ابھی ہم فتویٰ نویسی کے اہل نہیں ہیں۔ہماری ان بدتمیزیوں سے تنگ آکر اردو مجلس کی انتظامیہ نے اس سیکشن تک غیر عالم لوگوں کی رسائی بند کردی ۔پھر اس میں صرف سائل سوال ہی کرسکتاتھا جبکہ جواب صرف مستند عالم کو دینے کا حق حاصل تھا۔
بظاہر یہ حرکت معمولی محسوس ہوتی ہے لیکن یہی اس اصل بیماری کا پیش خیمہ ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے۔پہلے عام اہل حدیث علماء سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے اس کے بعد اس کے دل سے اہل علم کا مقام و مرتبہ نکل جاتا ہے اور وہ خود کو ہی ماہر دین سمجھنے لگتا ہے۔یہ بھی ایک مشاہد ہ ہے کہ ہر اہل حدیث ہر شرعی مسئلہ میں گفتگو کرتا پایا جاتا ہے اور اپنی رائے کے خلاف مشکل ہی سے کسی بات کو قبول کرتا ہے ۔ ہر شرعی مسئلہ کے کئی پہلو اور متعدد دلائل ہوتے ہیں جن پر ایک مستند عالم ہی مطلع ہوتا ہے ۔علمائے دین کی جانب رجوع کرنے کے بجائے عوام اہل حدیث کو کسی بھی مسئلہ میں بس تھوڑے سے علم کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بعد وہ اپنے علم اور رائے کے خلاف علما ء کو بھی غلط بتاتے ہوئے کوئی باک محسوس نہیں کرتے جبکہ انہیں ابھی مسائل معلوم ہوئے جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہوتے ہیں جبکہ اہل علم نے ایک طویل عرصہ علم دین سیکھنے میں گزارا ہوتا ہے۔کاش کہ وہ اپنے اور علماء کے درمیان صرف اس ایک فرق کو ہی محسوس اور تسلیم کرلیں تو انہیں خا طر خواہ افاقہ ہو۔

اسی طرح ہمارے علاقہ کی مسجد میں میرے ایک دوست نے وہاں تشریف لانے والے ایک شیخ الحدیث مولانا عبدالوکیل حفظہ اللہ سے میری تعارفی ملاقات کروائی جو بعد ازاں دوستی میں تبدیل ہوگئی بعض مواقع پر جب میں مجلس میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھاتو کسی نے ان سے کوئی شرعی مسئلہ دریافت کیا لیکن ان کے بولنے سے پہلے ہی میں نے سائل کو جواب دے دیا۔ میری مروت اور لحاظ میں شیخ صاحب نے مجھے اس حرکت پر نہیں ٹوکالیکن ایک مرتبہ میری موجودگی میں یہی جسارت کسی اور صاحب نے کی کہ شیخ صاحب سے کسی نے ایک مسئلہ دریافت کیا تو ان صاحب نے دخل در معقولات کرتے ہوئے اس مسئلہ کا جواب دے دیا اور یہ نہ دیکھا کہ سوال ان سے نہیں بلکہ شیخ صاحب سے ہوا تھا ۔اس پر شیخ صاحب نے ان صاحب کو ڈانٹ دیا اور بتایا کہ شرعی سوالات کا جواب دینا علماء کا کام ہے ناکہ ہرکس و ناکس کا۔اس واقعہ سے مجھے بھی اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا اور اپنی گزشتہ حرکتوں پر شرمندگی بھی۔ وہ دن اور آج کا دن پھر اس کے بعد میں نے کبھی اس غلطی کو نہیں دہرایا ۔اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل حدیث کی عوام میں مسائل کے جوابات میں علماء سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے کا مرض بھی ہے اور یہی مرض بڑھتے بڑھتے انہیں مفتی بنا دیتا ہے اور اگر اسکے ساتھ ان کے مزاج میں ہٹ دھرمی اور ’’میں نہ مانوں‘‘ کا عنصربھی موجود ہو تو پھر یہ عادت بڑی گمراہی پر منتج ہوتی ہے۔

اس شکوہ شکایت کے بعد ہم اصل موضوع کے اختتام کی طرف پلٹتے ہیں۔میرے حق کے سفر میں دو باتیں بہت دلچسپ ہیں اور کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی بھی۔

پہلی بات یہ کہ یوسف لدھیانوی صاحب نے جو کتاب یعنی اختلاف امت اور صراط مستقیم لوگوں کوحق سے دور کرنے کے لئے لکھی تھی اسی کتاب کو اللہ نے میری ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ یعنی جس کتاب کو پڑھکر دوسرے لوگ گمراہ ہوئے اسی کتاب کو پڑھکر میں نے حق کو پایا۔

دوسری بات یہ کہ جس دور میں ،میں سخت بے راہ روی کا شکار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میرے گھر والے بھی اذیت میں مبتلا تھے۔اس دور میں میرے والد نے اللہ سے میری ہدایت کے لئے دعائیں کیں۔حدیث میں آتا ہے کہ بیٹے کے حق میں والد کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے۔پس اللہ نے ان کی دعاؤ ں کو قبول کیا اور میں ہدایت پر آگیا یعنی پوری بصیرت سے سچا اور حق مسلک اہل حدیث قبول کرلیا۔میرے والد نے بارہا یہ بات کہی کہ اگر مجھے معلو م ہوتا کہ میری دعا کی قبولیت کی وجہ سے یہ مسلک اہل حدیث قبول کرلے گا۔تو میں کبھی بھی اس کی ہدایت کے لئے دعا نہیں کرتا۔لیکن کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔اللہ جس کی ہدایت کا فیصلہ کرلے اسے کون گمراہ کرسکتا ہے۔ بے شک تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس نے مجھ جیسے سخت گناہگار کو ہدایت دی۔جب میں سدھر گیا تو میرے سابقہ دوست بھی حیران رہ گئے اور میں بھی کہ جس راستے سے میرے رب نے مجھے پلٹا دیا ۔اس راستے سے بہت کم لوگ ہی واپس آتے ہیں کم ازکم میں نے اس راستے سے کسی کو پلٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر اس ایک نعمت کے لئے ہی میں ساری زندگی اپنے رحیم وکریم رب کا شکر ادا کرتارہوں تو بہت کم ہے۔الحمدللہ رب العالمین
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرا یہ نیا مضمون دراصل اس پرانے مضمون http://forum.mohaddis.com/threads/میری-کہانی،-میری-زبانی.6581/ کی اضافہ شدہ شکل ہے۔ دراصل یہاں خضر حیات بھائی نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ اس مضمون پر نظرثانی کریں اور اسے مزید بہتر بنائیں۔ کئی سالوں بعد جب میں نے اس مضمون کو پڑھا تو مجھے ماضی کی بہت سی باتیں یاد آگئیں جو اس وقت یاد نہیں تھیں۔ سابقہ مضمون ان پیج کے سات صفحات پر مشتمل تھا جبکہ اضافے کے ساتھ یہ مضمون بائس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس لئے میں نے مضمون کا عنوان بھی تبدیل کردیا ہے۔ اب یہ پچھلے مضمون سے بہتر ہے یا نہیں اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑتا ہوں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اللہ تعالیٰ علم و عمل میں مزید برکات سے نوازے اور دین حق پر استقامت سے نوازے ۔آمین
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
السلام علیکم خوش آمدید آپ کو کافی عرصے بعد دوبارہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی
 
Top