• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء کی تاریخ

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
وفاء الوفا بأخبار دار المصطفى ---

نورالدین علی بن احمد السمہودی --- گنبد خضراء کی تاریخ

خلاصہ کلام یہ ہے کہ :

تقریباً سات سو سال تک قبر نبوی (ص) پر کوئی عمارت نہیں تھی ، پھر ٦٧٨ ہجری میں منصور بن قلاوون صالحی (بادشاہ مصر) نے کمال احمد بن برہان عبد القوی کے مشورے سے لکڑی کا ایک جنگلہ بنوایا اور اسے حجرے کی چھت پر لگا دیا- اور اس کا نام "قبہ رزاق" پڑ گیا- اس وقت کے علماء ہر چند کہ اس صاحب اقتدار کو نہ روک سکے ، مگر انہوں نے اس کام کو بہت برا سمجھا ، اور جب یہ مشورہ دینے والا کمال احمد معزول کیا گیا تو لوگوں نے اس کی معزولی کو الله کی طرف سے اس کے اس فعل کی پاداش شمار کیا - پھر الملک الناصر حسن بن محمد قلاوون نے اور اس کے بعد ٧٦٥ ہجری میں الملک الاشرف شعبان بن حسین بن محمد نے اس میں تعمیری اضافے کئے ، یہاں تک کہ موجودہ تعمیر وجود میں آئی -

1.jpg
2.jpg




اﷲ کے رسولﷺ کی واضح ممانعت احادیث میں آئی ہے کہ:

"قبر پکی نہ بناؤ ، اس پرکوئی عمارت نہ بناؤ اور نہ اسکی مجاورت کرو۔"

(صحیح مسلم: جلد۲،کتاب الجنائز، صفحہ۳۹۸/جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب کراھیۃ تجصیص قبور والکتبۃ علیھا، صفحہ ۳۸۷ /سنن ابی داؤد:جلد۲، کتاب الجنائز، باب ۶۱۷بناء علی القبر، صفحہ ۵۸۳/سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، ابواب۱۱۲۳الزیادۃ علی القبر،۱۱۲۴ البناء علی القبر،۱۱۲۵ تجصیص القبور، صفحات ۶۵۶، ۶۵۷/سنن ابن ماجہ:جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۴۳ماجاء فی النھی عن البناء علی القبور و تجصیصھا والکتابۃ علیھا، صفحہ ۷۷۴)

آپﷺ نے حکم دیا کہ

"جو تصویر تم کو نظر آئے ، اس کو مٹادو اور جو قبر اونچی ملے ، اسے (زمین کے) برابر کردو ۔"

(صحیح مسلم: جلد۲، کتاب الجنائز، صفحہ ۳۹۷/ جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب تسویۃ القبر، صفحہ ۳۸۶/سنن ابی داؤد: جلد۲ ،کتاب الجنائز،باب۶۱۳ تسویۃ القبر، صفحہ ۵۸۱/ سنن نساء: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۱۱۲۶ تسویۃ القبر اذا رفعت، صفحہ ۶۵۷)

آپ ﷺ نے قبروں کو آراستہ کرکے ان پر عبودیت کے مراسم بجالانے والوں پر لعنت فرمائی:

"اﷲ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر ، جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔"

(صحیح بخاری: جلد۱ ،کتاب الصلوٰۃ، باب۲۹۵﴿الصلوٰۃ فی البیعۃ کے بعد کا باب﴾، صفحہ ۲۶۸نیزکتاب الجنائز، باب۸۸۰ ماجآء فی قبر النبی ﷺ.، صفحہ ۶۰۱/صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ۱۰۳/سنن ابی داو،د: جلد۲، کتاب الجنائز،باب۶۱۷ البناء علی القبر،صفحہ ۵۸۴/ سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۱۱۳۳ اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۶۶۳/ کتاب المساجد، باب ۴۰۹النھی عن اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۲۴۱)

نیزفرمایا کہ:

"یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مرتا تو وہ اس کی قبر پر سجدہ گاہ بنالیتے اور وہاں یہ تصویریں بنادیتے ۔ اﷲ کے نزدیک یہ لوگ تمام مخلوق میں سب سے زیادہ برے ہیں۔ "

(صحیح بخاری: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۸۵۴ بناء المسجد علی القبر، صفحہ ۵۸۰/ کتاب الصلوٰۃ، باب ۲۹۴ الصلوٰۃ فی البیعۃ، صفحہ ۲۶۸/ صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ ۱۰۴، ۱۰۵/سنن نسائی:جلد۱،کتاب المساجد، باب ۴۰۹ النھی عن اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۲۴۱)

آپﷺ نے امت مسلمہ کو اس سے روکا:

"لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ، انہوں نے اپنے انبیاء اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ (عبادت گاہ )بنالیا تھا ۔ سنو ! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا ۔ میں تم کو اس فعل سے منع کرتا ہوں-"

(صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ۱۰۳/ سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۱۱۳۳ اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۶۶۳)

لیکن اپنے اطراف میں نظر ڈالیے ، رسولﷺ کے ماننے والوں کا عمل ان ساری احادیث کے خلاف ملے گا ۔کسی بھی قبرستان میں چلے جائیے ، چند لاوارث قبریں ہی کچی ملیں گی ۔ جن لوگوں کو اولیاء اﷲ اور بزرگ گردانا جاتا ہے ، جنہیں عاشقان رسول کہا جاتا ہے ، فنا فی اﷲ کا درجہ دیا جاتا ہے، انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے کیسا مذاق کیا ہے کہ ان سب کی قبریں پکی ملیں گی ، اور ان پر فن ِتعمیر کے شاہکار ایک سے ایک بَڑ ھیا مزار کی شکل میں نظر آئیں گے ، جنہیں لوگ ''دربار پاک'' اور ''روضہ مبارک'' کہتے ہیں ، جن پر خلقت ہے کہ ٹوٹی پڑتی ہے ۔ کوئی صاحب قبر سے بیٹا مانگتا ہے تو کوئی بیٹی، کوئی اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے التجا کررہا ہے تو کوئی بیماری سے صحت کا خواہاں ہے، کوئی کاروبار میں برکت چاہ رہا ہے تو کوئی روزی میں کشادگی و فراوانی ۔ غرضیکہ ہر طرح کی حاجت براری کے لیے یہاں آکر دہائی دی جاتی ہے۔ بعض لوگ اپنے یہاں آنے کا مقصداس "روضہ اقدس" کی زیارت بتاتے ہیں ۔ زیارت سے متعلق اﷲ کے رسول ﷺکا یہ فرمان ہے:

"لوگو! میں نے تم کو قبروں پر جانے سے منع کردیا تھا ، لیکن اب اجازت دیتا ہوں، کیونکہ قبروں کو دیکھ کر دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی یاد آتی ہے-"

(جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب زیارۃ القبور، صفحہ ۳۸۸/سنن ابن ماجہ: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۴۷ زیارۃ القبور، صفحہ ۷۷۸)

اور اس کام کے لیے ''اولیاء اﷲ'' کی قبریں مخصوص نہیں ، بلکہ مشرک کی قبر کی زیارت کی بھی اجازت ہے ۔ نسائی اور ابن ماجہ نے مشرک کی قبر کی زیارت کا باب باندھا ہے اور اس کے ذیل میں نبی ﷺ کا اپنی ماں کے لیے استغفار کی اجازت چاہنے کا واقعہ نقل کیا ہے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی ا کو اپنی ماں کے لیے مغفرت کی دعا مانگنے کی اجازت نہیں دی مگر قبر کی زیارت کی اجازت دے دی:

"نبی ﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ روئے اور جو لوگ آپ کے گرد تھے ان کو بھی رُلایا۔ پھر فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کروں تو اﷲ نے مجھے اجازت نہ دی۔ اور میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی۔ سو تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت یاد دلاتی ہے-"

(سننن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۱۱۲۸ زیارۃ قبر المشرک، صفحہ ۶۵۸/ سننن ابن ماجہ: جلد۱، کتاب الجنائز،باب زیارۃ قبور المشرکین، صفحہ ۷۷۹- امام مسلم نے بھی اس روایت کو نقل کیاہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں : [صحیح مسلم:جلد۲، کتاب الجنائز، صفحہ ۴۰۲] نبیﷺنے فرمایاکہ میں نے اپنی ماں کے لیے استغفار کرنے کی اپنے رب سے اجازت مانگی تواس نے مجھے اجازت نہیں دی، اور میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت چاہی تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی)

یہاں ایک بات جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرنا ضروری ہے ، جس کا مقصد صرف اور صرف نبیﷺکے صحیح فرمان کو بیان کرنا ہے ، اور کچھ نہیں ، لہٰذا اس کو کوئی غلط رنگ ہرگز نہ دیا جائے ۔ مسلک پرستوں کے نزدیک اﷲ کے رسولﷺ کے والدین کا شمار مومنین میں ہوتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنی کتابوں میں انہیں ''حضرت عبداﷲ'' اور ''حضرت آمنہ'' لکھتے ہیں(حوالے کے لیے عبدالحق دہلوی کی ''مدارج النبوت'' جلد ۲ کے ابتدائی صفحات میں ''حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ اور حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا'' کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے) ۔جبکہ مذکورہ بالا مسلم، نسائی اورابن ماجہ کی روایات بتاتی ہیں کہ اﷲ نے نبی ﷺ کو اپنی والدہ کے لیے دعائے مغفرت کی اجازت نہیں دی، جس پر نبیﷺ رودئیے ، کیونکہ قرآن میں اﷲ نے ایمان والوں کو مشرکین کی دعائے مغفرت سے منع فرمایا ہے:

پیغمبر اور مومنین کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل جہنم ہیں تو ان کے لیے مغفرت مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں -

(التوبہ:١١٣)

غور فرمائیے اگر وہ مومنہ ہوتیں تو دعائے مغفرت کی اجازت ضرور ملتی ، بلکہ اجازت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اسی طرح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا کہ اس کا باپ کہاں ہے ، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جہنم میں ۔ اس پر وہ کچھ ملول ہوئے اور جانے لگے تو آپﷺ نے بلاکر تسلی کے لیے فرمایاکہ اِنَّ اَبِیْ وَ اَبَاکَ فِی النَّار'' بیشک میرا اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں ۔''

(صحیح مسلم:کتاب الایمان، جلد۱، باب بیان ان من مات علی الکفرفھو فی النار ولاتنالہ شفاعۃ ولا تنفعہ قرابۃ المقربین [یعنی اس بات کے بیان کا باب کہ جوکفر پر مرا وہ جہنم میں ہے اور اس کو مقربین کی شفاعت نہ پہنچے گی اور نہ ہی ان کی رشتے داری اسے کچھ فائدہ دیگی] صفحہ۳۴۶)

اﷲ کے رسول ﷺ نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ:

"اے اﷲ ! میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا جو پوجا جائے-"

(مؤطاامام مالک: کتاب الصلوٰۃ، باب جامعۃ الصلوٰۃ، صفحہ ۱۵۰)

اور لوگوں کو تنبیہ فرمائی کہ:

"اس قوم پر اﷲ کا غضب بھڑکتا ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتی ہے-"

(مؤطاامام مالک: کتاب الصلوٰۃ، باب جامعۃ الصلوٰۃ، صفحہ ۱۵۰)

عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی فرمایا کہ:

اﷲ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا

اور اس کے بعد آپ فرماتی ہیں کہ:

"اگر اس بات کا خیال نہ ہوتا تو آپ کی قبر ضرور کھلی جگہ بنائی جاتی (اور حجرے میں نہ ہوتی)، میں ڈرتی ہوں کہیں آپ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے-"

(صحیح بخاری: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۸۴۵ ما یکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، صفحہ ۵۷۶)

مگر افسوس ! صد افسوس کہ جس بات کے اندیشے کے پیشِ نظر قبرِ نبوی ایک بند حجرے میں بنائی گئی تھی وہ بات ہوکر رہی۔ آج اسی نبیﷺ کی امت نے ، ان کی چاہت کا دعویٰ کرنے والے نام نہاد عاشقان نے ان کی قبر کو پوجنا شروع کردیا ہے ۔ اس پر ایک عظیم الشان گنبد تعمیر کردیا ہے جو ان کی آنکھوں کا نور، دل کا سرور، اور نہ جانے کیا کچھ ہے ، جہاں ان کے دعوے کے مطابق فرشتے بھی صلوٰۃ و سلام کے لیے آتے ہیں ، بے چین روحوں کو قرار ، ترستی نگاہوں کو سکون اور تڑپتے دلوں کو راحت ملتی ہے۔ ان کی نعتوں میں کچھ اسی قسم کے مضامین ہوتے ہیں ۔ اس امت کو کیا ہوگیا ہے؟

"اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے ، اوران کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے-"

(البقرۃ : ۷/ النحل: ۱۰۸)

"بلکہ ان کے دلوں کو زنگ لگ گیا ہے-"

(المطففین :۱۴)

ان کو قرآن و حدیث کی صحیح بات بتائی جائے تو گستاخی ٔرسول کہتے ہیں ، حالانکہ گستاخی ٔرسول تو یہ ہے کہ رسول کی بات کے خلاف عمل کیا جائے ، ان کی حکم عدولی اور نافرمانی کی جائے ؛نبی (ص) قبر پر کچھ بھی بنانے سے منع فرمائیں اور انہی کی قبر پر گنبد تعمیر کردیا جائے اور ممنوع فعل کی تاویلیں پیش کی جائیں !

عائشہ (رض) کے حجرے پر کبھی کسی قسم کی کوئی عمارت نہیں بنائی گئی اور نبی ﷺ کے حکم پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ یہ حکم اس وقت توڑا گیا جب ان سچے لوگوں میں سے کوئی بھی باقی نہ رہااور جھوٹے عاشق اور قبر کے پجاری پیدا ہوگئے، اور جن کے اس اقدام کی تائید و تحسین و تعریف میں مسلک پرستوں کے "متبحر" اسلاف و اکابر نے تاویلاتِ باطلہ پیش کرنی شروع کردیں- آج یہ گنبد مرجع ٔ خلائق بنا ہوا ہے ، اس کی تمثیلیں و تصویریں گھروں ، دکانوں ، دفتروں وغیرہ میں برائے "برکت"آویزاں کی جاتی ہیں ، ان کو چوما جاتا ہے ،ان پر ہار پھول اور خوشبو ڈالی جاتی ہے ، اور اسے ثواب سمجھا جاتا ہے-

(مضمون بحوالہ''الخیر'' اگست/ ۱۹۹۱ء، صفحہ۳۰ تا۴۷)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہاں ہمارے ایک بھائی نے یہ اعتراض کیا ہے :
قبرون پر عمارت کا پوچھا ہے ادھر جو مزار بناتا ہے وہابی اس کو مشرک کہے مدینہ والے کیا ہین
گزارش ہے کہ آج بھی علماء قبے بنانے کو جائز نہیں سمجھتے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جو قبہ بنایا گیا ہے ، صدیوں سے علماء نے اس پر نکیر کی ، سعودی علماء کا آج بھی یہی موقف ہے ، اور یہی اہل حدیث کا موقف ہے ، کہ غلط کام غلط ہی ہوتا ہے ، چاہے جہاں مرضی ہو ۔ قبروں پر قبے بنانا بدعت اور ان کی پوجا کرنا شرک ہے ۔
لیکن اس کو گرایا اس وجہ سے نہیں جاتا ، کیونکہ اس سے فتنے کا خدشہ ہے ، اور فتنہ کے خدشہ سے کسی کام کو چاہتے ہوئے بھی نہ کرنا ، یہ بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
تفصیل یہاں دیکھ لیں ۔
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
مولوی مجھے تو چکر باز لگتا ہے ادھر جو فتنہ کھڑا کیا ہے ہاتھ ادھر باندھو ادھر باندھو کا یہ اس سے بڑا مسئلہ ہے
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
یہ بتا اس قبہ کو ہٹانے کا کس نے کہا حدیث لکھ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ بتا اس قبہ کو ہٹانے کا کس نے کہا حدیث لکھ
اﷲ کے رسولﷺ کی واضح ممانعت احادیث میں آئی ہے کہ:
"قبر پکی نہ بناؤ ، اس پرکوئی عمارت نہ بناؤ اور نہ اسکی مجاورت کرو۔"
(صحیح مسلم: جلد۲،کتاب الجنائز، صفحہ۳۹۸/جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب کراھیۃ تجصیص قبور والکتبۃ علیھا، صفحہ ۳۸۷ /سنن ابی داؤد:جلد۲، کتاب الجنائز، باب ۶۱۷بناء علی القبر، صفحہ ۵۸۳/سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، ابواب۱۱۲۳الزیادۃ علی القبر،۱۱۲۴ البناء علی القبر،۱۱۲۵ تجصیص القبور، صفحات ۶۵۶، ۶۵۷/سنن ابن ماجہ:جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۴۳ماجاء فی النھی عن البناء علی القبور و تجصیصھا والکتابۃ علیھا، صفحہ ۷۷۴)
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
ہمارے آقا علیہ السلاما تو حجرہ امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں راحت فرما ہوئے تھے عمارت پہلے سے تھی لولی الٹائن نے جھوٹ لکھا
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
مولوی خضر حیات حدیث کو سمجھا بھی کرو عمارت بنانے کی بات ہے اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جہاں راحت فرما ہیں وہ پہلے سے بنی ہوئی تھی سمجھ آئی کچھ آتا جاتا کچھ نہیں مولوی بنا پھرتا ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ہمارے آقا علیہ السلاما تو حجرہ امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں راحت فرما ہوئے تھے عمارت پہلے سے تھی لولی الٹائن نے جھوٹ لکھا
مولوی خضر حیات حدیث کو سمجھا بھی کرو عمارت بنانے کی بات ہے اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جہاں راحت فرما ہیں وہ پہلے سے بنی ہوئی تھی سمجھ آئی کچھ آتا جاتا کچھ نہیں مولوی بنا پھرتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہوئی ، اور حجرہ سے مراد گھر کے اندر وہ جگہ ہے ، جس پر چھت نہیں تھی ، اور پھر جو اوپر قبہ بنایاگیا ہے ، یہ تو صدیوں بعد کی بات ہے ، جو سراسر خلاف سنت ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جب تدفین عمل میں آئی ، نہ قبر کے اوپر کوئی کمرہ تھا ، اور نہ ہی کوئی قبہ ۔

اور ایک گزارش ہے کہ اس قدر سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے ، آپ آداب گفتگو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنا نقطہ نظر لکھتے رہیں ، ہم اپنی بات بیان کرتے رہتے ہیں ، جو طریقہ کار آپ اپنا رہے ہیں ، اسی طرح رہے تو آپ فورم پر زیادہ دیر نہیں رہ سکیں گے ۔
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
امی عائشہ جہاں رہتی تھیں اس گھر پر چھت نہیں تھی سردی میں بارش میں کیا کرتے ہوں گے
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
جناب جی یہ کیسا حجرہ تھا جس کی نہ دیوار نہ چھت
لولی الٹائم کہے کہ سات سو سال تک عمارت نہ تھی
جب عمارت بننے لگی اس وقت کوئی اللہ کا بندہ نہ اٹھا سب کو سانپ سونگھ گیا ہوگا
بننے ہی نہ دیتے
 
Top