lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
وفاء الوفا بأخبار دار المصطفى ---
خلاصہ کلام یہ ہے کہ :
تقریباً سات سو سال تک قبر نبوی (ص) پر کوئی عمارت نہیں تھی ، پھر ٦٧٨ ہجری میں منصور بن قلاوون صالحی (بادشاہ مصر) نے کمال احمد بن برہان عبد القوی کے مشورے سے لکڑی کا ایک جنگلہ بنوایا اور اسے حجرے کی چھت پر لگا دیا- اور اس کا نام "قبہ رزاق" پڑ گیا- اس وقت کے علماء ہر چند کہ اس صاحب اقتدار کو نہ روک سکے ، مگر انہوں نے اس کام کو بہت برا سمجھا ، اور جب یہ مشورہ دینے والا کمال احمد معزول کیا گیا تو لوگوں نے اس کی معزولی کو الله کی طرف سے اس کے اس فعل کی پاداش شمار کیا - پھر الملک الناصر حسن بن محمد قلاوون نے اور اس کے بعد ٧٦٥ ہجری میں الملک الاشرف شعبان بن حسین بن محمد نے اس میں تعمیری اضافے کئے ، یہاں تک کہ موجودہ تعمیر وجود میں آئی -
اﷲ کے رسولﷺ کی واضح ممانعت احادیث میں آئی ہے کہ:
"قبر پکی نہ بناؤ ، اس پرکوئی عمارت نہ بناؤ اور نہ اسکی مجاورت کرو۔"
(صحیح مسلم: جلد۲،کتاب الجنائز، صفحہ۳۹۸/جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب کراھیۃ تجصیص قبور والکتبۃ علیھا، صفحہ ۳۸۷ /سنن ابی داؤد:جلد۲، کتاب الجنائز، باب ۶۱۷بناء علی القبر، صفحہ ۵۸۳/سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، ابواب۱۱۲۳الزیادۃ علی القبر،۱۱۲۴ البناء علی القبر،۱۱۲۵ تجصیص القبور، صفحات ۶۵۶، ۶۵۷/سنن ابن ماجہ:جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۴۳ماجاء فی النھی عن البناء علی القبور و تجصیصھا والکتابۃ علیھا، صفحہ ۷۷۴)
آپﷺ نے حکم دیا کہ
"جو تصویر تم کو نظر آئے ، اس کو مٹادو اور جو قبر اونچی ملے ، اسے (زمین کے) برابر کردو ۔"
(صحیح مسلم: جلد۲، کتاب الجنائز، صفحہ ۳۹۷/ جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب تسویۃ القبر، صفحہ ۳۸۶/سنن ابی داؤد: جلد۲ ،کتاب الجنائز،باب۶۱۳ تسویۃ القبر، صفحہ ۵۸۱/ سنن نساء: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۱۱۲۶ تسویۃ القبر اذا رفعت، صفحہ ۶۵۷)
آپ ﷺ نے قبروں کو آراستہ کرکے ان پر عبودیت کے مراسم بجالانے والوں پر لعنت فرمائی:
"اﷲ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر ، جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔"
(صحیح بخاری: جلد۱ ،کتاب الصلوٰۃ، باب۲۹۵﴿الصلوٰۃ فی البیعۃ کے بعد کا باب﴾، صفحہ ۲۶۸نیزکتاب الجنائز، باب۸۸۰ ماجآء فی قبر النبی ﷺ.، صفحہ ۶۰۱/صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ۱۰۳/سنن ابی داو،د: جلد۲، کتاب الجنائز،باب۶۱۷ البناء علی القبر،صفحہ ۵۸۴/ سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۱۱۳۳ اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۶۶۳/ کتاب المساجد، باب ۴۰۹النھی عن اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۲۴۱)
نیزفرمایا کہ:
"یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مرتا تو وہ اس کی قبر پر سجدہ گاہ بنالیتے اور وہاں یہ تصویریں بنادیتے ۔ اﷲ کے نزدیک یہ لوگ تمام مخلوق میں سب سے زیادہ برے ہیں۔ "
(صحیح بخاری: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۸۵۴ بناء المسجد علی القبر، صفحہ ۵۸۰/ کتاب الصلوٰۃ، باب ۲۹۴ الصلوٰۃ فی البیعۃ، صفحہ ۲۶۸/ صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ ۱۰۴، ۱۰۵/سنن نسائی:جلد۱،کتاب المساجد، باب ۴۰۹ النھی عن اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۲۴۱)
آپﷺ نے امت مسلمہ کو اس سے روکا:
"لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ، انہوں نے اپنے انبیاء اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ (عبادت گاہ )بنالیا تھا ۔ سنو ! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا ۔ میں تم کو اس فعل سے منع کرتا ہوں-"
(صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ۱۰۳/ سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۱۱۳۳ اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۶۶۳)
لیکن اپنے اطراف میں نظر ڈالیے ، رسولﷺ کے ماننے والوں کا عمل ان ساری احادیث کے خلاف ملے گا ۔کسی بھی قبرستان میں چلے جائیے ، چند لاوارث قبریں ہی کچی ملیں گی ۔ جن لوگوں کو اولیاء اﷲ اور بزرگ گردانا جاتا ہے ، جنہیں عاشقان رسول کہا جاتا ہے ، فنا فی اﷲ کا درجہ دیا جاتا ہے، انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے کیسا مذاق کیا ہے کہ ان سب کی قبریں پکی ملیں گی ، اور ان پر فن ِتعمیر کے شاہکار ایک سے ایک بَڑ ھیا مزار کی شکل میں نظر آئیں گے ، جنہیں لوگ ''دربار پاک'' اور ''روضہ مبارک'' کہتے ہیں ، جن پر خلقت ہے کہ ٹوٹی پڑتی ہے ۔ کوئی صاحب قبر سے بیٹا مانگتا ہے تو کوئی بیٹی، کوئی اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے التجا کررہا ہے تو کوئی بیماری سے صحت کا خواہاں ہے، کوئی کاروبار میں برکت چاہ رہا ہے تو کوئی روزی میں کشادگی و فراوانی ۔ غرضیکہ ہر طرح کی حاجت براری کے لیے یہاں آکر دہائی دی جاتی ہے۔ بعض لوگ اپنے یہاں آنے کا مقصداس "روضہ اقدس" کی زیارت بتاتے ہیں ۔ زیارت سے متعلق اﷲ کے رسول ﷺکا یہ فرمان ہے:
"لوگو! میں نے تم کو قبروں پر جانے سے منع کردیا تھا ، لیکن اب اجازت دیتا ہوں، کیونکہ قبروں کو دیکھ کر دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی یاد آتی ہے-"
(جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب زیارۃ القبور، صفحہ ۳۸۸/سنن ابن ماجہ: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۴۷ زیارۃ القبور، صفحہ ۷۷۸)
اور اس کام کے لیے ''اولیاء اﷲ'' کی قبریں مخصوص نہیں ، بلکہ مشرک کی قبر کی زیارت کی بھی اجازت ہے ۔ نسائی اور ابن ماجہ نے مشرک کی قبر کی زیارت کا باب باندھا ہے اور اس کے ذیل میں نبی ﷺ کا اپنی ماں کے لیے استغفار کی اجازت چاہنے کا واقعہ نقل کیا ہے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی ا کو اپنی ماں کے لیے مغفرت کی دعا مانگنے کی اجازت نہیں دی مگر قبر کی زیارت کی اجازت دے دی:
"نبی ﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ روئے اور جو لوگ آپ کے گرد تھے ان کو بھی رُلایا۔ پھر فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کروں تو اﷲ نے مجھے اجازت نہ دی۔ اور میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی۔ سو تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت یاد دلاتی ہے-"
(سننن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۱۱۲۸ زیارۃ قبر المشرک، صفحہ ۶۵۸/ سننن ابن ماجہ: جلد۱، کتاب الجنائز،باب زیارۃ قبور المشرکین، صفحہ ۷۷۹- امام مسلم نے بھی اس روایت کو نقل کیاہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں : [صحیح مسلم:جلد۲، کتاب الجنائز، صفحہ ۴۰۲] نبیﷺنے فرمایاکہ میں نے اپنی ماں کے لیے استغفار کرنے کی اپنے رب سے اجازت مانگی تواس نے مجھے اجازت نہیں دی، اور میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت چاہی تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی)
یہاں ایک بات جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرنا ضروری ہے ، جس کا مقصد صرف اور صرف نبیﷺکے صحیح فرمان کو بیان کرنا ہے ، اور کچھ نہیں ، لہٰذا اس کو کوئی غلط رنگ ہرگز نہ دیا جائے ۔ مسلک پرستوں کے نزدیک اﷲ کے رسولﷺ کے والدین کا شمار مومنین میں ہوتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنی کتابوں میں انہیں ''حضرت عبداﷲ'' اور ''حضرت آمنہ'' لکھتے ہیں(حوالے کے لیے عبدالحق دہلوی کی ''مدارج النبوت'' جلد ۲ کے ابتدائی صفحات میں ''حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ اور حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا'' کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے) ۔جبکہ مذکورہ بالا مسلم، نسائی اورابن ماجہ کی روایات بتاتی ہیں کہ اﷲ نے نبی ﷺ کو اپنی والدہ کے لیے دعائے مغفرت کی اجازت نہیں دی، جس پر نبیﷺ رودئیے ، کیونکہ قرآن میں اﷲ نے ایمان والوں کو مشرکین کی دعائے مغفرت سے منع فرمایا ہے:
پیغمبر اور مومنین کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل جہنم ہیں تو ان کے لیے مغفرت مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں -
(التوبہ:١١٣)
غور فرمائیے اگر وہ مومنہ ہوتیں تو دعائے مغفرت کی اجازت ضرور ملتی ، بلکہ اجازت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اسی طرح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا کہ اس کا باپ کہاں ہے ، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جہنم میں ۔ اس پر وہ کچھ ملول ہوئے اور جانے لگے تو آپﷺ نے بلاکر تسلی کے لیے فرمایاکہ اِنَّ اَبِیْ وَ اَبَاکَ فِی النَّار'' بیشک میرا اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں ۔''
(صحیح مسلم:کتاب الایمان، جلد۱، باب بیان ان من مات علی الکفرفھو فی النار ولاتنالہ شفاعۃ ولا تنفعہ قرابۃ المقربین [یعنی اس بات کے بیان کا باب کہ جوکفر پر مرا وہ جہنم میں ہے اور اس کو مقربین کی شفاعت نہ پہنچے گی اور نہ ہی ان کی رشتے داری اسے کچھ فائدہ دیگی] صفحہ۳۴۶)
اﷲ کے رسول ﷺ نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ:
"اے اﷲ ! میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا جو پوجا جائے-"
(مؤطاامام مالک: کتاب الصلوٰۃ، باب جامعۃ الصلوٰۃ، صفحہ ۱۵۰)
اور لوگوں کو تنبیہ فرمائی کہ:
"اس قوم پر اﷲ کا غضب بھڑکتا ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتی ہے-"
(مؤطاامام مالک: کتاب الصلوٰۃ، باب جامعۃ الصلوٰۃ، صفحہ ۱۵۰)
عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی فرمایا کہ:
اﷲ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا
اور اس کے بعد آپ فرماتی ہیں کہ:
"اگر اس بات کا خیال نہ ہوتا تو آپ کی قبر ضرور کھلی جگہ بنائی جاتی (اور حجرے میں نہ ہوتی)، میں ڈرتی ہوں کہیں آپ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے-"
(صحیح بخاری: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۸۴۵ ما یکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، صفحہ ۵۷۶)
مگر افسوس ! صد افسوس کہ جس بات کے اندیشے کے پیشِ نظر قبرِ نبوی ایک بند حجرے میں بنائی گئی تھی وہ بات ہوکر رہی۔ آج اسی نبیﷺ کی امت نے ، ان کی چاہت کا دعویٰ کرنے والے نام نہاد عاشقان نے ان کی قبر کو پوجنا شروع کردیا ہے ۔ اس پر ایک عظیم الشان گنبد تعمیر کردیا ہے جو ان کی آنکھوں کا نور، دل کا سرور، اور نہ جانے کیا کچھ ہے ، جہاں ان کے دعوے کے مطابق فرشتے بھی صلوٰۃ و سلام کے لیے آتے ہیں ، بے چین روحوں کو قرار ، ترستی نگاہوں کو سکون اور تڑپتے دلوں کو راحت ملتی ہے۔ ان کی نعتوں میں کچھ اسی قسم کے مضامین ہوتے ہیں ۔ اس امت کو کیا ہوگیا ہے؟
"اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے ، اوران کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے-"
(البقرۃ : ۷/ النحل: ۱۰۸)
"بلکہ ان کے دلوں کو زنگ لگ گیا ہے-"
(المطففین :۱۴)
ان کو قرآن و حدیث کی صحیح بات بتائی جائے تو گستاخی ٔرسول کہتے ہیں ، حالانکہ گستاخی ٔرسول تو یہ ہے کہ رسول کی بات کے خلاف عمل کیا جائے ، ان کی حکم عدولی اور نافرمانی کی جائے ؛نبی (ص) قبر پر کچھ بھی بنانے سے منع فرمائیں اور انہی کی قبر پر گنبد تعمیر کردیا جائے اور ممنوع فعل کی تاویلیں پیش کی جائیں !
عائشہ (رض) کے حجرے پر کبھی کسی قسم کی کوئی عمارت نہیں بنائی گئی اور نبی ﷺ کے حکم پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ یہ حکم اس وقت توڑا گیا جب ان سچے لوگوں میں سے کوئی بھی باقی نہ رہااور جھوٹے عاشق اور قبر کے پجاری پیدا ہوگئے، اور جن کے اس اقدام کی تائید و تحسین و تعریف میں مسلک پرستوں کے "متبحر" اسلاف و اکابر نے تاویلاتِ باطلہ پیش کرنی شروع کردیں- آج یہ گنبد مرجع ٔ خلائق بنا ہوا ہے ، اس کی تمثیلیں و تصویریں گھروں ، دکانوں ، دفتروں وغیرہ میں برائے "برکت"آویزاں کی جاتی ہیں ، ان کو چوما جاتا ہے ،ان پر ہار پھول اور خوشبو ڈالی جاتی ہے ، اور اسے ثواب سمجھا جاتا ہے-
(مضمون بحوالہ''الخیر'' اگست/ ۱۹۹۱ء، صفحہ۳۰ تا۴۷)
نورالدین علی بن احمد السمہودی --- گنبد خضراء کی تاریخ
خلاصہ کلام یہ ہے کہ :
تقریباً سات سو سال تک قبر نبوی (ص) پر کوئی عمارت نہیں تھی ، پھر ٦٧٨ ہجری میں منصور بن قلاوون صالحی (بادشاہ مصر) نے کمال احمد بن برہان عبد القوی کے مشورے سے لکڑی کا ایک جنگلہ بنوایا اور اسے حجرے کی چھت پر لگا دیا- اور اس کا نام "قبہ رزاق" پڑ گیا- اس وقت کے علماء ہر چند کہ اس صاحب اقتدار کو نہ روک سکے ، مگر انہوں نے اس کام کو بہت برا سمجھا ، اور جب یہ مشورہ دینے والا کمال احمد معزول کیا گیا تو لوگوں نے اس کی معزولی کو الله کی طرف سے اس کے اس فعل کی پاداش شمار کیا - پھر الملک الناصر حسن بن محمد قلاوون نے اور اس کے بعد ٧٦٥ ہجری میں الملک الاشرف شعبان بن حسین بن محمد نے اس میں تعمیری اضافے کئے ، یہاں تک کہ موجودہ تعمیر وجود میں آئی -
اﷲ کے رسولﷺ کی واضح ممانعت احادیث میں آئی ہے کہ:
"قبر پکی نہ بناؤ ، اس پرکوئی عمارت نہ بناؤ اور نہ اسکی مجاورت کرو۔"
(صحیح مسلم: جلد۲،کتاب الجنائز، صفحہ۳۹۸/جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب کراھیۃ تجصیص قبور والکتبۃ علیھا، صفحہ ۳۸۷ /سنن ابی داؤد:جلد۲، کتاب الجنائز، باب ۶۱۷بناء علی القبر، صفحہ ۵۸۳/سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، ابواب۱۱۲۳الزیادۃ علی القبر،۱۱۲۴ البناء علی القبر،۱۱۲۵ تجصیص القبور، صفحات ۶۵۶، ۶۵۷/سنن ابن ماجہ:جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۴۳ماجاء فی النھی عن البناء علی القبور و تجصیصھا والکتابۃ علیھا، صفحہ ۷۷۴)
آپﷺ نے حکم دیا کہ
"جو تصویر تم کو نظر آئے ، اس کو مٹادو اور جو قبر اونچی ملے ، اسے (زمین کے) برابر کردو ۔"
(صحیح مسلم: جلد۲، کتاب الجنائز، صفحہ ۳۹۷/ جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب تسویۃ القبر، صفحہ ۳۸۶/سنن ابی داؤد: جلد۲ ،کتاب الجنائز،باب۶۱۳ تسویۃ القبر، صفحہ ۵۸۱/ سنن نساء: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۱۱۲۶ تسویۃ القبر اذا رفعت، صفحہ ۶۵۷)
آپ ﷺ نے قبروں کو آراستہ کرکے ان پر عبودیت کے مراسم بجالانے والوں پر لعنت فرمائی:
"اﷲ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر ، جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔"
(صحیح بخاری: جلد۱ ،کتاب الصلوٰۃ، باب۲۹۵﴿الصلوٰۃ فی البیعۃ کے بعد کا باب﴾، صفحہ ۲۶۸نیزکتاب الجنائز، باب۸۸۰ ماجآء فی قبر النبی ﷺ.، صفحہ ۶۰۱/صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ۱۰۳/سنن ابی داو،د: جلد۲، کتاب الجنائز،باب۶۱۷ البناء علی القبر،صفحہ ۵۸۴/ سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۱۱۳۳ اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۶۶۳/ کتاب المساجد، باب ۴۰۹النھی عن اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۲۴۱)
نیزفرمایا کہ:
"یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مرتا تو وہ اس کی قبر پر سجدہ گاہ بنالیتے اور وہاں یہ تصویریں بنادیتے ۔ اﷲ کے نزدیک یہ لوگ تمام مخلوق میں سب سے زیادہ برے ہیں۔ "
(صحیح بخاری: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۸۵۴ بناء المسجد علی القبر، صفحہ ۵۸۰/ کتاب الصلوٰۃ، باب ۲۹۴ الصلوٰۃ فی البیعۃ، صفحہ ۲۶۸/ صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ ۱۰۴، ۱۰۵/سنن نسائی:جلد۱،کتاب المساجد، باب ۴۰۹ النھی عن اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۲۴۱)
آپﷺ نے امت مسلمہ کو اس سے روکا:
"لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ، انہوں نے اپنے انبیاء اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ (عبادت گاہ )بنالیا تھا ۔ سنو ! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا ۔ میں تم کو اس فعل سے منع کرتا ہوں-"
(صحیح مسلم: جلد۲، کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور و اتخاذ الصور فیھا والنھی عن اتخاذالقبور مساجد، صفحہ۱۰۳/ سنن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب۱۱۳۳ اتخاذ القبور مساجد، صفحہ ۶۶۳)
لیکن اپنے اطراف میں نظر ڈالیے ، رسولﷺ کے ماننے والوں کا عمل ان ساری احادیث کے خلاف ملے گا ۔کسی بھی قبرستان میں چلے جائیے ، چند لاوارث قبریں ہی کچی ملیں گی ۔ جن لوگوں کو اولیاء اﷲ اور بزرگ گردانا جاتا ہے ، جنہیں عاشقان رسول کہا جاتا ہے ، فنا فی اﷲ کا درجہ دیا جاتا ہے، انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے کیسا مذاق کیا ہے کہ ان سب کی قبریں پکی ملیں گی ، اور ان پر فن ِتعمیر کے شاہکار ایک سے ایک بَڑ ھیا مزار کی شکل میں نظر آئیں گے ، جنہیں لوگ ''دربار پاک'' اور ''روضہ مبارک'' کہتے ہیں ، جن پر خلقت ہے کہ ٹوٹی پڑتی ہے ۔ کوئی صاحب قبر سے بیٹا مانگتا ہے تو کوئی بیٹی، کوئی اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے التجا کررہا ہے تو کوئی بیماری سے صحت کا خواہاں ہے، کوئی کاروبار میں برکت چاہ رہا ہے تو کوئی روزی میں کشادگی و فراوانی ۔ غرضیکہ ہر طرح کی حاجت براری کے لیے یہاں آکر دہائی دی جاتی ہے۔ بعض لوگ اپنے یہاں آنے کا مقصداس "روضہ اقدس" کی زیارت بتاتے ہیں ۔ زیارت سے متعلق اﷲ کے رسول ﷺکا یہ فرمان ہے:
"لوگو! میں نے تم کو قبروں پر جانے سے منع کردیا تھا ، لیکن اب اجازت دیتا ہوں، کیونکہ قبروں کو دیکھ کر دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی یاد آتی ہے-"
(جامع ترمذی: جلد۱، ابواب الجنائز، باب زیارۃ القبور، صفحہ ۳۸۸/سنن ابن ماجہ: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۴۷ زیارۃ القبور، صفحہ ۷۷۸)
اور اس کام کے لیے ''اولیاء اﷲ'' کی قبریں مخصوص نہیں ، بلکہ مشرک کی قبر کی زیارت کی بھی اجازت ہے ۔ نسائی اور ابن ماجہ نے مشرک کی قبر کی زیارت کا باب باندھا ہے اور اس کے ذیل میں نبی ﷺ کا اپنی ماں کے لیے استغفار کی اجازت چاہنے کا واقعہ نقل کیا ہے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی ا کو اپنی ماں کے لیے مغفرت کی دعا مانگنے کی اجازت نہیں دی مگر قبر کی زیارت کی اجازت دے دی:
"نبی ﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ روئے اور جو لوگ آپ کے گرد تھے ان کو بھی رُلایا۔ پھر فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کروں تو اﷲ نے مجھے اجازت نہ دی۔ اور میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی۔ سو تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت یاد دلاتی ہے-"
(سننن نسائی: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۱۱۲۸ زیارۃ قبر المشرک، صفحہ ۶۵۸/ سننن ابن ماجہ: جلد۱، کتاب الجنائز،باب زیارۃ قبور المشرکین، صفحہ ۷۷۹- امام مسلم نے بھی اس روایت کو نقل کیاہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں : [صحیح مسلم:جلد۲، کتاب الجنائز، صفحہ ۴۰۲] نبیﷺنے فرمایاکہ میں نے اپنی ماں کے لیے استغفار کرنے کی اپنے رب سے اجازت مانگی تواس نے مجھے اجازت نہیں دی، اور میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت چاہی تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی)
یہاں ایک بات جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرنا ضروری ہے ، جس کا مقصد صرف اور صرف نبیﷺکے صحیح فرمان کو بیان کرنا ہے ، اور کچھ نہیں ، لہٰذا اس کو کوئی غلط رنگ ہرگز نہ دیا جائے ۔ مسلک پرستوں کے نزدیک اﷲ کے رسولﷺ کے والدین کا شمار مومنین میں ہوتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنی کتابوں میں انہیں ''حضرت عبداﷲ'' اور ''حضرت آمنہ'' لکھتے ہیں(حوالے کے لیے عبدالحق دہلوی کی ''مدارج النبوت'' جلد ۲ کے ابتدائی صفحات میں ''حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ اور حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا'' کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے) ۔جبکہ مذکورہ بالا مسلم، نسائی اورابن ماجہ کی روایات بتاتی ہیں کہ اﷲ نے نبی ﷺ کو اپنی والدہ کے لیے دعائے مغفرت کی اجازت نہیں دی، جس پر نبیﷺ رودئیے ، کیونکہ قرآن میں اﷲ نے ایمان والوں کو مشرکین کی دعائے مغفرت سے منع فرمایا ہے:
پیغمبر اور مومنین کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل جہنم ہیں تو ان کے لیے مغفرت مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں -
(التوبہ:١١٣)
غور فرمائیے اگر وہ مومنہ ہوتیں تو دعائے مغفرت کی اجازت ضرور ملتی ، بلکہ اجازت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اسی طرح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا کہ اس کا باپ کہاں ہے ، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جہنم میں ۔ اس پر وہ کچھ ملول ہوئے اور جانے لگے تو آپﷺ نے بلاکر تسلی کے لیے فرمایاکہ اِنَّ اَبِیْ وَ اَبَاکَ فِی النَّار'' بیشک میرا اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں ۔''
(صحیح مسلم:کتاب الایمان، جلد۱، باب بیان ان من مات علی الکفرفھو فی النار ولاتنالہ شفاعۃ ولا تنفعہ قرابۃ المقربین [یعنی اس بات کے بیان کا باب کہ جوکفر پر مرا وہ جہنم میں ہے اور اس کو مقربین کی شفاعت نہ پہنچے گی اور نہ ہی ان کی رشتے داری اسے کچھ فائدہ دیگی] صفحہ۳۴۶)
اﷲ کے رسول ﷺ نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ:
"اے اﷲ ! میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا جو پوجا جائے-"
(مؤطاامام مالک: کتاب الصلوٰۃ، باب جامعۃ الصلوٰۃ، صفحہ ۱۵۰)
اور لوگوں کو تنبیہ فرمائی کہ:
"اس قوم پر اﷲ کا غضب بھڑکتا ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیتی ہے-"
(مؤطاامام مالک: کتاب الصلوٰۃ، باب جامعۃ الصلوٰۃ، صفحہ ۱۵۰)
عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی فرمایا کہ:
اﷲ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا
اور اس کے بعد آپ فرماتی ہیں کہ:
"اگر اس بات کا خیال نہ ہوتا تو آپ کی قبر ضرور کھلی جگہ بنائی جاتی (اور حجرے میں نہ ہوتی)، میں ڈرتی ہوں کہیں آپ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے-"
(صحیح بخاری: جلد۱، کتاب الجنائز، باب ۸۴۵ ما یکرہ من اتخاذ المسجد علی القبور، صفحہ ۵۷۶)
مگر افسوس ! صد افسوس کہ جس بات کے اندیشے کے پیشِ نظر قبرِ نبوی ایک بند حجرے میں بنائی گئی تھی وہ بات ہوکر رہی۔ آج اسی نبیﷺ کی امت نے ، ان کی چاہت کا دعویٰ کرنے والے نام نہاد عاشقان نے ان کی قبر کو پوجنا شروع کردیا ہے ۔ اس پر ایک عظیم الشان گنبد تعمیر کردیا ہے جو ان کی آنکھوں کا نور، دل کا سرور، اور نہ جانے کیا کچھ ہے ، جہاں ان کے دعوے کے مطابق فرشتے بھی صلوٰۃ و سلام کے لیے آتے ہیں ، بے چین روحوں کو قرار ، ترستی نگاہوں کو سکون اور تڑپتے دلوں کو راحت ملتی ہے۔ ان کی نعتوں میں کچھ اسی قسم کے مضامین ہوتے ہیں ۔ اس امت کو کیا ہوگیا ہے؟
"اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے ، اوران کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے-"
(البقرۃ : ۷/ النحل: ۱۰۸)
"بلکہ ان کے دلوں کو زنگ لگ گیا ہے-"
(المطففین :۱۴)
ان کو قرآن و حدیث کی صحیح بات بتائی جائے تو گستاخی ٔرسول کہتے ہیں ، حالانکہ گستاخی ٔرسول تو یہ ہے کہ رسول کی بات کے خلاف عمل کیا جائے ، ان کی حکم عدولی اور نافرمانی کی جائے ؛نبی (ص) قبر پر کچھ بھی بنانے سے منع فرمائیں اور انہی کی قبر پر گنبد تعمیر کردیا جائے اور ممنوع فعل کی تاویلیں پیش کی جائیں !
عائشہ (رض) کے حجرے پر کبھی کسی قسم کی کوئی عمارت نہیں بنائی گئی اور نبی ﷺ کے حکم پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ یہ حکم اس وقت توڑا گیا جب ان سچے لوگوں میں سے کوئی بھی باقی نہ رہااور جھوٹے عاشق اور قبر کے پجاری پیدا ہوگئے، اور جن کے اس اقدام کی تائید و تحسین و تعریف میں مسلک پرستوں کے "متبحر" اسلاف و اکابر نے تاویلاتِ باطلہ پیش کرنی شروع کردیں- آج یہ گنبد مرجع ٔ خلائق بنا ہوا ہے ، اس کی تمثیلیں و تصویریں گھروں ، دکانوں ، دفتروں وغیرہ میں برائے "برکت"آویزاں کی جاتی ہیں ، ان کو چوما جاتا ہے ،ان پر ہار پھول اور خوشبو ڈالی جاتی ہے ، اور اسے ثواب سمجھا جاتا ہے-
(مضمون بحوالہ''الخیر'' اگست/ ۱۹۹۱ء، صفحہ۳۰ تا۴۷)