ام عائشہ السلفیہ
رکن
- شمولیت
- ستمبر 04، 2017
- پیغامات
- 4
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 33
ھائیرایجوکیشن کے فروغ کے ساتھ جڑے ایک معاشرتی مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کا تعلق بچیوں کی شادیوں سے ہے۔ ھائیر ایجوکیشن کا ایک مقصد ہمارے یہاں بچیوں کے اچھے رشتے کا حصول رہا ہے (اسے "میریج ریٹرن آف ایجوکیشن" کہتے ہیں) جس کے تحت لوگ بچیوں کو بالخصوص ڈاکٹربنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ اس میں دیگر ڈگریاں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ "تعلیم مکمل کرنے" کے دوران بچیوں کی عمر بائیس تئیس سال تک پہنچ جاتی ہے، اور پھر تعلیمی اعتبار سے "ہم پلہ" (کفو میں) رشتہ دستیاب ہونے میں مشکلات پیش آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ پھر بے کار بیٹھے انتظار کرنے کے بجائے "مزید تعلیم" کے لئے ایم فل/ایم ایس یا پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیتی ہیں مگر ایسا کرتے وقت یہ بھول جاتی ہیں کہ اس کے بعد وہ آبادی کے پیرامڈ (pyramid) کے اس مزید چھوٹے حصے میں شامل ہونے والی ہیں جہاں ان کے ھم پلہ مردوں کی تعداد مزید کم ہوجاتی ہے۔ نتیجتا ھم پلہ رشتے کا حصول مزید مشکل تر ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں بچیوں کی جوانی ڈھلنے لگتی ہے اور آھستہ آھستہ ان کی فطری کشش میں بھی کمی آنے لگتی ہے۔ تعلیم کے اعتبار سے آبادی کے جس پیرامڈ میں پہنچنے کے لئے یہ قربانی دی جاتی ہے اس پیرامڈ میں شامل لڑکوں کے لئے پھر نسبتا کم عمر بچیوں سے شادی کے بے پناہ مواقع موجود ہوتے ہیں۔ پھر متعدد وجوہات کی بنا پر ان زیادہ پڑھی لکھی لڑکیوں کا ایک حصہ خود کو شادی سے ہی دستبردار کرلیتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ یہ ایک vicious circle ہے جس میں ایک مرتبہ داخل ہونے کے بعد نکلنے کے امکانات کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس تعلیمی پراسس کا ایک مزید پہلو آبادی کی ڈیموگرافی پر اس کے اثرات بھی ہیں۔ عام طور پر یہ مشاہدہ ہے کہ زیادہ پڑھے لکھے میاں بیوی کم پڑھے لکھے جوڑوں کے مقابلے میں نسبتا کم بچے پیدا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کم پڑھے لکھے جوڑوں کی آبادی کی شرح معاشرے میں کم ہوتی رہے گی۔
یہ کس قدرعجیب معاملہ ہے کہ "بچیوں کو تعلیم دو تاکہ وہ اچھی ماں بن سکیں" کے نام سے شروع کیا جانے والا تعلیمی پراسس اس امر پر منتج ہوجاتا ہے کہ زیادہ تعلیم کے بعد بچیاں ماں ہی بننے پر راضی نہیں ہوتیں! چنانچہ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ یہ کوئی حادثہ ہے یا "تعلیم" کے نام پر دی جانے والی جنس میں ہی کہیں ایسے مسائل تو نہیں کہ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟ اس صورت میں ہمیں اپنی معاشرتی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کے پیمانے درست کرنا ہونگے۔
اس تعلیمی پراسس کا ایک مزید پہلو آبادی کی ڈیموگرافی پر اس کے اثرات بھی ہیں۔ عام طور پر یہ مشاہدہ ہے کہ زیادہ پڑھے لکھے میاں بیوی کم پڑھے لکھے جوڑوں کے مقابلے میں نسبتا کم بچے پیدا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کم پڑھے لکھے جوڑوں کی آبادی کی شرح معاشرے میں کم ہوتی رہے گی۔
یہ کس قدرعجیب معاملہ ہے کہ "بچیوں کو تعلیم دو تاکہ وہ اچھی ماں بن سکیں" کے نام سے شروع کیا جانے والا تعلیمی پراسس اس امر پر منتج ہوجاتا ہے کہ زیادہ تعلیم کے بعد بچیاں ماں ہی بننے پر راضی نہیں ہوتیں! چنانچہ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ یہ کوئی حادثہ ہے یا "تعلیم" کے نام پر دی جانے والی جنس میں ہی کہیں ایسے مسائل تو نہیں کہ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟ اس صورت میں ہمیں اپنی معاشرتی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کے پیمانے درست کرنا ہونگے۔