عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
شیخ محترم @خضر حیات حفظہ اللہ
اس روایت کے متعلق بتلا دیں کہ یہ روایت صحیح ہے یا نہیں اور دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت دن میں کی تھی یا رات میں ؟ اور اگر دن میں ہجرت کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر سلانے کا کیا معنی؟
ہجرت کی رات اور امیر المؤمنین علیؓ!
امام ابو عبد اللہ الحاکم النیشاپوری (المتوفیٰ: ۴۰۵ھ) نے فرمایا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا زِيَادُ بْنُ الْخَلِيلِ التُّسْتَرِيُّ، ثنا كَثِيرُ بْنُ يَحْيَى، ثنا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: " شَرَى عَلِيٌّ نَفْسَهُ، وَلَبِسَ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ مَكَانَهُ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَرْمُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْبَسَهُ بُرْدَةً، وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلُوا يَرْمُونَ عَلِيًّا، وَيَرَوْنَهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ لَبِسَ بُرْدَةً، وَجَعَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَتَضَوَّرُ، فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَقَالُوا: إِنَّكَ لَتَتَضَوَّرُ، وَكَانَ صَاحِبُكَ لَا يَتَضَوَّرُ وَلَقَدِ اسْتَنْكَرْنَاهُ مِنْكَ
ترجمہ:
حضرت ابن عباسؒ نے فرمایا: حضرت علیؓ نے اپنی جان کی بازی لگادی، اور نبی کریم ﷺ کی چادر اوڑھ کر ان کی جگہ لیٹ گئے۔ اس سے قبل مشرکین رسول اللہ ﷺ کو اذیتیں دیا کرتے تھے۔ ہجرت کی رات رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنی چادر اوڑھائی تھی۔جبکہ قریش معاذ اللہ رسول اللہ کو شہید کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ، ان لوگوں نے حضرت علیؓ کو رسول اللہ ﷺ سمجھ کر اذیتیں دینا شروع کردیں، (ان کی تکالیف دینے کی وجہ سے) حضرت علیؓ پیچ و تاب کھانے لگے۔ اس وقت ان کو اندازہ ہوگیا کہ یہ تو علیؓ ہیں رسول اللہ ﷺ نہیں۔ تب وہ بولے: تم مجبور سے معلوم ہورہے ہو جبکہ تمہارا ساتھی (یعنی رسول اللہ ﷺ) اس طرح نہیں مجبور ہوتے تھے، اور ہمیں اصل دشمنی اسی سے ہے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم، جلد ۳، صفحہ نمبر ۵، رقم: ۴۲۶۳]
اس حدیث کو امام حاکمؒ اور امام ذہبی دونوں نے صحیح کہا۔
اس روایت کے ایک راوی کثیر بن یحیی ہیں جو کہ شیعہ ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ کے شیعہ راوی کے متعلق جو اصول ہیں اس اصول کے تحت کثیر بن یحیی کس درجے میں آتا ہے؟
جزاک اللہ خیرا
شیخ محترم @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
شیخ محترم @خضر حیات حفظہ اللہ
اس روایت کے متعلق بتلا دیں کہ یہ روایت صحیح ہے یا نہیں اور دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت دن میں کی تھی یا رات میں ؟ اور اگر دن میں ہجرت کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر سلانے کا کیا معنی؟
ہجرت کی رات اور امیر المؤمنین علیؓ!
امام ابو عبد اللہ الحاکم النیشاپوری (المتوفیٰ: ۴۰۵ھ) نے فرمایا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا زِيَادُ بْنُ الْخَلِيلِ التُّسْتَرِيُّ، ثنا كَثِيرُ بْنُ يَحْيَى، ثنا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: " شَرَى عَلِيٌّ نَفْسَهُ، وَلَبِسَ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ مَكَانَهُ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَرْمُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْبَسَهُ بُرْدَةً، وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلُوا يَرْمُونَ عَلِيًّا، وَيَرَوْنَهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ لَبِسَ بُرْدَةً، وَجَعَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَتَضَوَّرُ، فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَقَالُوا: إِنَّكَ لَتَتَضَوَّرُ، وَكَانَ صَاحِبُكَ لَا يَتَضَوَّرُ وَلَقَدِ اسْتَنْكَرْنَاهُ مِنْكَ
ترجمہ:
حضرت ابن عباسؒ نے فرمایا: حضرت علیؓ نے اپنی جان کی بازی لگادی، اور نبی کریم ﷺ کی چادر اوڑھ کر ان کی جگہ لیٹ گئے۔ اس سے قبل مشرکین رسول اللہ ﷺ کو اذیتیں دیا کرتے تھے۔ ہجرت کی رات رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنی چادر اوڑھائی تھی۔جبکہ قریش معاذ اللہ رسول اللہ کو شہید کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ، ان لوگوں نے حضرت علیؓ کو رسول اللہ ﷺ سمجھ کر اذیتیں دینا شروع کردیں، (ان کی تکالیف دینے کی وجہ سے) حضرت علیؓ پیچ و تاب کھانے لگے۔ اس وقت ان کو اندازہ ہوگیا کہ یہ تو علیؓ ہیں رسول اللہ ﷺ نہیں۔ تب وہ بولے: تم مجبور سے معلوم ہورہے ہو جبکہ تمہارا ساتھی (یعنی رسول اللہ ﷺ) اس طرح نہیں مجبور ہوتے تھے، اور ہمیں اصل دشمنی اسی سے ہے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم، جلد ۳، صفحہ نمبر ۵، رقم: ۴۲۶۳]
اس حدیث کو امام حاکمؒ اور امام ذہبی دونوں نے صحیح کہا۔
اس روایت کے ایک راوی کثیر بن یحیی ہیں جو کہ شیعہ ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ کے شیعہ راوی کے متعلق جو اصول ہیں اس اصول کے تحت کثیر بن یحیی کس درجے میں آتا ہے؟
جزاک اللہ خیرا
Last edited by a moderator: