صدقہ کا اصل تو یہ ہے کہ آدمی اپنی خوشی سے اپنے مال میں سے کچھ اللہ کو خوش کرنے کے لیے دے ۔۔۔۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی صرف مال خرچ طرنے سے ہی نہیں بلکہ دوسری خداداد صلاحیتوں کو خرچ کرنے سے بھی صدقے کا ثواب حاصل کر سکتا ہے جیساکہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت مرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
ہر مسلمان کے ذمے صدقہ ہے ۔۔۔لوگوں نے کہا اگر وہ نہ پائے ؟؟؟فرمایا اپنے ہاتھوں سے کام کرے اور اپنے آپ کو فائدہ پہنچائے اور صدقہ کرے۔۔۔لوگوں نے پوچھا کہ اگر وہ یہ کام نہ کر سکے یا نہ کرے ؟؟؟؟آپﷺ نے فرمایا کسی ضرورت مند مظلوم کی مدد کر دے ۔۔۔انھوں نے پوچھا اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے؟؟؟فرمایا پھر بھلائی کا حکم دے ۔۔پوچھا گیا اگر یہ بھی نہ کرے ؟؟؟؟فرمایا پھر برائی سے باز رہے یہی اس کے لیے صدقہ ہے (بخاری)
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرا دینا تمہارے لیے صدقہ ہے ۔۔۔اور تمہارا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے لیے صدقہ ہے اور تمہارا راستے سے پتھر ‘ کانٹا‘ ہڈی ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے ‘ اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے ( ترمذی)
غور کیجیے !! ہمارا دین کس قدر سھل اور آسان ہے ۔۔۔ہر قسم کی طبیعت کے حامل شخص اور ہر قسم کے حالات سے دوچار انسان کے لیے یہ دین مواقع فراہم کرتا ہے ۔۔۔نیت نیک ہو تو ایک گداگر اور ایک معذور بھی صدقہ کر سکتا ہے ۔۔۔لیکن اگر نیت ہو تو۔۔۔۔!!!!