• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::::: ہر کام میں اسلام کیوں ؟؟؟ :::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
::::: ہر کام میں اسلام کیوں ؟؟؟ :::::
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
""" ہر کام کو اسلامی زوایہء نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا ، اور نہ ہی دیکھا جانا چاہیے ، ہماری زندگی کے کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنے علاقائی معاشرے ، اپنی خاندانی عادات ، اپنے ذاتی افکار ، اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بنا پر کرتے ہیں ، اگر ہر ایک کام کو ہر ایک کلام کو اسلامی طور پر جانچا جانا لگے تو ہم کریں گے کیا ، سوائے گنتی کے چند اعمال کے """
الحمد للہ ، یہ مذکورہ بالا الفاظ میری کسی سوچ کا شاخسانہ نہیں اور ثُمَ الحمد للہ کہ نہ ہی میں اِن کا ہمنوا ہوں ، اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ ایک ایسا خوفناک فلسفہ ہے کہ جِس کے دام میں ہمارے کچھ مسلمان بھائی بہن میں پھنسے نظرآتے ہیں ، بلکہ اِس ابلیسی دھوکہ دہی میں مسحور نظر آتے ہیں ، معاف کیجیے ایسے بھائیوں یا بہنوں کو شاید میرے یہ الفاظ کچھ سخت محسوس ہوں ، لیکن کسی ناراضگی یا غصے کے اظہار سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کے مذکورہ ذیل فرامین کا بغور مطالعہ فرمایے اور دیکھیے بلکہ سمجھیے کہ یہ فلسفہ آپ کو کہاں لے جانے والا نظر آتا ہے ، و لا حول و لا قوۃَ اِلّا باللہ ،
چند روز پہلے میرے دفتری کام کے دو ساتھی میرے سامنے بیٹھے کچھ بات چیت کر رہے تھے کہ اُن کی بات چیت بسنت کے تہوار کی طرف ہو گئی ، میں نے کہا """ بھائی یہ تہوار غیر اسلامی ہے """
ایک بھائی نے جواب دیا کہ """ اب ہر کام تو اسلام کے مطابق نہیں دیکھا جا سکتا نا ، کچھ اپنی اپنی رسمیں بھی ہوتی ہیں ، وغیرہ وغیرہ """
اور دوسرے بھائی نے ایک اور فلسفہ پیش کیا کہ """ ہر قوم کے اپنے اپنے تہوار اور عادات ہیں اسلام اُن سے منع تو نہیں کرتا اور نہ ہی ہر ایک کو اسلام کے مطابق جانچا جانا چاہیے """
قطع نظر اس کے کہ کسی جغرافیائی تقسیم کی بنا پر مختلف علاقوں میں آباد مسلمانوں کو الگ الگ قوم سمجھنا درست ہے یا غلط ، اِن شاء اللہ اس کے بارے میں پھر کسی وقت بات کی جا سکتی ہے ، اس وقت تو میں صرف اس موضوع پر کچھ بات کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمان کا کوئی بھی کام اسلامی حدود اور احکام سے خارج ہو کر کیا جانا چاہیے یا نہیں ،
آیے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اور اُس کے اور ہمارے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ کی روشنی میں یہ معاملہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں حق پہچاننے اسے سمجھنے اُسے ماننے اسے اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے مرنے کی توفیق دے ،
أعوذُ باللہ مِن الشَّیطٰن الرَّجیم و مِن ہَمزہِ و نَفخِہِ ونَفثِہِ


((((( وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ::: اور (اے محمد ) لوگوں میں ایسے بھی ہیں جِن کی بات آپ کو دُنیا کی زندگی(کے بارے ) میں اچھی لگے گی اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ جھگڑے ڈالنے والا ہے o
آغاز گفتگو میں جِس فلسفے کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس آیات مبارکہ میں بیان کردہ بظاہر اچھی اور خوبصورت لیکن در حقیقت فساد اور ھلاک والی باتوں میں شامل ہوتا ہے ، اس کے لیے کسی لمبی چوڑی بات کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنے اعمال کو اسلامی حدود سےخارج کرنے کے نتائج روزء روشن کی طرح عیاں ہیں ،
اور ایسی باتیں کرنے والوں سے اللہ تبارک و تعالٰی کے اس فرمان کی روشنی میں، میں یہ بھی درخواست کروں گا کہ وہ اپنے اپنے دِلوں کا جائزہ لیں ، کہ جب وہ اپنے یا کسی اور کے کسی کام کو اسلامی احکام کی کسوٹی پر نہیں پرکھنا چاہتے تو اُس وقت اُن کے دِلوں میں جھگڑے اور فساد کی خواہش ہوتی ہے ، لیکن شیطان انہیں اُن کے اپنے ہی دِل کا حال جاننے نہیں دیتا ، اور اُن کا رب جو مہربان ہے وہ انہیں اِس کی خبر دے کر اِس کے انجام سے باخبر کرتا ہے تا کہ وہ اُس دردناک انجام سے بچ سکیں ،

کسی بھی کام کواللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کے خلاف کرنے والا خواہ کچھ بھی سمجھتا رہے کچھ بھی کہتا رہے ، بظاہر اچھی اور خوبصورت نظر آنے والی ایسی باتیں کرنے والوں کے بارے میں اللہ کا فرمان یہ ہے کہ :::
وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيِهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ :::
اور جب وہ زمین میں چلتا پھرتا ہے تو اُس میں فساد ڈالنے کی ہی کوشش کرتا ہے اور کھیت اور نسل تباہ کرتا ہے اور اللہ فساد پسند نہیں کرتا o
اور حق بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں وہ کچھ بھی جانتا ہے جو وہ نہیں جانتی ، لہذا ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ اپنے اعمال یا عقائد میں سے کسی کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنے سے مستثنیٰ قرار دینے والے بھائی بہنیں اللہ پر ایمان رکھتے ہوں تو اپنی سوچوں اپنائے ہوئے فلسفوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے سامنے پیش کریں اور یقین کر لیں کہ انہیں اللہ کا ، اور ہم سب کا کھلا دشمن دھوکہ دے رہا ہے اور خود اُن کے اُن کے اپنے ہی اندر کا حال جاننے سے روکے ہوئے ہے ،
اب اس کے بعد دیکھیے کہ وہ لوگ جو نہ صرف ایسے غیر اسلامی فلسفوں کو مانتے ہیں ، اور واضح احکام آنے کے باوجود اپنی اصلاح کی طرف نہیں آتے ، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں اُن کی حالت بالکل اسی شخص کی طرح جس کی مثال اللہ نے بیان کی کہ صرف اپنی معاشرتی عِزت اور اپنے نام و نمود کی خاطر وہ درست بات کو نہیں مانتا کہ اگر مان لیا تو لوگ کیا کہیں گے ، دیکھیے مذکورہ بالا آیات کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے :::
وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ و َلَبِئْسَ الْمِهَادُ ::: اور جُب اسے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ (کی ناراضگی اور عذاب) سے بچو تو اُس کی (معاشرتی )عِزت اُسے گُناہ کے ساتھ (حق قبول کرنے سے )روک لیتی ہے ، پس اِس (شخص )کے لیے تو جہنم کافی ہے اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانہ ہے o
اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں میں سے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی جن کا مطمع ء نظر ہمیشہ اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے خواہ انہیں اس کے لیے اپنا آپ ہی بیچنا پڑے ،
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ ::: اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنا آپ ہی اللہ کی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے بیچ دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بہت ہی نرمی کرنے والا ہے o
بظاہر اچھی اور دل آویز باتوں ، ایسی باتیں کرنے والوں کی دلی حالت اور پھر ایمان والوں کی اللہ کے لیے تابع فرمانی کا ذِکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اِیمان والوں کو حُکم دیتا ہے ، جی ہاں حُکم دیتا ہے ، اللہ جو اکیلا خالق ہے اور باقی ہر کوئی اُس کی مخلوق ہے ، وہ علیم ، خبیر ، اپنے اِیمان لانے والے بندوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ :::
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ::: اے اِیمان لانے والوپووووووووووووووووورے کے پوووووووووووووووورے اِسلام میں داخل ہو جاؤ ، اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بے شک وہ تُم سب کا واضح طور پر کھلا دُشمن ہے o
اللہ کے واضح احکام اور فرامین سننے کے بعد بھی جو مُسلمان اللہ کی مقرر کردہ راہوں پر ثابت قدمی سے چلنے کی بجائے اُس قِسم کی جہنم تک لے جانے والی سوچ کا شکار رہیں جس کا ذکر آغازء کلام میں کیا گیا ، اور ایسی باتوں اورمختلف فلسفوں کے نشے میں ڈگمگاتا پھرےاور اپنی زندگی کے کسی بھی معاملے یا کام کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنا نہ چاہے ، اور اپنے کسی بھی کام یا کلام کو اسلامی حدود سے خارج ہو کر کرے ور اسے درست بھی سمجھے اور اور اپنی اصلاح نہیں کرے ، تو پھر اللہ کی طرف سے انہیں یہ دھمکی دی گئی ہے کہ:::
فَإِن زَلَلْتُمْ مِّن بَعْدِ مَا جَاءتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ::: اور اگر تُم لوگ تُمہارے پاس واضح احکام آنے کے بعد بھی ڈگمگا جاؤ تو پھر جان رکھو کہ اللہ زبردست حِکمت والا ہے o ))))) ،
اللہ تعالیٰ اپنی قوت و جبروت کی زبردستی یا ددلا رہا ہے ، کیوں ؟
تا کہ ایسے لوگ سمجھ جائیں کہ اگر ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل نہ ہوئے اور اپنا ہر ہر عقیدہ اور ہر ہر کام اور ہر ہر کلام اسلام کے مطابق نہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اپنی زبردست قوت و سطوت کے ساتھ ہم پر گرفت کرے گا ،
اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اللہ بڑی حِکمت والا ہے اور یہ اُس کی حِکمت میں سے ہے کہ تُم لوگوں کو سمجھاتا ہے اور تُم لوگوں پر گرفت کرنے میں ، تُم لوگوں کا فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا ،

اس کے بعد ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ سمجھاتا ہے ، یاد کرواتا ہے ،کہ فیصلوں کا وقت آ جانے سے پہلے باز آجاؤ :::
((((( هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِكَةُ وَقُضِيَ الأَمْرُ وَإِلَى اللّهِ تُرْجَعُ الأمُورُ ::: تو کیا یہ لوگ اِس چیز کا انتطار کر رہے کہ اللہ اور فرشتے اِن لوگوں کے اس بادلوں کے سائے میں آجائیں اور (اِن لوگوں ) کا معاملہ نمٹ جائے اور (یاد رکھو) اللہ ہی طرف سارے معاملات پلٹنے ہیں ))))) سورت البقرۃ /آیات204 تا 210،
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے ان فرامین مبارکہ پر بھی غور فرمایا جانا چاہیے :::
((((( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً ::: جب اللہ اور اللہ کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اُس فیصلے میں کسی اِیمان والے مرد اور کسی اِیمان والی عورت کے لیے کوئی اختیار نہیں رہتا (کہ وہ اپنی مرضی سے اسے مانیں یا نہ مانیں ) اور (یاد رکھو کہ) جِس نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا )))))سورت الاحزاب /آیت 36،
اِمام ابن کثیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ یہ آیت تمام تر معاملات کے بارے میں عام ہے اور اگر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کسی چیز کے بارے میں حکم فرما دیں تو کسی کے لیے اُس حُکم کی مخالفت کی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی کسی کے لیے اُس فیصلے میں کوئی اختیار رہتا ہے (یعنی اس پروہ فیصلہ قبول کرنا ہی فرض ہے ) اور نہ ہی اُس فیصلے کے بارے میں کوئی اور رائے یا بات کرنے کی کوئی گنجائش رہتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ((((( فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً ::: ہر گِز نہیں اور آپ کے رب کی قسم یہ لوگ اُس وقت تک اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اُن کے اختلافات میں حاکم نہ مان لیں اور پھر جو فیصلہ آپ کریں اُس فیصلے کے بارے میں اپنی جانوں میں کوئی شک نہ پائیں اور مکمل اطاعت کے ساتھ اپنا آپ حوالے کردیں )))))(سورت النساء/ آیت 65)
اور حدیث شریف میں ہے کہ ((((( لا یؤمِنُ اَحدُکُم حَتیٰ یِکُونُ ھواہُ تَبعاً لِمَا جِئتُ بِہِ ::: تُم سے کوئی اُس وقت تک اِیمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اُسکی خواہشات میری ساتھ آئی ہوئی چیز (یعنی کتاب اللہ اور سُنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کے مُطابق نہ ہو جائیں ))))))(اِمام بغوی نے اپنی کتاب ''' شرح السُنّہ ''' میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ) اوراسی لیے اللہ نے فرمایا (((( وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً ::: اور (یاد رکھو کہ) جِس نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی وہ یقیناً کھلی گمراہی میں جا پڑا ))))) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ((((( فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ::: پس جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ہوشیار رہیں کہ (اس نافرمانی کی وجہ سے ) کہیں اُنہیں کوئی مصیبت یا دکھ دینے والا عذاب نہ آن پکڑیں ))))) سورت النور/ آیت63،"""" تفیسر القران العظیم المعروف تفیسر ابن کثیر ،
اور امام الطبری نے اپنی تفیسر """ جامع البیان فی تفسیر القران """ میں لکھا :::
"""
اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان رکھنے والے مرد اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن لوگوں کے کسی معاملے کے بارے میں کوئی فیصلہ فرما دیں تو وہ لوگ اُن اپنے کسی بھی معاملے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کیے ہوئے فیصلے کے علاوہ کوئی اور چیز اختیار کریں ، اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی، اور اُن کے کیے ہوئے فیصلے کی مخالفت کریں، اور جس کسی نے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کسی کام کرنے یا کسی کام سے باز رہنے کے کسی بھی فیصلے میں اُن کی نافرمانی کی تو (((( فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً ::: یقیناً وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا ))))) یعنی اللہ کہتا ہے کہ یقیناً ایسا کرنے والا درست راستے سے ہٹ گیا اور ہدایت اور رُشد کی راہ کے علاوہ کسی اور راہ پر چلا """
اللہ کرے کہ وہ اپنے اِن فرامین کو اُن مسلمانوں کی سوچ و فکر کی درستگی کا سبب بنا لے جو اپنے کسی بھی عقیدے ،قول یا عمل کو اسلام کے مطابق جانچے جانے سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں ، اور طرح طرح کی باتیں بنا کر اپنے عقائد ، سوچوں ،عادات ،افعال ، اعمال کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جب کہ اصولی بات یہ ہے کہ لوگوں کے عقائد ، سوچوں ،عادات ،افعال ، اعمال کی بنا پر اسلامی احکام کو نہیں پرکھا جاتا بلکہ اسلامی احکام کے مطابق لوگوں کی عادات کو پرکھا جاتا ہے ، کیونکہ اسلام لوگوں کے عقائد ، سوچوں ،عادات ،افعال ، اعمال پر حجت ہے نہ کہ لوگوں کے عقائد ، سوچوں ،عادات ،افعال ، اعمال اسلام پر حجت ، و السلام علیکم۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا عادل سہیل بھائی جان۔
اکثر اس فلسفے کی آڑ میں اہل بدعت بھی اپنی بدعات کی ترویج میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔ آمین۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
جزاک اللہ خیرا عادل سہیل بھائی جان۔
اکثر اس فلسفے کی آڑ میں اہل بدعت بھی اپنی بدعات کی ترویج میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔ آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
الحمد للہ و لہ الفضل والمنۃ ، و ما توفیقی الا باللہ ،
جی شاکر بھائی ، عموما دینی اور دنیاوی دونوں ہی میدان عمل میں گمراہیاں اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کو یکسر چھوڑنے یا جزوی طور پر نظر انداز کرنے یا ان کی اپنی عقل ، سوچ اور فلسفوں وغیرہ کے مطابق تاویل کرنے سے ہی وجود میں آتی ہیں ، اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے ، اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے ، والسلام علیکم۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا عادل سہیل بھائی!
دلائل کے ساتھ اور بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ اس شیطانی وسوسے کا ردّ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں! آمین یا رب العٰلمین
 
Top