- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ہماری عید
2010 بمطابق 1431 کی عیدِ قربان ہم نے مسجد نبوی میں پڑھی تھی ، اس کے بعد حج کیا نہ کیا ، ہر ’ عید الأضحی ‘ مکہ مکرمہ گزری ، عید الفطر کئی دفعہ مدینہ منورہ مسجد نبوی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، البتہ عید قربان سات سال بعد اب یہاں پڑھنے کا موقعہ ملا ۔
حج میں تو عید کا پتہ ہی نہیں چلتا ، ویسے بھی حاجیوں کے لیے عید نماز پڑھنا ضروری بھی نہیں ہے ۔
پاکستان گھر میں ہوں تو کچھ دن پہلے ہی عید کی خریداری شروع ہوجاتی ہے ، قربانی کے لیے جانور کا بندوبست سب سے اہم کام ہوتا ہے ، جس نے قربانی نہیں بھی کرنی ، وہ بھی اس کام میں کافی منہمک ہوتا ہے ۔
یہاں مدینہ منورہ ، کسی کو پتہ ہی نہیں ، یقین مانیے بکرا دیکھنا کیا ، آواز تک سننے کو نہیں ملی ، یہ نہیں کہ لوگ قربانی نہیں کرتے ، کرتے ہیں ، بڑھ چڑھ کر ، لیکن یا تو مختلف اداروں کے ذریعے ، یا پھر خود بھی جانور خریدیں تو گھروں میں جانور لانے کا کوئی تصور ہی نہیں ۔
شاپنگ وغیرہ کا بھی کوئی خاص شوق و ذوق نہیں ، اس لیے عید کی یہ رسم ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر ہے ۔
میری عید تو صبح ہی شروع ہوتی ہے ، لیکن بیگم کو رات سے ہی کپڑے وغیرہ اور کھانا پینا تیار کرنا پڑتا ہے ۔ البتہ اب کی بار خلاف عادت میں نےبھی فیس بک کے ’ اوتار ‘ کو رات سے ہی تبدیل کرکے عید منانے کا آغاز کردیا تھا۔
پاکستان میں عید نماز کے لیے تیاری جلدی سے جلدی بھی فجر کی نماز کے بعد شروع ہوتی ہے ، لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے ، ہمارے ہاں عید نماز کی تیاری فجر کی نماز کی تیاری سمجھ کر کی جاتی ہے ، یعنی آپ نے فجر سے پہلے پہلے مسجد نبوی پہنچنا ہے ، لوگ بارہ بجے کے بعد مسجد نبوی آنا شروع ہوجاتے ہیں ، لہذا یہ دھیان اور خبر رکھنا پڑتی ہے کہ کب تک مسجد نبوی میں آسانی سے جگہ مل جائے گی ؟ اور اگر کسی کے پاس گاڑی ہے تو یہ بھی کہ مسجد نبوی کے قریب ترین کب تک پارکنگ کی سہولت میسر رہے گی ، عید الفطر میں بہت رش ہوتا ہے ، لہذا ہم نماز فجر سے گھنٹہ پہلے پہنچے تھے ، لیکن پارکنگ کی جگہ بھی مشکل ملی ، اور نماز پڑھنے کے لیے بھی محنت سے جگہ تلاش کرنا پڑی تھی ، البتہ اس دفعہ میں نے بارہ بجے سے ہی مسجد نبوی لائیو چینل دیکھنا شروع کیا ، معلوم ہوا کہ بہت کم لوگ ہیں ، تقریبا اڑھائی بجے تک یہی صورت حال تھی ، صحن اور اندر کمرے میں بہت کم لوگ نظر آرہے تھے ، پھر ایک دوست پہنچے ، انہوں نے بتایا ، بہت جگہ خالی پڑی ہے ، رش نہیں ہے ، ہمارا ارادہ گھر سے تین بجے نکلنے کا تھا ، نکلتے نکلتے ساڑھے تین ہوگئے ، مسجد نبوی کے قریب پہنچے ، پارکنگ وغیرہ کے لیے بآسانی وافر جگہ مل گئی ، ایک گاڑی وہیں پارک کی ، اگلے سفر کے لیے دوسری تیار کی ، جس میں بچے سوار ہوئے ، اور اس ’ دھکے ‘ والی گاڑی کو لے کر مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوگئے ، جو ابھی تقریبا آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر تھی ، دل میں ایک خدشہ سا تھا ، کہیں مسجد میں رش کی وجہ سے صحن وغیرہ میں داخلہ بند نہ ہوگیا ہو ، لیکن جوں جوں قریب ہوئے ، معلوم ہوا ، عید الفطر کی نسبت عید الأضحی میں رش بہت کم ہے ۔ ٹھیک چار بجے مسجد نبوی پہنچ گئے ، بچہ لوگوں کو خواتین جائے نماز کی طرف چھوڑا ، اور خود مردوں کی طرف گیٹ نمبر 10 امام بخاری کی طرف متوجہ ہوا ، سوچا اوپر چھت پر چلا جاتا ہوں ، لیکن پھر فیصلہ کیا ، اگر آج بھیڑ نہیں ہے ، تو مسجد کے اندرونی حصے میں ٹرائی کرتے ہیں ، داخل ہوتے ہی بہت خوشی ہوئی ، وافر مقدار میں جگہ باقی تھی ، چلتے چلتے ملک فہد والی توسیع گزر کر پہلی سعودی توسیع ، جو اصل مسجد نبوی کے بالکل پچھلی جانب ہے ، میں پہنچ گیا ، مزید آگے جایا جاسکتا تھا ، لیکن بہتر یہی محسوس ہوا کہ گردنیں پھلانگے بغیر یہاں تک آجانا بھی اللہ کی رحمت ہے ، لہذا وہیں پچھلی جانب جوتے والا ایک ریک دیکھ کر اس میں جوتا ٹکا دیا ، جو ابھی رات کو ہی خریدا تھا ۔سال ڈیڑھ پہلے بالکل نیا جوتا گم ہوگیا تھا ، اس لیے اب کی بار ذرا محتاط تھا ، ورنہ میں مسجد میں داخل ہوتے ہی قریب ہی کسی ریک میں جوتا رکھ کر نمبر نوٹ کرلیتا ہوں ، چاہے دو گھنٹے بعد آئیں ، وہیں موجود ہوتا ہے ، لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ موجود نہیں تھا ، لہذا اس دفعہ رسک لینے پر دل مطمئن نہ ہوا ۔
عید نماز کے لیے مسجد نبوی میں آنے کا منظر کیا ہوتا ہے ؟ میں مسجد کے مغربی جانب شارع السلام کے ذریعے عزیزیہ کی طرف سے آیا تھا ، اکثر لوگ گاڑیوں پر آرہے تھے ، جبکہ سڑک کے درمیان فٹ پاتھ پر بھی کئی ایک لوگ رواں دواں تھے ، سڑک پر جابجا ٹریفک پولیس والے موجود تھے ، تاکہ کہیں بھی آمد و رفت جام نہ ہونے پائے ۔
دکانیں ، ہوٹل وغیرہ جو عام طور پر لوگوں کے آنے جانے کے وقت کھلے ہوتے ہیں ، اس وقت سارے بند تھے ، شاید یہ لوگ بھی عید نماز کی تیاری میں مصروف تھے ۔
آنے والوں میں ہر رنگ نسل ، جنس اور علاقے کے لوگ دکھائی دے رہے تھے ، کوئی بہت سپاٹ چہروں کے ساتھ ، کوئی نسبتا مہموم و مغموم ، کچھ لوگ بڑے محتاط انداز میں عاجزانہ چال چل رہے تھے ، اور کچھ اعتماد کی حد پھلانگ کر تکبر تک پہنچ رہے تھے ، اکثر لوگ داڑھی کے بغیر ، اکثر خواتین برقعہ کے ساتھ ، کچھ بچوں کو اٹھائے ہوئے تھے ، جن کے بچے نہیں تھے ، انہیں موبائل نے اس سے بھی زیادہ مصروف کر رکھا تھا ، کیونکہ بچوں کو بہلانے کی ضرورت ہوتی ہے ، جبکہ موبائل خود انسان کو کھلا ، بلکہ اس کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہوتا ہے ۔
اکثر لوگوں کا رخ مسجد نبوی کی طرف تھا ، جبکہ اکا دکا لوگ مسجد نبوی سے واپس لوٹ رہے تھے ، شاید مجبورا بچے یا بچے کی ماں کے اصرار پر واپس ہورہے تھے ، اور ممکن ہے کچھ سے شیطان نے پہلے اکل و شرب میں بد پرہیزی کروائی ہو ، تاکہ زیادہ دیر حرم نہ ٹھہر سکیں ، اور حرم میں نماز کی سعادت سے محروم رہ جائیں ۔
حرم کے اندر کچھ لوگ نفل ادا کر رہے تھے ، کچھ لال رومال والے تلاوت قرآن میں مصروف تھے ، کچھ شلوار قمیض اور پینٹ شرٹ والے نیند پوری کر رہے تھے ، کچھ الگ سے ہو کر ’ خیال ایئر لائن ‘ کے ذریعے اپنے گاؤں ، گھر اور عید گاہ میں پہنچ چکے تھے ۔ بہتیرے ایسے تھے ، جو گپ شپ کے اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھا رہے تھے ۔
کوئی فون کرکے بتارہا تھا ، میں عید پڑھنے کے لیے مسجد نبوی پہنچ چکا ہوں ، کئی فون کان سے لگائے ، مختلف سمتوں میں نظر دوڑاتے ہوئے ، کسی کو تلاش کر رہے تھے ، نظر آنے پر کہہ رہے تھے یہاں سے بالکل سیدھا آجائیں ، تھوڑا سا دائیں ، یہ میں نے ہاتھ اوپر کیا ہوا ہے .... ہاں میں نے دیکھ لیا ، ٹھہرو ، ادھر جگہ ہے نا ؟ میں آرہا ہوں ..... اس مجمعے میں کوئی سلفی ہو نہ ہو، البتہ سیلفی والوں کی اکثریت تھی ، کچھ ہمارے جیسے سوچ رہے تھے ، فارغ ضرور بیٹھنا ہے ، مسجد نبوی کے اس پر رونق ماحول کی چار تصویریں ، دو ویڈیوز لیتے ہیں ، تاکہ سوشل میڈیا کا پیٹ بھرنے میں ہمارا ذاتی حصہ بھی ہو جائے ، صرف دوسروں کی پوسٹوں کو شیر چیتے کرتے رہنا کوئی ضروری تو نہیں ، کسی سے ووٹ کی امید نہ سہی ، ’ تمغہ لیاکت ‘ کی امید تو رکھی ہی جاسکتی ہے ۔
حرمین میں سب سے زیادہ جو لوگ اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ، وہ ہمارے برصغیر پاک و ہند کے صفائی وغیرہ والے بھائی ہیں ، ہر دم چوکس اور تیار ، کہیں کوئی پانی ، قہوے کا قطرہ گرا نہیں ، اور ان کی طرف سے صفائی آپریشن شروع ہوا نہیں ۔ حرمین میں کام کرنے والے ان بھائیوں کو آپ نے دیکھا ہوگا ، مختلف رنگ کی وردیوں میں ملبوس ہوتے ہیں ، کیونکہ حرم کی چھت کے نیچے کام کرنے والوں کی وردی الگ ہے ، باہر صحن والوں کی الگ ہے ، حرم کے نیچے پارکنگ والوں کا لباس الگ ہے ، اسی طرح صفائی والوں کی ، زم زم والے ، اور تکنیکی خدمات والے سب کی الگ الگ وردیاں ہیں ۔ ان لوگوں کی تنخواہیں کم ہیں ، ویسے زیادہ بھی ہوں ، تو انسان لالچی ہوتا ہے ، اس لیے ان میں سے بہت سارے اپنے کام کے ساتھ ساتھ حاجیوں اور زائرین سے ملنے والے دام پر بھی نظر رکھتے ہیں ، جس میں اللہ نے بہت برکت رکھی ہے ۔
میں گھر سے نکلتے ہوئے ’ سیروا فی الأرض ‘ کی نسبت سے ہر چیز کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھ رہا تھا ، لیکن حرم میں پہنچ کر رکعتین اور وتر ادا کرنے کے بعد شیطان کی ناک خاک آلود ہوئی ، موبائل جیب میں تو نہ رکھا ، لیکن اس پر ’ سورہ حج ‘ کھول لی ، کیونکہ حرم میں جو قرآن کریم ہیں ، وہ سب پندرہ لائن والے ہیں ، جبکہ ہم سولہ لائن والے حافظ ہیں ، اس لیے سولہ لائن کا قرآن کریم موبائل میں رکھا ہوا ہے ، تاکہ کہیں بھی اللہ توفیق دے تو شیطان مصحف نہ ہونے کے بہانے سے وار نہ کرسکے ، مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی ذکر و اذکار یا باتیں کرنے کی آوازیں اتنی اونچی نہیں تھی کہ میں اپنے قاریانہ ذوق کی تسکین کے لیے کان پر ہاتھ رکھ کر شروع ہوجاتا ، لیکن پھر بھی حدر و ترتیل کے ملے جلے مغربی انداز میں تلاوت شروع کردی ، اللہ نے توفیق دی ، توجہ لفظوں کا زینہ کراس کرکے معانی تک پہنچنے لگی ، بات شروع ہی یہاں سے ہوئی ، قیامت قائم ہوجائے گی ،گویا یہ نہ دیکھے گی کہ کسی مسجد ، مدرسہ ، میں کتنے لوگ جمع ہیں ؟ کتنے دیس میں ہیں ؟ اور کتنے پردیس میں ؟ ویسے بھی جو ماں کو شیر خوار بچہ بھلا دے گی ، وہ دنیا کے ہر تعلق اور نسبت کو ذہن سے محو کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اس بات پر ماتھا ٹھنکا کہ اللہ نے دو دفعہ قیامت کے تذکرہ کے فورا بعد ، و من الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم والا مضمون کیوں شروع کیا ؟ شاید اس لیے کہ عقل کے اسیر ہو کر قدرت الہی کے کرشموں کے منکر دانشور نہیں ، بلکہ ضدی جاہل ہیں ۔
یہ بات بھی ذہن میں نمایاں ہوئی کہ کسی بھی سورت کا نام صرف اس کے مضمون کو دیکھ کر ہی نہیں رکھا گیا ، بلکہ اور کئی نسبتوں سے بھی سورت کا کوئی نام متعین ہوجاتا ہے ، جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس سورت میں جو لفظ ایک دفعہ استعمال ہوا ہے ، اسی نام سے وہ سورت موسوم ہوگئی ، سورہ حج میں لفظ ’ حج ‘ صرف ایک بار استعمال ہوا ، اسی طرح سورہ بقرہ ، سورہ سبا وغیرہ میں بھی یہ الفاظ غالبا ایک ایک بار ہی آئے ہیں ۔
ایک وقت تھا ، قرآن کریم پڑھتے ہوئے ، صرفی نحوی نقطے بہت سر اٹھاتے تھے ، آج بھی یہی ہوا ، یحلون فیہا من أساور من ذھب و لؤلؤا . میں لؤلؤ کے اعراب میں منصوب بنزع الخافض والی بحث گھومتی رہی ۔ المقیمی الصلوۃ میں مضاف پر’ ال ‘ محسوس کیا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ خیر اس ہلکی پھلکی تحریر کےساتھ زیادتی ہوگی کہ اسے علمی رعب جھاڑنے کا ذریعہ بنالیا جائے ۔
فجر کی نماز تقریبا پانچ بیس پر ختم ہوئی ، ساتھ ہی اسپیکر میں تکبیرکی صدائیں بلند ہوئیں ، تو حاضرین مسجد بھی اس میں شامل ہوگئے ، مسجد نبوی کے مختلف مؤذنین جن کی اصل تعداد تو سترہ کے قریب ہے ، لیکن ان میں سے تقریبا چار پانچ باری باری مسلسل تکبیریں پڑھتے رہے ، تقریبا سوا چھے بجے عید کی نماز شروع ہوئی ، امام صاحب شیخ عبد المحسن قاسم صاحب تھے ، ہر عید میں میری کوشش ہوتی ہے کہ تکبیریں ضرور گنتا رہوں ، تاکہ کمی بیشی ہو ، تو پوچھنے پر صحیح بات کرسکوں ، پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ سات تکبیریں ہی تھی ، جبکہ دوسری میں شاید مجھے غلطی لگی ہوگی ، محسوس ہوا، شیخ صاحب پانچ سے زیادہ تکبیریں کہہ گئے ہیں ۔ نماز ختم ہوتے ہی ، کچھ لوگ باہر کی طرف چل دیے ، اور ان کی جگہ پر باہر والے اندر آگئے ، جسے ستون ملا ، اس نے تکیہ سمجھ لیا ، اور جو ساتھ ٹیک والی فولڈنگ کرسی لائے تھے ، وہ اس پر محو استراحت ہوئے ۔
شیخ عبد المحسن صاحب نے خطبہ شروع کیا ، ہر جملے سے پہلے اللہ اکبر ، اللہ اکبر کا سابقہ تھا ۔
محاسن اسلام پر نسبتا طویل خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں اسلام کی ساری خوبیاں آگئیں ، البتہ مسلمانوں کی جو حالت تھی ، وہ شیخ کا موضوع نہیں تھا ، لہذا اس طرف انہوں نے توجہ نہ کی ۔
دو خطبے ارشاد فرمائے ، درمیان میں وقفے وقفے سے تکبیرات دہراتے رہے ۔ اگر میں خطبہ غور سے سننے کی کوشش کر رہا تھا ، تو یقینا اور بھی بہت سارے لوگ ہوں گے ، البتہ عربی سے نابلد حضرات تو گپ شپ ، اور سیلفیوں ، یا تصاویر اور ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے ۔ آپ یہاں سے اندازہ کرلیں ، جو بزرگ ایک عرصے تک ’ خطبہ جمعہ ‘ صرف عربی میں ہوگا ، پر مصر رہے ، ان سے لوگ کتنا مستفید ہوتے ہوں گے ؟ اور معاشرے کے لیے کس قدر دینی رہنمائی کا سبب بن سکتا ہوگا . خیر اس کا حل ’ تقریر ‘ کی شکل میں نکال لیا گیا ، لیکن حرمین میں اس کا حل خطبے کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں ترجمہ کی شکل میں ہے ، جو ایف ایم کے ذریعے سنا جاسکتا ہے ۔
عید کا خطبہ ختم ہوا ، کچھ لوگ وہیں دراز ہوگئے ، کچھ ایسے بھی تھے ، جو گرچہ تین گھنٹے سے ساتھ ہی گپیں لگارے ہے تھے ، لیکن خطبہ کے بعد شاید گلے ملنے کا وقت ہوا تھا ، لہذا وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے ، اور کسی مسنون دعا کی طرح ’ عید مبارک ‘ کے الفاظ کا تبادلہ کیا ۔
اب آپ بتادیں کہ صرف کہنے سے عید مبارک ہوجاتی ہے ؟ ’ عید مبارک ‘ کہنے کے ساتھ اسلام کے ان عظیم شعائر کی برکات کو محسوس کرنا چاہیے ، اور ان لمحات کو واقعتا ’ بابرکت ‘ بنانے کی سعی کرنی چاہیے ۔
ذرا بیٹھ کر انتظار کیا ، پھر بچوں کو لینے خواتین کی طرف پہنچا ، میرے جیسے کئی ایک اپنے اپنے ’ بچوں ‘ کے انتظار میں وہاں کھڑے تھے ، خواتین جائے نماز کی چاردیواری کے دروازے پر موجود پہرے دار ، کچھ نوجوانوں سے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھ رہا تھا کہ تم سب یہاں کس لیے ؟ واقعتا تمہارے گھر والے یہاں موجود ہیں ؟ ان سوالوں کا مقصد یہ تھا ، کہ واقعتا کسی درست مقصد کے لیے کھڑے ہیں ، یا شیطان کی طرف سے ڈیوٹی پر مامور ہیں ، جس طرح کہ ہمارے ہاں گلیوں بازاروں میں ایسے کئی جوان و نوجوان آپ کو ’ تعینات ‘ نظر آئیں گے ۔
حرم میں بچوں کے گم ہونے کے کیسز ہوتے رہتے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا ، تو اس وقت بھی ایک بچے کے گرد تین چار خواتین موجود تھیں ، اسے پہریدار کی خاص کرسی پر بٹھایا ہوا تھا ، وہ کبھی آنکھیں کھولتا ، کبھی بند کرتا ، معلوم ہوا ، گمشدہ ہے ، جبکہ پاس کھڑا پولیس والا ادھر ادھر خبر کر رہا تھا کہ اس طرح کا بچہ اس نمبر گیٹ پر موجود ہے ، تاکہ جونہیں اس کے والدین ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی جگہ پہنچیں ، تو انہیں وہاں سے اس طرف ریفر کردیا جائے ، ابھی میں وہیں کھڑا تھا کہ ایک اور بچے کو ایک ’ شرطی ‘ انگلی سے لگائے ہوئے لے آیا ، لیکن ابھی وہ فون کی طرف بڑا ہی تھا کہ اس بچے کی ہم عمر بہن ، پھر اس کا والد آیا ، اور پولیس والے کو اپنا بچہ ہونے کا یقین دلا کر اسے ساتھ لے گئے ۔
تھوڑی دیر بعد ہماری ٹیم بھی پہنچ گئی ، اور یوں ہم گھر کو روانہ ہوئے ، مسجد نبوی میں سے نکلنے سے پہلے بچوں نے پانی پیا ، جبکہ بچوں کے ’ ابو ‘ نے بچوں کے ساتھ دو چار سیلفیاں بنائیں ، تاکہ عید کے دن ہنستے مسکراتے چہرے بذریعہ موبائل پاکستان پہنچ کر پاکستان میں ہر وقت فکر مند رہنے والوں کے لیے دلی سکون و اطمینان کا باعث بنیں ۔
عید قربان میں نماز کے بعد قربانی اہم کام اور مصروفیت ہوتی ہے ، اس حوالے سے عید کی رات ہی ہمارے دوست فواد بادشاہ صاحب نے فون کیا ، کہ ہم کچھ ساتھی قربانی کے جانور خرید رہے ہیں ، میں نے عرض کی ، میں نے نہیں خریدنا ، والد صاحب نے پاکستان میں خرید لیا ہوا ہے ، کہنے لگے ، ٹھیک ہے ، آپ کل شام کے وقت آجائیں ، قربانی کے گوشت کی ہماری طرف سے دعوت ہے ، یوں ہمارے والی قربانی تو ابھی والد صاحب اور بھائی کر رہے ہوں گے ، جبکہ قربانی کے تازہ گوشت کا مزہ ہم رات کو ہی اٹھا چکے تھے ۔ جبکہ جو ہماری قربانی ہے اس کے لیے ہم نے تاکید کردی ہے کہ ہمیں نہ سہی ، لیکن ہماری جگہ ہمارے محسن و مرشد اور سسرال کا خصوصی خیال رکھا جائے ۔اللہ سب کو سلامت رکھے ۔
آج فجر کے وقت والدین سے بات ہوئی ، دیگر عزیز و اقارب کو ابھی فون کرنا ہے ، تاکہ عید اپنے تمام ارکان و لوازمات کے ساتھ مکمل ہوجائے ۔ سوائے ایک لازمے کے ، ہر عید پر مدینہ میں کچھ دوست مل کر فیملیز سمیت عید ملن پارٹی رکھتے ہیں ، جو کہ آج شام کو منعقد ہوگی ۔ إن شاءاللہ ۔