• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہماری عید

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ہماری عید

2010 بمطابق 1431 کی عیدِ قربان ہم نے مسجد نبوی میں پڑھی تھی ، اس کے بعد حج کیا نہ کیا ، ہر ’ عید الأضحی ‘ مکہ مکرمہ گزری ، عید الفطر کئی دفعہ مدینہ منورہ مسجد نبوی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، البتہ عید قربان سات سال بعد اب یہاں پڑھنے کا موقعہ ملا ۔
حج میں تو عید کا پتہ ہی نہیں چلتا ، ویسے بھی حاجیوں کے لیے عید نماز پڑھنا ضروری بھی نہیں ہے ۔
پاکستان گھر میں ہوں تو کچھ دن پہلے ہی عید کی خریداری شروع ہوجاتی ہے ، قربانی کے لیے جانور کا بندوبست سب سے اہم کام ہوتا ہے ، جس نے قربانی نہیں بھی کرنی ، وہ بھی اس کام میں کافی منہمک ہوتا ہے ۔
یہاں مدینہ منورہ ، کسی کو پتہ ہی نہیں ، یقین مانیے بکرا دیکھنا کیا ، آواز تک سننے کو نہیں ملی ، یہ نہیں کہ لوگ قربانی نہیں کرتے ، کرتے ہیں ، بڑھ چڑھ کر ، لیکن یا تو مختلف اداروں کے ذریعے ، یا پھر خود بھی جانور خریدیں تو گھروں میں جانور لانے کا کوئی تصور ہی نہیں ۔
شاپنگ وغیرہ کا بھی کوئی خاص شوق و ذوق نہیں ، اس لیے عید کی یہ رسم ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر ہے ۔
میری عید تو صبح ہی شروع ہوتی ہے ، لیکن بیگم کو رات سے ہی کپڑے وغیرہ اور کھانا پینا تیار کرنا پڑتا ہے ۔ البتہ اب کی بار خلاف عادت میں نےبھی فیس بک کے ’ اوتار ‘ کو رات سے ہی تبدیل کرکے عید منانے کا آغاز کردیا تھا۔
پاکستان میں عید نماز کے لیے تیاری جلدی سے جلدی بھی فجر کی نماز کے بعد شروع ہوتی ہے ، لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے ، ہمارے ہاں عید نماز کی تیاری فجر کی نماز کی تیاری سمجھ کر کی جاتی ہے ، یعنی آپ نے فجر سے پہلے پہلے مسجد نبوی پہنچنا ہے ، لوگ بارہ بجے کے بعد مسجد نبوی آنا شروع ہوجاتے ہیں ، لہذا یہ دھیان اور خبر رکھنا پڑتی ہے کہ کب تک مسجد نبوی میں آسانی سے جگہ مل جائے گی ؟ اور اگر کسی کے پاس گاڑی ہے تو یہ بھی کہ مسجد نبوی کے قریب ترین کب تک پارکنگ کی سہولت میسر رہے گی ، عید الفطر میں بہت رش ہوتا ہے ، لہذا ہم نماز فجر سے گھنٹہ پہلے پہنچے تھے ، لیکن پارکنگ کی جگہ بھی مشکل ملی ، اور نماز پڑھنے کے لیے بھی محنت سے جگہ تلاش کرنا پڑی تھی ، البتہ اس دفعہ میں نے بارہ بجے سے ہی مسجد نبوی لائیو چینل دیکھنا شروع کیا ، معلوم ہوا کہ بہت کم لوگ ہیں ، تقریبا اڑھائی بجے تک یہی صورت حال تھی ، صحن اور اندر کمرے میں بہت کم لوگ نظر آرہے تھے ، پھر ایک دوست پہنچے ، انہوں نے بتایا ، بہت جگہ خالی پڑی ہے ، رش نہیں ہے ، ہمارا ارادہ گھر سے تین بجے نکلنے کا تھا ، نکلتے نکلتے ساڑھے تین ہوگئے ، مسجد نبوی کے قریب پہنچے ، پارکنگ وغیرہ کے لیے بآسانی وافر جگہ مل گئی ، ایک گاڑی وہیں پارک کی ، اگلے سفر کے لیے دوسری تیار کی ، جس میں بچے سوار ہوئے ، اور اس ’ دھکے ‘ والی گاڑی کو لے کر مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوگئے ، جو ابھی تقریبا آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر تھی ، دل میں ایک خدشہ سا تھا ، کہیں مسجد میں رش کی وجہ سے صحن وغیرہ میں داخلہ بند نہ ہوگیا ہو ، لیکن جوں جوں قریب ہوئے ، معلوم ہوا ، عید الفطر کی نسبت عید الأضحی میں رش بہت کم ہے ۔ ٹھیک چار بجے مسجد نبوی پہنچ گئے ، بچہ لوگوں کو خواتین جائے نماز کی طرف چھوڑا ، اور خود مردوں کی طرف گیٹ نمبر 10 امام بخاری کی طرف متوجہ ہوا ، سوچا اوپر چھت پر چلا جاتا ہوں ، لیکن پھر فیصلہ کیا ، اگر آج بھیڑ نہیں ہے ، تو مسجد کے اندرونی حصے میں ٹرائی کرتے ہیں ، داخل ہوتے ہی بہت خوشی ہوئی ، وافر مقدار میں جگہ باقی تھی ، چلتے چلتے ملک فہد والی توسیع گزر کر پہلی سعودی توسیع ، جو اصل مسجد نبوی کے بالکل پچھلی جانب ہے ، میں پہنچ گیا ، مزید آگے جایا جاسکتا تھا ، لیکن بہتر یہی محسوس ہوا کہ گردنیں پھلانگے بغیر یہاں تک آجانا بھی اللہ کی رحمت ہے ، لہذا وہیں پچھلی جانب جوتے والا ایک ریک دیکھ کر اس میں جوتا ٹکا دیا ، جو ابھی رات کو ہی خریدا تھا ۔سال ڈیڑھ پہلے بالکل نیا جوتا گم ہوگیا تھا ، اس لیے اب کی بار ذرا محتاط تھا ، ورنہ میں مسجد میں داخل ہوتے ہی قریب ہی کسی ریک میں جوتا رکھ کر نمبر نوٹ کرلیتا ہوں ، چاہے دو گھنٹے بعد آئیں ، وہیں موجود ہوتا ہے ، لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ موجود نہیں تھا ، لہذا اس دفعہ رسک لینے پر دل مطمئن نہ ہوا ۔
عید نماز کے لیے مسجد نبوی میں آنے کا منظر کیا ہوتا ہے ؟ میں مسجد کے مغربی جانب شارع السلام کے ذریعے عزیزیہ کی طرف سے آیا تھا ، اکثر لوگ گاڑیوں پر آرہے تھے ، جبکہ سڑک کے درمیان فٹ پاتھ پر بھی کئی ایک لوگ رواں دواں تھے ، سڑک پر جابجا ٹریفک پولیس والے موجود تھے ، تاکہ کہیں بھی آمد و رفت جام نہ ہونے پائے ۔
دکانیں ، ہوٹل وغیرہ جو عام طور پر لوگوں کے آنے جانے کے وقت کھلے ہوتے ہیں ، اس وقت سارے بند تھے ، شاید یہ لوگ بھی عید نماز کی تیاری میں مصروف تھے ۔
آنے والوں میں ہر رنگ نسل ، جنس اور علاقے کے لوگ دکھائی دے رہے تھے ، کوئی بہت سپاٹ چہروں کے ساتھ ، کوئی نسبتا مہموم و مغموم ، کچھ لوگ بڑے محتاط انداز میں عاجزانہ چال چل رہے تھے ، اور کچھ اعتماد کی حد پھلانگ کر تکبر تک پہنچ رہے تھے ، اکثر لوگ داڑھی کے بغیر ، اکثر خواتین برقعہ کے ساتھ ، کچھ بچوں کو اٹھائے ہوئے تھے ، جن کے بچے نہیں تھے ، انہیں موبائل نے اس سے بھی زیادہ مصروف کر رکھا تھا ، کیونکہ بچوں کو بہلانے کی ضرورت ہوتی ہے ، جبکہ موبائل خود انسان کو کھلا ، بلکہ اس کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہوتا ہے ۔
اکثر لوگوں کا رخ مسجد نبوی کی طرف تھا ، جبکہ اکا دکا لوگ مسجد نبوی سے واپس لوٹ رہے تھے ، شاید مجبورا بچے یا بچے کی ماں کے اصرار پر واپس ہورہے تھے ، اور ممکن ہے کچھ سے شیطان نے پہلے اکل و شرب میں بد پرہیزی کروائی ہو ، تاکہ زیادہ دیر حرم نہ ٹھہر سکیں ، اور حرم میں نماز کی سعادت سے محروم رہ جائیں ۔
حرم کے اندر کچھ لوگ نفل ادا کر رہے تھے ، کچھ لال رومال والے تلاوت قرآن میں مصروف تھے ، کچھ شلوار قمیض اور پینٹ شرٹ والے نیند پوری کر رہے تھے ، کچھ الگ سے ہو کر ’ خیال ایئر لائن ‘ کے ذریعے اپنے گاؤں ، گھر اور عید گاہ میں پہنچ چکے تھے ۔ بہتیرے ایسے تھے ، جو گپ شپ کے اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھا رہے تھے ۔
کوئی فون کرکے بتارہا تھا ، میں عید پڑھنے کے لیے مسجد نبوی پہنچ چکا ہوں ، کئی فون کان سے لگائے ، مختلف سمتوں میں نظر دوڑاتے ہوئے ، کسی کو تلاش کر رہے تھے ، نظر آنے پر کہہ رہے تھے یہاں سے بالکل سیدھا آجائیں ، تھوڑا سا دائیں ، یہ میں نے ہاتھ اوپر کیا ہوا ہے .... ہاں میں نے دیکھ لیا ، ٹھہرو ، ادھر جگہ ہے نا ؟ میں آرہا ہوں ..... اس مجمعے میں کوئی سلفی ہو نہ ہو، البتہ سیلفی والوں کی اکثریت تھی ، کچھ ہمارے جیسے سوچ رہے تھے ، فارغ ضرور بیٹھنا ہے ، مسجد نبوی کے اس پر رونق ماحول کی چار تصویریں ، دو ویڈیوز لیتے ہیں ، تاکہ سوشل میڈیا کا پیٹ بھرنے میں ہمارا ذاتی حصہ بھی ہو جائے ، صرف دوسروں کی پوسٹوں کو شیر چیتے کرتے رہنا کوئی ضروری تو نہیں ، کسی سے ووٹ کی امید نہ سہی ، ’ تمغہ لیاکت ‘ کی امید تو رکھی ہی جاسکتی ہے ۔
حرمین میں سب سے زیادہ جو لوگ اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ، وہ ہمارے برصغیر پاک و ہند کے صفائی وغیرہ والے بھائی ہیں ، ہر دم چوکس اور تیار ، کہیں کوئی پانی ، قہوے کا قطرہ گرا نہیں ، اور ان کی طرف سے صفائی آپریشن شروع ہوا نہیں ۔ حرمین میں کام کرنے والے ان بھائیوں کو آپ نے دیکھا ہوگا ، مختلف رنگ کی وردیوں میں ملبوس ہوتے ہیں ، کیونکہ حرم کی چھت کے نیچے کام کرنے والوں کی وردی الگ ہے ، باہر صحن والوں کی الگ ہے ، حرم کے نیچے پارکنگ والوں کا لباس الگ ہے ، اسی طرح صفائی والوں کی ، زم زم والے ، اور تکنیکی خدمات والے سب کی الگ الگ وردیاں ہیں ۔ ان لوگوں کی تنخواہیں کم ہیں ، ویسے زیادہ بھی ہوں ، تو انسان لالچی ہوتا ہے ، اس لیے ان میں سے بہت سارے اپنے کام کے ساتھ ساتھ حاجیوں اور زائرین سے ملنے والے دام پر بھی نظر رکھتے ہیں ، جس میں اللہ نے بہت برکت رکھی ہے ۔
میں گھر سے نکلتے ہوئے ’ سیروا فی الأرض ‘ کی نسبت سے ہر چیز کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھ رہا تھا ، لیکن حرم میں پہنچ کر رکعتین اور وتر ادا کرنے کے بعد شیطان کی ناک خاک آلود ہوئی ، موبائل جیب میں تو نہ رکھا ، لیکن اس پر ’ سورہ حج ‘ کھول لی ، کیونکہ حرم میں جو قرآن کریم ہیں ، وہ سب پندرہ لائن والے ہیں ، جبکہ ہم سولہ لائن والے حافظ ہیں ، اس لیے سولہ لائن کا قرآن کریم موبائل میں رکھا ہوا ہے ، تاکہ کہیں بھی اللہ توفیق دے تو شیطان مصحف نہ ہونے کے بہانے سے وار نہ کرسکے ، مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی ذکر و اذکار یا باتیں کرنے کی آوازیں اتنی اونچی نہیں تھی کہ میں اپنے قاریانہ ذوق کی تسکین کے لیے کان پر ہاتھ رکھ کر شروع ہوجاتا ، لیکن پھر بھی حدر و ترتیل کے ملے جلے مغربی انداز میں تلاوت شروع کردی ، اللہ نے توفیق دی ، توجہ لفظوں کا زینہ کراس کرکے معانی تک پہنچنے لگی ، بات شروع ہی یہاں سے ہوئی ، قیامت قائم ہوجائے گی ،گویا یہ نہ دیکھے گی کہ کسی مسجد ، مدرسہ ، میں کتنے لوگ جمع ہیں ؟ کتنے دیس میں ہیں ؟ اور کتنے پردیس میں ؟ ویسے بھی جو ماں کو شیر خوار بچہ بھلا دے گی ، وہ دنیا کے ہر تعلق اور نسبت کو ذہن سے محو کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اس بات پر ماتھا ٹھنکا کہ اللہ نے دو دفعہ قیامت کے تذکرہ کے فورا بعد ، و من الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم والا مضمون کیوں شروع کیا ؟ شاید اس لیے کہ عقل کے اسیر ہو کر قدرت الہی کے کرشموں کے منکر دانشور نہیں ، بلکہ ضدی جاہل ہیں ۔
یہ بات بھی ذہن میں نمایاں ہوئی کہ کسی بھی سورت کا نام صرف اس کے مضمون کو دیکھ کر ہی نہیں رکھا گیا ، بلکہ اور کئی نسبتوں سے بھی سورت کا کوئی نام متعین ہوجاتا ہے ، جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس سورت میں جو لفظ ایک دفعہ استعمال ہوا ہے ، اسی نام سے وہ سورت موسوم ہوگئی ، سورہ حج میں لفظ ’ حج ‘ صرف ایک بار استعمال ہوا ، اسی طرح سورہ بقرہ ، سورہ سبا وغیرہ میں بھی یہ الفاظ غالبا ایک ایک بار ہی آئے ہیں ۔
ایک وقت تھا ، قرآن کریم پڑھتے ہوئے ، صرفی نحوی نقطے بہت سر اٹھاتے تھے ، آج بھی یہی ہوا ، یحلون فیہا من أساور من ذھب و لؤلؤا . میں لؤلؤ کے اعراب میں منصوب بنزع الخافض والی بحث گھومتی رہی ۔ المقیمی الصلوۃ میں مضاف پر’ ال ‘ محسوس کیا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ خیر اس ہلکی پھلکی تحریر کےساتھ زیادتی ہوگی کہ اسے علمی رعب جھاڑنے کا ذریعہ بنالیا جائے ۔
فجر کی نماز تقریبا پانچ بیس پر ختم ہوئی ، ساتھ ہی اسپیکر میں تکبیرکی صدائیں بلند ہوئیں ، تو حاضرین مسجد بھی اس میں شامل ہوگئے ، مسجد نبوی کے مختلف مؤذنین جن کی اصل تعداد تو سترہ کے قریب ہے ، لیکن ان میں سے تقریبا چار پانچ باری باری مسلسل تکبیریں پڑھتے رہے ، تقریبا سوا چھے بجے عید کی نماز شروع ہوئی ، امام صاحب شیخ عبد المحسن قاسم صاحب تھے ، ہر عید میں میری کوشش ہوتی ہے کہ تکبیریں ضرور گنتا رہوں ، تاکہ کمی بیشی ہو ، تو پوچھنے پر صحیح بات کرسکوں ، پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ سات تکبیریں ہی تھی ، جبکہ دوسری میں شاید مجھے غلطی لگی ہوگی ، محسوس ہوا، شیخ صاحب پانچ سے زیادہ تکبیریں کہہ گئے ہیں ۔ نماز ختم ہوتے ہی ، کچھ لوگ باہر کی طرف چل دیے ، اور ان کی جگہ پر باہر والے اندر آگئے ، جسے ستون ملا ، اس نے تکیہ سمجھ لیا ، اور جو ساتھ ٹیک والی فولڈنگ کرسی لائے تھے ، وہ اس پر محو استراحت ہوئے ۔
شیخ عبد المحسن صاحب نے خطبہ شروع کیا ، ہر جملے سے پہلے اللہ اکبر ، اللہ اکبر کا سابقہ تھا ۔
محاسن اسلام پر نسبتا طویل خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں اسلام کی ساری خوبیاں آگئیں ، البتہ مسلمانوں کی جو حالت تھی ، وہ شیخ کا موضوع نہیں تھا ، لہذا اس طرف انہوں نے توجہ نہ کی ۔
دو خطبے ارشاد فرمائے ، درمیان میں وقفے وقفے سے تکبیرات دہراتے رہے ۔ اگر میں خطبہ غور سے سننے کی کوشش کر رہا تھا ، تو یقینا اور بھی بہت سارے لوگ ہوں گے ، البتہ عربی سے نابلد حضرات تو گپ شپ ، اور سیلفیوں ، یا تصاویر اور ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے ۔ آپ یہاں سے اندازہ کرلیں ، جو بزرگ ایک عرصے تک ’ خطبہ جمعہ ‘ صرف عربی میں ہوگا ، پر مصر رہے ، ان سے لوگ کتنا مستفید ہوتے ہوں گے ؟ اور معاشرے کے لیے کس قدر دینی رہنمائی کا سبب بن سکتا ہوگا . خیر اس کا حل ’ تقریر ‘ کی شکل میں نکال لیا گیا ، لیکن حرمین میں اس کا حل خطبے کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں ترجمہ کی شکل میں ہے ، جو ایف ایم کے ذریعے سنا جاسکتا ہے ۔
عید کا خطبہ ختم ہوا ، کچھ لوگ وہیں دراز ہوگئے ، کچھ ایسے بھی تھے ، جو گرچہ تین گھنٹے سے ساتھ ہی گپیں لگارے ہے تھے ، لیکن خطبہ کے بعد شاید گلے ملنے کا وقت ہوا تھا ، لہذا وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے ، اور کسی مسنون دعا کی طرح ’ عید مبارک ‘ کے الفاظ کا تبادلہ کیا ۔
اب آپ بتادیں کہ صرف کہنے سے عید مبارک ہوجاتی ہے ؟ ’ عید مبارک ‘ کہنے کے ساتھ اسلام کے ان عظیم شعائر کی برکات کو محسوس کرنا چاہیے ، اور ان لمحات کو واقعتا ’ بابرکت ‘ بنانے کی سعی کرنی چاہیے ۔
ذرا بیٹھ کر انتظار کیا ، پھر بچوں کو لینے خواتین کی طرف پہنچا ، میرے جیسے کئی ایک اپنے اپنے ’ بچوں ‘ کے انتظار میں وہاں کھڑے تھے ، خواتین جائے نماز کی چاردیواری کے دروازے پر موجود پہرے دار ، کچھ نوجوانوں سے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھ رہا تھا کہ تم سب یہاں کس لیے ؟ واقعتا تمہارے گھر والے یہاں موجود ہیں ؟ ان سوالوں کا مقصد یہ تھا ، کہ واقعتا کسی درست مقصد کے لیے کھڑے ہیں ، یا شیطان کی طرف سے ڈیوٹی پر مامور ہیں ، جس طرح کہ ہمارے ہاں گلیوں بازاروں میں ایسے کئی جوان و نوجوان آپ کو ’ تعینات ‘ نظر آئیں گے ۔
حرم میں بچوں کے گم ہونے کے کیسز ہوتے رہتے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا ، تو اس وقت بھی ایک بچے کے گرد تین چار خواتین موجود تھیں ، اسے پہریدار کی خاص کرسی پر بٹھایا ہوا تھا ، وہ کبھی آنکھیں کھولتا ، کبھی بند کرتا ، معلوم ہوا ، گمشدہ ہے ، جبکہ پاس کھڑا پولیس والا ادھر ادھر خبر کر رہا تھا کہ اس طرح کا بچہ اس نمبر گیٹ پر موجود ہے ، تاکہ جونہیں اس کے والدین ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی جگہ پہنچیں ، تو انہیں وہاں سے اس طرف ریفر کردیا جائے ، ابھی میں وہیں کھڑا تھا کہ ایک اور بچے کو ایک ’ شرطی ‘ انگلی سے لگائے ہوئے لے آیا ، لیکن ابھی وہ فون کی طرف بڑا ہی تھا کہ اس بچے کی ہم عمر بہن ، پھر اس کا والد آیا ، اور پولیس والے کو اپنا بچہ ہونے کا یقین دلا کر اسے ساتھ لے گئے ۔
تھوڑی دیر بعد ہماری ٹیم بھی پہنچ گئی ، اور یوں ہم گھر کو روانہ ہوئے ، مسجد نبوی میں سے نکلنے سے پہلے بچوں نے پانی پیا ، جبکہ بچوں کے ’ ابو ‘ نے بچوں کے ساتھ دو چار سیلفیاں بنائیں ، تاکہ عید کے دن ہنستے مسکراتے چہرے بذریعہ موبائل پاکستان پہنچ کر پاکستان میں ہر وقت فکر مند رہنے والوں کے لیے دلی سکون و اطمینان کا باعث بنیں ۔
عید قربان میں نماز کے بعد قربانی اہم کام اور مصروفیت ہوتی ہے ، اس حوالے سے عید کی رات ہی ہمارے دوست فواد بادشاہ صاحب نے فون کیا ، کہ ہم کچھ ساتھی قربانی کے جانور خرید رہے ہیں ، میں نے عرض کی ، میں نے نہیں خریدنا ، والد صاحب نے پاکستان میں خرید لیا ہوا ہے ، کہنے لگے ، ٹھیک ہے ، آپ کل شام کے وقت آجائیں ، قربانی کے گوشت کی ہماری طرف سے دعوت ہے ، یوں ہمارے والی قربانی تو ابھی والد صاحب اور بھائی کر رہے ہوں گے ، جبکہ قربانی کے تازہ گوشت کا مزہ ہم رات کو ہی اٹھا چکے تھے ۔ جبکہ جو ہماری قربانی ہے اس کے لیے ہم نے تاکید کردی ہے کہ ہمیں نہ سہی ، لیکن ہماری جگہ ہمارے محسن و مرشد اور سسرال کا خصوصی خیال رکھا جائے ۔اللہ سب کو سلامت رکھے ۔
آج فجر کے وقت والدین سے بات ہوئی ، دیگر عزیز و اقارب کو ابھی فون کرنا ہے ، تاکہ عید اپنے تمام ارکان و لوازمات کے ساتھ مکمل ہوجائے ۔ سوائے ایک لازمے کے ، ہر عید پر مدینہ میں کچھ دوست مل کر فیملیز سمیت عید ملن پارٹی رکھتے ہیں ، جو کہ آج شام کو منعقد ہوگی ۔ إن شاءاللہ ۔
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
ہماری عید

2010 بمطابق 1431 کی عیدِ قربان ہم نے مسجد نبوی میں پڑھی تھی ، اس کے بعد حج کیا نہ کیا ، ہر ’ عید الأضحی ‘ مکہ مکرمہ گزری ، عید الفطر کئی دفعہ مدینہ منورہ مسجد نبوی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، البتہ عید قربان سات سال بعد اب یہاں پڑھنے کا موقعہ ملا ۔
حج میں تو عید کا پتہ ہی نہیں چلتا ، ویسے بھی حاجیوں کے لیے عید نماز پڑھنا ضروری بھی نہیں ہے ۔
پاکستان گھر میں ہوں تو کچھ دن پہلے ہی عید کی خریداری شروع ہوجاتی ہے ، قربانی کے لیے جانور کا بندوبست سب سے اہم کام ہوتا ہے ، جس نے قربانی نہیں بھی کرنی ، وہ بھی اس کام میں کافی منہمک ہوتا ہے ۔
یہاں مدینہ منورہ ، کسی کو پتہ ہی نہیں ، یقین مانیے بکرا دیکھنا کیا ، آواز تک سننے کو نہیں ملی ، یہ نہیں کہ لوگ قربانی نہیں کرتے ، کرتے ہیں ، بڑھ چڑھ کر ، لیکن یا تو مختلف اداروں کے ذریعے ، یا پھر خود بھی جانور خریدیں تو گھروں میں جانور لانے کا کوئی تصور ہی نہیں ۔
شاپنگ وغیرہ کا بھی کوئی خاص شوق و ذوق نہیں ، اس لیے عید کی یہ رسم ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر ہے ۔
میری عید تو صبح ہی شروع ہوتی ہے ، لیکن بیگم کو رات سے ہی کپڑے وغیرہ اور کھانا پینا تیار کرنا پڑتا ہے ۔ البتہ اب کی بار خلاف عادت میں نےبھی فیس بک کے ’ اوتار ‘ کو رات سے ہی تبدیل کرکے عید منانے کا آغاز کردیا تھا۔
پاکستان میں عید نماز کے لیے تیاری جلدی سے جلدی بھی فجر کی نماز کے بعد شروع ہوتی ہے ، لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے ، ہمارے ہاں عید نماز کی تیاری فجر کی نماز کی تیاری سمجھ کر کی جاتی ہے ، یعنی آپ نے فجر سے پہلے پہلے مسجد نبوی پہنچنا ہے ، لوگ بارہ بجے کے بعد مسجد نبوی آنا شروع ہوجاتے ہیں ، لہذا یہ دھیان اور خبر رکھنا پڑتی ہے کہ کب تک مسجد نبوی میں آسانی سے جگہ مل جائے گی ؟ اور اگر کسی کے پاس گاڑی ہے تو یہ بھی کہ مسجد نبوی کے قریب ترین کب تک پارکنگ کی سہولت میسر رہے گی ، عید الفطر میں بہت رش ہوتا ہے ، لہذا ہم نماز فجر سے گھنٹہ پہلے پہنچے تھے ، لیکن پارکنگ کی جگہ بھی مشکل ملی ، اور نماز پڑھنے کے لیے بھی محنت سے جگہ تلاش کرنا پڑی تھی ، البتہ اس دفعہ میں نے بارہ بجے سے ہی مسجد نبوی لائیو چینل دیکھنا شروع کیا ، معلوم ہوا کہ بہت کم لوگ ہیں ، تقریبا اڑھائی بجے تک یہی صورت حال تھی ، صحن اور اندر کمرے میں بہت کم لوگ نظر آرہے تھے ، پھر ایک دوست پہنچے ، انہوں نے بتایا ، بہت جگہ خالی پڑی ہے ، رش نہیں ہے ، ہمارا ارادہ گھر سے تین بجے نکلنے کا تھا ، نکلتے نکلتے ساڑھے تین ہوگئے ، مسجد نبوی کے قریب پہنچے ، پارکنگ وغیرہ کے لیے بآسانی وافر جگہ مل گئی ، ایک گاڑی وہیں پارک کی ، اگلے سفر کے لیے دوسری تیار کی ، جس میں بچے سوار ہوئے ، اور اس ’ دھکے ‘ والی گاڑی کو لے کر مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوگئے ، جو ابھی تقریبا آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر تھی ، دل میں ایک خدشہ سا تھا ، کہیں مسجد میں رش کی وجہ سے صحن وغیرہ میں داخلہ بند نہ ہوگیا ہو ، لیکن جوں جوں قریب ہوئے ، معلوم ہوا ، عید الفطر کی نسبت عید الأضحی میں رش بہت کم ہے ۔ ٹھیک چار بجے مسجد نبوی پہنچ گئے ، بچہ لوگوں کو خواتین جائے نماز کی طرف چھوڑا ، اور خود مردوں کی طرف گیٹ نمبر 10 امام بخاری کی طرف متوجہ ہوا ، سوچا اوپر چھت پر چلا جاتا ہوں ، لیکن پھر فیصلہ کیا ، اگر آج بھیڑ نہیں ہے ، تو مسجد کے اندرونی حصے میں ٹرائی کرتے ہیں ، داخل ہوتے ہی بہت خوشی ہوئی ، وافر مقدار میں جگہ باقی تھی ، چلتے چلتے ملک فہد والی توسیع گزر کر پہلی سعودی توسیع ، جو اصل مسجد نبوی کے بالکل پچھلی جانب ہے ، میں پہنچ گیا ، مزید آگے جایا جاسکتا تھا ، لیکن بہتر یہی محسوس ہوا کہ گردنیں پھلانگے بغیر یہاں تک آجانا بھی اللہ کی رحمت ہے ، لہذا وہیں پچھلی جانب جوتے والا ایک ریک دیکھ کر اس میں جوتا ٹکا دیا ، جو ابھی رات کو ہی خریدا تھا ۔سال ڈیڑھ پہلے بالکل نیا جوتا گم ہوگیا تھا ، اس لیے اب کی بار ذرا محتاط تھا ، ورنہ میں مسجد میں داخل ہوتے ہی قریب ہی کسی ریک میں جوتا رکھ کر نمبر نوٹ کرلیتا ہوں ، چاہے دو گھنٹے بعد آئیں ، وہیں موجود ہوتا ہے ، لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ موجود نہیں تھا ، لہذا اس دفعہ رسک لینے پر دل مطمئن نہ ہوا ۔
عید نماز کے لیے مسجد نبوی میں آنے کا منظر کیا ہوتا ہے ؟ میں مسجد کے مغربی جانب شارع السلام کے ذریعے عزیزیہ کی طرف سے آیا تھا ، اکثر لوگ گاڑیوں پر آرہے تھے ، جبکہ سڑک کے درمیان فٹ پاتھ پر بھی کئی ایک لوگ رواں دواں تھے ، سڑک پر جابجا ٹریفک پولیس والے موجود تھے ، تاکہ کہیں بھی آمد و رفت جام نہ ہونے پائے ۔
دکانیں ، ہوٹل وغیرہ جو عام طور پر لوگوں کے آنے جانے کے وقت کھلے ہوتے ہیں ، اس وقت سارے بند تھے ، شاید یہ لوگ بھی عید نماز کی تیاری میں مصروف تھے ۔
آنے والوں میں ہر رنگ نسل ، جنس اور علاقے کے لوگ دکھائی دے رہے تھے ، کوئی بہت سپاٹ چہروں کے ساتھ ، کوئی نسبتا مہموم و مغموم ، کچھ لوگ بڑے محتاط انداز میں عاجزانہ چال چل رہے تھے ، اور کچھ اعتماد کی حد پھلانگ کر تکبر تک پہنچ رہے تھے ، اکثر لوگ داڑھی کے بغیر ، اکثر خواتین برقعہ کے ساتھ ، کچھ بچوں کو اٹھائے ہوئے تھے ، جن کے بچے نہیں تھے ، انہیں موبائل نے اس سے بھی زیادہ مصروف کر رکھا تھا ، کیونکہ بچوں کو بہلانے کی ضرورت ہوتی ہے ، جبکہ موبائل خود انسان کو کھلا ، بلکہ اس کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہوتا ہے ۔
اکثر لوگوں کا رخ مسجد نبوی کی طرف تھا ، جبکہ اکا دکا لوگ مسجد نبوی سے واپس لوٹ رہے تھے ، شاید مجبورا بچے یا بچے کی ماں کے اصرار پر واپس ہورہے تھے ، اور ممکن ہے کچھ سے شیطان نے پہلے اکل و شرب میں بد پرہیزی کروائی ہو ، تاکہ زیادہ دیر حرم نہ ٹھہر سکیں ، اور حرم میں نماز کی سعادت سے محروم رہ جائیں ۔
حرم کے اندر کچھ لوگ نفل ادا کر رہے تھے ، کچھ لال رومال والے تلاوت قرآن میں مصروف تھے ، کچھ شلوار قمیض اور پینٹ شرٹ والے نیند پوری کر رہے تھے ، کچھ الگ سے ہو کر ’ خیال ایئر لائن ‘ کے ذریعے اپنے گاؤں ، گھر اور عید گاہ میں پہنچ چکے تھے ۔ بہتیرے ایسے تھے ، جو گپ شپ کے اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھا رہے تھے ۔
کوئی فون کرکے بتارہا تھا ، میں عید پڑھنے کے لیے مسجد نبوی پہنچ چکا ہوں ، کئی فون کان سے لگائے ، مختلف سمتوں میں نظر دوڑاتے ہوئے ، کسی کو تلاش کر رہے تھے ، نظر آنے پر کہہ رہے تھے یہاں سے بالکل سیدھا آجائیں ، تھوڑا سا دائیں ، یہ میں نے ہاتھ اوپر کیا ہوا ہے .... ہاں میں نے دیکھ لیا ، ٹھہرو ، ادھر جگہ ہے نا ؟ میں آرہا ہوں ..... اس مجمعے میں کوئی سلفی ہو نہ ہو، البتہ سیلفی والوں کی اکثریت تھی ، کچھ ہمارے جیسے سوچ رہے تھے ، فارغ ضرور بیٹھنا ہے ، مسجد نبوی کے اس پر رونق ماحول کی چار تصویریں ، دو ویڈیوز لیتے ہیں ، تاکہ سوشل میڈیا کا پیٹ بھرنے میں ہمارا ذاتی حصہ بھی ہو جائے ، صرف دوسروں کی پوسٹوں کو شیر چیتے کرتے رہنا کوئی ضروری تو نہیں ، کسی سے ووٹ کی امید نہ سہی ، ’ تمغہ لیاکت ‘ کی امید تو رکھی ہی جاسکتی ہے ۔
حرمین میں سب سے زیادہ جو لوگ اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ، وہ ہمارے برصغیر پاک و ہند کے صفائی وغیرہ والے بھائی ہیں ، ہر دم چوکس اور تیار ، کہیں کوئی پانی ، قہوے کا قطرہ گرا نہیں ، اور ان کی طرف سے صفائی آپریشن شروع ہوا نہیں ۔ حرمین میں کام کرنے والے ان بھائیوں کو آپ نے دیکھا ہوگا ، مختلف رنگ کی وردیوں میں ملبوس ہوتے ہیں ، کیونکہ حرم کی چھت کے نیچے کام کرنے والوں کی وردی الگ ہے ، باہر صحن والوں کی الگ ہے ، حرم کے نیچے پارکنگ والوں کا لباس الگ ہے ، اسی طرح صفائی والوں کی ، زم زم والے ، اور تکنیکی خدمات والے سب کی الگ الگ وردیاں ہیں ۔ ان لوگوں کی تنخواہیں کم ہیں ، ویسے زیادہ بھی ہوں ، تو انسان لالچی ہوتا ہے ، اس لیے ان میں سے بہت سارے اپنے کام کے ساتھ ساتھ حاجیوں اور زائرین سے ملنے والے دام پر بھی نظر رکھتے ہیں ، جس میں اللہ نے بہت برکت رکھی ہے ۔
میں گھر سے نکلتے ہوئے ’ سیروا فی الأرض ‘ کی نسبت سے ہر چیز کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھ رہا تھا ، لیکن حرم میں پہنچ کر رکعتین اور وتر ادا کرنے کے بعد شیطان کی ناک خاک آلود ہوئی ، موبائل جیب میں تو نہ رکھا ، لیکن اس پر ’ سورہ حج ‘ کھول لی ، کیونکہ حرم میں جو قرآن کریم ہیں ، وہ سب پندرہ لائن والے ہیں ، جبکہ ہم سولہ لائن والے حافظ ہیں ، اس لیے سولہ لائن کا قرآن کریم موبائل میں رکھا ہوا ہے ، تاکہ کہیں بھی اللہ توفیق دے تو شیطان مصحف نہ ہونے کے بہانے سے وار نہ کرسکے ، مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی ذکر و اذکار یا باتیں کرنے کی آوازیں اتنی اونچی نہیں تھی کہ میں اپنے قاریانہ ذوق کی تسکین کے لیے کان پر ہاتھ رکھ کر شروع ہوجاتا ، لیکن پھر بھی حدر و ترتیل کے ملے جلے مغربی انداز میں تلاوت شروع کردی ، اللہ نے توفیق دی ، توجہ لفظوں کا زینہ کراس کرکے معانی تک پہنچنے لگی ، بات شروع ہی یہاں سے ہوئی ، قیامت قائم ہوجائے گی ،گویا یہ نہ دیکھے گی کہ کسی مسجد ، مدرسہ ، میں کتنے لوگ جمع ہیں ؟ کتنے دیس میں ہیں ؟ اور کتنے پردیس میں ؟ ویسے بھی جو ماں کو شیر خوار بچہ بھلا دے گی ، وہ دنیا کے ہر تعلق اور نسبت کو ذہن سے محو کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اس بات پر ماتھا ٹھنکا کہ اللہ نے دو دفعہ قیامت کے تذکرہ کے فورا بعد ، و من الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم والا مضمون کیوں شروع کیا ؟ شاید اس لیے کہ عقل کے اسیر ہو کر قدرت الہی کے کرشموں کے منکر دانشور نہیں ، بلکہ ضدی جاہل ہیں ۔
یہ بات بھی ذہن میں نمایاں ہوئی کہ کسی بھی سورت کا نام صرف اس کے مضمون کو دیکھ کر ہی نہیں رکھا گیا ، بلکہ اور کئی نسبتوں سے بھی سورت کا کوئی نام متعین ہوجاتا ہے ، جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس سورت میں جو لفظ ایک دفعہ استعمال ہوا ہے ، اسی نام سے وہ سورت موسوم ہوگئی ، سورہ حج میں لفظ ’ حج ‘ صرف ایک بار استعمال ہوا ، اسی طرح سورہ بقرہ ، سورہ سبا وغیرہ میں بھی یہ الفاظ غالبا ایک ایک بار ہی آئے ہیں ۔
ایک وقت تھا ، قرآن کریم پڑھتے ہوئے ، صرفی نحوی نقطے بہت سر اٹھاتے تھے ، آج بھی یہی ہوا ، یحلون فیہا من أساور من ذھب و لؤلؤا . میں لؤلؤ کے اعراب میں منصوب بنزع الخافض والی بحث گھومتی رہی ۔ المقیمی الصلوۃ میں مضاف پر’ ال ‘ محسوس کیا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ خیر اس ہلکی پھلکی تحریر کےساتھ زیادتی ہوگی کہ اسے علمی رعب جھاڑنے کا ذریعہ بنالیا جائے ۔
فجر کی نماز تقریبا پانچ بیس پر ختم ہوئی ، ساتھ ہی اسپیکر میں تکبیرکی صدائیں بلند ہوئیں ، تو حاضرین مسجد بھی اس میں شامل ہوگئے ، مسجد نبوی کے مختلف مؤذنین جن کی اصل تعداد تو سترہ کے قریب ہے ، لیکن ان میں سے تقریبا چار پانچ باری باری مسلسل تکبیریں پڑھتے رہے ، تقریبا سوا چھے بجے عید کی نماز شروع ہوئی ، امام صاحب شیخ عبد المحسن قاسم صاحب تھے ، ہر عید میں میری کوشش ہوتی ہے کہ تکبیریں ضرور گنتا رہوں ، تاکہ کمی بیشی ہو ، تو پوچھنے پر صحیح بات کرسکوں ، پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ سات تکبیریں ہی تھی ، جبکہ دوسری میں شاید مجھے غلطی لگی ہوگی ، محسوس ہوا، شیخ صاحب پانچ سے زیادہ تکبیریں کہہ گئے ہیں ۔ نماز ختم ہوتے ہی ، کچھ لوگ باہر کی طرف چل دیے ، اور ان کی جگہ پر باہر والے اندر آگئے ، جسے ستون ملا ، اس نے تکیہ سمجھ لیا ، اور جو ساتھ ٹیک والی فولڈنگ کرسی لائے تھے ، وہ اس پر محو استراحت ہوئے ۔
شیخ عبد المحسن صاحب نے خطبہ شروع کیا ، ہر جملے سے پہلے اللہ اکبر ، اللہ اکبر کا سابقہ تھا ۔
محاسن اسلام پر نسبتا طویل خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں اسلام کی ساری خوبیاں آگئیں ، البتہ مسلمانوں کی جو حالت تھی ، وہ شیخ کا موضوع نہیں تھا ، لہذا اس طرف انہوں نے توجہ نہ کی ۔
دو خطبے ارشاد فرمائے ، درمیان میں وقفے وقفے سے تکبیرات دہراتے رہے ۔ اگر میں خطبہ غور سے سننے کی کوشش کر رہا تھا ، تو یقینا اور بھی بہت سارے لوگ ہوں گے ، البتہ عربی سے نابلد حضرات تو گپ شپ ، اور سیلفیوں ، یا تصاویر اور ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے ۔ آپ یہاں سے اندازہ کرلیں ، جو بزرگ ایک عرصے تک ’ خطبہ جمعہ ‘ صرف عربی میں ہوگا ، پر مصر رہے ، ان سے لوگ کتنا مستفید ہوتے ہوں گے ؟ اور معاشرے کے لیے کس قدر دینی رہنمائی کا سبب بن سکتا ہوگا . خیر اس کا حل ’ تقریر ‘ کی شکل میں نکال لیا گیا ، لیکن حرمین میں اس کا حل خطبے کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں ترجمہ کی شکل میں ہے ، جو ایف ایم کے ذریعے سنا جاسکتا ہے ۔
عید کا خطبہ ختم ہوا ، کچھ لوگ وہیں دراز ہوگئے ، کچھ ایسے بھی تھے ، جو گرچہ تین گھنٹے سے ساتھ ہی گپیں لگارے ہے تھے ، لیکن خطبہ کے بعد شاید گلے ملنے کا وقت ہوا تھا ، لہذا وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے ، اور کسی مسنون دعا کی طرح ’ عید مبارک ‘ کے الفاظ کا تبادلہ کیا ۔
اب آپ بتادیں کہ صرف کہنے سے عید مبارک ہوجاتی ہے ؟ ’ عید مبارک ‘ کہنے کے ساتھ اسلام کے ان عظیم شعائر کی برکات کو محسوس کرنا چاہیے ، اور ان لمحات کو واقعتا ’ بابرکت ‘ بنانے کی سعی کرنی چاہیے ۔
ذرا بیٹھ کر انتظار کیا ، پھر بچوں کو لینے خواتین کی طرف پہنچا ، میرے جیسے کئی ایک اپنے اپنے ’ بچوں ‘ کے انتظار میں وہاں کھڑے تھے ، خواتین جائے نماز کی چاردیواری کے دروازے پر موجود پہرے دار ، کچھ نوجوانوں سے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھ رہا تھا کہ تم سب یہاں کس لیے ؟ واقعتا تمہارے گھر والے یہاں موجود ہیں ؟ ان سوالوں کا مقصد یہ تھا ، کہ واقعتا کسی درست مقصد کے لیے کھڑے ہیں ، یا شیطان کی طرف سے ڈیوٹی پر مامور ہیں ، جس طرح کہ ہمارے ہاں گلیوں بازاروں میں ایسے کئی جوان و نوجوان آپ کو ’ تعینات ‘ نظر آئیں گے ۔
حرم میں بچوں کے گم ہونے کے کیسز ہوتے رہتے ہیں ، جب میں وہاں پہنچا ، تو اس وقت بھی ایک بچے کے گرد تین چار خواتین موجود تھیں ، اسے پہریدار کی خاص کرسی پر بٹھایا ہوا تھا ، وہ کبھی آنکھیں کھولتا ، کبھی بند کرتا ، معلوم ہوا ، گمشدہ ہے ، جبکہ پاس کھڑا پولیس والا ادھر ادھر خبر کر رہا تھا کہ اس طرح کا بچہ اس نمبر گیٹ پر موجود ہے ، تاکہ جونہیں اس کے والدین ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی جگہ پہنچیں ، تو انہیں وہاں سے اس طرف ریفر کردیا جائے ، ابھی میں وہیں کھڑا تھا کہ ایک اور بچے کو ایک ’ شرطی ‘ انگلی سے لگائے ہوئے لے آیا ، لیکن ابھی وہ فون کی طرف بڑا ہی تھا کہ اس بچے کی ہم عمر بہن ، پھر اس کا والد آیا ، اور پولیس والے کو اپنا بچہ ہونے کا یقین دلا کر اسے ساتھ لے گئے ۔
تھوڑی دیر بعد ہماری ٹیم بھی پہنچ گئی ، اور یوں ہم گھر کو روانہ ہوئے ، مسجد نبوی میں سے نکلنے سے پہلے بچوں نے پانی پیا ، جبکہ بچوں کے ’ ابو ‘ نے بچوں کے ساتھ دو چار سیلفیاں بنائیں ، تاکہ عید کے دن ہنستے مسکراتے چہرے بذریعہ موبائل پاکستان پہنچ کر پاکستان میں ہر وقت فکر مند رہنے والوں کے لیے دلی سکون و اطمینان کا باعث بنیں ۔
عید قربان میں نماز کے بعد قربانی اہم کام اور مصروفیت ہوتی ہے ، اس حوالے سے عید کی رات ہی ہمارے دوست فواد بادشاہ صاحب نے فون کیا ، کہ ہم کچھ ساتھی قربانی کے جانور خرید رہے ہیں ، میں نے عرض کی ، میں نے نہیں خریدنا ، والد صاحب نے پاکستان میں خرید لیا ہوا ہے ، کہنے لگے ، ٹھیک ہے ، آپ کل شام کے وقت آجائیں ، قربانی کے گوشت کی ہماری طرف سے دعوت ہے ، یوں ہمارے والی قربانی تو ابھی والد صاحب اور بھائی کر رہے ہوں گے ، جبکہ قربانی کے تازہ گوشت کا مزہ ہم رات کو ہی اٹھا چکے تھے ۔ جبکہ جو ہماری قربانی ہے اس کے لیے ہم نے تاکید کردی ہے کہ ہمیں نہ سہی ، لیکن ہماری جگہ ہمارے محسن و مرشد اور سسرال کا خصوصی خیال رکھا جائے ۔اللہ سب کو سلامت رکھے ۔
آج فجر کے وقت والدین سے بات ہوئی ، دیگر عزیز و اقارب کو ابھی فون کرنا ہے ، تاکہ عید اپنے تمام ارکان و لوازمات کے ساتھ مکمل ہوجائے ۔ سوائے ایک لازمے کے ، ہر عید پر مدینہ میں کچھ دوست مل کر فیملیز سمیت عید ملن پارٹی رکھتے ہیں ، جو کہ آج شام کو منعقد ہوگی ۔ إن شاءاللہ ۔
ما شاء الله
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
2010 بمطابق 1431 کی عیدِ قربان ہم نے مسجد نبوی میں پڑھی تھی ، اس کے بعد حج کیا نہ کیا ، ہر ’ عید الأضحی ‘ مکہ مکرمہ گزری ، عید الفطر کئی دفعہ مدینہ منورہ مسجد نبوی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، البتہ عید قربان سات سال بعد اب یہاں پڑھنے کا موقعہ ملا ۔
ما شاء اللہ ۔۔۔۔
اس عظیم سعادت پر ۔۔ الحمد للہ حمداً کثیراً ۔۔
اللہ کریم ایسی سعادت باربار عطا فرمائے ، اور حرمین شریفین کی حاضری کو شرف قبولیت بخشے ، آمین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ما شاء اللہ ۔۔۔۔ الحمد للہ حمداً کثیراً ۔۔
 
Top