• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمسائیوں کے بارے میں

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’مجھے اس ذات اقدس کی قسم،جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ہمسایہ یا اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے۔جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
حاصل کلام:اس حدیث میں تکمیل ایمان کے لیے ایک شرط بیان ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان جو چیز اپنے لیے پسند اور محبوب رکھے اپنے ہمسائے یا اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے ۔اگر اس کی خواہش ہے کہ اس کی عزت و توقیر کی جائے تو اس کی اپنے ہمسایہ اور بھائی کے لیے بھی یہی سوچ ہونی چاہیے اگر اس کے دل میں یہ تمنا ہو کہ وہ امن و امان اور سلامتی سے رہے ۔تو اپنے بھائی کے لیے بھی یہی سوچ ہی ہونی چاہیے ۔
اللہ ہمیں ان باتوں کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا عبد الرشید بھائی! بہت ہی اچھی نصیحت شیئر کی آپ نے!

لیکن! معذرت کے ساتھ!!
مجھے اس ذاتِ اقدس کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ یہ اردو کلام جس کے متعلق آپ نے کہا کہ
نبی ﷺ نے فرمایا ’’مجھے اس ذات اقدس کی قسم،جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ہمسایہ یا اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے۔جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
یہ میرے محبوب نبیﷺ کا کلام نہیں، بلکہ آپ کا کلام ہے، یا اس کا جس نے ترجمہ کیا ہے، اور ترجمہ ’تفسیر بالرائے‘ کی ایک قسم ہے، جس میں صحت وضعف دونوں کا امکان ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لازماً غلط ہی ہے، لیکن یہ حتمی ہے کہ یہ اردو کلام وحی نہیں، وحی تو قرآن کریم میں اللہ رب العٰلمین کا عربی کلام اور نبی کریمﷺ کا احادیث مبارکہ میں عربی فرمان ہے، تو اس بارے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ترجمہ میں ذاتی بات شامل ہو جائے تو پھر ہم اللہ تعالیٰ یا نبی کریمﷺ پر افتراء کے مجرم ٹھہریں، اور اللہ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ پر افتراء عام لوگوں پر افتراء جیسا نہیں بلکہ سب سے بڑا ظلم ہے، فرمان باری ہے: ﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللهِ كَذِبًا ﴾ فرمانِ نبویﷺ ہے: « إن كذبا علي ليس ككذب على أحد ، من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار»

اگر اس طرح ترجموں کو اللہ تعالیٰ یا نبی کریمﷺ کا فرمان قرار دیا جانے لگے تو بد باطن حضرات اپنے تحریف معنوی یا ظن وتخمین پر مبنی ترجموں (جن میں شریعت کے مقصد کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔) کو وحی باور کرا کے اپنا اُلّو سیدھا کرتے رہیں گے، اور یہی ترجمے اصل بن جائیں گے، اور قرآن وسنت پیچھے رہ جائیں گے، اسی لئے علمائے کرام نے عربی متن کے بغیر قرآن وحدیث کے صرف ترجموں پر مبنی کتب چھاپنے سے سختی سے منع کیا ہے، کہ یہ فتنے کا دروازہ کھولنے والی بات ہے، اگر کوئی شخص قرآن وحدیث کا عربی متن پیش کرکے ترجمہ غلط بھی کرے گا تو تھوڑا بہت علم رکھنے والے لوگ بھی جان لیں گے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا؟

البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کہہ کر کہ نبی کریمﷺ کے کلام کا مفہوم یہ ہے ترجمہ ذکر کر دیا جائے، لیکن پھر اس وہ حیثیت نہیں ہوگی تو اصل حدیث مبارکہ کی ہوگی۔
واللہ اعلم!

علاوہ ازیں! میرے بھائی! میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ریفرنس مکمل دیں، صرف بخاری ومسلم کہنا کافی نہیں، بلکہ کتاب اور باب کا نام دیں یا کم از کم رقم الحدیث تو بیان کر دیں۔

تو ازراہِ کرام اس حدیث مبارکہ کا عربی متن (جو در حقیقت نبی کریمﷺ کا فرمان ہے) بمعہ ترجمہ دوبارہ شیئر کر کے دنیا وآخرت میں اللہ کے انعامات کے مستحق بنیں!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مجھے اس ذاتِ اقدس کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ یہ اردو کلام جس کے متعلق آپ نے کہا کہ

نبی ﷺ نے فرمایا ’’مجھے اس ذات اقدس کی قسم،جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ہمسایہ یا اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے۔جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
قرآن وسنت کی نصوص کو ترجمہ کرکے بغیر وضاحت کے پیش کر دینے کا ایک نقصان اسی حدیث کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے ۔
اصل عربی عبارت یوں ہے :
والذی نفسی بیدہ ۔۔۔
اور اس طرح کی نصوص سے اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ( الید ) جس کا اردو ترجمہ ( ہاتھ ) ہے ثابت ہور ہی ہے ۔
حدیث کا اردو ترجمہ یوں ہے :
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔۔۔

جبکہ بعض بلکہ اکثر ترجمہ کرنے والے اس کا ترجمہ یوں کر دیتے ہیں :
مجھے اس ذات اقدس کی قسم،جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔
ا ب مؤخر الذکر ترجمہ سے لفظ ( الید ) کا ترجمہ ( ہاتھ ) کی جگہ ( قبضہ قدرت ) ہو گیا ہے ۔ اور یہی کام اللہ کی صفات کا انکار کرنے والے باطل گروہ کرتےہیں ۔
اس کی مثال بالکل یوں ہے کہ
وجاء ربک ۔۔۔۔
کا ترجمہ : اور تیرا رب آئے گا
کی بجائے یوں کردیا جائے کہ :
اور تیرے رب کا حکم یا امر آئے گا ۔
یہاں بھی اللہ کی صفت ( المجیء ) ( آنا ) کا انکار کرنے کےلیے یہ حرکت کی جاتی ہے ۔

واللہ اعلم ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
رشید بھائی حدیث کی عربی عبارت اور رقم الحدیث ضرور لکھا کریں۔ جزاک اللہ خیراً
نہیں بلکہ
عبدالرشید
اس بارے میں بھی ہمارے علمائے کرام(انس نضر،ابوالحسن علوی،خضر حیات،ابن بشیر الحسینوی،رفیق طاھر) روشنی ڈالیں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاکم اللہ خیرا عبد الرشید بھائی! بہت ہی اچھی نصیحت شیئر کی آپ نے!

لیکن! معذرت کے ساتھ!!
مجھے اس ذاتِ اقدس کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ یہ اردو کلام جس کے متعلق آپ نے کہا کہ

یہ میرے محبوب نبیﷺ کا کلام نہیں، بلکہ آپ کا کلام ہے، یا اس کا جس نے ترجمہ کیا ہے، اور ترجمہ ’تفسیر بالرائے‘ کی ایک قسم ہے، جس میں صحت وضعف دونوں کا امکان ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لازماً غلط ہی ہے، لیکن یہ حتمی ہے کہ یہ اردو کلام وحی نہیں، وحی تو قرآن کریم میں اللہ رب العٰلمین کا عربی کلام اور نبی کریمﷺ کا احادیث مبارکہ میں عربی فرمان ہے، تو اس بارے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ترجمہ میں ذاتی بات شامل ہو جائے تو پھر ہم اللہ تعالیٰ یا نبی کریمﷺ پر افتراء کے مجرم ٹھہریں، اور اللہ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ پر افتراء عام لوگوں پر افتراء جیسا نہیں بلکہ سب سے بڑا ظلم ہے، فرمان باری ہے: ﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللهِ كَذِبًا ﴾ فرمانِ نبویﷺ ہے: « إن كذبا علي ليس ككذب على أحد ، من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار»

اگر اس طرح ترجموں کو اللہ تعالیٰ یا نبی کریمﷺ کا فرمان قرار دیا جانے لگے تو بد باطن حضرات اپنے تحریف معنوی یا ظن وتخمین پر مبنی ترجموں (جن میں شریعت کے مقصد کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔) کو وحی باور کرا کے اپنا اُلّو سیدھا کرتے رہیں گے، اور یہی ترجمے اصل بن جائیں گے، اور قرآن وسنت پیچھے رہ جائیں گے، اسی لئے علمائے کرام نے عربی متن کے بغیر قرآن وحدیث کے صرف ترجموں پر مبنی کتب چھاپنے سے سختی سے منع کیا ہے، کہ یہ فتنے کا دروازہ کھولنے والی بات ہے، اگر کوئی شخص قرآن وحدیث کا عربی متن پیش کرکے ترجمہ غلط بھی کرے گا تو تھوڑا بہت علم رکھنے والے لوگ بھی جان لیں گے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا؟

البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کہہ کر کہ نبی کریمﷺ کے کلام کا مفہوم یہ ہے ترجمہ ذکر کر دیا جائے، لیکن پھر اس وہ حیثیت نہیں ہوگی تو اصل حدیث مبارکہ کی ہوگی۔
واللہ اعلم!

علاوہ ازیں! میرے بھائی! میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ریفرنس مکمل دیں، صرف بخاری ومسلم کہنا کافی نہیں، بلکہ کتاب اور باب کا نام دیں یا کم از کم رقم الحدیث تو بیان کر دیں۔

تو ازراہِ کرام اس حدیث مبارکہ کا عربی متن (جو در حقیقت نبی کریمﷺ کا فرمان ہے) بمعہ ترجمہ دوبارہ شیئر کر کے دنیا وآخرت میں اللہ کے انعامات کے مستحق بنیں!
جزاک اللہ خیرا
اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس عطا فرمائے آمین۔
بہت پیارے انداز میں نصیحت کی ہے انس بھائی جان۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
قرآن وسنت کی نصوص کو ترجمہ کرکے بغیر وضاحت کے پیش کر دینے کا ایک نقصان اسی حدیث کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے ۔
اصل عربی عبارت یوں ہے :
والذی نفسی بیدہ ۔۔۔
اور اس طرح کی نصوص سے اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ( الید ) جس کا اردو ترجمہ ( ہاتھ ) ہے ثابت ہور ہی ہے ۔
حدیث کا اردو ترجمہ یوں ہے :
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔۔۔

جبکہ بعض بلکہ اکثر ترجمہ کرنے والے اس کا ترجمہ یوں کر دیتے ہیں :
مجھے اس ذات اقدس کی قسم،جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔
ا ب مؤخر الذکر ترجمہ سے لفظ ( الید ) کا ترجمہ ( ہاتھ ) کی جگہ ( قبضہ قدرت ) ہو گیا ہے ۔ اور یہی کام اللہ کی صفات کا انکار کرنے والے باطل گروہ کرتےہیں ۔
اس کی مثال بالکل یوں ہے کہ
وجاء ربک ۔۔۔۔
کا ترجمہ : اور تیرا رب آئے گا
کی بجائے یوں کردیا جائے کہ :
اور تیرے رب کا حکم یا امر آئے گا ۔
یہاں بھی اللہ کی صفت ( المجیء ) ( آنا ) کا انکار کرنے کےلیے یہ حرکت کی جاتی ہے ۔

واللہ اعلم ۔
جزاک اللہ خیرا
اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس عطا فرمائے آمین۔
بہت پیارے انداز میں نصیحت کی ہے خضر حیات بھائی جان۔
 
Top