• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم مانتے کیوں نہیں؟ ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
[FONT="Al_Mushaf"]
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ ()​
[/FONT]

[وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُ‌ونَ بِمَا وَرَ‌اءَهُ]
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے، اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے ہاں یعنی بنی اسرائیل میں اتری ہے۔​
اس دائرے سے باہر جو کچھ آیا ہے ، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں۔


ہماری حالت:
آج آپ دیکھیں کہ مسلمانوں کے اندر جو مختلف مذہبی گروہ ہیں، وہ بھی صرف اپنے گروہ کو حق پر سمجھتے ہیں اور دوسرے کلمہ گو مسلمان کو بھی بعض اوقات کافر قرار دے دیتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے اختلافات پر بھی۔ ہر فرقہ اور ہر گروہ یہ سمجھتا ہے کہ حق صرف ہمارے اندر ہے، باہر نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان آپس میں بکھرے ہوئے ہیں، ٹوٹے ہوئے ہیں۔اور اسی وجہ سے ہمارے دین کو ترقی نہیں ہوتی۔مسلمانوں کی دنیاوی ترقی بھی ان کی دینی ترقی کے ساتھ ہے۔کیونکہ اللہ نے ہمیں کسی خاص کام کےلیے بھیجا ہے۔ایک خاص مقصد کےلیے چنا ہے۔جب تک وہ مقصد پورا نہیں کریں گے ، دنیا میں عزت نہیں پا سکتے۔کیونکہ دنیا میں مسلمانوں کےلیے عزت پانے کا طریقہ اسی کتاب کی راہ سے ہے۔[وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّـهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٩١﴾ وَلَقَدْ جَاءَكُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ﴿٩٢﴾ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَ‌فَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ‌ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِ‌بُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِ‌هِمْ ۚ ]حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تائید کررہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔اچھا! ان سے کہو: اگر تم اس تعلیم پر ہی ایمان رکھنے والے ہو جوتم پر آئی تھی تو اس سے پہلے اللہ کے ان پیغمبروں کو جو خود بنی اسرائیل میں ہی پیداہوئے تھے، کیوں قتل کرتے رہےہو؟تمہارے پاس موسیٰ علیہ السلام کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آئے۔ پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ پھیرتے ہی تم بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو جو طور پہاڑ کو تمہارے اوپر اُٹھا کرہم نے تم سے لیا تھا، ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو۔ اور کان لگا کر سنو۔تمہارے اسلاف نے کہا: ہم نے سن لیامگر ہم مانیں گے نہیں۔ان کی باطل پرستی کا یہ عالم تھا کہ ان کے دلوں میں بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔[/COLOR

آباء واجداد کی تقلید:
یعنی حق قبول نہ کرنے کی ایک اور وجہ کیا ہوتی ہے؟اپنا پچھلا رواجی ذہن یا اپنے ماحول سے متاثر ہونااور کچھ اور چیزوں کی عظمت دل میں بٹھا لینا، اللہ کے علاوہ۔ تو انسان جب ان کو توڑ نہیں سکتا جو بت دل میں ہوتے ہیں کیونکہ جب تک وہ نہیں ٹوٹتے، ہدایت نہیں ملتی۔تو ان کے ساتھ کیا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کوہ طور کو ان کے اوپر کسی چھت کی طرح معلق کرکے کہا تھا کہ پکڑو اس کتاب کو اور لے لو اس کو۔ تو اس وقت ظاہری طور پر انہوں نے لے لیا لیکن حقیقت میں اس پر عمل نہ کیا۔وجہ کیا تھی کہ دل میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا، شرک تھا ناں!
[قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُ‌كُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٩٣﴾قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ‌ الْآخِرَ‌ةُ عِندَ اللَّـهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٩٤﴾ ]کہو: اگر تم مؤمن ہوتویہ عجیب ایمان ہے کہ ایسے برے کاموں کا تم کو حکم دیتا ہے ۔ انہیں کہو: اگر واقعی کے نزدیک آخرت کا گھرتمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے لیے مخصوص ہے ، تب تو تمہیں موت کی تمنا کرنی چاہیے۔[ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ] موت مانگو پھر۔دنیا میں کیوں بیٹھے ہو؟ جلدی جنت میں چلو۔یعنی سب غلط کام کرنے کے باوجود یہ سمجھتے تھے کہ ہم جنتی ہیں۔جیسے آج ہم بھی ، کچھ کریں یا نہ کریں ، جو بھی فوت ہوجائے اس کے نام کے ساتھ جنتی لازمی لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کس نے جنت میں جانا ہے اور کس نے نہیں جانا۔[وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ﴿٩٥﴾ وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَ‌صَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ‌ أَلْفَ سَنَةٍ ]یقین جانو! یہ اس کی تمنا کبھی نہ کریں گے۔ مرنا نہیں چاہیں گے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے جو کما کر بھیجا، اس کا تقاضا یہی ہے کہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں۔ یعنی انہیں پتہ ہے جو انہوں نےآگے بھیجا ہوا ہے اپنے اعمال میں سے۔اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔تم انہیں سب انسانوں سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے۔حتی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ان میں سے ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ہزار سال جیے۔یعنی دنیاکی محبت کی وجہ سے یہ زندگی کے بھی بہت حریص ہیں۔حالانکہ مؤمن جو ہوتا ہے، اس کا جینا بھی اللہ کےلیے ہوتا ہے اور مرنا بھی اللہ کےلیے ہوتا ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ جب اس سے اس کی جان لینے کا بھی تقاضا کرتے ہیں تو وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔باقی چیزیں تو معمولی ہیں۔حتی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ہزار سال جیے۔ [وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ‌ ۗ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ‌ بِمَا يَعْمَلُونَ ﴿٩٦﴾]حالانکہ لمبی عمر بہر حال عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی۔جیسے کچھ یہ اعمال کررہے ہیں، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے۔

آڈیو لنک
 
Top