ابوبصیر صاحب بات کو اپنے محل پر رکھئے اس کے محل سے ہٹا کر لوگوں دھوکہ میں مت مبتلا کریں۔طالبان کا ہدف پولیس تھی اور یہ مسجد پولیس لائن کی مسجد تھی ۔اور طالبان متعدد بار یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ ہمارا ہداف حکومت اور اس کی ایجنسیاں ہیں ۔ قارئین یہ خبر ملاحظہ فرمائیں:
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی پولیس لائن میں نمازِ جنازہ کے دوران خودکش دھماکے میں اعلیٰ پولیس اہلکاروں سمیت تیس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہو گئے ہیں۔کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار کے مطابق آئی جی بلوچستان مشاق احمد سکھیرا نے ایک نیوز کانفرس میں بتایا کہ خودکش دھماکے میں پولیس کے اعلیٰ اہلکار ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس پی انور خلجی اور ڈی ایس پی شمس سمیت تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔دریں اثناء کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔آئی جی بلوچستان کے مطابق ہلاک ہونے والے تیس افراد میں سے اکیس کی شناخت ہو گئی ہے اور یہ تمام پولیس کے افسران اور جوان ہیں۔
کوئٹہ پولیس کے ایک ترجمان میر زبیر محمود نے خبر رساں اداروں کو بتایا تھا کہ 'نمازِ جنازہ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔'یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب جمعرات کو پولیس لائن میں ایس ایچ او محب اللہ جان کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی۔ایس ایچ او محب اللہ جان ایک دن پہلے بدھ کو کوئٹہ میں ہی نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔پولیس لائن میں نماز جنازہ کے وقت پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد شریک تھی۔دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ جائے وقوعہ کو سکیورٹی اہلکاروں نے گھیر رکھا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کا بیان:
دھماکہ کیسے ہوا
ہمارے نامہ نگار محمد کاظم نے دھماکے کے عینی شاہدین سے بات کر کے بتایا ہے کہ پولیس لائن کی مرکزی مسجد میں ایس ایچ او کی نماز جنازہ کے لیے لوگ جمع ہو رہے تھے، ڈی آئی جی فیاض احمد سنبل مسجد کے باہر کھڑے تھے اور واک تھرو گیٹ( حفاظتی دروازے) سے لوگوں کو چیک کر کے مسجد میں جانے دیا جا رہا تھا۔ اس دوران ڈی آئی جی فیاض سنبل نے اہلکاروں کو کچھ فاصلے پر کھڑے ایک مشکوک شخص کو چیک کرنے کی ہدایت کی اور جیسے ہی اہلکار اس کی طرف جانے لگے دھماکہ ہو گیا۔ حفاظتی دروازے پر لوگوں کو چیک کرنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ مشکوک شخص کافی دیر سے دروازے سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا اور مسجد میں داخل نہیں ہو رہا تھا۔
ابوبصیر صاحب اب آپ کی سمجھ میں اچھی طرح آگیا ہوگا کہ یہ مسجد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی اور پولیس لائن کے اندر واقع تھی ۔اور خبر کے مطابق وہاں پر پولیس کی اعلیٰ قیادت موجود تھی لہٰذا طالبان نے اس مسجد میں ان کی قیادت کو نشانہ بنایا۔یقیناً یہ مسجد پبلک مقام پر واقع نہیں تھی ۔ لیکن ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ اسی کوئٹہ میں عیدالفطر کے روز مسجد پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔جس میں نمازیوں کی کافی تعداد شہیدوزخمی ہوئی تھی اس کے بارے میں ابوبصیر صاحب ابھی تک ایک بھی پوسٹر نازل نہیں کیااس سے ثابت ہوا کہ ابوبصیر صاحب کو کسی کے مرنے کا غم ہے تو وہ ایجنسیوں کے لوگوں کے مرنے کا غم ہے۔اگر ابوبصیر صاحب کو عام لوگوں کے مرنے کا غم یا دکھ ہوتا تو سب سے پہلے ابوبصیر صاحب مردان شیرگڑھ میں نماز جنازہ کے دوران عام شہریوں کی شہادت کے متعلق ضرور پوسٹر بناتے لیکن یہ کام انہوں نے اس لئے نہیں کیا کہ نماز جنازہ کے دوران دھماکہ کرنے کا یہ مکروہ فعل ان کے پسندیدہ آئی ایس آئی کے طاغوتی فائٹرز نے انجام دیا تھا۔جس پر مجاہدین نے ان شہداء کو اپنے شہداء قرار دیا تھا۔اور اگر ابوبصیر صاحب کے دل میں تمام مسلمان نمازیوں کی شہادت کا دکھ ہوتا تو ضرور وہ مرکزالقادسیہ میں بیٹھ کر ان کے لئے بھی پوسٹرز بناتے ۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ ہم ابوبصیر صاحب سے پوچھتے ہیں کہ :
ابوبصیر صاحب کیا وہ نمازی مسلمان نہیں تھے؟؟؟
ابوبصیر صاحب آپ نے ان کے دکھ اور غم میں پوسٹر اس لئے نہیں بنائے کہ وہ عام مسلمان تھے؟؟؟
ابوبصیر صاحب آپ کو تو غم صرف ایجنسیوں کے مرنے والے افراد پر ہوتا ہے عام مسلمانوں پر نہیں اور اگر عام مسلمانوں پر بھی آپ کو غم ہوتا یقیناً آپ اسی طرح ان کے غم میں بھی پوسٹر بناتے جس طرح آپ نے پولیس والوں کی ہلاکت پر پوسٹر بنائے تھے۔
ابوبصیر صاحب ابھی تک جتنے بھی پوسٹر آپ نے یہاں پیش کئے ہیں ۔ وہ آپ نے اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لئے بنائے ہیں ۔ تاکہ ان پوسٹرز کے ذریعے آپ ایجنسیوں اور ان کے کارندوں کے لئے اپنے مقاصد کو حاصل کرسکیں۔اور مجاہدین کو متہم کرسکیں۔اگر آپ کو مسلمانوں کی شہادت کا افسوس ہوتا تو یقیناً آپ عیدالفطر کے دن کوئٹہ میں دیوبندیوں کی مسجد پر ہونے والی فائرنگ کے پوسٹر بھی بناتے ۔اور ان شہداء کا اپنے پوسٹروں تذکرہ کرتے ۔ لیکن آپ کو یہ توفیق کس طرح نصیب ہوگی؟آپ تو پوسٹر بناتے ہی ایجنسیوں کی خدمت کے لئے۔ اگر آپ کے دل میں محض انسانی جان جانے کا غم ہوتا تو آپ وزیرستان میں شہید ہونے والے ان گلاب کے پھول جیسے معصوم بچے اور بچیوں کی شہادت کے پوسٹرز ضرور بناتے جن کو آپ کی پسندیدہ فوج نے جیٹ طیاروں سے بمباری کرکے شہید کردیا جن کے والدین بھی انہیں پھولوں کے ہمراہ مسل دئیے گئے۔
اس لئے ابوبصیر صاحب کچھ تو اللہ کا خوف کرلیں ۔ اور عام مسلمانوں کی تھوڑی سی خدمت تو کرلیں ۔ اللہ آپ کو ہدایت کے راستے پر گامزن کرے ۔ آمین