القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
پوری تحریر اور بحث و مباحثہ پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید دین سے کوسوں دور یہ حضرات کسی بھی خبر کا الٹے سیدھے ہو کر دفاع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔جبکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی یہ کوشش نہایت ہی رائیگاں ثابت ہوتی ہے۔
ابھی میں پچھلے دنوں ہی ٹی ٹی پی کارندوں کی ٹوپی ڈرامے پر مشتمل ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم مساجد اور بازاروں میں دھماکوں کو حرام سمجھتے ہیں۔لیکن
ابھی ابو زینب فرما رہے ہیں کہ یہ حملہ تو شعیوں کی مسجد میں ہونے جارہا تھا،اس لیے جائز ہوا۔
ابو زینب بھائی مجھے آپ اپنے آقاوں کی اس کتاب سے یا کسی بھی فتوے سے یہ دلیل پیش کر دو کہ شعیوں کی مساجد میں خودکش حملے کرنا جائزہے اور باقی میں حرام۔(یاد رہے میں آپ سے دلیل صرف آپکے آقاوں کی مانگ رہا ہوں ،کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ کو شریعت سے جس قدر مس ہے۔اس لیے شریعت سے دلیل مانگ کر آپکو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا)
یہی آپ کا مطلب ہے نا؟؟؟یقینا یہی۔۔۔۔
ہے اس کی آپ کے پاس شریعت سے کوئی دلیل؟؟جاؤ چیلنج ہے پوری سیرت النبی ﷺ سیرت صحابہ کرام اور سیرت سلف صالحین سے اس کی کوئی ایک مثال پیش کر دو۔کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑانا۔جیسا کہ آپ نے اسلام آباد میں کرنے کی کوشش کی۔
اگر مسجد پبلک مقام پر نہ ہو،لیکن اس میں چاہے جنتے بھی بے گناہ،نمازی،یا پھر جو بھی آجائے۔۔جو مسجد پولیس کے علاقے میں ہے اس میں خودکش حملہ جائز ہے۔۔۔ایسے ہی ہے نہ؟؟؟میں غلط تو نہیں سمجھا؟؟
یاد رہے:اس سارے سانحے میں ابو زینب اپنے کالے کرتوتوں کا دفاع کررہا ہے کہ مسجد میں فلاں لوگ تھے اور فلاں جگہ تھی اور فلاں فلاں ۔۔۔۔لیکن ابو زینب سے میرا ایک روح کو ہلادینے والا سوال ہے زرا اس کا جواب چاہئے:
ابو زینب وہ مسجد جس کی بھی تھی،اس میں جو بھی تھے وہ جس بھی علاقے کی تھی۔۔۔۔لیکن اسے میں قرآن تو مسلمانوں کے ہی تھے،اس میں مقدس کتابیں تو مسلمانوں کی ہی تھیں؟قرآن کو دھماکے سے اڑانا،احادیث کو دھماکے سے اڑانا اور جان بوجھ کر۔۔۔(استغفراللہ)اس کی کیا دلیل پیش فرمائیں گے؟
امید ہے فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے دلیل سے بات کریں گے۔تاکہ وقت اور فورم کی جگہ بچ سکے۔
جزاک اللہ خیرا
پوری تحریر اور بحث و مباحثہ پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید دین سے کوسوں دور یہ حضرات کسی بھی خبر کا الٹے سیدھے ہو کر دفاع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔جبکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی یہ کوشش نہایت ہی رائیگاں ثابت ہوتی ہے۔
ابھی میں پچھلے دنوں ہی ٹی ٹی پی کارندوں کی ٹوپی ڈرامے پر مشتمل ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم مساجد اور بازاروں میں دھماکوں کو حرام سمجھتے ہیں۔لیکن
ابھی ابو زینب فرما رہے ہیں کہ یہ حملہ تو شعیوں کی مسجد میں ہونے جارہا تھا،اس لیے جائز ہوا۔
ابو زینب بھائی مجھے آپ اپنے آقاوں کی اس کتاب سے یا کسی بھی فتوے سے یہ دلیل پیش کر دو کہ شعیوں کی مساجد میں خودکش حملے کرنا جائزہے اور باقی میں حرام۔(یاد رہے میں آپ سے دلیل صرف آپکے آقاوں کی مانگ رہا ہوں ،کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ کو شریعت سے جس قدر مس ہے۔اس لیے شریعت سے دلیل مانگ کر آپکو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا)
واہ جی واہ۔۔کیا اصول گھڑا ہے ابو زینب صاحب۔۔۔آج آپ کی اس ٹوپی ڈرامہ پر مشتمل کتاب کی بھی سمجھ آگئی۔کہ ہم مساجد پر دھماکوں کو حرام کہتے ہیں ،لیکن۔۔۔۔۔اگر مسجد شعیوں کی ہو تو وہ جائز ہے،اگر مسجد جماعۃالدعوہ کی ہوتو ۔۔۔اگر مسجد بریلویوں کی ہو تو ۔۔۔اور اگر دربار ہو تو۔۔۔۔۔۔طالبان کا ہدف پولیس تھی اور یہ مسجد پولیس لائن کی مسجد تھی ۔اور طالبان متعدد بار یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ ہمارا ہداف حکومت اور اس کی ایجنسیاں ہیں ۔
یہی آپ کا مطلب ہے نا؟؟؟یقینا یہی۔۔۔۔
ہے اس کی آپ کے پاس شریعت سے کوئی دلیل؟؟جاؤ چیلنج ہے پوری سیرت النبی ﷺ سیرت صحابہ کرام اور سیرت سلف صالحین سے اس کی کوئی ایک مثال پیش کر دو۔کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑانا۔جیسا کہ آپ نے اسلام آباد میں کرنے کی کوشش کی۔
پولیس اہلکاروں کے علاوہ باقی لوگ کون تھے؟کیا وہ سب کے سب مرتد تھے؟کیا آپ کے کارندے نے ان کے ایمان اور عمل کو جان کر پھر جیکٹ پھاڑی؟پولیس اہلکاروں پر تو تم اپنے دل کو جھوٹی تسلی دے سکتے ہو لیکن اس کے علاوہ جو اس دھماکے کا شکار ہوئے یا اس میں زخمی ہوئے؟ان کے بارے کیا حکم ہوگا؟کوئی دلیل؟کوئی فتوی؟پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی پولیس لائن میں نمازِ جنازہ کے دوران خودکش دھماکے میں اعلیٰ پولیس اہلکاروں سمیت تیس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہو گئے ہیں۔کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار کے مطابق آئی جی بلوچستان مشاق احمد سکھیرا نے ایک نیوز کانفرس میں بتایا کہ خودکش دھماکے میں پولیس کے اعلیٰ اہلکار ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس پی انور خلجی اور ڈی ایس پی شمس سمیت تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔دریں اثناء کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔آئی جی بلوچستان کے مطابق ہلاک ہونے والے تیس افراد میں سے اکیس کی شناخت ہو گئی ہے اور یہ تمام پولیس کے افسران اور جوان ہیں۔
لیں جی۔۔کام مکمل۔۔۔۔ایک نیا فتوی۔۔یقیناً یہ مسجد پبلک مقام پر واقع نہیں تھی ۔
اگر مسجد پبلک مقام پر نہ ہو،لیکن اس میں چاہے جنتے بھی بے گناہ،نمازی،یا پھر جو بھی آجائے۔۔جو مسجد پولیس کے علاقے میں ہے اس میں خودکش حملہ جائز ہے۔۔۔ایسے ہی ہے نہ؟؟؟میں غلط تو نہیں سمجھا؟؟
یاد رہے:اس سارے سانحے میں ابو زینب اپنے کالے کرتوتوں کا دفاع کررہا ہے کہ مسجد میں فلاں لوگ تھے اور فلاں جگہ تھی اور فلاں فلاں ۔۔۔۔لیکن ابو زینب سے میرا ایک روح کو ہلادینے والا سوال ہے زرا اس کا جواب چاہئے:
ابو زینب وہ مسجد جس کی بھی تھی،اس میں جو بھی تھے وہ جس بھی علاقے کی تھی۔۔۔۔لیکن اسے میں قرآن تو مسلمانوں کے ہی تھے،اس میں مقدس کتابیں تو مسلمانوں کی ہی تھیں؟قرآن کو دھماکے سے اڑانا،احادیث کو دھماکے سے اڑانا اور جان بوجھ کر۔۔۔(استغفراللہ)اس کی کیا دلیل پیش فرمائیں گے؟
امید ہے فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے دلیل سے بات کریں گے۔تاکہ وقت اور فورم کی جگہ بچ سکے۔
جزاک اللہ خیرا