مولانا عبدالحی لکھنویؒ حنفی نے لکھا ہے:
كل ما ذكرنا من ترتيب المصنفات إنما هو بحسب المسائل الفقهية وأما بحسب ما فيها من الأحاديث النبوية فلا فكم من كتاب معتمد اعتمد عليه أجلة الفقهاء مملوء من الأحاديث الموضوعة ولا سيما الفتاوى فقد وضح لنا بتوسيع النظر أن أصحابهم وإن كانوا من الكاملين لكنهم في نقل الأخبار من المتساهلين
ان تصنیفات کی یہ ترتیب جو ہم نے ذکر کی ہے یہ مسائل فقہیہ کے اعتبار سے ہے، ان میں جو احادیث نبویہ ہیں ان کے اعتبار سے نہیں،
کتنی ہی قابل اعتماد کتابیں جن پر اجلہ فقہاء نے اعتماد کیا ہے مگر وہ احادیث موضوعہ سے بھری پڑی ہیں، بالخصوص جو فتاوی کی کتابیں ہیں، وسعت نظر سے ہم پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ان کے مصنفین گو کاملین میں سے تھے مگر احادیث نقل کرنے میں وہ متساہلین میں شمار ہوتے ہیں۔
النافع الكبير ٣١
شیخ ابوغدہ حنفیؒ رقم طراز ہیں:
ولا تغتر بذكر بعض الفقهاء من أجلة الحنفية والشافعية لهذه الجملة الأذان جزم والإقامة جزم والتكبير جزم حديثاً نبويّاً في كتب الفقه، فقد علمت أنّها من كلام إبراهيم الحنفي، وليس بحديث نبوي والمعلول علیه فی هذا الباب قول المحدثین لا الفقهاء علی جلالة قدرهم
بعض جلیل القدر حنفی اور شافعی فقہاء کا اپنی فقہ کی کتابوں میں اس جملہ
الأذان جزم والإقامة جزم والتكبير جزم کو حدیث نبوی کے طور پر ذکر کرنا تمہیں دھوکا میں مبتلا نہ کردے، تم نے بلاشبہ یہ جان لیا ہے کہ یہ ابراہیم نخعیؒ کا قول ہے حدیث نبوی نہیں ہے،
اور اس باب میں رجوع محدثین کی طرف کیا جائے گا، فقہاء کی جلالت قدر کے باوصف ان کے قول پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔
حاشیة المصنوع في معرفة الحديث الموضوع ٨٣
ملا علی قاری حنفیؒ رقم طراز ہیں:
لا عبرة بنقل صاحب النهاية ولا بقية شراح الهداية لأنهم ليسوا من المحدثين ولا أسندوا الحديث إلى أحد من المخرجين
نہایہ اور دیگر ہدایہ کے شارحین کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ وہ
محدثین میں سے نہیں اور نہ ہی وہ حدیث کی سند محدثین تک پہنچاتے ہیں۔
الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ۸۵
مولانا عبدالحی لکھنویؒ حنفی فرماتے ہیں:
وهذا قول أظنّ أنّ من صَدَرَ عنه جاهل لا يعرف مراتب المحققين، ولا يعلم الفرق بين الفقهاء والمحدثين، فإنّ الله تعالى خلق لكلّ فنّ رجالاً، وَجَعَلَ لكل مقام مقالاً، ويلزم علينا أن نزلهم منازلهم ونضعهم بمراتبهم، فاجلة الفقهاء اذا کانوا عارین من تنقید الاحادیث لانسلم الروایات التی ذکروها من غیر سن ولا مستند الا بتحقیق المحدثین
یعنی میرا خیال ہے کہ یہ بات جس نے کہی وہ جاہل ہے، محققین کے مرتبہ سے بےخبر ہے اور
فقہاء اور محدثین کے فرق سے بھی واقف نہیں، اللہ تعالی نے ہر فن کے علیحدہ علیحدہ آدمی اور ہر جگہ کلام کرنے والے پیدا کیے ہیں، ہمارے لیے ضرور ہے کہ ہم ہر ایک کا مرتبہ و مقام ملحوظ رکھیں، بڑے بڑے فقہاء جب تنقید حدیث کے علم سے واقف نہیں تو ہم ان کی ذکر کردہ روایات کو محدثین کی تحقیق کے بغیر بلاسند و حوالہ تسلیم نہیں کرتے۔
الأجوبة الفاضلة للأسئلة العشرة الكاملة ۳۴
عبدالطیف ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں:
یجوز أن یکون هذا الحدیث ضعیفا غیر قابل الاستدلال به ومع هذا استدل به کاستدلال صاحب الهدایة و کثیر من الفقهاء العرفاء بالله بالاحادیث الضعیفة و الغریبة التی لم توجد فی کتب الحدیث
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف اور استدلال کے قابل نہ ہو لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس سے استدلال کیا جیسے صاحب ہدایہ اور
بہت سے فقہاء جو عارف باللہ حضرات ضعیف اور ایسی غریب روایات سے استدلال کرتے ہیں جو کتب حدیث میں پائی نہیں جاتیں۔
ذب ذبابات الدراسات ۷۷۵