• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندو کا قرآنی آیت سے استدلال، کہ نعوذباللہ محمد رسول اللہ درست طریق پر نہ تھے۔

شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
بابر تنویر بھائ اور عثمان بھائ نے بڑا زبردست عقلی جواب دیا۔ ایسے لوگوں کے لیے عقلی جوابات ہی فٹ رہتے ہیں۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صحیح بخاری کا مطالعہ کریں جس میں کچھ اس طرح بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا اختیار اللہ نے دیا تھا کہ وہ چاہیں تو دنیا ہی میں رہیں یا رفیق اعلیٰ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رفیق اعلیٰ سے ملاقات کو منتخب کیا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم

قرآن میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ( اللہ تعالیٰ) کی طرف کوئی جھوٹ بات منسوب کرتے، تو ہم اس ( محمد رسول اللہ ) کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ اور ظاہر ہے، شہ رگ کاٹنے سے وفات ہوجاتی۔

اب مسلمانوں میں دو قسم کے عقیدہ والے لوگ ہیں۔ ایک کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں۔ اور ایک کہتے ہیں کہ حیات ہیں۔لیکن دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ جو کہتے ہیں وفات پاچکے ہیں۔ ان کے نزدیک اس آیت سے کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ پر جھوٹیں باتیں منسوب کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فوت کردیا۔ اور جو کہتے ہیں کہ حیات ہیں۔لیکن دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ تو پھر پردہ فرمانے کا کیا مطلب؟ جب اللہ تعالیٰ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولتے ہی نہیں تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پردہ بھی نہ فرماتے۔

یہ ایک ہندو کا سوال ہے۔ ۔ براہ کرم مجھے قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔آمین
السلام علیکم

قرآن میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ( اللہ تعالیٰ) کی طرف کوئی جھوٹ بات منسوب کرتے، تو ہم اس ( محمد رسول اللہ ) کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ اور ظاہر ہے، شہ رگ کاٹنے سے وفات ہوجاتی۔

اب مسلمانوں میں دو قسم کے عقیدہ والے لوگ ہیں۔ ایک کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں۔ اور ایک کہتے ہیں کہ حیات ہیں۔لیکن دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ جو کہتے ہیں وفات پاچکے ہیں۔ ان کے نزدیک اس آیت سے کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ پر جھوٹیں باتیں منسوب کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فوت کردیا۔ اور جو کہتے ہیں کہ حیات ہیں۔لیکن دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ تو پھر پردہ فرمانے کا کیا مطلب؟ جب اللہ تعالیٰ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولتے ہی نہیں تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پردہ بھی نہ فرماتے۔

یہ ایک ہندو کا سوال ہے۔ ۔ براہ کرم مجھے قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔آمین
یہ اعتراض اگر ہندو پنڈت کے سامنے بھی رکھا جاے تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ یہ ایک فضول اعتراض ہے کیوں کہ ہر مذہب کا یہ عقیدہ ہے سب نے ایک دن مرنا ہے اس پر پوری انسانیت کا ہر ذی روح نے موت کا مذا چکھنا ہے مرنے کو جھوٹا ہونے کی دلیل بنانا یہ کسی احمق کا کام ہی ہو سکتا ہے کسی بھی عقل مند کا کام نہیں ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
السلام علیکم

قرآن میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ( اللہ تعالیٰ) کی طرف کوئی جھوٹ بات منسوب کرتے، تو ہم اس ( محمد رسول اللہ ) کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ اور ظاہر ہے، شہ رگ کاٹنے سے وفات ہوجاتی۔

اب مسلمانوں میں دو قسم کے عقیدہ والے لوگ ہیں۔ ایک کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں۔ اور ایک کہتے ہیں کہ حیات ہیں۔لیکن دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ جو کہتے ہیں وفات پاچکے ہیں۔ ان کے نزدیک اس آیت سے کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ پر جھوٹیں باتیں منسوب کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فوت کردیا۔ اور جو کہتے ہیں کہ حیات ہیں۔لیکن دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ تو پھر پردہ فرمانے کا کیا مطلب؟ جب اللہ تعالیٰ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولتے ہی نہیں تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پردہ بھی نہ فرماتے۔

یہ ایک ہندو کا سوال ہے۔ ۔ براہ کرم مجھے قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔آمین

السلام علیکم

تمام انبیاء وفات پا چکے ہیں یعنی ان کی روحیں اس عالم ارضی کو چھوڑ چکی ہیں اور اب جنت میں ہیں یہی وجہ ہے کہ معراج پر اپ صلی الله علیہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی اور وہاں انبیاء سے ملاقات ہوئی

جو لوگ وفات کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس آیت کا مفھوم جو بیان کیا گیا ہے کہ نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ پر جھوٹیں باتیں منسوب کرتے تھے، سراسر چھوٹ اور افتراء ہے ایسا کس نے کہا ہے حوالہ دیں-

اس آیت کا تعلق نبوت میں اپنی طرف سے کچھ شامل کرنا ہے جو اگر ہو جاتا تو اس کی پاداش میں یہ سب کیا جاتا کہ اسی وقت جان قبض اور عذاب- اس صورت میں یہ ایک بھیانک موت ہوتی-

نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی عمر پوری کر کے باقی انبیا کی طرح اب جنت میں ہیں- ہر چیز فنا کے دار پر ہے اور اسرافیل کی نگاہ مالک الملک کی حکم کی منتظر ہے یہی قرآن و حدیث میں ہے اور انبیا بھی اپنی عمریں پوری کر کے جا چکے

دنیا سے پردہ کوئی بھی نہیں کرتا کیونکہ دنیا فنا کی جگہ ہے اس میں موجود پر شے پرقیامت برپا ہو گی جو انبیا کی حیات کے اقراری ہیں ان کو سوچنا چاہیے قیامت تو شری لوگوں پر قائم ہو گی اگر انبیاء قبروں میں زندہ ہیں تو کیا ان پر قیامت برپا ہو گی؟ یہ نری سفاہت ہے اور کچھ نہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

یہ ایک ہندو کا سوال ہے۔ ۔ براہ کرم مجھے قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔آمین

اگر یہ سوال کسی ہندو کا ہے تو اس کو انبیاء سے کیا دلچسپی ہے اس کے اوتار تو خود بھیانک موتیں مرے
ہیں کرشنا کو سولی دی گئی یا تیر لگا جو گندھاری کی بد دعا تھی کیا اس وجہ سے وہ اس کو جھوٹا کہتے ہیں
رام نے پانی میں اپنے آپ کو ڈبو کر ہلاک کیا

انبیاء اپنی قوموں کے باتھوں قتل ہوئے اور شہید ہوئے موت کا تعلق ان آخری لمحات سے ہے جو کسی زندہ کو نہیں پتا
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
صحیح بخاری کا مطالعہ کریں جس میں کچھ اس طرح بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا اختیار اللہ نے دیا تھا کہ وہ چاہیں تو دنیا ہی میں رہیں یا رفیق اعلیٰ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رفیق اعلیٰ سے ملاقات کو منتخب کیا
کل نفس ذائقۃ الموت۔ کو پڑھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر لاکھوں سال نبی علیہ السلام ، اللہ تعالیٰ کی اذن سے زندگی پاتے تب بھی آخر میں موت کا ذائقہ چکھتے ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اگر یہ سوال کسی ہندو کا ہے تو اس کو انبیاء سے کیا دلچسپی ہے اس کے اوتار تو خود بھیانک موتیں مرے
ہیں کرشنا کو سولی دی گئی یا تیر لگا جو گندھاری کی بد دعا تھی کیا اس وجہ سے وہ اس کو جھوٹا کہتے ہیں
رام نے پانی میں اپنے آپ کو ڈبو کر ہلاک کیا

انبیاء اپنی قوموں کے باتھوں قتل ہوئے اور شہید ہوئے موت کا تعلق ان آخری لمحات سے ہے جو کسی زندہ کو نہیں پتا
میں نے اکثر ڈاکٹر زاکر نائیک صاحب کے لیکچرز میں ہندو کی مذہبی کتب سے متعلق جو باتیں دیکھی ہیں ، ان میں انبیاء کرام یا گزشتہ اقوام کے واقعات بھی ہیں ، اگر چہ ان کے نام ان کے مذہب کے مطابق ہیں ، لیکن بہت ساری باتیں مشترکہ ہیں۔اس کے علاوہ بھائی بہت سے غیر مسلم اسلام پر ایمان لانے سے پہلے اس کا مطالعہ بہت گہرائی میں بھی کرتے ہیں۔ان کا مقصد ایسے سوالات سمجھنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔کچھ شر بھی پھیلانا چاہتے ہیں۔واللہ اعلم !
 
Top