• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہنڈی کا کیا حکم ہے ؟

شمولیت
دسمبر 11، 2015
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
سلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خضر حیات بہائی ایک بہائی مجھے سے
سوال کر رہا ہے کہ
ہونڈی کے پیسے جمع کرنا ٹرانسفر کرنا جائز ہے
بڑی مہربانی ہوگی جناب

Sent from my GT-I9300 using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم چوہان صاحب ہونڈی کیا ہوتی ہے ؟
اس کی ذرا وضاحت کردیں ۔
 
شمولیت
دسمبر 11، 2015
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
جی سعودي عرب میں لوگ بنک کے علاوہ جو پیسے ٹرانسفر کرتے ہیں وہ

Sent from my GT-I9300 using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کا حکم

سوال
انسان باہر کے ملک میں رہتا ہے اور حلال کی کمائی کرتا ہے تو وہ اپنی رقم اپنے ملک میں بھیجنا چاہتا ہے تو کیا وہ اپنی رقم ہنڈی کے ذریعے اپنے ملک بھیج سکتا ہے یا بنک کے ذریعے ہی بھیجے۔؟ کیا ہنڈی کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک رقم کی ترسیل کرنا جائز ہے۔؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں بظاہر ممانعت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے، کیونکہ یہ مختلف کر نسیوں کا کمی بیشی سے تبادلہ ہوتا ہے،اور آپ نے اپنی رقم اپنے گھر پہنچانی ہے خواہ بینک کے ذریعے بھیج دیں یا ہنڈی کے ذریعے،یہ تو آُ نے اعتماد کی بات ہے کہ آپ ان میں سے کس ذریعے پر اعتماد کرتے ہیں۔ہنڈی کے ذریعہ بھیجی جانے والی رقم میں سے اگر بھیجنے کی اجرت اصل رقم سے منہا نہیں کی جاتی، بلکہ الگ سے طے کرکے لی جاتی ہے تو جائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

حافظ ثناء اللہ المدنی حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا :
بینک میں ڈرافٹ اور بعض تجارتی حضرات کے ہاں ہنڈی کا ذریعہ چل رہا ہے ہنڈی میں رقم ایک دن یا کم یا زیادہ مگر پھر بھی جلدی پہنچانے کی ضمانت دی جا تی ہے فائدہ یہ ہے کہ بینک کے ریٹ سے زیادہ ریٹ دیتے ہیں شائد بینک جتنی رقم اجرت کے بہانے کاٹتا ہے یہ پوری کردیتے ہیں مثلاً اگر بینک ایک ریال میں 80۔6روپے دیتا ہے تو یہ 7یا کچھ اوپر پیسے کے حساب سے دیتے ہیں نیز ہمارے پیسے ہمارے گھر پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں پاکستان کے زر مبادلہ کو جو نقصان ہوتا ہے وہ واضح ہے مگر بعض نے پھر بھی اسے سودی کاروبار میں شامل کیا ہے کہ یہ تاجر اس سے سودی ذریعہ بنالیتے ہیں ۔واللہ اعلم کیسے ؟اگر سودی ذریعہ نہ بنا یا جا ئے تو کیا حکم ہے ؟ایک ڈاکٹر کی تحقیق دونوں میں سود ثابت کرتی ہے ۔
شیخ محترم نے جواب ارشاد فرمایا :
ہنڈی کے کا روبار میں بظاہر کو ئی قباحت معلوم نہیں ہوتی کیونکہ مختلف کر نسیوں کا کمی بیشی سے تبادلہ سود نہیں یہاں جنس کے اعتبار سے دونوں مختلف ہیں ۔اور "مختلف الاجناس"کے تبادلہ میں کمی بیشی جائز ہے پھر اس کمی زیادتی کی شرعی طور پر کو ئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ معاملہ جانبین کی باہمی رضا مندی پر موقوف ہے ( فتاوی ثنائیہ مدنیہ ج 1 ص 706 )

 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جامعہ بنوریہ کی ویب سائٹ پر بھی اس کے متعلق ایک فتوی ہے :
سوال :
ہنڈی کاکاروبار جائزہے؟ لوگ 1000 ریال پاکستان بھیجتے ہیں جوکہ پاکستان میں 26000 روپیہ بنتا ہے، جس آدمی کے لئے بھیجتے ہیں اس کو وہاں 25000 ہزار دیا جاتا ہے اور اسی دن ملتا ہے یعنی یہ مزدوری کرتے ہیں یہ لوگ۔ کونسی صورت جائز ہوگی؟
جواب :
ہنڈی کا کاروبار ملکی وبین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے ، اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے جائز قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے ، البتہ اگر کسی نے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائی تو اسے مندرجہ ذیل شرعی حکم کی تفصیل ملحوظ رکھنا لازمی ہے:جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہے، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہے، البتہ بطور فیس الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں جیسا کہ سوال میں ایک طرف کرنسی ریال ہے اور دوسری طرف پاکستانی روپیہ۔ادائیگی کے وقت اس ملک کی کرنسی کے متعین کردہ ریٹ کے مطابق ادائیگی کی جائے، اس میں بھی کمی بیشی کرکے لین دین جائز نہیں ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں جب 1000 ریال کے 26000 پاکستانی روپے بنتے ہیں تو اتنے ہی آگے دینا ضروری ہے، مزدوری کے نام پر کمی کرنا جائز نہیں۔ مزدوری یا فیس الگ سے طے کر کے لی جائے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس دور میں ہنڈی اور بینک برابر ہو چکے ہیں، ایک وقت تھا جب ہنڈی جرم تھا مگر اب بینکوں نے بھی ہنڈی شروع کر دی ہوئی ہے، آپ بینک سے بھی رقم بھیجیں تو جو ریٹ اوپن مارکیٹ سے مل رہا ہے وہی ریٹ بینک بھی آپکو دے گا، اس پر آپ چاہیں تو بینک سے اس ریٹ پر رقم بھیجیں یا چاہیں تو بینک ڈرافٹ کے ذریعے، مگر ڈرافٹ کے ذریعے بھیجی جانے والی رقم پر آپ کو پاکستان میں ٹیکس پر چھوٹ ہے اور بینک سے ہی بغیر ڈرافٹ رقم بھیجنے سے ٹیکس پر کوئی چھوٹ نہیں۔

والسلام
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

*كرنسى كى تجارت كا حكم*
(ویسٹرن یونیین منی ٹرانسفر کے کام کا حکم؟)

~~~~~~~~~~~

*سوال*
كرنسى كى تجارت كا حكم كيا ہے ؟
كيا ماركيٹ ريٹ كے مطابق ايك كرنسى سے دوسرى كرنسى فروخت كرنے كى نتيجہ ميں حاصل ہونے والا نفع جائز ہے ؟
يہ بھى بتائيں كہ مثلا اگر ميں ايك ہزار ريال كو يورو ميں تبديل كرواں اور پھر اسى وقت انہيں ڈالر ميں تبديل كروا كر پھر اس كے ريال لے لوں تو كيا يہ جائز ہوگا، كيونكہ ميرے پاس اس طرح ايك ہزار دس ريال آ جائينگے، جو كہ عالمى كرنسى كے ريٹ پر اعتماد كرتے ہوئے ايسا ہوتا ہے ؟

ـــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــ

*جواب*

الحمد للہ:

جو طريقہ آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے اس طريقہ سے كرنسى كا ايك شرط پر كاروبار كرنا جائز ہے، وہ يہ كہ كرنسى اسى وقت مجلس عقد ميں ہى اپنے قبضہ ميں كر كے وصول كى جائے.

لہذا ريال كو يورو كے ساتھ اس شرط پر فروخت كرنا جائز ہوگا جب ايك دوسرے كو مجلس كے اندر ہى ليے ديے جائيں، اور اس كے بعد يورو كو ريال ميں بھى بدلا جا سكتا ہے ليكن شرط وہى ہے كہ اسى وقت ليے ديے جائيں، تو اس كے نتيجہ ميں حاصل ہونے والا نفع جائز ہوگا، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سونا سونے كے بدلے، اور چاندى چاندى كے بدلے، اور گندم گندم كے بدلے، اور جو جو كے بدے، اور كھجور كھجور كے بدلے، اور نمك نمك كے بدلے ايك دوسرے كى مثل اور برابر برابر ہاتھوں ہاتھ، اور جب يہ اصناف مختلف ہوں تو پھر جب يہ نقد ہوں تو جس طرح تم چاہو فروخت كرو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1587 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" كرنسى چينچ كے كاروبار ميں شرط يہ ہے كہ مجلس عقد ميں كرنسى اپنے قبضہ ميں لى جائے، اور كچھ كرنسى وصول كرلينى اور كچھ بعد ميں لينى جائز نہيں، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب يہ اصناف مختلف ہوں تو پھر جب ہاتھوں ہاتھ ہو تو تم جس طرح چاہو فروخت كرو " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 458 ).

واللہ اعلم .

https://islamqa.info/ur/answers/72214

.
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

فتاویٰ سے ہٹ ہر سوال پر ایک مسئلہ بہت اہم ہے جس کا جاننا ضروری ہے ان سب کے لئے جو بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں یا وہاں سے کرنسی پاکستان بھیجتے ہیں۔

مثلا اگر ميں ايك ہزار ريال كو يورو ميں تبديل كرواں
اور پھر اسى وقت انہيں ڈالر ميں تبديل كروا كر
پھر اس كے ريال لے لوں تو كيا يہ جائز ہوگا،
كيونكہ ميرے پاس اس طرح ايك ہزار دس ريال آ جائينگے،
جو كہ عالمى كرنسى كے ريٹ پر اعتماد كرتے ہوئے ايسا ہوتا ہے ؟
سوال کے مطابق مثال سے ایک ہزار ریال سے کبھی بھی رقم زیادہ نہیں ہو گی بلکہ بہت کم ہو گی۔
کرنسی ایکچینج میں لگے بورڈ ہو کسی بھی ملک کے کرنسی کے ساتھ دو ریٹ لکھے ہوتے ہیں
۱۔ قیمت خرید
۲۔ قیمت فروخت
ریال سے یورو خریدا، پھر یورو سے ڈالر خریدا اور پھر ڈالر سے ریال، آپ نے ۳ مرتبہ کرنسی خریدی اور منیچینجر سے ۳ مرتبہ کرنسی بیچی، اسطرح کرنسی ۳ مرتبہ تبدیل ہوئی اور جس پر ہر ریٹ منیچینجر کو فائدہ دے گیا اور آپکو نقصان یہ رقم کم ہو گی نہ کہ بڑھے۔

کچھ بھی ہو جس جگہ کرنسی استعمال میں لانی ہے یا بھیجنی ہو یا ساتھ لے کر جانی ہو تو اسی ملک کے لئے تبدیل کی جائے، کچھ لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جب وہ پاکستان جا رہے ہیں تو جس ملک سے جا رہے ہیں وہاں سے ڈالر خرید لیتے ہیں اور پاکستان جا کر پھر ڈالر سے پاکستانی کرنسی خریدتے ہیں۔ اگر آپ پاکستان جا رہے ہیں تو سعودی کرنسی کو پاکستان جا کر بدلیں اس پر وہاں ریٹ ویزہ ملے گا بنسبت سعودی عرب میں پاکستان کرنسی خریدنے کے۔

والسلام
 
Top