• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہیرے جواہرات وغیرہ پر زکوٰۃ

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
ہیرے جواہرات وغیرہ اگر تجارت کیلئے رکھے ہوں تو پھر بلا اختلاف اموال تجارت کی طرح ان پربھی زکوٰۃ فرض ہوگی لیکن اگر یہ ذاتی استعمال (مثلاً زیب و زینت کے لئے) یا کاروباری آلات کے لئے استعمال ہوں تو پھر بلا نزاع ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں، خواہ یہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں۔ جیسا کہ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ:
''لا زکوٰة فیما سوی الذھب والفضة من الجواھر کالیاقوت والفیروزج، واللؤلؤ والمرجان والزمرد والزبرجد والحدید والصفر وسائر النحاس والزجاج وان حسنت صنعھا وکثرت قیمتھا ولازکوٰة أیضاً فی المسک والعنبر وبه قال جماھیر العلماء من السلف وغیرهم'' (المجموع شرح المذہب: ج۵ص۴۶۴)
اسی طرح ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ :
''فالزکوٰۃ في الحلی من الذھب والفضة دون الجوھر لأنھا لا زکوٰة فیھا عند أحد من أھل العلم فإن کان الحلی للتجارة قومہ بما فیه من الجواھر لأن الجواھر لوکانت مفردة وھي للتجارة لقومت وزکیت'' (المغنی: ج۴؍ص۲۲۴ نیز دیکھئے الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:ج ۱؍ ص ۵۹۵، موسوعۃ الاجماع: ۱؍۴۶۷)
مذکورہ بالا اقتباسات کا حاصل یہ ہے کہ ہر طرح کے قیمتی موتی اور جملہ عطریات زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں بشرطیکہ یہ تجارت کے لئے نہ ہوں اور جمہور ائمہ سلف کا شروع سے یہی موقف رہا ہے۔ باقی رہا جواہرات کو سونے چاندی کے زیورات پر قیاس کرنے کا مسئلہ تو یہ قیاس درست نہیں، اس لئے کہ زیورات میں استعمال ہونے والا سونا چاندی نقدی اور نموکی حیثیت بھی رکھتا ہے جبکہ ہیرے جواہرات میں یہ خاصیت نہیںپائی جاتی۔ اسی لئے متقدمین میں سے جو اہل علم زیورات پر زکوٰۃ کے قائل رہے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی انہیں زیورات پر قیاس نہیں کیا۔ تقریباً یہی رائے ابن حجر کی بھی ہے، دیکھئے فتح الباری: ج۳؍ص۳۶۳ اور حنفیہ کا بھی یہی موقف ہے ، دیکھئے درّمختار: ج۲ ؍ص۲۷۳ اور فتاویٰ ہندیہ :۱؍۱۰۲
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
664
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حافظ عمران الہی صاحب!
ان عبارتوں کا اگر ترجمہ بھی کردیاجائے تو زیادہ مفید ہو گا:
''لا زکوٰة فیما سوی الذھب والفضة من الجواھر کالیاقوت والفیروزج، واللؤلؤ والمرجان والزمرد والزبرجد والحدید والصفر وسائر النحاس والزجاج وان حسنت صنعھا وکثرت قیمتھا ولازکوٰة أیضاً فی المسک والعنبر وبه قال جماھیر العلماء من السلف وغیرهم'' (المجموع شرح المذہب: ج۵ص۴۶۴)
اسی طرح ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ :
''فالزکوٰۃ في الحلی من الذھب والفضة دون الجوھر لأنھا لا زکوٰة فیھا عند أحد من أھل العلم فإن کان الحلی للتجارة قومہ بما فیه من الجواھر لأن الجواھر لوکانت مفردة وھي للتجارة لقومت وزکیت'' (المغنی: ج۴؍ص۲۲۴ نیز دیکھئے الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:ج ۱؍ ص ۵۹۵، موسوعۃ الاجماع: ۱؍۴۶۷)
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

قیمتی پتھروں اور نگینوں سے مرصع زیورات کی زکوۃ کا حکم


سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ان زیورات کی زکوۃ کیسے نکالی جائے گی جو خالص سونے کے نہیں ہوتے بلکہ ان میں مختلف قسم کے نگینے اور قیمتی پتھر لگے ہوتے ہیں؟کیا ان پتھروں اور نگینوں کا وزن بھی سونے کے ساتھ شمار کیا جائے گا کیونکہ سونے کو ان سے جدا کرنا مشکل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سونا اگر پہننے کے لیے ہو تو صرف اس میں زکوۃ ہے رہے موتی ہیرے اور اس جیسے دیگر قیمتی پتھر تو ان میں زکوۃ نہیں ہے۔ جب ہاروں وغیرہ میں موتی اور سونا دونوں ہوں تو بیوی یا اس کا شوہر یا عورت کے اولیاء غور و فکر کر کے سونے کی مقدار کا اندازہ لگائیں گے یا اس کے ماہرین کو دکھائیں گے تو جس مقدار کا غالب گمان ہو اسی پر اکتفا کیا جائے گا۔ اگر وہ مقدار نصاب زکوۃ کو پہنچتی ہو تو اس میں زکوۃ ادا کی جائے گی۔سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جو کہ سعودی اور انگریزی جنیہ کے اعتبار سے ساڑھے گیارہ جنیہ ہے اور گراموں میں اس کی مقدار بانوے گرام بنتی ہے ہر سال زکوۃ ادا کی جائے گی اور اس میں زکوۃ چالیسواں حصہ یعنی ہر ہزار ریال میں سے پچیس ریال اہل علم کے مختلف اقوال میں سے صحیح قول یہی ہے۔

لیکن جب زیورات تجارت کے لیے ہوں تو جمہور اہل علم کے نزدیک ان میں دیگر سامان تجارت کی طرح موتیوں اور ہیروں کی قیمت سمیت تمام کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
(سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

کتاب " عورتوں کےلیے صرف "
صفحہ نمبر 240
محدث فتویٰ

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

قیمتی پتھر ’’ہیرا‘‘ کی موجودگی میں اس پر زکوٰۃ کا حکم


سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہیرا(Dimond) قیمتی پتھر ہے۔ اگر کسی کے پاس زینت کے لیے موجود ہو تو کیا اس پر زکوٰۃ ادا کی جائے؟ (عبدالرزاق، اختر، محمدی پینٹرز،رحیم یار خان) (۲ اگست ۱۹۹۶ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہیرے میں زکوٰۃ نہیں۔ (صحیح البخاری، بَابُ مَا یُسْتَخْرَجُ مِنَ البَحْرِ،قبل رقم:۱۴۹۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:306
محدث فتویٰ

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

صحيح البخاري

كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان

65. بَابُ مَا يُسْتَخْرَجُ مِنَ الْبَحْرِ:
65. باب: جو مال سمندر سے نکالا جائے۔

وقال ابن عباس رضي الله عنهما: ليس العنبر بركاز هو شيء دسره البحر .

‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عنبر کو رکاز نہیں کہہ سکتے۔ عنبر تو ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے۔

وقال الحسن في العنبر واللؤلؤ الخمس، فإنما جعل النبي صلى الله عليه وسلم في الركاز الخمس، ليس في الذي يصاب في الماء.

‏‏‏‏ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا عنبر اور موتی میں پانچواں حصہ لازم ہے۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکاز میں پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے۔ تو رکاز اس کو نہیں کہتے جو پانی میں ملے۔

حدیث نمبر: 1498

(مرفوع) وقال الليث حدثني جعفر بن ربيعة عن عبد الرحمن بن هرمز عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم: «ان رجلا من بني إسرائيل سال بعض بني إسرائيل بان يسلفه الف دينار، فدفعها إليه، فخرج في البحر، فلم يجد مركبا، فاخذ خشبة فنقرها فادخل فيها الف دينار، فرمى بها في البحر، فخرج الرجل الذي كان اسلفه، فإذا بالخشبة فاخذها لاهله حطبا- فذكر الحديث- فلما نشرها وجد المال» .

اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ہرمز سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دوسرے بنی اسرائیل کے شخص سے ہزار اشرفیاں قرض مانگیں۔ اس نے اللہ کے بھروسے پر اس کو دے دیں۔ اب جس نے قرض لیا تھا وہ سمندر پر گیا کہ سوار ہو جائے اور قرض خواہ کا قرض ادا کرے لیکن سواری نہ ملی۔ آخر اس نے قرض خواہ تک پہنچنے سے ناامید ہو کر ایک لکڑی لی اس کو کریدا اور ہزار اشرفیاں اس میں بھر کر وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی۔ اتفاق سے قرض خواہ کام کاج کو باہر نکلا ‘ سمندر پر پہنچا تو ایک لکڑی دیکھی اور اس کو گھر میں جلانے کے خیال سے لے آیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ جب لکڑی کو چیرا تو اس میں اشرفیاں پائیں۔


مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1498

1498. حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں: "بنی اسرائیل میں سے کسی نے ایک شخص سے ہزار دینار قرض مانگے تو اس نے دے دیے۔ (اتفاقاً وہ قرض دار سفر میں نکلا اور ادائے قرض کاوقت آگیا، لیکن درمیان میں ایک دریاحائل تھا) وہ دریا کی طرف گیا مگر اس نے وہاں کوئی سواری نہ پائی، مجبوراً اس نے لکڑی لی، اس میں سوراخ کیا اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ کر اسے دریا میں بہادیا۔ اتفاق سے وہ شخص جس نے قرض دیا تھا دریا کی طرف آنکلا، اسے یہ لکڑی نظر آئی تو اس نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے بطور ایندھن اٹھا لیا۔ پھر انھوں نےپوری حدیث بیان کی(جس کے آخر میں تھا:)اور اس نے جب لکڑی کوچیرا تو اس میں اپنا مال رکھا ہوا پایا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:1498]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ یہ ثابت فرمانا چاہتے ہیں کہ دریا میں سے جو چیزیں ملیں عنبر موتی وغیرہ ان میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جن حضرات نے ایسی چیزوں کو رکاز میں شامل کیا ہے ان کا قول صحیح نہیں۔
حضرت امام اس ذیل میں یہ اسرائیلی واقعہ لائے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
قال الاسماعیلی لیس فی ہذا الحدیث شئی یناسب الترجمۃ رجل اقترض قرضاً فارتجع قرضہ وکذا قال الداودی حدیث الخشبۃ لیس من ہذا الباب فی شئی واجاب عبدالملک بانہ اشاربہ الی ان کل ماالقاہ البحر جاز اخذہ ولا خمس فیہ الخ (فتح الباری)
یعنی اسماعیلی نے کہا کہ اس حدیث میں باب سے کوئی وجہ مناسبت نہیں ہے ایسا ہی داؤدی نے بھی کہا کہ حدیث خشبہ کو (لکڑی جس میں روپیہ ملا)
اس سے کوئی مناسبت نہیں۔
عبدالملک نے ان حضرات کو یہ جواب دیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر وہ چیز جسے دریا باہر پھینک دے اس کا لینا جائز ہے اور اس میں خمس نہیں ہے اس لحاظ سے حدیث اور باب میں مناسبت موجود ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں وذہب الجمھورالی انہ لا یجب فیہ شئی یعنی جمہور اس طرف گئے ہیں کہ دریا سے جو چیزیں نکالی جائیں ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
اسرائیلی حضرات کا یہ واقعہ قابل عبرت ہے کہ دینے والے نے محض اللہ کی ضمانت پر اس کو ایک ہزار اشرفیاں دے ڈالیں اور اسکی امانت ودیانت کو اللہ نے اس طرح ثابت رکھا کہ لکڑی کو معہ اشرفیوں کے قرض دینے والے تک پہنچا دیا۔
اور اس نے بایں صورت اپنی اشرفیوں کو وصول کرلیا۔
فیالواقع اگر قرض لینے والا وقت پر ادا کرنے کی صحیح نیت دل میں رکھتا ہو تو اللہ پاک ضرور ضرور کسی نہ کسی ذریعہ سے ایسے سامان مہیا کرا دیتا ہے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
یہ مضمون ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔
مگر آج کل ایسے دیانت دار عنقا ہیں۔
الا ماشاءاللہ وباللہ التوفیق۔

صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1498


الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1498

1498. حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں: "بنی اسرائیل میں سے کسی نے ایک شخص سے ہزار دینار قرض مانگے تو اس نے دے دیے۔ (اتفاقاً وہ قرض دار سفر میں نکلا اور ادائے قرض کاوقت آگیا، لیکن درمیان میں ایک دریاحائل تھا) وہ دریا کی طرف گیا مگر اس نے وہاں کوئی سواری نہ پائی، مجبوراً اس نے لکڑی لی، اس میں سوراخ کیا اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ کر اسے دریا میں بہادیا۔ اتفاق سے وہ شخص جس نے قرض دیا تھا دریا کی طرف آنکلا، اسے یہ لکڑی نظر آئی تو اس نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے بطور ایندھن اٹھا لیا۔ پھر انھوں نےپوری حدیث بیان کی(جس کے آخر میں تھا:)اور اس نے جب لکڑی کوچیرا تو اس میں اپنا مال رکھا ہوا پایا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:1498]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو سمندری مال میں پانچواں حصہ نکالنا ضروری قرار دیتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ دریا یا سمندر سے جو چیز ملے اسے اپنی ملکیت میں لینا جائز ہے اور اس میں سے کس قسم کا مقررہ حصہ ادا کرنا ضروری نہیں کیونکہ حدیث خشبه میں خمس نکالنے کا ذکر نہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور فعل ہی کی تردید فرمائی ہے۔
اس بات کی بھی وضاحت نہیں کہ اس طرح کے مال سے خمس نہ نکالنا بنی اسرائیل کی شریعت میں تھا لیکن میرے صحابہ تمہارے لیے ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں جب تک اس سے خمس نہ نکال دیا جائے، اس سے معلوم ہوا کہ سمندر سے ملنے والی اشیاء پر خمس وغیرہ نہیں ہے۔
(فتح الباری: 3/457) (2)
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ سمندری چیز لینا مباح ہے اور اس سے خمس ادا کرنا ضروری نہیں، عنوان میں ہے:
"جو مال سمندر سے برآمد کیا جائے" اور حدیث میں بھی مال کا سمندر سے برآمد ہونا ثابت ہے، حدیث کی عنوان سے مطابقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے جیسا کہ امام بخاری کی عادت ہے باقی اشیاء کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
(عمدۃالقاری: 6/559)
امام اوزاعی رحمہ اللہ کے ہاں کچھ تفصیل ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جو چیز ساحل سمندر سے حاصل ہو اس کا خمس ادا کیا جائے اور جو چیز سمندر میں غوطہ لگا کر برآمد کی جائے، اس سے خمس وغیرہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جمہور کے نزدیک سمندر کی کسی چیز پر خمس واجب نہیں۔
(فتح الباری: 3/457) (3)
اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الکفالۃ، حدیث:
(2291)
میں تفصیل سے روایت کیا ہے وہاں اس کے مزید فوائد ذکر کیے جائیں گے۔
ان شاءاللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1498

https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?hadith_number=1498&bookid=1&tarqeem=1

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

ہیروں اور نقدی پر زکوۃ

کتاب: مکالمہ، صفحہ ۱۵۷
ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

پی۔ڈی۔ایف ڈاؤنلوڈ لنک
https://kitabosunnat.com/kutub-library/makaalma-jilad-1#tab3

~~~~~~~~~~~~~؛

دوست نے سوال کیا ہے کہ مالکن کے پاس چار کروڑ کے ہیرے ہیں اور اس کے گھر میں کام کرنے والی خادمہ کے پاس چالیس ہزار روپے ہیں جو اس نے دو ہزار کی کمیٹی ڈال کر جمع کیے تھے، دونوں پر ایک سال گزر چکا، تو مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ مالکن پر زکوۃ نہیں ہے کہ فقہاء کے نزدیک ہیروں اور قیمتی پتھروں پر کوئی زکوۃ نہیں ہے اور خادمہ پر زکوۃ فرض ہے کہ خادمہ ”صاحب نصاب“ ہے کہ اس کے پاس اتنی رقم ہے جو 52.5 تولے چاندی کے برابر ہے۔ اس بارے آپ کیرائے درکار ہے کہ کیا خادمہ اپنی زکوۃ اپنی مالکن کو دے سکتی ہے؟

جواب: فتاوی کے نام پر عجب تماشے لگے ہوئے ہیں۔ بعض علماء کا یہ شکوی بجا ہے کہ مدرسوں میں اصول فقہ کے نام پر اصول اجتہاد کی بجائے، اصول تقلید پڑھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے معاصر مفتی صاحب کو اصول فقہ کی کتابوں کے متون زبانی یاد ہوں گے لیکن مجال ہے کہ ایک اصول کی تطبیق بھی بیسیوں فتاوی میں نظر آ جائے الا ما شاء اللہ۔ مفتی صاحبان اپنے فتاوی میں شرعی مقاصد کو بری طرح پامال کر رہے ہیں کہ جس سے احکام شریعت مذاق بنتے چلے جا رہے ہیں لیکن کسی کو احساس ہی نہیں ہے۔ تیس تیس جلدوں کے فتاوی میں سے دو چار فتاوی ایک ساتھ سامنے رکھ کر دیکھ لیں تو کسی صاحب عقل کے لیے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جائے۔

تو ہمارے فقہاء نے ایک دور میں کہا تھا کہ ہیروں اور قیمتی پتھروں پر زکوۃ نہیں ہے جبکہ اس دور میں ان کی کوئی ”مارکیٹ ویلیو“ نہیں ہوتی تھی۔ آج ہیروں اور قیمتی پتھروں کی باقاعدہ عالمی مارکیٹ اور ”ری سیل ویلیو“ ہوتی ہے۔ وہ سونے اور چاندی جیسی دھاتوں سے بھی بیسیوں گنا مہنگے ہوتے ہیں لہذا ان پر زکوۃ فرض نہ کرنا تقلیدی جمود اور مقاصد شریعت کے خلاف ہے کہ زکوۃ ایسے مال پر ہی فرض ہوتی ہے کہ جس کے بدولت ایک شخص معاشرے میں امیر اور غنی شمار ہو۔

اور دوسری بات یہ کہ آپ ﷐ کے زمانے میں 7.5 تولے سونے کی قیمت اور 52.5 تولے چاندی کی قیمت تقریبا برابر تھی لہذا نقدی کے لیے کسی کو بھی نصاب بنا لیا جاتا تو کوئی حرج نہیں تھا۔ آج دونوں دھاتوں کی قیمتوں میں بہت نمایاں فرق ہے۔ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت (35,000) جتنی کرنسی رکھنے والا ہمارے معاشرے میں ہر گز امیر نہیں ہو سکتا البتہ ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت (370,000) کے برابر نقدی رکھنے والا امیر کہلانے کا مستحق ہے لہذا نقدی کا نصاب 7.5 تولے سونے کی قیمت کو بنایا جائے گا نہ کہ 52.5 تولے چاندی کی قیمت کو۔

آپ ﷐ کے زمانے میں دینار سونے کا سکہ تھا اور درہم چاندی کا سکہ اور یہ دھاتیں کرنسی اور زیور کے طور مستعمل تھیں۔ آج چاندی کا استعمال بطور کرنسی اور زیور کے نہ ہونے کے برابر ہے لہذا چاندی کسی طور بھی کرنسی کا نصاب بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ اور ماضی قریب میں پیپر کرنسی چھاپنے کے لیے اصلاً معیار سونے کو ہی بنایا جاتا رہا ہے لہذا پیپر کرنسی میں زکوۃ کے لیے بھی زیادہ بہتر معیار سونا ہی ہے۔ اور 52.5 تولے چاندی والے مالک کو آج ہمارے معاشرے اور عرف میں کوئی شخص بھی امیر نہیں سمجھتا ہے۔

اسی طرح اللہ کے رسول ﷐ کا فرمان ہے کہ زکوۃ تمہارے اغنیاء سے لی جائے گی اور فقراء میں تقسیم کی جائے گی اور یہ زکوۃ کا مقصد عظیم ہے۔ اب تو ایسے فتاوی سامنے آ رہے ہیں کہ غریب زکوۃ دے رہے ہیں اور امیر وصول فرما رہے ہیں، انا للہ وانا الیہ رجعون۔ یہ اللہ کے دین کے ساتھ مذاق اور کھلواڑ ہے، اور کچھ نہیں۔ اور دین کے ہر شعبہ میں اس قسم کے فتاوی کی ایک ہی وجہ ہے کہ مقاصد شریعت اور اصول فقہ صرف کتابوں میں پڑھنے اور مقالات علمیہ میں بحث کے لیے رہ گئے ہیں، علماء ان کی تطبیق سے کوسوں دور ہیں۔

ایک دوست کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں سونے کی ڈیمانڈ اور قیمت میں اتار چڑھاؤ اور سپر پاورز کا سونے کے ذخائر کو جمع کرنے اور بڑھانے میں رغبت رکھنا واضح طور یہ بتلا رہا ہے کہ سونا آج بھی چیزوں کو ماپنے کے لیے ایک قدر ہے جبکہ چاندی کا معاملہ کسی طور ایسا نہیں ہے۔ میرے علم میں نہیں پاکستان میں کون سا گاؤں یا شہر ایسا ہے کہ جہاں کی عورتیں سونے کی نسبت چاندی کے زیورات میں زیادہ دلچسپی رکھتی یا پہنتی ہوں۔

کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے بڑوں کے فتاوی پر اعتماد کرنا چاہیے، چاہیے کیسے بھی ہوں۔ تو عرض یہ ہے کہ ہمارے فقہاء نے کبار صحابہ سے اختلاف کیا، حضرت عمر بن خطاب ﷜ تک کے اجتہادات سے اختلاف کیا کہ جنہیں حدیث کے مطابق علم نبوت سے سیراب کیا گیا تھا، تو کیا کہیں گے کہ فقہاء نے اپنے بڑوں پر اعتماد نہیں کیا تھا؟ تو ایسی کج بحثی کی بجائے اس پر غور کر لیا جائے کہ خود فقہاء کے نزدیک عرف کے بدل جانے سے فتوی بدل جاتا ہے لہذا فقہاء کے اسی اصول کی روشنی میں زیادہ مناسب رائے یہی معلوم ہوتی ہے کہ ہیروں پر زکوۃ کی فرضیت کا فتوی نہ جاری کیا جائے۔

کچھ دوستوں کا کہنا یہ ہے کہ 35 ہزار پر زکوۃ ہی کیا بنتی ہے کہ فتوی کو ریوائز کرنے کی ضرورت پیش آئے؟ تو عرض یہ ہے کہ مشکل تو یہ بھی نہیں ہے کہ بیس ہزار روپے پر پانچ سو دے دے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ نہیں مانیں گے کہ یہ دینا اس پر فرض کر دو۔ دینے کو تو وہ پانچ سو پر بھی دے دے لیکن یہ دینا اس پر فرض ہے یا نہیں، اس کے لیے مضبوط دلیل چاہیے ہو گی۔

اور بعض کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر غریب دو مرلے کا مکان بنانے کے لیے کمیٹیاں ڈال کر دس لاکھ جمع کرے تو اس رقم پر تو زکوۃ ہے اور امیر دس کنال میں دس کروڑ کا بنگلہ بنا لے تو زکوۃ ہی نہیں ہے، عجب نہیں ہے! پس جو رقم یا اثاثہ (asset) کسی بنیادی ضرورت مثال کے طور گھر وغیرہ کو پورا کرنے کے لیے جمع کیا گیا ہے تو اس پر نہ تو زکوۃ ہے اور نہ ہی قربانی۔ یہی اصول، اصول کہلانے کے لائق اور درست ہے، باقی تو انتشار ہے نہ کہ اصول۔ ایک فتوی ادھر جا رہا ہے تو دوسرا ادھر، بنیاد تو کوئی ہے ہی نہیں کہ جس پر ایک موضوع کے تمام فتاوی کھڑے ہو سکیں۔

چند احباب کا خیال ہے کہ سال بھر چالیس ہزار روپے پڑے رہے ہیں اور خرچ نہیں ہوئے تو یہ دلیل ہے کہ یہ زائد از ضرورت مال ہے لہذا اس پر زکوۃ دینا بنتی ہے۔ ایک اور دوست نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گزارش ہے کہ یہ خیال ضروری نہیں کہ درست ہو۔ انسان کو مکان بنانے یا گاڑی خریدنے کے لیے بهی تو رقم درکار ہو سکتی ہے۔ اور یہ رقم متوسط طبقہ عموما پائی پائی جوڑ کر جمع کرتا ہے۔ آج وہ اپنی کمائی میں سے اگر ابھی تک چالیس ہزار ہی جمع کر پایا ہے جب کہ بنیادی ضرورتیں ابھی باقی ہیں تو گزارش ہے کہ اسے غنی تصور نہ کیا جائے بلکہ ابھی بے چارہ اپنی بنیادی ضروریات کی تگ و دو ہی میں ہے۔ اس شخص کا معاملہ اس فرد سے یقینا مختلف ہونا چاہیے جس کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری ہو چکی ہیں اور اب اسکے پاس چالیس ہزار یا اس سے زیادہ رقم ہے۔

کچھ دوستوں نے أنفع للفقراء کا اصول بھی بیان کیا کہ چاندی کو نصاب بنانے میں غریبوں کا فائدہ ہے۔ ایک اور دوست نے تبصرہ کیا کہ یہ بات درست ہے، تاہم یہ صرف ایک پہلو ہے کہ زیادہ زکوۃ تقسیم ہو گی۔ دوسرا پہلو اگر دیکھا جائے تو دینے والا بھی بے چارہ فقیر ہی تو ہے جیسا کہ اوپر میں نے اشارہ کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ چالیس ہزار رکھنے والا ہر شخص غنی ہی ہو بلکہ وہ تو خود بعض صورتوں میں فقیر ہی شمار ہو گا۔ تو کیا اس فقیر کا فائدہ شریعت میں مطلوب نہیں ہونا چاہیے ؟

یہ آخری نکتہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ بہت سے دلائل اضافی ہوتے ہیں، قطعی نہیں جیسا کہ اسی دلیل کو لے لیں۔ زکوۃ کے لیے چاندی کو نصاب نہ بنانے کی صورت میں بھی غریبوں ہی کا بھلا ہے، کتنی سامنے کی بات ہے لیکن لوگ جب ایک ہی زاویے سے دیکھنے کے عادی بنا دیے جائیں تو انہیں دوسرے رخ سے دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے اور بات سمجھ ہی نہیں آتی۔

.
 
Top