• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہیوی ڈپازٹ کا شرعی حکم

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہیوی ڈپازٹ کا شرعی حکم

تحریر: سرفراز فیضی
ہیوی ڈپازٹ کا سسٹم کیا ہے ؟
ہیوی ڈپازٹ ہندستان بھر میں مکان کے کرائے پر لین دین کا ایک معروف طریقہ ہے ۔ ہیوی ڈپازٹ کا طریقہ یہ ہے کہ مالک مکان کسی مکان کا ڈپازٹ رائج ڈپازٹ کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ لیتا ہے۔ اور اس " ہیوی ڈپازٹ " کے بدلہ میں کرایہ یا تو مکمّل معاف کردیتاہے یا انتہائی کم کردیتاہے ۔
مثلااگر کسی علاقہ میں گھر کا کرایہ پانچ ہزار اور ڈپازٹ پچاس ہزار رائج ہے تو مالک مکان پچاس ہزار کے بجائے تین لاکھ ڈپازٹ لیتا ہے ۔ اور ڈپازٹ واپس کرنے تک یا تو اس کا کرایہ سرے سے لیتا نہیں یا پھر انتہائی کم مثلا تین سو یا پانچ سو روپیہ وصول کرتاہے ۔
ہیوی ڈپازٹ کا شرعی حکم
ہیوی ڈپازٹ سود کی ایک واضح شکل ہے ۔ اس میں کرایہ دار سود لینے والا ہے اور مالک مکان سود دینے والا۔ اس حکم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کچھ ابتدائی باتیں آپ سمجھ لیں ۔
(۱) سود کسے کہتے ہیں؟ : کسی قرض پر شرطیہ حاصل کیا جانے والا نفع سود کہلاتا ہے ۔ جو بلا کسی اختلاف کے حرام ہے ۔ ’’کل قرض شرط فیہ أن یزیدہ فہو حرام بغیر خلاف ‘‘ (المغنی۶/۴۳۶)
(۲) سود کبھی رقم کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی خدمت (service) کی صورت میں: قرض پر شرطیہ حاصل کے جانے والے نفع کو سود کہتے ہیں ۔ یہ نفع خواہ پیسوں کی شکل میں حاصل کیاجائے یا خدمت (service) کی شکل میں سود کہلائے گا۔
مثلا آپ کسی کو پانچ ہزار روپیے قرض دیں اس شرط پر کہ وہ ان پانچ ہزار روپیوں کے بدلہ چھ ہزار روپیے واپس لوٹائے۔ اس صورت میں یہ ایک ہزار روپیے جو آپ نے زائد لیے سود ہیں ۔
اسی طرح آپ کسی کو پانچ ہزارروپیے قرض دیں اور یہ شرط لگا دیں کہ جب تک وہ پانچ ہزار نہ لوٹا دے تب تک بنا کسی معاوضہ کے آپ کے بچّوں کو تعلیم دے ۔ ایسی صورت میں یہ مفت تعلیم وہ نفع ہے جو آپ قرض کے بدلہ شرطیہ حاصل کررہے ہیں ۔ یہ بھی سود ہے ۔
(۳) ڈپازٹ کیاہے ؟ ڈپازٹ اصل میں کرایہ دار کی طرف سے’’ ضمانت ‘‘کی ایک مخصوص رقم ہے ۔ اس رقم کا مقصد سکیوریٹی ہوتا ہے۔جو مالک مکان ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے لیتا ہے ۔ مثلا اگر کسی گھر کا کرایہ دس ہزار ہے ۔ مالک مکان کو خدشہ ہے کہ کرایہ دار دو تین مہینے کا کرایہ ادا کیے بغیر مکان چھوڑ کر جاسکتا ہے ، یا گھر میں کچھ فرنیچر ہو جس کو نقصان پہنچا کر بھاگ جائے گا یا لائٹ بل کچھ مہینے کی ادا کیے بغیر چلا جائے ۔ ان سارے خدشات کو سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک نقصان کا اندیشہ ہے ۔لہذا گھر کرائے پر دیتے وقت مالک مکان کرایہ دار سے ایک لاکھ روپیہ لے کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے ۔ تاکہ کسی نقصان کی صورت میں وہ اپنی رقم اس ڈپازٹ میں سے کاٹ لے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ رقم ممکنہ نقصان سے بچنے کے لے اندیشے کے تحت لے کر رکھی ہے ۔ کرایہ دار نے یہ رقم ضمانت کے طور پر جمع کی ہے تاکہ مالک مکان اس کی طرف سے بے فکر ر ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ رقم ایک طرح کی امانت ہے ۔ یہ استعمال کے لیے نہیں دی گئی ۔
(۴)ڈپازٹ یا قرض؟: یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ ڈپازٹ کی رقم اصلا ضمانت ہوتی ہے ۔ سیکیوریٹی کے مقصد سے لی جاتی ہے ۔ یہ رقم استعمال کے لیے نہیں لی جاتی ۔ لیکن ہیوی ڈپازٹ میں یہ بات دونوں طرف سے طے شدہ اور معہود فی الذہن (understood) ہوتی ہے کہ ڈپازٹ کے نام پر جو رقم لی جارہی ہے استعمال کے لیے لی جارہی ہے ۔اور اس کے استعمال سے ملنے والے فائدے ہی کی وجہ مالک مکان کرایہ معاف کررہا ہے یا اس میں تخفیف کررہا ہے ۔ لہذاگرچہ اس رقم کوڈپازٹ کہاجاتا ہے ۔ لیکن یہ اپنے اصل کے اعتبار سے ڈپازٹ نہیں قرض ہے ۔ اور اسلام کسی بھی چیز کی حقیقت کے اعتبار سے اس پر حکم لگاتاہے نا کہ اس کے مروّج نام کی بنیاد پر۔ لہذا کسی چیز کا نام تبدیل کرنے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی ۔
(۵) ان سارے مقدّمات کے ثابت ہوجانے کے بعد یہ بات آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہیوی ڈپازٹ کی رائج شکل بھی بالکل واضح سودہے ۔ ہیوی ڈپازٹ کے معاملہ میں کرایہ دار سود لینے والا ہے اور مالک مکان سود دینے والا ۔ جس طرح ’’دھنی‘‘ سے لیے جانے والے سود میں سود دینے والا ایک’’ رقم‘‘’’ قرض‘‘ لیتا ہے اسی طرح ہیوی ڈپازٹ کی صورت میں مالک مکان ایک’’ رقم‘‘ کرایہ دار سے ’’ قرض‘‘ لیتا ہے ۔ دھنی سے لیے جانے والے سود میں قرض لینے والا جب تک قرض نہیں لوٹاتاہر مہینے ایک متعین رقم سود کے نام پر دھنی کو دیتاہے ۔ ہیوی ڈپازٹ میں بھی مالک مکان جب تک کرایہ دار کا ڈپازٹ نہیں لوٹاتا ہر مہینے کرائے کی رقم جو اس کو کرایہ دار سے حاصل کرنی تھی وہ نہ لے کر سود چکاتاہے ۔

دو شبہات: دینی معاملات کا علم نہ رکھنے والے بعض لوگ ہیوی ڈپازٹ کے حلال ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہیوی ڈپازٹ کا معاملہ دونوں ( کرایہ دار اور گھر مالک ) کی رضامندی سے طے ہوتا ہے ۔ لہذا ان کی رضامندی کی وجہ سے اس معاملے کو حلال ہونا چاہیے ۔ حالانکہ بینک سے اور دھنی لیے جانے والے سود میں بھی دونوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے ۔ لیکن کسی معاملہ پر فریقین کے رضامند ہوجانے سے بیع جائز نہیں ہوجاتی ۔
بعض حضرات اس کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ اس معاملہ میں دونوں کا فائدہ ہے اس لیے اس کوحلال ہونا چاہے ۔ یہ دلیل بھی انتہائی بودی ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی چیز میں فائدہ ہونا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہوتی ۔ ورنہ بینک اور دھنی سے لیے جانے والے سود میں بھی کئی مرتبہ دونوں کا فائدہ ہوتا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ ہیوی ڈپازٹ کے بہت سارے معاملات مالک مکان ہیوی ڈپازٹ پر روم دے کر ہیوی ڈپازٹ کسی کاروبارمیں لگاتا ہے اور کاروبار فیل ہوجانے کی صورت میں کئی سالوں تک گھر کے کرایہ سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے ۔ اور نقصان اٹھاتا ہے ۔ ہم ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو پانچ دس سال سے روم کا ہیوی ڈپازٹ چکا نہیں پارہے اور ہر مہینے کرائے کے لیے آنے والے روقم کا نقصان برداشت کررہے ہیں ۔
 
Last edited:

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ایک حیلہ
بعض حضرات ایک حیلہ ہیوی کے ذریعہ ہیوی ڈپازٹ کی اس رقم کو حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ ہم اس حیلہ کی تشریح کریں ۔ اس بات کی وضاحت کردیں کہ اللہ رب العزّت دل کی نیّتوں کو دیکھتے ہیں ۔ کسی حرام چیز کو حلال نام دے لینے سے چیز حلال نہیں ہوجائی گی ۔ اللہ کی عدالت کوئی ہمارے ملکوں کی عدالت جیسی نہیں ہیں جہاں حیلے سازیاں کرکے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دے دیا جائے ۔ لہذا ایک بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں نہ آئے ۔ اور سچّائی اور خلوص کے ساتھ معاملہ پر غور کرے ۔
بعض حضرات ہیوی ڈپازٹ میں جواز کی شکل پیدا کرنے کے لیے ایک حیلہ یہ تراشتے ہیں کہ اگر کرایہ بالکل معاف کردیا ہے تو ہیوی ڈپازٹ حرام ہے لیکن اگر کرایہ کے نام پرچھوٹی سی رقم ہر مہینے دے دیا کرے تو ہیوی ڈپازٹ حلال ہے ۔
حیلے کا جواب:کرایہ بالکل معاف کردینے اور کرایہ میں تخفیف کردینے میں صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں سود زیادہ وصول کیا جائے گا اور تخفیف کی صورت میں کم وصول کیا جائے گا۔ کرایہ بالکل معاف کردینے کی صورت میں جو علّت حرمت کی پائی جاتی وہی علّت (سبب) کرایہ کی تخفیف میں بھی پائی جاتی ہے ۔ لہذا ان میں سے ایک صورت کو حرام اور دوسری کو حلال کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی ۔
ظاہر سی بات ہے کہ ایک گھر جس کا کرایہ پانچ ہزار ہے اگر مالک مکان ہیوی ڈپازٹ وصول کرنے کے بعد اس کا کرایہ محض ایک ہزار لے رہا ہے تو بقیہ چار ہزار کسی خیر خواہی اور بھلائی کرنے کے مقصد سے تو معاف نہیں کررہا ۔کرائے کے بقیہ چار ہزار روپیے جو وہ وصول نہیں کررہا اس کی وجہ ہیوی ڈپازٹ کی وہ رقم ہے جو اس نے کرایہ دار سے قرض لی ہوئی ہے ۔اور جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ قرض کے بدلہ میں دیا جانے والا یہ نفع ہی سود ہے ۔
لہذا دونوں صورتوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ کرایہ بالکل نہ لینے کی صورت میں مالک مکان پانچ ہزار سود بھر رہاہے اور ایک ہزار کرایہ لینے کی صورت میں چار ہزار سود بھر رہاہے ۔دونوں صورتوں میں اس فرق کے علاوہ کوئی ایسا فرق نہیں جس کی بنیاد پر کرایہ بالکل معاف کردینے پر حرام اور کچھ نہ کچھ لے لینے پر حلال کا حکم لگایا جائے ۔ لہذا صحیح بات یہ ہے کہ ڈپازٹ کے زیادہ یا کم ہونے کا کوئی اثر کرایہ کے کم یا زیادہ ہونے پر نہیں ہونا چاہیے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
دوسرا حیلہ
بعض حضرت ہیوی ڈپازٹ حلال کرنے کے لیے ایک دوسرا حیلہ اختیار کرتے ۔ اس حیلے کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ ڈپازٹ کی رقم اصلا قرض ہے اور اس قرض کے بدلہ میں رقم لینے والے نے کرایہ دار کے پاس گھر گروی رکھا ہوا ہے ۔اس صورت میں قرض دینے والا کرایہ دار نہیں ہے ۔ وہ بس اپنے پاس رکھے رہن (گروی ) رکھے ہوئے سامان کو استعمال کررہاہے ۔اس کے لیے یہ فائدہ اٹھانا جائز ہے ۔اس اشکال کے کئی جواب ہمارے پاس ہیں ۔
(۱)قرض کے بدلہ میں گروی رکھے گئے سامان سے فائدہ اٹھانے کوبھی سود ہی کہا جاتا ہے ۔ ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ ’’ فإن أذن الراہن للمرتہن فی الانتفاع بغیر عوض ، وکان دین الرہن من قرض ،لم یجز ، لأنہ یحصل قرضا یجر منفعۃ ، وذلک حرام‘یعنی اگر گروی رکھے ہوئے سامان سے قرض دار نے قرض دینے والے کو استعمال کرنے کی اجازت دے بھی دی ہو تو بھی اس کا استعمال کرنا اس پر حرام ہے کیونکہ یہ قرض کے بدلہ میں حاصل ہونے والا نفع ہے ۔ جو کہ حرام ہے ۔ (المغنی۴/۴۳۱).
(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گروی رکھی ہوئی چیز کے استعمال کی اجازت صرف اسی صورت میں دی ہے جب گروی رکھی ہوئی چیز پر قرض دینے والا خرچ کررہا ہو۔ لہذا جتنا وہ گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کررہا ہے اتنا خرچ نکالنے کے لیے وہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھا سکتاہے ۔لیکن اگرفائدہ خرچ سے زیادہ اٹھا رہا ہے تو زائد استعمال سود شمار ہوگا۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّہْنُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہِ إِذَا کَانَ مَرْہُونًا وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہِ إِذَا کَانَ مَرْہُونًا وَعَلَی الَّذِی یَرْکَبُ وَیَشْرَبُ النَّفَقَۃُ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ رہن کے جانور پر اس کے خرچ کے عوض سواری کی جائے اور دودھ دینے والا جانور دوہا جائے اگر وہ گروی ہو۔ ‘‘( صحیح البخاری ، کتاب الرہن، باب الرہن مرکوب ومحلوب )
حماد بن سلمہ کی روایت اس سے بھی زیادہ صریح ہے ۔جس کے الفاظ ہیں إِذَا ارْتَہَنَ شَاۃً شَرِبَ الْمُرْتَہِنُ مِنْ لَبَنِہَا بِقَدْرِ ثَمَنِ عَلَفِہَا فَإِنِ اسْتَفْضَلَ مِنَ اللَّبَنِ بَعْدَ ثَمَنِ الْعَلَفِ فَہُوَ رَبًّا ۔’’ یعنی اگر کسی کے پاس کوئی بکری گروی رکھی گئی ہو تو وہ جنتا بکری کے چارے پر خرچ کررہا ہے اتنا ہی اس کا دودھ پی سکتاہے ۔ لیکن اگر چارے پر جنتا خرچ کیا ہے اس سے زیادہ کا دودھ پیا تو یہ دودھ’’ سود‘‘ ہوگا۔‘‘( فتح الباری لابن حجر، دار المعرفۃ - بیروت (5/ 144)
(۳)اسلامی شریعت میں قرض اصلا احسان کی ایک شکل ہے ۔ جس میں قرض دینے والے کی خالص نیّت قرض لینے والے کے ساتھ بھلائی کرنے کی ہوتی ہے ۔ قرض لینے والے سے وہ کسی طرح کے دنیاوی مفاد کا خواہش مند نہیں ہوتا۔ جبکہ ہیوی ڈپازٹ کی شکل میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ قرض دینے والا (کرایہ دار ) ضرورت مند ہے ۔ اور قرض (ہیوی ڈپازٹ ) دینے کا مقصد بھی اس ضرورت کو پورا کرنا ہے ۔
(۴) اسلامی نظام قرض کے حساب سے قرض پرگروی (رہن)رکھا گیا سامان استعمال کے لیے نہیں ہوا۔ نہ قرض دینے والے کا مقصد اس سے فائدہ اٹھانا ہوتاہے ۔ سامان صرف اس خدشہ کے تحت گروی رکھا جاتا ہیکہ اگر قرض دار نے قرض واپس نہ لوٹایا تو اس کا گروی رکھا ہوا سامان ضبط کرلیا جائیگا۔ جب کہ ہیوی ڈپازٹ عام قرض کی طرح ’’احسان‘‘ نہیں ’’معاوضہ ‘‘ کی بنیاد پر ہوتاہے ۔ یہاں قرض دینے والا کرایہ دار قرض لینے والے مالک مکان سے شرطیہ نفع کا خواہشمند ہوتاہے ۔ لہذا صرف نام تبدیل کرلینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی ۔ کیونکہ شریعت میں حکم لگاتے ہوئے معاملہ کی حقیقت کو دیکھا جاتا ہے اس حقیقت کانام تبدیل کرلینے سے حکم تبدیل نہیں ہوجاتا ۔
(۵) عام قرض کی صورت میں صرف قرض لینے والا ضرورت مند ہوتا ہے ۔ قرض دینے والے ضرورت مند نہیں ہوتا۔ قرض دینے والا سامان صرف اپنی تسکین اور اطمیان کے لیے گروی رکھاتا ہے ۔ وہ گروی رکھی ہوئی چیز کا خواہشمند اور ضرورت مند نہیں ہوتا۔
جبکہ ہیوی ڈپازٹ کی شکل میں قرض لینے والے کے ساتھ قرض دینے والا بھی ضرورت مند ہوتا ہے ۔ قرض لینے والے کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جو وہ ہیوی ڈپازٹ کی شکل میں وصول کرتا ہے اور قرض دینے والے کو مفت یا کم کرائے میں گھر کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ قرض لینے والے سے حاصل کرتاہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
شیخ ابن عثیمین کا فتویٰ:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی" الشرح الممتع" میں کہتے ہیں:
قرض میں شروط کی مثال جو نفع لائے یہ ہے کہ: ایک آدمی کسی شخص کے پاس آیا اور کہنے لگا’’ میں چاہتا ہوں کے تم مجھے ایک لاکھ بطور قرض دو‘‘ تو اس نے کہا’’ لیکن میں تیرے مکان میں ایک ماہ رہوں گا ‘‘ تو یہاں قرض نے قرض دینے والے کو نفع دیا ہے اور یہ حرام ہے اور جائز نہیں کیونکہ قرض میں اصل تو قرض لینے والے پر احسان اور نرمی ہے، لہذا جب اس میں شرط آجائے تو یہ معاوضہ میں شامل ہو جائے گا، اور جب بطور معاوضہ ہو تو یہ نقد اور ادھار سود پر مشتمل ہے.
مثلا:جب مجھ سے کسی نے ایک لاکھ قرض لیا تو میں نے اس پر یہ شرط لگا دی کہ میں اس کے مکان میں ایک ماہ رہائش رکھوں گا، توگویا کہ میں نے ایک لاکھ کو ’’مکان میں ایک ماہ کی رہائش کے زیادہ میں‘‘ فروخت کیا، اور یہ مدت کا (ادھار )سود ہے، کیونکہ اس میں عوض کی سپردگی میں تاخیر ہے، اور رباالفضل ہے کیونکہ اس میں زیادہ ہے.لہذا اسی لیے علماء کرام کا کہنا ہے کہ ’’جو قرض بھی نفع لائے وہ حرام ہے‘‘( الشرح الممتع۴/۶۴)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ایک جائز متبادل
مالک مکان کو ایک ساتھ خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی ضرورت اس کو گھر ہیوی ڈپازٹ پر اٹھانے پر مجبور کرتا ہے ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک جائز متبادل شریعت میں یہ ہے کہ آپ کئی سالوں کا کرایہ ایک ساتھ بڑی رقم کی صورت میں وصول کرکے وہ رقم اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں ۔ اور اس طرح بڑی رقم وصول کرنا اور اس کا استعمال میں لانا آپ کے لیے جائز ہے ۔ کیونکہ اس صورت میں یہ رقم ڈپازٹ کی نہیں کرائے کی ہے ۔ مثلا اگر آپ کے گھر کا کرایہ دس ہزار ہے تو آپ تین سال کے حساب سے تین لاکھ ، ساٹھ ہزار کرایہ ایک ساتھ وصول کرلیں ۔
ایسی صورت میں آپ کرائے میں تخفیف بھی کرسکتے ہیں ۔ تاکہ کرایہ دار بھی بڑی رقم دینے کے لیے تیار ہوجائے ۔ مثلا کسی گھر کا کرایہ ماہانہ دس ہزار ہے ۔ لیکن مالک مکان کو فوری طور پر بڑی رقم کی ضرورت ہے تو وہ تین سال کا کرایہ بیک وقت لینے کے لیے ساٹھ ہزار کم کرکے تین لاکھ روپیے وصول کرسکتے ہیں۔
اللہ رب العزّت سے دعا ہے کہ اللہ حلال سے ہماری ضرورتوں کو پورا کردے اور حرام سے نفرت ہمارے دلوں میں ڈال دے ۔
 
Top