سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہیوی ڈپازٹ ہندستان بھر میں مکان کے کرائے پر لین دین کا ایک معروف طریقہ ہے ۔ ہیوی ڈپازٹ کا طریقہ یہ ہے کہ مالک مکان کسی مکان کا ڈپازٹ رائج ڈپازٹ کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ لیتا ہے۔ اور اس " ہیوی ڈپازٹ " کے بدلہ میں کرایہ یا تو مکمّل معاف کردیتاہے یا انتہائی کم کردیتاہے ۔
مثلااگر کسی علاقہ میں گھر کا کرایہ پانچ ہزار اور ڈپازٹ پچاس ہزار رائج ہے تو مالک مکان پچاس ہزار کے بجائے تین لاکھ ڈپازٹ لیتا ہے ۔ اور ڈپازٹ واپس کرنے تک یا تو اس کا کرایہ سرے سے لیتا نہیں یا پھر انتہائی کم مثلا تین سو یا پانچ سو روپیہ وصول کرتاہے ۔
ہیوی ڈپازٹ کا شرعی حکم
ہیوی ڈپازٹ سود کی ایک واضح شکل ہے ۔ اس میں کرایہ دار سود لینے والا ہے اور مالک مکان سود دینے والا۔ اس حکم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کچھ ابتدائی باتیں آپ سمجھ لیں ۔
(۱) سود کسے کہتے ہیں؟ : کسی قرض پر شرطیہ حاصل کیا جانے والا نفع سود کہلاتا ہے ۔ جو بلا کسی اختلاف کے حرام ہے ۔ ’’کل قرض شرط فیہ أن یزیدہ فہو حرام بغیر خلاف ‘‘ (المغنی۶/۴۳۶)
(۲) سود کبھی رقم کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی خدمت (service) کی صورت میں: قرض پر شرطیہ حاصل کے جانے والے نفع کو سود کہتے ہیں ۔ یہ نفع خواہ پیسوں کی شکل میں حاصل کیاجائے یا خدمت (service) کی شکل میں سود کہلائے گا۔
مثلا آپ کسی کو پانچ ہزار روپیے قرض دیں اس شرط پر کہ وہ ان پانچ ہزار روپیوں کے بدلہ چھ ہزار روپیے واپس لوٹائے۔ اس صورت میں یہ ایک ہزار روپیے جو آپ نے زائد لیے سود ہیں ۔
اسی طرح آپ کسی کو پانچ ہزارروپیے قرض دیں اور یہ شرط لگا دیں کہ جب تک وہ پانچ ہزار نہ لوٹا دے تب تک بنا کسی معاوضہ کے آپ کے بچّوں کو تعلیم دے ۔ ایسی صورت میں یہ مفت تعلیم وہ نفع ہے جو آپ قرض کے بدلہ شرطیہ حاصل کررہے ہیں ۔ یہ بھی سود ہے ۔
(۳) ڈپازٹ کیاہے ؟ ڈپازٹ اصل میں کرایہ دار کی طرف سے’’ ضمانت ‘‘کی ایک مخصوص رقم ہے ۔ اس رقم کا مقصد سکیوریٹی ہوتا ہے۔جو مالک مکان ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے لیتا ہے ۔ مثلا اگر کسی گھر کا کرایہ دس ہزار ہے ۔ مالک مکان کو خدشہ ہے کہ کرایہ دار دو تین مہینے کا کرایہ ادا کیے بغیر مکان چھوڑ کر جاسکتا ہے ، یا گھر میں کچھ فرنیچر ہو جس کو نقصان پہنچا کر بھاگ جائے گا یا لائٹ بل کچھ مہینے کی ادا کیے بغیر چلا جائے ۔ ان سارے خدشات کو سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک نقصان کا اندیشہ ہے ۔لہذا گھر کرائے پر دیتے وقت مالک مکان کرایہ دار سے ایک لاکھ روپیہ لے کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے ۔ تاکہ کسی نقصان کی صورت میں وہ اپنی رقم اس ڈپازٹ میں سے کاٹ لے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ رقم ممکنہ نقصان سے بچنے کے لے اندیشے کے تحت لے کر رکھی ہے ۔ کرایہ دار نے یہ رقم ضمانت کے طور پر جمع کی ہے تاکہ مالک مکان اس کی طرف سے بے فکر ر ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ رقم ایک طرح کی امانت ہے ۔ یہ استعمال کے لیے نہیں دی گئی ۔
(۴)ڈپازٹ یا قرض؟: یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ ڈپازٹ کی رقم اصلا ضمانت ہوتی ہے ۔ سیکیوریٹی کے مقصد سے لی جاتی ہے ۔ یہ رقم استعمال کے لیے نہیں لی جاتی ۔ لیکن ہیوی ڈپازٹ میں یہ بات دونوں طرف سے طے شدہ اور معہود فی الذہن (understood) ہوتی ہے کہ ڈپازٹ کے نام پر جو رقم لی جارہی ہے استعمال کے لیے لی جارہی ہے ۔اور اس کے استعمال سے ملنے والے فائدے ہی کی وجہ مالک مکان کرایہ معاف کررہا ہے یا اس میں تخفیف کررہا ہے ۔ لہذاگرچہ اس رقم کوڈپازٹ کہاجاتا ہے ۔ لیکن یہ اپنے اصل کے اعتبار سے ڈپازٹ نہیں قرض ہے ۔ اور اسلام کسی بھی چیز کی حقیقت کے اعتبار سے اس پر حکم لگاتاہے نا کہ اس کے مروّج نام کی بنیاد پر۔ لہذا کسی چیز کا نام تبدیل کرنے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی ۔
(۵) ان سارے مقدّمات کے ثابت ہوجانے کے بعد یہ بات آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہیوی ڈپازٹ کی رائج شکل بھی بالکل واضح سودہے ۔ ہیوی ڈپازٹ کے معاملہ میں کرایہ دار سود لینے والا ہے اور مالک مکان سود دینے والا ۔ جس طرح ’’دھنی‘‘ سے لیے جانے والے سود میں سود دینے والا ایک’’ رقم‘‘’’ قرض‘‘ لیتا ہے اسی طرح ہیوی ڈپازٹ کی صورت میں مالک مکان ایک’’ رقم‘‘ کرایہ دار سے ’’ قرض‘‘ لیتا ہے ۔ دھنی سے لیے جانے والے سود میں قرض لینے والا جب تک قرض نہیں لوٹاتاہر مہینے ایک متعین رقم سود کے نام پر دھنی کو دیتاہے ۔ ہیوی ڈپازٹ میں بھی مالک مکان جب تک کرایہ دار کا ڈپازٹ نہیں لوٹاتا ہر مہینے کرائے کی رقم جو اس کو کرایہ دار سے حاصل کرنی تھی وہ نہ لے کر سود چکاتاہے ۔
دو شبہات: دینی معاملات کا علم نہ رکھنے والے بعض لوگ ہیوی ڈپازٹ کے حلال ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہیوی ڈپازٹ کا معاملہ دونوں ( کرایہ دار اور گھر مالک ) کی رضامندی سے طے ہوتا ہے ۔ لہذا ان کی رضامندی کی وجہ سے اس معاملے کو حلال ہونا چاہیے ۔ حالانکہ بینک سے اور دھنی لیے جانے والے سود میں بھی دونوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے ۔ لیکن کسی معاملہ پر فریقین کے رضامند ہوجانے سے بیع جائز نہیں ہوجاتی ۔
بعض حضرات اس کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ اس معاملہ میں دونوں کا فائدہ ہے اس لیے اس کوحلال ہونا چاہے ۔ یہ دلیل بھی انتہائی بودی ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی چیز میں فائدہ ہونا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہوتی ۔ ورنہ بینک اور دھنی سے لیے جانے والے سود میں بھی کئی مرتبہ دونوں کا فائدہ ہوتا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ ہیوی ڈپازٹ کے بہت سارے معاملات مالک مکان ہیوی ڈپازٹ پر روم دے کر ہیوی ڈپازٹ کسی کاروبارمیں لگاتا ہے اور کاروبار فیل ہوجانے کی صورت میں کئی سالوں تک گھر کے کرایہ سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے ۔ اور نقصان اٹھاتا ہے ۔ ہم ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو پانچ دس سال سے روم کا ہیوی ڈپازٹ چکا نہیں پارہے اور ہر مہینے کرائے کے لیے آنے والے روقم کا نقصان برداشت کررہے ہیں ۔
ہیوی ڈپازٹ کا شرعی حکم
تحریر: سرفراز فیضی
ہیوی ڈپازٹ کا سسٹم کیا ہے ؟
ہیوی ڈپازٹ ہندستان بھر میں مکان کے کرائے پر لین دین کا ایک معروف طریقہ ہے ۔ ہیوی ڈپازٹ کا طریقہ یہ ہے کہ مالک مکان کسی مکان کا ڈپازٹ رائج ڈپازٹ کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ لیتا ہے۔ اور اس " ہیوی ڈپازٹ " کے بدلہ میں کرایہ یا تو مکمّل معاف کردیتاہے یا انتہائی کم کردیتاہے ۔
مثلااگر کسی علاقہ میں گھر کا کرایہ پانچ ہزار اور ڈپازٹ پچاس ہزار رائج ہے تو مالک مکان پچاس ہزار کے بجائے تین لاکھ ڈپازٹ لیتا ہے ۔ اور ڈپازٹ واپس کرنے تک یا تو اس کا کرایہ سرے سے لیتا نہیں یا پھر انتہائی کم مثلا تین سو یا پانچ سو روپیہ وصول کرتاہے ۔
ہیوی ڈپازٹ کا شرعی حکم
ہیوی ڈپازٹ سود کی ایک واضح شکل ہے ۔ اس میں کرایہ دار سود لینے والا ہے اور مالک مکان سود دینے والا۔ اس حکم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کچھ ابتدائی باتیں آپ سمجھ لیں ۔
(۱) سود کسے کہتے ہیں؟ : کسی قرض پر شرطیہ حاصل کیا جانے والا نفع سود کہلاتا ہے ۔ جو بلا کسی اختلاف کے حرام ہے ۔ ’’کل قرض شرط فیہ أن یزیدہ فہو حرام بغیر خلاف ‘‘ (المغنی۶/۴۳۶)
(۲) سود کبھی رقم کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی خدمت (service) کی صورت میں: قرض پر شرطیہ حاصل کے جانے والے نفع کو سود کہتے ہیں ۔ یہ نفع خواہ پیسوں کی شکل میں حاصل کیاجائے یا خدمت (service) کی شکل میں سود کہلائے گا۔
مثلا آپ کسی کو پانچ ہزار روپیے قرض دیں اس شرط پر کہ وہ ان پانچ ہزار روپیوں کے بدلہ چھ ہزار روپیے واپس لوٹائے۔ اس صورت میں یہ ایک ہزار روپیے جو آپ نے زائد لیے سود ہیں ۔
اسی طرح آپ کسی کو پانچ ہزارروپیے قرض دیں اور یہ شرط لگا دیں کہ جب تک وہ پانچ ہزار نہ لوٹا دے تب تک بنا کسی معاوضہ کے آپ کے بچّوں کو تعلیم دے ۔ ایسی صورت میں یہ مفت تعلیم وہ نفع ہے جو آپ قرض کے بدلہ شرطیہ حاصل کررہے ہیں ۔ یہ بھی سود ہے ۔
(۳) ڈپازٹ کیاہے ؟ ڈپازٹ اصل میں کرایہ دار کی طرف سے’’ ضمانت ‘‘کی ایک مخصوص رقم ہے ۔ اس رقم کا مقصد سکیوریٹی ہوتا ہے۔جو مالک مکان ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے لیتا ہے ۔ مثلا اگر کسی گھر کا کرایہ دس ہزار ہے ۔ مالک مکان کو خدشہ ہے کہ کرایہ دار دو تین مہینے کا کرایہ ادا کیے بغیر مکان چھوڑ کر جاسکتا ہے ، یا گھر میں کچھ فرنیچر ہو جس کو نقصان پہنچا کر بھاگ جائے گا یا لائٹ بل کچھ مہینے کی ادا کیے بغیر چلا جائے ۔ ان سارے خدشات کو سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک نقصان کا اندیشہ ہے ۔لہذا گھر کرائے پر دیتے وقت مالک مکان کرایہ دار سے ایک لاکھ روپیہ لے کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے ۔ تاکہ کسی نقصان کی صورت میں وہ اپنی رقم اس ڈپازٹ میں سے کاٹ لے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ رقم ممکنہ نقصان سے بچنے کے لے اندیشے کے تحت لے کر رکھی ہے ۔ کرایہ دار نے یہ رقم ضمانت کے طور پر جمع کی ہے تاکہ مالک مکان اس کی طرف سے بے فکر ر ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ رقم ایک طرح کی امانت ہے ۔ یہ استعمال کے لیے نہیں دی گئی ۔
(۴)ڈپازٹ یا قرض؟: یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ ڈپازٹ کی رقم اصلا ضمانت ہوتی ہے ۔ سیکیوریٹی کے مقصد سے لی جاتی ہے ۔ یہ رقم استعمال کے لیے نہیں لی جاتی ۔ لیکن ہیوی ڈپازٹ میں یہ بات دونوں طرف سے طے شدہ اور معہود فی الذہن (understood) ہوتی ہے کہ ڈپازٹ کے نام پر جو رقم لی جارہی ہے استعمال کے لیے لی جارہی ہے ۔اور اس کے استعمال سے ملنے والے فائدے ہی کی وجہ مالک مکان کرایہ معاف کررہا ہے یا اس میں تخفیف کررہا ہے ۔ لہذاگرچہ اس رقم کوڈپازٹ کہاجاتا ہے ۔ لیکن یہ اپنے اصل کے اعتبار سے ڈپازٹ نہیں قرض ہے ۔ اور اسلام کسی بھی چیز کی حقیقت کے اعتبار سے اس پر حکم لگاتاہے نا کہ اس کے مروّج نام کی بنیاد پر۔ لہذا کسی چیز کا نام تبدیل کرنے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی ۔
(۵) ان سارے مقدّمات کے ثابت ہوجانے کے بعد یہ بات آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہیوی ڈپازٹ کی رائج شکل بھی بالکل واضح سودہے ۔ ہیوی ڈپازٹ کے معاملہ میں کرایہ دار سود لینے والا ہے اور مالک مکان سود دینے والا ۔ جس طرح ’’دھنی‘‘ سے لیے جانے والے سود میں سود دینے والا ایک’’ رقم‘‘’’ قرض‘‘ لیتا ہے اسی طرح ہیوی ڈپازٹ کی صورت میں مالک مکان ایک’’ رقم‘‘ کرایہ دار سے ’’ قرض‘‘ لیتا ہے ۔ دھنی سے لیے جانے والے سود میں قرض لینے والا جب تک قرض نہیں لوٹاتاہر مہینے ایک متعین رقم سود کے نام پر دھنی کو دیتاہے ۔ ہیوی ڈپازٹ میں بھی مالک مکان جب تک کرایہ دار کا ڈپازٹ نہیں لوٹاتا ہر مہینے کرائے کی رقم جو اس کو کرایہ دار سے حاصل کرنی تھی وہ نہ لے کر سود چکاتاہے ۔
دو شبہات: دینی معاملات کا علم نہ رکھنے والے بعض لوگ ہیوی ڈپازٹ کے حلال ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہیوی ڈپازٹ کا معاملہ دونوں ( کرایہ دار اور گھر مالک ) کی رضامندی سے طے ہوتا ہے ۔ لہذا ان کی رضامندی کی وجہ سے اس معاملے کو حلال ہونا چاہیے ۔ حالانکہ بینک سے اور دھنی لیے جانے والے سود میں بھی دونوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے ۔ لیکن کسی معاملہ پر فریقین کے رضامند ہوجانے سے بیع جائز نہیں ہوجاتی ۔
بعض حضرات اس کے جواز کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ اس معاملہ میں دونوں کا فائدہ ہے اس لیے اس کوحلال ہونا چاہے ۔ یہ دلیل بھی انتہائی بودی ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی چیز میں فائدہ ہونا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہوتی ۔ ورنہ بینک اور دھنی سے لیے جانے والے سود میں بھی کئی مرتبہ دونوں کا فائدہ ہوتا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ ہیوی ڈپازٹ کے بہت سارے معاملات مالک مکان ہیوی ڈپازٹ پر روم دے کر ہیوی ڈپازٹ کسی کاروبارمیں لگاتا ہے اور کاروبار فیل ہوجانے کی صورت میں کئی سالوں تک گھر کے کرایہ سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے ۔ اور نقصان اٹھاتا ہے ۔ ہم ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو پانچ دس سال سے روم کا ہیوی ڈپازٹ چکا نہیں پارہے اور ہر مہینے کرائے کے لیے آنے والے روقم کا نقصان برداشت کررہے ہیں ۔
Last edited: