جب دعوی پر استدلال کی باری آئی تو دور سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں وہ لفظ نقل کریں، جن سے پتہ چلے کہ کسی نے یزید کے فسق و فجور کی بنا پر اس کی بیعت نہیں کی تھی۔
محترم،
وہ الفاظ خط کشید کر دیتا ہوں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یزید کی بیعت دین کا سودا قرار دیا اور جہاں تک اپ کے مطالبہ کا تعلق ہے کہ یزید کی بیعت فسق وفجور کی وجہ سے نہیں کی گئی تو اس کا حوالہ بھی پیش کر دیتا ہوں
أَخْبَرَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَعَثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ بِمِائَةِ أَلْفٍ. فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُبَايِعَ لِيَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَرَى ذَاكَ أَرَادَ. إِنَّ دِينِي عِنْدِي إِذًا لَرَخِيصٌ.(طبقات ابن سعد 4/ 138 طبقہ الثانیہ من مھاجرین و الانصار ترجمہ 402عبداللہ بن عمر اسنادہ صحیح رجال الشیخین)
معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک لاکھ درھم بھیجا پھر جب یزید کی بیعت کا ان سے کہا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کیا اس ارادہ سے بھیجے تھے پر تو میرا دین بہت سستا ہے۔
معقل بن سنان رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت اس کے فسق وفجور کی بنا پر توڑی تھی
قَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا فَعَلَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ، وَكَانَ لَهُ مُصَافِيًا، فَخَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَأَصَابُوهُ فِي قَصْرِ الْعَرَصَةِ، وَيُقَالُ: فِي جَبَلِ أُحُدٍ، فَقَالُوا لَهُ: الأَمِيرُ يُسْأَلُ عَنْكَ فَارْجِعْ إِلَيْهِ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْكُمْ، إِنَّهُ قَاتِلِي، قَالُوا: كَلا، فَأَقْبَلَ مَعَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: مَرْحبًا بِأَبِي مُحَمَّدٍ، أَظُنُّكَ ظَمْآنَ [1] ، وَأَظُنُّ هَؤُلاءِ أَتْعَبُوكَ، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: شَوِّبُوا لَهُ عَسَلا بِثَلْجٍ، فَفَعَلُوا وَسَقَوْهُ، فَقَالَ: سَقَاكَ اللَّهُ أَيُّهَا الأَمِيرُ مِنْ شَرَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: لا جَرَمَ وَاللَّهِ لا تَشْرَبُ بَعْدَهَا حَتَّى تَشْرَبَ مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، قَالَ: أَلَسْتَ قُلْتَ لِي بِطَبَرِيَّةَ وَأَنْتَ مُنْصَرِفٌ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَقَدْ أَحْسَنَ جَائِزَتَكَ: سِرْنَا شَهْرًا وَخَسِرْنَا ظَهْرًا، نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، عَاهَدْتُ اللَّهَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ لا أَلْقَاكَ فِي حَرْبٍ أَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلا قَتَلْتُكَ، وَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کرنے کو اپنے دین کا سودا کیوں کہا یہ وجہ پھر اپ واضح کر دیں کیوںکہ اگر کسی صحیح آدمی کی بیعت نہ بھی کی جائے اس کو دین کا سودا کیونکہ کہا جائے اور اس کی مثال ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ہی منقول ہےکہ جب ان سے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی مگر کیا اسے دین کا سودا قرار دیا یا یوں کہہ لیں کہ بین ہی وہ الفاظ جو عربی متن میں ہیں کہ "میرا دین تو بہت سستا ہے" تو یزید کی بیعت کو لے کر دین کو سستا کہنے کی وجہ آپ بتا دیں اور جب یزید کی بیعت کی تو یہ بھی فرمایا کہ
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابو بکر ، عمر ، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنھم کی بیعت کی کسی ایک میں بھی یہ کہا کہ اگر اس میں شر ہے تو ہم صبر کریں گے صرف یزید کے بابت ایسا کیوں فرمایا ان کے جواب اپ عنایت کر دیں۔
یہ دھمکانے والی بات کدھر ہے؟
أنَّهُ لَا يُبَايَعُ الْمَفْضُولُ إِلَّا
إِذَا خُشِيَ الْفِتْنَةُ وَلِهَذَا بَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ ثُمَّ ابْنَهُ يَزِيدَ"(فتح الباری تحت رقم 4108 جلد7 ص404)۔
فتنہ کے خوف سے بیعت کر لی وہ فتنہ کیا تھا یہ اپ بتا دیں اور خوف کس وجہ سے تھا اگر اس پر بھی اپ کی تسلی نہیں ہوتی تو پھر انشاء اللہ اگلی بار ابن کثیر سے نقل کر دوں گا
آخر میں جن کو یزید کا فسق وفجور نظر نہیں آتا ان کے لئے یہ روایت پیش ہے پڑھ لیں اس میں ظلم کس حد تک بڑھ گیا تھا کہ لوگ یزید کے پاس اس کے کسی فیصلے کو غلط کہنے کی ہمت نہ رکھتے تھے اور اس کے منہ پر اس کی تعریف کرتے اور پیچھے اس کو لعنت کرتے تھے یہ خیرالقرون کا دور ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أُنَاسٌ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى سُلْطَانِنَا، فَنَقُولُ لَهُمْ خِلاَفَ مَا نَتَكَلَّمُ إِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمْ، قَالَ: «كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا(صحیح بخاری رقم 7178)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ: دَخَلَ نَفَرٌ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَوَقَعُوا فِي يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَتَنَاوَلُوهُ فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُكُمْ لَهُمْ عِنْدِي أَتَقُولُونَ هَذَا فِي وُجُوهِهِمْ؟ قَالُوا: لَا بَلْ نَمْدَحُهُمْ وَنُثْنِي عَلَيْهِمْ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: هَذَا النِّفَاقُ عِنْدَنَا (صفۃ النفاق وذم المنافقین للفریابی رقم 62)