• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزیدؒ بن معاویہ ؓ سے متعلق اہلحدیث کا متفّقہ مؤقف؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
معزرت کے ساتھ عرض ہے کہ بیعت نہ کرنا فسق وفجور کی علامت نہیں ہے جیسا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بھی بیعت نہیں کی تھی
یہی بات آپ پہلے ذہن میں رکھتے تو شاید اوپر والے الفاظ نہ لکھتے، جن پر مجھے اعتراض تھا۔
مگر بیعت کرنے کو دین کا سودا قرار دینا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بیعت صحیح نہیں تھی وگرنہ اس کو دین کا سودا قرار نہ دیا جاتا
جب دعوی پر استدلال کی باری آئی تو دور سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں وہ لفظ نقل کریں، جن سے پتہ چلے کہ کسی نے یزید کے فسق و فجور کی بنا پر اس کی بیعت نہیں کی تھی۔
اور جس بات کو آپ دین کا سودا کہہ رہے ہیں، اور اس سے جو مراد لے رہے ہیں، عربی عبارت میں وہ بھی سرے سے موجود نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ابن حزم وغیرہ نے یہ نقل کیا کہ حسین رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ یزید کی بیعت گمراہی کی بیعت ہے۔ تو پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بعد میں بیعت کیوں کر لی اس کی وجہ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہی بیان کی ہے کہ ان کو دھمکایا جاتا تھا
أنَّهُ لَا يُبَايَعُ الْمَفْضُولُ إِلَّا إِذَا خُشِيَ الْفِتْنَةُ وَلِهَذَا بَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ ثُمَّ ابْنَهُ يَزِيدَ"(فتح الباری تحت رقم 4108 جلد7 ص404)۔
یہ دھمکانے والی بات کدھر ہے؟
میں ایک دفعہ پھر عرض کروں گا کہ ’ زیب داستان‘ سے گریز کرنا چاہیے۔ خیر القرون کے ان معاملات کو بگاڑ کر پیش کرنے کا ثواب کہیں بھی مرقوم نہیں۔ اور یہ عرض طرفین کو ہی ہے۔ کسی ایک کو نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اگر بیعت کرنا ثابت ہو جائے تو کسی میں موجود فسق و فجور کے دعو ی سے دستبرداری اختیار کر لی جائے گی؟
اس بات کا آپ نے جواب نہیں دیا۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
خلافت ِ یزید ؒ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق و اجماع تھا سوائے حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے، اور یہ ایک نا قابلِ انکار حقیقت ہے لیکن فسقِ یزید ؒ پر محض مبصرین کے دعوے کے ،کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
جب دعوی پر استدلال کی باری آئی تو دور سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں وہ لفظ نقل کریں، جن سے پتہ چلے کہ کسی نے یزید کے فسق و فجور کی بنا پر اس کی بیعت نہیں کی تھی۔
محترم،
وہ الفاظ خط کشید کر دیتا ہوں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یزید کی بیعت دین کا سودا قرار دیا اور جہاں تک اپ کے مطالبہ کا تعلق ہے کہ یزید کی بیعت فسق وفجور کی وجہ سے نہیں کی گئی تو اس کا حوالہ بھی پیش کر دیتا ہوں

أَخْبَرَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَعَثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ بِمِائَةِ أَلْفٍ. فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُبَايِعَ لِيَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَرَى ذَاكَ أَرَادَ. إِنَّ دِينِي عِنْدِي إِذًا لَرَخِيصٌ.(طبقات ابن سعد 4/ 138 طبقہ الثانیہ من مھاجرین و الانصار ترجمہ 402عبداللہ بن عمر اسنادہ صحیح رجال الشیخین)
معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک لاکھ درھم بھیجا پھر جب یزید کی بیعت کا ان سے کہا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کیا اس ارادہ سے بھیجے تھے پر تو میرا دین بہت سستا ہے۔

معقل بن سنان رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت اس کے فسق وفجور کی بنا پر توڑی تھی

قَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ
عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا فَعَلَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ، وَكَانَ لَهُ مُصَافِيًا، فَخَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَأَصَابُوهُ فِي قَصْرِ الْعَرَصَةِ، وَيُقَالُ: فِي جَبَلِ أُحُدٍ، فَقَالُوا لَهُ: الأَمِيرُ يُسْأَلُ عَنْكَ فَارْجِعْ إِلَيْهِ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْكُمْ، إِنَّهُ قَاتِلِي، قَالُوا: كَلا، فَأَقْبَلَ مَعَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: مَرْحبًا بِأَبِي مُحَمَّدٍ، أَظُنُّكَ ظَمْآنَ [1] ، وَأَظُنُّ هَؤُلاءِ أَتْعَبُوكَ، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: شَوِّبُوا لَهُ عَسَلا بِثَلْجٍ، فَفَعَلُوا وَسَقَوْهُ، فَقَالَ: سَقَاكَ اللَّهُ أَيُّهَا الأَمِيرُ مِنْ شَرَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: لا جَرَمَ وَاللَّهِ لا تَشْرَبُ بَعْدَهَا حَتَّى تَشْرَبَ مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، قَالَ: أَلَسْتَ قُلْتَ لِي بِطَبَرِيَّةَ وَأَنْتَ مُنْصَرِفٌ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَقَدْ أَحْسَنَ جَائِزَتَكَ: سِرْنَا شَهْرًا وَخَسِرْنَا ظَهْرًا، نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، عَاهَدْتُ اللَّهَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ لا أَلْقَاكَ فِي حَرْبٍ أَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلا قَتَلْتُكَ، وَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ


ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کرنے کو اپنے دین کا سودا کیوں کہا یہ وجہ پھر اپ واضح کر دیں کیوںکہ اگر کسی صحیح آدمی کی بیعت نہ بھی کی جائے اس کو دین کا سودا کیونکہ کہا جائے اور اس کی مثال ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ہی منقول ہےکہ جب ان سے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی مگر کیا اسے دین کا سودا قرار دیا یا یوں کہہ لیں کہ بین ہی وہ الفاظ جو عربی متن میں ہیں کہ "میرا دین تو بہت سستا ہے" تو یزید کی بیعت کو لے کر دین کو سستا کہنے کی وجہ آپ بتا دیں اور جب یزید کی بیعت کی تو یہ بھی فرمایا کہ

beat per razi.png



ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابو بکر ، عمر ، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنھم کی بیعت کی کسی ایک میں بھی یہ کہا کہ اگر اس میں شر ہے تو ہم صبر کریں گے صرف یزید کے بابت ایسا کیوں فرمایا ان کے جواب اپ عنایت کر دیں۔

یہ دھمکانے والی بات کدھر ہے؟
أنَّهُ لَا يُبَايَعُ الْمَفْضُولُ إِلَّا إِذَا خُشِيَ الْفِتْنَةُ وَلِهَذَا بَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ ثُمَّ ابْنَهُ يَزِيدَ"(فتح الباری تحت رقم 4108 جلد7 ص404)۔


فتنہ کے خوف سے بیعت کر لی وہ فتنہ کیا تھا یہ اپ بتا دیں اور خوف کس وجہ سے تھا اگر اس پر بھی اپ کی تسلی نہیں ہوتی تو پھر انشاء اللہ اگلی بار ابن کثیر سے نقل کر دوں گا



آخر میں جن کو یزید کا فسق وفجور نظر نہیں آتا ان کے لئے یہ روایت پیش ہے پڑھ لیں اس میں ظلم کس حد تک بڑھ گیا تھا کہ لوگ یزید کے پاس اس کے کسی فیصلے کو غلط کہنے کی ہمت نہ رکھتے تھے اور اس کے منہ پر اس کی تعریف کرتے اور پیچھے اس کو لعنت کرتے تھے یہ خیرالقرون کا دور ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أُنَاسٌ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى سُلْطَانِنَا، فَنَقُولُ لَهُمْ خِلاَفَ مَا نَتَكَلَّمُ إِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمْ، قَالَ: «كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا(صحیح بخاری رقم 7178)


حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ: دَخَلَ نَفَرٌ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَوَقَعُوا فِي يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَتَنَاوَلُوهُ فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُكُمْ لَهُمْ عِنْدِي أَتَقُولُونَ هَذَا فِي وُجُوهِهِمْ؟ قَالُوا: لَا بَلْ نَمْدَحُهُمْ وَنُثْنِي عَلَيْهِمْ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: هَذَا النِّفَاقُ عِنْدَنَا (صفۃ النفاق وذم المنافقین للفریابی رقم 62)


 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اس بات کا آپ نے جواب نہیں دیا۔
محترم،
اس کا جواب بھی انہیں میں موجود ہے میں نے عرض کیا تھا کہ فتنہ کے خوف سے ابن عمررضی اللہ عنہ نے بیعت کی تھی خوف سے بیعت کرنے سے دستبرادری ہو جاتی ہے کیا؟ باقی میری پوسٹس منظر عام پر پیش کریں اور ان میں جو میرے سوالات ہیں ان کے جوابات عنایت کریں
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
اس کی یہی وجہ قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ لشکرِ یزید ؒ نے قاتلوں کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا تھا اس لیے کوئی مطالبۂ قصاص نہیں اُٹھا۔ ویسے ہر کوئی اس سانحے کے متعلق یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ بہت بُرا ہوا ، لیکن کیا کبھی اس بات پر بھی غور و فکر کیا ہے کہ اگر حضرت حسینؓ کوفہ چلے جاتے تو کیا ہوتا ؟ میرا خیال ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو اس کے سامنے جنگِ جمل و صفین کی رو داد لوگ بھول جاتے ۔
اس خاص معاملے میں ہمارے علماء کی اکثریت عقل کو بالائے طاق رکھ کرمحض جذبات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے دنوں ہر سال کی طرح ذو الحجہ گزر گیا لیکن مجال ہے جو کوئی مخالف صحابہؓ و معاویہؓ و ِ یزید ؒ ،عمرِ فاروق ؓ و ذوالنورینؓ کے لیے اتنا رویا اور تڑپا ہو جن کا معاملہ سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً دینی و اسلامی تھا۔
اس معاملے میں لوگ جتنے سوالات خلافتِ یزید ؒ کے متعلق اُٹھا تے ہیں اس سے زیادہ سوالات تو حضرت حسینؓ کے اقدام کےمتعلق اُٹھتے ہیں۔چونکہ کچھ لوگوں کی رگوں میں خون ِرَفض جوش مارتا ہے اس لیے منہ مجبوراًبند رکھنا پڑتا ہے۔
محترم
سیدھا سیدھا کہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام غلط تھا اور انہوں نے یزید کی بیعت نہ کر کے بغاوت کی تھی۔اور یزید کا اقدام صحیح تھا۔ جو عقیدہ ہے وہ کھل کر بیان کریں آپ تو شیعہ نہیں پھر تقیہ کیوں کر رہے ہیں۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
خلافت ِ یزید ؒ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق و اجماع تھا سوائے حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے، اور یہ ایک نا قابلِ انکار حقیقت ہے لیکن فسقِ یزید ؒ پر محض مبصرین کے دعوے کے ،کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
محترم
انہتائی معذرت کے ساتھ
یہ بھی بتادیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ جنت کی عورتوں کی سرادر ہیں اور ان کے بیٹے نوجوانوں کے سردار ہیں یا یہ احادیث بھی ضعیف ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بھی بیٹیاں تھیں کسی اور کو یہ اعزاز نہیں ملا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد واضح کوئی فضیلت نہیں تھی صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتی محبت اور قرابت کی وجہ سے یہ کہا ہے؟
اور جہاں آپ بار بار بات کرتے ہیں کہ یزید پر تمام مسلمانوں کا اتفاق و اجماع تھا تو یہ تو کوئی بھی حکمران بن جائے کیسا بھی ہو عوام کی انتہائی قلیل تعداد اس پر اعتراض کرتی ہے اکثریت خاموش ہی رہتی ہے ۔ اپنے ملک پاکستان کی مثال لے لیں یہاں کیسے بھی حکمران آجائیں لوگ قبول کرلیں گے۔جس کے پاس طاقت ہوتی ہے سکہ اسی کا چلتا ہے یہ ہر دور کا دستور رہا ہے۔
قران کو مخلوق نہ کہنے والے امام حنبل رحمتہ اللہ علیہ اور ان جیسے قلیل لوگ ہی تھے ، وہ بھی تو عالم تھے جنہوں نے اس دعوی کو قبول کیا۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
میرے خیال میں صاحب تحریر نے جو بات ثابت کرنا چاہی ہے، اس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔
فریق ثانی کو چاہیے کہ وہ بھی اس زمانے میں موجود اہل حدیث علما کے اقوال نقل کردیں، جو یزید کے متعلق اوپر بیان کردہ موقف سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ یزید کے متعلق اہل حدیث میں کوئی ایک متفقہ موقف نہیں ہے۔ کچھ لوگ یزید کو ہر برے طعنے کا مستحق سمجھتے ہیں۔
دوسرا موقف یزید کا دفاع کرنے والوں کا ہے، جو یزید پر اٹھنے والے ہر ہر اعتراض کا جواب دیتے ہیں، اور یزید کے دفاع کو صحابہ کا دفاع سمجھتے ہیں، بلکہ اس دفاع میں وہ ’ تحقیقی نکات‘ بھی لاتے ہیں جن کی’ضرورت‘ بھی نہیں۔ بقول شاعر
اس مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ سجدے بھی کیے جو واجب بھی نہ تھے
تیسری قسم کا رویہ یہ ہے کہ وہ فریقین میں موجود تشدد اور غلو کو ناپسند کرتے ہیں۔ اور ان معاملات میں زیادہ تحقیق اور محاذ آرائی میں نہیں پڑھتے۔
میری نظر میں تحقیقی اعتبار سے مضبوط رویہ دوسرا ہے، جبکہ مبنی بر اعتدال رویہ تیسرا ہے، جبکہ پہلا رویہ کافی کمزور اور کسی حد تک دلائل سے عاری بھی ہے، اور جذباتی گفتگو ان کا رأس المال ہے۔
یہ دوسرے اور تیسرے میں فرق اس لیے کیا ہے، کیونکہ بعض لوگ تحقیق اور دفاع میں لگے رہنے کی وجہ سے بعض دفعہ حد اعتدال سے باہر جاتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ تیسرے رویے کے حامل لوگ بعض دفعہ تحقیق کا جواب تحقیق سے دینے کی بجائے صرف اعتدال کی نصیحت کردینا کافی سمجھتے ہیں۔ اگر اس معاملے میں اہل تحقیق میں اعتدال اور اہل اعتدال میں تحقیق آجائے، تو مجھے یہ کہنے میں باک نہ ہوگی کہ اہل حدیث میں یزید کے حوالے سے صرف دو رویے ہیں، ایک عالمانہ وتحقیقی ، دوسرا جاہلانہ و جذباتی۔
محترم خضر حیات صاحب
السلام علیکم
آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ مکتب اہل حدیث حضرت حسین کے دفاع میں بھی کوئی عالمانہ و تحقیقی کتب لکھی ہیں یا وہ سب اس کے قائل ہیں کے حسین کا اقدام غلط تھا۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم
سیدھا سیدھا کہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام غلط تھا اور انہوں نے یزید کی بیعت نہ کر کے بغاوت کی تھی۔اور یزید کا اقدام صحیح تھا۔ جو عقیدہ ہے وہ کھل کر بیان کریں آپ تو شیعہ نہیں پھر تقیہ کیوں کر رہے ہیں۔
م
محترم
انہتائی معذرت کے ساتھ
یہ بھی بتادیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ جنت کی عورتوں کی سرادر ہیں اور ان کے بیٹے نوجوانوں کے سردار ہیں یا یہ احادیث بھی ضعیف ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بھی بیٹیاں تھیں کسی اور کو یہ اعزاز نہیں ملا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد واضح کوئی فضیلت نہیں تھی صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتی محبت اور قرابت کی وجہ سے یہ کہا ہے؟
اور جہاں آپ بار بار بات کرتے ہیں کہ یزید پر تمام مسلمانوں کا اتفاق و اجماع تھا تو یہ تو کوئی بھی حکمران بن جائے کیسا بھی ہو عوام کی انتہائی قلیل تعداد اس پر اعتراض کرتی ہے اکثریت خاموش ہی رہتی ہے ۔ اپنے ملک پاکستان کی مثال لے لیں یہاں کیسے بھی حکمران آجائیں لوگ قبول کرلیں گے۔جس کے پاس طاقت ہوتی ہے سکہ اسی کا چلتا ہے یہ ہر دور کا دستور رہا ہے۔
قران کو مخلوق نہ کہنے والے امام حنبل رحمتہ اللہ علیہ اور ان جیسے قلیل لوگ ہی تھے ، وہ بھی تو عالم تھے جنہوں نے اس دعوی کو قبول کیا۔
خلافت ِ یزید ؒ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق و اجماع تھا سوائے حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے، اور یہ ایک نا قابلِ انکار حقیقت ہے لیکن فسقِ یزید ؒ پر محض مبصرین کے دعوے کے ،کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
محترم اس بات کی بھی وضاحت کر دیجیے گا کہ جن دونوں اصحاب رسول کا آپ نے ذکر کیا ہے ۔ کیا ان کے کسی اقدام پر اعتراض کرنا صحیح ہوگا۔ کیا یہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ کے تحت نہیں آتا۔ ؟
 
Top