یزید ملعون آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ کی نظر میں
وقد ذكر ابن الأثير في كامله رسالة ابن عباس ليزيد بعد مقتل الحسين , وطلب يزيد لمودته وقربه بعد امتناع ابن عباس عن بيعة ابن الزبير: ((أما بعد فقد جائني كتابك فأما تركي بيعة ابن الزبير فوالله ما أرجو بذلك برك ولا حمدك ولكن الله بالذي أنوي عليم وزعمت أنك لست بناس بري فأحبس أيّها الإنسان برك عني فإني حابس عنك بري وسألت أن أحبب الناس إليك وأبغضهم وأخذلهم لابن الزبير فلا ولا سرور ولا كرامة كيف وقد قتلت حسيناً وفتيان عبد المطلب مصابيح الهدى ونجوم الاعلام غادرتهم خيولك بأمرك في صعيد واحد مرحلين بالدماء مسلوبين بالعراء مقتولين بالظماء لا مكفنين ولا مسودين تسفي عليهم الرياح وينشي بهم عرج البطاح حتى أتاح الله بقوم لم يشركوا في دمائهم كفنوهم وأجنوهم وبي وبهم لو عززت وجلست مجلسك الذي جلست فما أنسى من الأشياء فلست بناس اطرادك حسيناً من حرم رسول الله إلى حرم الله وتسييرك الخيول إليه فما زلت بذلك حتى أشخصته إلى العراق فخرج خائفاً يترقب فنزلت به خيلك عداوة منك لله ولرسوله ولأهل بيته الذين أذهب الله عنهم الرجس وطهرهم تطهيراً فطلبت إليكم الموادعة وسألكم الرجعة فاغتنمتم قلة أنصاره واستئصال أهل بيته وتعاونتم عليه كأنكم قتلتم أهل بيت من الترك والكفر, فلا شيء أعجب عندي من طلبتك ودي وقد قتلت ولد أبي وسيفك يقطر من دمي وأنت أحد ثاري ولا يعجبك إن ظفرت بنا اليوم فلنظفرن بك يوماً والسلام)) انتهى. (الكامل في التاريخ : 3 / 466 و467)
اس میں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ کس طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے صراحتاً یزید کو قاتلِ امام حسین رضی اللہ عنہ کہا ہے اورخط کا لب ولہجہ کس طرح طیش وغضب کا ہے اورہرہرلفظ سے یزید سے بیزاری ٹپک رہی ہے۔
قال ابن حجر المكي في (الصواعق المحرقة ص134): ثم قلد أبي الأمر وكان غير أهل له, ونازع ابن بنت رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فقصف عمره وانبتر عقبه وصار في قبره رهيناً بذنوبه, ثم بكى وقال: إن من أعظم الأمور علينا علمنا بسوء مصرعه وبئس منقلبه, وقد قتل عترة رسول الله (صلى الله عليه وسلم), وأباح الخمر, وخرب الكعبة...).
جولوگ حضرت محمد بن حنیفہ کے قول سے استشہاد کرکے یزید کو معصوم قراردیتے ہیں وہ حضرات یزید کے اپنے بیٹے کے اس قول کو کس کھاتے میں رکھتے ہیں ۔ یہ سمجھنے سے میں آج تک قاصر ہوں ۔ اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کہ یزید کے بیٹے نے صراحتا اپنے والد کے بارے میں اقرار کیا ہے کہ اس نے رسول پاک کی اولاد کو قتل کیا ، شراب کو جائز کیا (بمعنی شراب پیتاتھا) اورخانہ کعبہ کی حرمت وعظمت کو پامال کیا ۔ اگرایساشخص فاسق نہ ہوتو پھر فسق کیلئے اورکیاچیز لازمی ہوتی ہے ۔ ہم دلدادگان یزید سے اتناتوپوچھ ہی سکتے ہیں کہ جو بات وہ ابن حنفیہ کے تعلق سے دوسروں پر الزام دیتے ہیں وہ خود یزید کے بیٹے کے اس قول کی روشنی میں اپنے طرز عمل کا جائزہ کیوں نہیں لیتے ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے اپنے بے مثل عدل وانصاف سے دوبارہ دورفاروقی لوگوں کو یاددلادیا ۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جوخود اموی ہیں اوریہ سارے واقعات تقریبا ان کی نگاہوں یا بچپن کے ہوں گے اورزمانہ ان کا یزید اورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اورواقعہ حرہ وغیرہ سے بالکل قریب ہے ۔ ان کی مجلس میں کسی نے یزید کو امیر المومنین کہا انہوں نے یزید کوامیر المومنین کہنے والے کو 20کوڑے لگوائے ۔
وَرَوَى: مُحَمَّدُ بنُ أَبِي السَّرِيِّ العَسْقَلاَنِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ عَبْدِ المَلِكِ بنِ أَبِي غَنِيَّةَ، عَنْ نَوْفَلِ بنِ أَبِي الفُرَاتِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بنِ عَبْدِ العَزِيْزِ، فَقَالَ رَجُلٌ: قَالَ أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ يَزِيْدُ. فَأَمَرَ بِهِ، فَضُرِبَ عِشْرِيْنَ سَوْطاً. (سیراعلام النبلاء4/41،چشتی)
اگریزید صالح اورنیک شخص تھا اور اتنا نیک تھا کہ اسے رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے تو پھرمذکورہ شخص کو کوڑے لگوانے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ صحیح تھے یاغلط ۔ اگر غلط تھے توکسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ وہ کہتا کہ یزید تو بڑانیک اور پاک شخص ہے ۔ اس کو امیر المومنین کہنے والے کو کوڑے لگواکر آپ نے بڑاظلم کی اہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نام نامی سے ہرایک واقف ہیں ۔ تاریخ دعوت وعزیمت کے وہ سالار قافلہ ہیں ۔ انہوں نے خلق قرآن کے فتنہ میں جو بے نظیر استقامت دکھائی وہ انہی کا حصہ تھی ۔ دیکھئے ۔ وہ یزید کے بارے مین صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے کیا وہ یزید سے محبت کرسکتاہے ؟
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے صالح بن احمد روایت کرتے ہیں : میں نے اپنے والد سے کہا: کچھ لوگوں کا مذہب ہے کہ وہ یزید سے محبت رکھیں گے۔ والد صاحب (امام احمد رحمۃ اللہ علیہ) نے جواب دیا : بیٹے! کیا کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یزید سے محبت کا روادار ہو سکتا ہے ؟ میں نے عرض کی : ابا جان! تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ والد صاحب (امام احمد) نے جواب دیا: بیٹے! تو نے اپنے باپ کو کسی کو بھی لعنت کرتے ہوئے کب دیکھا ہے ؟ ۔ (مجموع فتاویٰ امام ابن تیمیہ جلد 4)
حضرت امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول یزید پر لعنت کا بھی ہے جس کی تصریح حافظ ابن جوزی نے الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید میں کی ہے ۔
حافظ ابن حزم ظاہری کی کتاب ہے مراتب الاجماع ۔ اس میں وہ یزید کے ذکر میں لکھتے ہیں : وہتک(ای یزید)الاسلام ہتکا وانتہب المدینۃ ثلاثاًواستخف باصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومدت الیھم الایدی وانتہبت دورھم وحوصرت مکۃ ورمی البیت بحجارۃ المنجنیق واخذ اللہ یزید فمات بعد الحرۃ باقل من ثلاثۃ اشہر وازید من شہرین (بحوالہ الروض الباسم ص37)
یزید نے اسلام کی حرمت کو ختم کیا اورمدینہ کو تین دن لوٹا اورصحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استخفاف کا معاملہ کیا ۔ اوران کی جانب اپنادست (ظلم)دراز کیا اوران کے گھروں کو لوٹا ۔ اورمکہ کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ پر سنگباری کی ۔ اللہ نے یزید کو (اس کے ظلم کی وجہ سے ) پکڑا ۔یزید واقعہ حرہ کے بعد دوتین مہینہ سے زائد اورتین مہینہ سے کم زندہ رہا ۔
اب ابن حزم کے اس بات پر ہم کیا تبصرہ کریں ۔ مشتاقان و دلدادگان یزید ہی اس پر کچھ غورکریں اور سوچیں کہ ان کارخ کس جانب ہے ۔
ترسم کہ نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تومیروی ترکستان است
مشہور شافعی فقیہہ علی بن محمد بن علی طبری ، رحمۃ اللہ علیہ 405 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا ۔ آپ سے یزید کے تعلق سے پوچھا گیا تو آپ نے جو جواب دیاہے اس میں ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کا قول بھی ذکر کر دیا ہے ۔ جس سے اس استفتاء کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے : سئل الکیاہراسی ایضاعن یزید بن معاویہ فقال: انہ لم یکن من الصحابۃ لانہ ولد فی ایام عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ واماقول السلف ففیہ لاحمد قولان تلویح وتصریح،ولمالک قولان تلویح وتصریح ولابی حنیفۃ قولان تلویح وتصریح ولناقول واحد التصریح دون التلویح،وکیف لایکون کذلک وھواللاعب بالنرد،والمتصید بالفہود،ومدمن الخمر وشعرہ فی الخمر معلوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکتب فصلاًطویلا،ثم قلب الورقۃ وکتب:لومددت ببیاض لمددت العنان فی مخازی ھذاالرجل وکتب فلان بن فلاں ۔ (وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان 3/288،چشتی)
آپ سے یزید بن معاویہ کے تعلق سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا ۔ وہ صحابہ میں سے نہیں تھا ۔ اس کی پیدائش حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دو رمیں ہوئی اورجہاں تک اس کے بارے میں سلف کے قول کی بات ہے تو اس بارے میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دوقول منقول ہے ایک میں صراحت ہے (یزید پر لعنت کی) دوسرے میں اشارہ ہے ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی دوقول ہے ایک میں صراحت ہے دوسرے میں اشارہ ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی دوقول ہے ایک میں صراحت ہے اوردوسرے میں اشارہ ہے اورہمارااس بارے مین صرف ایک قول ہے اور وہ صراحت و وضاحت ہے اور ایسا کیوں نہ ہو ۔ وہ شطرنج کھیلتا تھا ۔ چیتے سے شکار کرتاتھا ۔ شراب میں ڈوبا رہتا تھاا ورشراب کے بارے میں اس کے اشعار مشہور ہیں ۔۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یزید پر لعنت کرنے کو جائز قراردیا ہے اس کی تصریح ابن تیمیہ نے اپنے فتویٰ میں کی ہے ۔ اس کاذکر آگے آئے گا ۔
مشہور حنبلی فقیہہ محمد بن حسین الفراء رحمۃ اللہ علیہ جو قاضی ابویعلی کے نام سے مشہور ہیں وہ اپنی کتاب المعتمد فی الاصول میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے یزید پر لعنت کی تصریح نقل کرتے ہیں ۔علاوہ ازیں حافظ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کے مطابق ان کا ایک چھوٹا سارسالہ ہے جس میں انہوں نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو لعنت کے مستحق ہیں اس باب میں انہوں نے یزید کا بھی ذکر کیا ہے اور اس تعلق وہ لکھتے ہیں : الممتنع من ذلک اماان یکون غیرعالم بجواز ذلک اومنافقا یرید ان یوھم بذلک وربما استفزالجہال بقولہ المومن لایکون لعانا قال وھذا محمول علی من لایستحق اللعن ۔ (بحوالہ الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید ص41)
یزید پر لعنت کرنے والے منع کرنے والا یا تویزید پر لعنت کے جواز سے نا واقف ہوگا یا پھر وہ منافق ہوگا اوراس طرح سے لوگوں کو وہم میں مبتلا کرنا چاہتا ہوگا ۔ بعض جاہلین ارشاد رسول پاک سے دلیل پکڑتے ہیں کہ مومن لعن طعن کرنے والا نہیں ہوتا تواس پر محمول ہے کہ جو کہ لعنت کا مستحق نہ ہو(اورپھراس پر لعنت کی جائے)
مشہور حنبلی فقیہہ اورمحدث ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کانام ہے ۔ الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد ، محض کتاب کے نام سے ہی اس کتاب کا موضوع سمجھ میں آجاتا ہے ۔ یعنی جولوگ یزید کی مذمت سے روکتے ہیں اورمنع کرتے ہین وہ سرکش متعصب ہیں ۔ اس چھوٹے سے رسالہ اورکتابچہ میں حافظ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر طور پر یزید کے حالات بیان کئے ہیں ۔ علماء حنابلہ کا یزید کے تعلق سے یہ موقف بیان کیا ہے کہ وہ یزید پر لعنت کے قائل ہیں ۔ اوراس میں انہوں نے امام احمد بن حنبل ، ابوبکر خلال ، عبدالعزیز ، قاضی ابویعلی اوردیگر فقہاء حنابلہ علیہم الرّحمہ کے نام دیئے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے جوروایت یزید کے بارے میں سکوت کی ہے اس کو انہوں نے اس پر محمول کیا ہے کہ کسی پر لعنت کرنے سے بہتر ہے کہ آدمی کوئی نیک کام کرے تسبیح پڑھے ۔ اس کایہ مطلب نہیں ہوتا کہ مذکورہ شخص پر لعنت کرنادرست نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ حافظ ابن جوزی کی اک کتاب اوربھی ہے جس کانام ہے۔السرالمصون ۔ اس میں وہ لکھتے ہیں : من الاعتقادات العامۃ التی غلبت علی جماعۃ منتسبین الی السنۃ ان یقولوا:ان یزید کان علی صواب وان الحسین اخطافی الخروج علیہ ولونظروا فی السیر لعلموا کیف عقدت لہ البیعۃ والزم الناس بہاولقد فعل فی ذلک کل قبیح ثم لوقدرنا صحۃ عقد البیعۃ فقد بدت منہ مواد کلہا توجب فسخ العقد ولایمیل الی ذلک الاکل جاہل عامی المذہب یظن انہ یغیظ بذلک الرافضۃ(بحوالہ روح المعانی 26/73،چشتی)
ترجمہ : نام نہاد اہل سنت کے عام اعتقاد میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یزید درست تھا اورحسین نے ان پر خروج کرنے میں غلطی کی ۔ اگران کی نگاہ کتب سیر پر ہوتی تو وہ جان لیتے کہ کس طرح بیعت لی گئی اورلوگوں پر اس کو لازم کیا گیا اوراس سلسلے میں اس نے (یزید) ہربرائی کا ارتکاب کیا ۔ پھر اگرہم مان لیں کہ عقد بیعت صحیح تھی باوجود اس کے اس کے بعد (یزید کے خلیفہ بننے کے) اس سے ایسے امور صادر ہوئے جن میں سے ہرایک کا تقاضہ یہ تھا کہ بیعت فسخ کردی جائے ۔ اورمذکورہ عقائد (یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ غلط اوریزید درست تھا) کی جانب وہی مائل ہوسکت اہے جو عامی ہو (علم دین سے ناواقف ہو) جاہل ہو اوراپنے طورپر یہ گمان کرتاہے کہ اس سے رافضہ کو غصہ دلائیں گے ۔
حافظ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات بڑی قابل غور ہے ۔ انہوں نے ایک لفظ استعمال کیا ہے ۔ منتسبین الی السنۃ ، جس کا ترجمہ ہم آج کل نام نہاد اہل حدیث کرسکتے ہیں اوران کے بھی وہی عقائد ہیں جو حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دور کے عامیوں اورجاہلوں کے بیان کیئے ہے ۔ پھر ان کی جہالت پر روشنی ڈالی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے روافض کو غصہ دلائیں ۔ یہی ذہنیت اورطرز فکر آجکل کے نام نہاد اہل حدیث کی بھی ہے ۔ اگرکوئی ان کی غلط روش پر ان کو ٹوکتا ہے اوریزید کے تعلق سے تاریخ کی صحیح معلومات پیش کرتا ہے تواس کو روافض کی ہنموائی کا طعنہ دینے لگتے ہیں ۔ بہرحال بڑی مشابہت ہے ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے دور کے منتسبین الی السنۃ اور آج کل کے نام نہاد اہل حدیث کے درمیان ۔
علامہ ابوشامہ رحمۃ اللہ علیہ کا فقہ شافعی میں جو علومقام ہے وہ محتاج تعارف نہیں ہے ۔ وہ یزید پر حافظ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک رائے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : قد اجاز احمد بن حنبل لعنتہ ونحن نقول مانحبہ لمافعل بابن بنت نبینا(الذیل علی الروضتین23)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے یزید پر لعنت کو جائزقراردیاہے اورہم کہتے ہیں یزید نے جوکچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد ہم یزید کے ساتھ محبت کے روادار نہیں ہوسکتے ۔
ایک مشہور مفسر اورمحدث گزرے ہیں علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ یہ مالکی ہیں اوران کی تفسیر احکام القرآن بہت مشہور اوررائج ہے ۔ ان کی ایک کتاب احوال موتی اورقبر میں پیش آنے والے حالات اوربعد مین حشر کے واقعات اورجنت وجہنم کے تذکرہ پر مشتمل ہے جس کا نام التذکرہ ہے اس میں وہ یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد کہ اس امت کی ہلاکت قریش کے چند نوجوانوں کے ہاتھوں ہوگی وہ اپنا خیال اوراپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اوریہ لوگ اللہ بہتر جانتا ہے یزید عبیداللہ بن زیاد اوران جیسے بنوامیہ کے نوجوان تھے ۔ جنہوں نے اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا ۔ اورنیک مہاجرین وانصار کو مکہ اورمدینہ اوردوسرے مقامات پر قتل کیا ۔ (التذکرۃ للقرطبی2/643)
علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ اپنے شہرہ آفاق مقدمہ میں لکھتے ہیں : واماالحسین فانہ لماظہر فسق یزید عندالکافۃ من اہل عصرہ ۔
ترجمہ : اورحسین رضی اللہ عنہ توجب یزید کا فسق وفجور اس کے دور کے سب لوگوں کے نزدیک نمایاں ہوگیا ۔ (مقدمہ ابن خلدون ص216،تحت الفصل التاسع والعشرون فی معنی البیعۃ)
وبعد اتفاقہم علی فسقہ اختلفوا فی جواز لعنہ بخصوص اسمہ ۔
اوریزید کے فسق پر متفق ہونے کے بعد اختلاف ہوا اس پر نام لے کر لعنت کرنے میں ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ 222مطبوعہ ملتان)
فالأول منها ما حدث في يزيد من الفسق أيام خلافته ۔ (مقدمہ ابن خلدون 210الفصل الثلاثون فی ولایۃ العہد)
اس میں سے پہلی بات وہ ہے جویزید کے دور اقتدار میں اس سے فسق کا ظہور ہوا۔
و لما حدث في يزيد ما حدث من الفسق اختلف الصحابة حينئذ في شأنه فمنهم من رأى الخروج عليه و نقض بيعته من أجل ذلك كما فعل الحسين و عبد الله بن الزبير رضي الله عنهما و من اتبعهما في ذلك و منهم من أباه لما فيه من إثارة الفتنة و كثرة القتل مع العجز عن الوفاء به ۔ (مقدمہ ابن خلدون 210الفصل الثلاثون فی ولایۃ العہد)
اورجب یزید سے فسق کا ظہور ہوا تواس کے بارے میں صحابہ کرام کی آراء مختلف ہوگئیں۔بعض کی رائے اس کے خلاف خروج کی ہوئی ورانہوں نے اسی وجہ سے اس کی بیعت توڑدی جیساکہ حضرت حسینؓ اورعبداللہ بن زبیرؓ اوران کی پیروی کرنے والوں نے کیا اورصحابہ میں سے بعض نے اس سے انکار کیااوراس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ فتنہ برپاہوگاخونریزی ہوگی اوراس کے باوجود بھی شاید مقصود حاصل نہ ہو۔
کیا ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تصریحات بھی اس لائق نہیں ہیں کہ ہم ذرا ٹھٹھک کر دیکھیں اورسوچیں کہ اس عالی مرتبت مورخ نے کیا لکھا ہے اور کیا کہا ہے ۔ اورکیااس کی بات دور حاضر کے چند نام نہاد اسکالروں سے بھی گئی گزرے ہے ۔ ہماراحال یہ ہے کہ آج کل کے چند نام نہاد اسکالروں پر توایمان لے آتے ہیں لیکن گزشتہ ادور کے عالی قدر مورخین کے بیانات کو نظرانداز کردیتے ہیں اوراس کی وجہ سوائے ہوائے نفس اورخواہش کی غلامی کے کچھ نہیں ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ومن آمن باللہ والیوم الآخر لایختار ان یکون مع یزید ولامع امثالہ من الملوک الذین لیسوا بعادلین اورجواللہ اورقیامت کے دن پرایمان رکھتاہے وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ یزید یا اس جیسے غیرعادل بادشاہ کے ساتھ بھی ہوسکے ۔ (سوال فی یزید بن معاویہ ص28)
اب جولوگ یزید کوعادل بادشاہ قراردیتے نہیں تھکتے انہیں تو کم ازکم اب تو شرم آنی چاہئے ۔ ابن تیمیہ پوری وضاحت اورصراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ جو شخص بھی اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کوپسند نہیں کرے گا کہ اس کا شمار یا حشر یزید اوراس جیسے غیرعادل بادشاہوں کے ساتھ ہو۔ ظاہر ہے جو بادشاہ عادل نہ ہو ظالم ہوگا ۔ عدل اورظلم کے بیچ کوئی درمیانی راہ توہے نہیں معتزلہ کی طرح منزلۃ بین المنزلتین کی ۔
اتنے پر بس نہیں کچھ اوربھی تصریحات ہم دیکھتے چلیں ۔ وہ اپنے فتویٰ میں یزید کے تعلق سے یہ موقف کہ یزید کے ساتھ محبت نہیں رکھی جائے گی اس پر لکھتے ہیں : اہل علم کا یہ موقف کہ یزید کے ساتھ محبت نہیں رکھی جائے گی ، دو بنیادوں پر قائم ہے ۔
پہلی یہ کہ : یزید سے کوئی ایسے صالح اعمال صادر نہیں ہوئے جو اس کے ساتھ محبت کا موجب ہوں ۔ لہٰذا وہ جبراً مسلط کئے گئے بادشاہوں ایسا ایک بادشاہ رہ جاتا ہے ۔ اِس نوع کے اشخاص سے محبت کرنا شریعت کا تقاضا نہیں ہے ۔
دوسری یہ کہ : یزید سے ایسے اعمال سرزد ہوئے جو اس کو ظالم اور فاسق ٹھہرانے والے ہیں ، خصوصاً قتل حسین رضی اللہ عنہ اور واقعۂ اہل حرہ ۔
کیا علامہ ابن تیمیہ کے اس صاف اورواضح بیان کے بعد کہ یزید سے ایسے اعمال صادر ہوئے جواس کو ظالم اورفاسق ٹھہراتے ہیں ۔ اب بھی کچھ اگرمگر کی گنجائش ہے ؟
واقعہ حرہ میں یزید کے حکم سے اوریزید کی رضا سے یزید کی فوج نے اہل مدینہ کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا نقشہ ہم ابن تیمیہ کی ہی زبانی دکھا دیں تاکہ ابن تیمیہ کی عقیدت کا دم بھرنے والے کم ازکم ان کی بات تومان لیں ۔ فتاوى ابن تیمیہ(3/412):وجرت في إمارته ( أي يزيد )أمور عظيمة : أحدها : مقتل الحسين رضي الله عن وأما الأمر الثاني:فإن أهل المدينة النبوية نقضوا بيعته وأخرجوا نوابه وأهله ، فبعث إليهم جيشاً ، وأمره إذا لم يطيعوه بعد ثلاث أن يدخلها بالسيف ويبيحها ثلاثاً، فصار عسكره في المدينة النبوية ثلاثا يقتلون وينهبون ، ويفتضون الفروج المحرمة. ثم أرسل جيشاً إلى مكة ، وتوفى يزيد وهم محاصرون مكة، وهذا من العدوان والظلم الذي فُعِل بأمره.اهـ
یزید کے دوراقتدار میں بڑے امور (منفی اعتبارسے) صادر ہوئے ۔ ان میں ایک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل ہے۔اوردوسرا جب اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑدی اوران کے کارندوں اورعمال کونکال دیا تواس نے مدینہ کی جانب لشکر بھیجااوراس کو حکم دیاکہ اگر وہ تین دن کے اندر اطاعت قبول نہ کریں تو بزورطاقت مدینہ میں داخل ہو اورتین دن کیلئے اس میں قتل وغارت گری کو جائز سمجھے ۔ لہذا تین دنوں تک اس کی فوج نے شہر نبوی میں قتل وقتال کا بازارگرم کیا ۔ لوگوں کے اموال لوٹے اورعصمت دریاں کیں ۔ پھر مکہ کی جانب فوج بھیجا اوریزید کی موت اس حالت میں ہوئی کہ اس کی فوج مکہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھی اوریہ زیادتی اورظلم یزید کے حکم سے انجام دیا گیا ۔
ابن تیمیہ نے منہاج السنۃ میں جو ایک شیعہ عالم کے رد میں لکھی گئی ہے اس میں وہ لکھتے ہیں : وأما مافعله ـ يزيد ـ بأهل الحرة،فإنهم لما خلعوه وأخرجوا نوابه وعشيرته أرسل إليهم مرة بعد مرة يطلب الطاعة فامتنعوا ،فأرسل إليهم مسلم بن عقبة المري ، وأمره إذا ظهر عليهم أن يبيح المدينة ثلاثة أيام ، وهذا هو الذي عظم إنكار الناس له من فعل يزيد.اهـ(المنهاج2/365)
اس میں دیکھ لیں سابقہ موقف کودہرایا گیا ہے اوراس میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ یزید سے کراہیت رفض اورشیعت کا تاثر نہیں بلکہ اس کی وجہ یزید کے اپنے اعمال وافعال ہیں ۔
مورخ اسلام وامام جرح وتعدیل فی الزمن الاخیرحافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ ۔ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخ ،علم حدیث اورعلم جرح وتعدیل میں جو مقام ہے وہ اہل فکر ونظر سے پوشیدہ نہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے زمزم پی کر ذہبی جیسے حافظہ کی خدا سے دعامانگی تھی ۔ ان کی ایک مشہور کتاب ہے ۔ سیر اعلام النبلاء ، اس میں انہوں نے ہرمشہور شخصیت کا خواہ اس کا تعلق کسی بھی میدان سے ہو ذکر کیاہے ۔ یزید کابھی ذکر ہے ۔ دیکھئے چلیں وہ کیاکہتے ہیں یزید کے بارے میں : قُلْتُ: كَانَ قَوِيّاً، شُجَاعاً، ذَا رَأْيٍ، وَحَزْمٍ، وَفِطْنَةٍ، وَفَصَاحَةٍ، وَلَهُ شِعْرٌ جَيِّدٌ، وَكَانَ نَاصِبِيّاً، فَظّاً، غَلِيْظاً، جَلْفاً، يَتَنَاوَلُ المُسْكِرَ، وَيَفْعَلُ المُنْكَرَ. (4/3 افْتَتَحَ دَوْلَتَهُ بِمَقْتَلِ الشَّهِيْدِ الحُسَيْنِ، وَاخْتَتَمَهَا بِوَاقِعَةِ الحَرَّةِ، فَمَقَتَهُ النَّاسُ، وَلَمْ يُبَارَكْ فِي عُمُرِه.
ترجمہ : میں (ذہبی رحمۃ اللہ علیہ) کہتاہوں یزید طاقتور بہادر عقل مند،پختہ کار ذہین تھا۔بولنے میں فصیح تھااس کے اشعار عمدہ ہیں۔اسی کے ساتھ وہ ناصبی،درشت اوراکھڑمزاج تھا۔شراب پیتاتھا اورمنکرات کاارتکاب کرتاتھا۔اس کی حکمرانی کی ابتداء امام حسین شہید کے قتل سے ہوئی اوراختتام حرہ کے واقعہ سے ہو۔اس سے وہ لوگوں کی نگاہ میں مبغوض ہوگیا اوراس کی عمر میں برکت نہیں ہوئی۔
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ جن کے سامنے یزید کے تعلق سے تمام اورہرطرح کی روایات موجود ہیں وہ تمام روایات کی چھان پھٹک کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے یہں کہ یزید منکرات کا ارتکاب کرتا تھا اور شراب پیتا تھا اور وہ ناصبی اور اکھڑ مزاج تھا ۔ کیاآج کے جید جاہلین حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ تاریخی روایات کے چھان پھٹک کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر یقیناً نہیں توپھر کیوں وہ صرف ایسی ہی روایات کولکھتے اورپھیلاتے ہیں جس سے یزید کی علوشان نمایاں ہوتی ہو اور تصویر کا دوسرارخ دکھانے والی تمام روایات کو کیوں وہ نظرانداز کردیتے ہیں ۔ علم وتحقیق کی دنیا میں اس کا کیامقام ہوتاہے وہ خود وضاحت کریں ۔
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اسی کتاب میں یزید کے ذکر میں اپناموقف ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ویزید ممن لانسبہ ولانحبہ ولہ نظراء من خلفاء الدولتین۔(سیراعلام النبلاء 3/36)
ترجمہ : اوریزید ان لوگوں مین سے ہے جن کو ہم برا بھلا کہتے ہیں اورنہ محبت رکھتے ہیں اوریزید جیسے کئی بادشاہ دونوں سلطنتوں اموی اورعباسی میں گزرے ہیں ۔
اس سے بھی حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف صاف ہوجاتاہے کہ یزید پر لعن طعن میں نہ اپنا وقت ضائع کیا جائے اور نہ وہ اس قابل ہے کہ اس اس سے کوئی مسلمان محبت رکھے ۔ لیکن کیا کیجئے کچھ لوگ اب حب یزید میں اتنے مست اور بے خود ہیں کہ ان ائمہ اعلام علیہم الرّحمہ کی تصریحات کو اپنے قدموں میں روند ڈالنے کیلئے تیار ہیں ۔
حافظ ابن کثیر جومشہور مورخ ہیں ۔ ان کی تاریخ پر ایک مشہور کتاب ہے البدایہ والنہایہ ۔ وہ یزید کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔حافظ ابن کثیر یزید کو "امام فاسق" کا لقب دیتے ہیں اوراس کے بارے میں لکھتے ہیں : قد کان یزید فیہ خصال محمودۃ من الکرم والحلم والفصاحۃ والشعروالشجاعۃ وحسن الرائی فی الملک وکان ذاجمال حسن المعاشرہ ، وکان فیہ ایضااقبال علی الشھوات وترک بعض الصلوات فی بعض الاوقات واماتتھافی غالب الاوقات(البدایہ والنہایہ8/223)
ترجمہ : یزید میں کچھ اچھی عادتیں بھی تھیں مثلاً مہربانی اوربردباری ، فصاحت ، شعر گوئی ، بہاردی ، انتظام ملک سے واقفیت ، خوبصورتی اور نیک سلوک کرنا لیکن اسی کے ساتھ اس میں شہوات (نفس) پر بھی اقدام تھاا ور بعض اوقات نماز چھوڑدیا کرتھا تھا اور اکثر وبیشتر وقت کے ختم ہونے کے بعد نماز پڑھتا تھا ۔
اس کی روشنی میں بھی یزید کی محبت کے فریب خوردگان اپنی تصیحح کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ خلوص نیت اورغیرجانبداری کے ساتھ تاریخ سے یز ید کا حال معلوم کریں ۔
علامہ ابن عماد حنبلی رحمۃ اللہ علیہ مشہور مورخ کی رائے یزید اورامام حسین رضی اللہ عنہ کے یزید کے خلاف خروج کرنے کے تعلق سے لکھتے ہیں : والعلماء مجمعون علی تصویب قتال علی لمخالفیہ لانہ امام الحق ونقل الاتفاق ایضا علی تحسین خروج الحسینؓ علی یزید ،وخروج ابن الزبیر واھل الحرمین علی بنی امیہ ،وخروج ابن الاشعث ومن معہ من کبارالتابعین وخیارالمسلمین علی الحجاج ثم ان الجمہور راوا جواز الخروج علی من کان مثل یزید والحجاج ومنھم من جوز الخروج علی کل ظالم وعد ابن حزم خروم الاسلام اربعۃ ،قتل عثمانؓ،وقتل الحسینؓ ویوم الحرۃ وقتل ابن الزبیر ولعلماء السلف فی یزید وقتلۃ الحسین خلاف فی اللعن والتوقف ۔ (شذرات الذہب1/276،چشتی)
ترجمہ : علماء کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت علی اپنے مخالفوں سے لڑنے میں حق پر تھے۔اسی طرح حضرت حسین کے یزید پر خروج کرنے حضرت عبداللہ بن زبیر اوراہل حرمین کے بنی امیہ پر خروج کرنے اورابن اشعث کےحجاج پر خروج کرنے جن کا ساتھ کبار تابعین نے دیاتھاعلماء کا اتفاق ہےکہ یہ بہتر اوردرست تھا۔
جمہور علماء یزید ، حجاج اوران جیسے (ظالمین وفاسقین) کے خلاف خروج کرنے کو جائز سمجھا ہے ۔ اوربعض علماء نے ہر ظالم کے خلاف خروج کرنے کو جائز سمجھاہے اورابن حزم کے بیان کے مطابق اسلام کی شوکت کی تباہی چار مرتبہ ہوئی ہے حضرت عثمان کا قتل ، حضرت حسین کا قتل ، واقعہ حرہ اورحضرت عبداللہ بن الزبیر کا قتل رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
مشہور مورخ مسعودی لکھتے ہیں : وقال المسعودي: (ولمّا شمل الناس جور يزيد وعماله وعمّهم ظلمه وما ظهر من فسقه ومن قتله ابن بنت رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وأنصاره وما أظهر من شرب الخمر, سيره سيرة فرعون, بل كان فرعون أعدل منه في رعيّته, وأنصف منه لخاصّته وعامّته أخرج أهل المدينة عامله عليهم, وهو عثمان بن محمّد بن أبي سفيان)۔(مروج الذهب: 3/82).
ترجمہ : اورجب یزید اوراس کے کارندوں کا ظلم لوگوں پر بڑھ گیااورعام ہوگیا اورجوکچھ یزید سے فسق اورنواسہ رسول کا قتل اوران کے معاونین کاقتل صادر ہوا ۔علاوہ ازیں اس کے وہ شراب بھی پیتا تھا۔اس کی سیرت فرعون کی طرح تھی بلکہ فرعون اپنی رعایاکے مقابلہ میں اس سے کہیں زیادہ عادل تھا۔اورخاص وعام کیلئے اس سے (یزید)زیادہ انصاف پرور تھا۔ان تمام وجوہات کی بناء پر اہل مدینہ نے اس کے گورنر عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو مدینہ سے نکال دیا۔
کیا ان تصریحات اورمورخین کے بیانات کے بعد بھی محبان یزید کو کچھ شرم آئے گی اوراپنے موقف سے وہ ہٹیں گے شاید نہیں کیونکہ محبت اتنی عقل باقی ہی رہنے کہاں دیتی ہے کہ سچ اورجھوٹ اورحق وباطل کا امتیاز کیا جاسکے ۔ خیر ہماری دعاہے اورجیساکہ ارشاد رسول ہے ۔ المرء مع من احب ان کا حشر بھی یزید کے ساتھ ہو آمین ۔
علامہ سیّد محمود آلوسی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا تفسیر اور دیگر علوم اسلامیہ میں بڑا مقام ہے اوران کی تفسیر روح المعانی تفاسیر قرآن کے ذخیرہ میں اپناامتیازی شان رکھتی ہے۔حضرت علامہ آؒلوسی حنفی کا یزید کے تعلق سے کیاخیال ہے چلئے اسے بھی جان لیتے ہیں ۔ وہ یزید کے تعلق سے لکھتے ہیں : الذی یغلب علی ظنی ان الخبیث لم یکن مصدقا برسالٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وان مجموع مافعل مع اھل حرم اللہ تعالیٰ،واھل حرم نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم وعترتہ الطیبین الطاہرین فی الحیاۃ وبعد الممات وماصدر منہ المخازی لیس باضعف دلالۃ علی عدم تصدیقہ من القاء ورقۃ من المصحف الشریف فی قذر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولوسلم ان الخبیث کان مسلمافھو مسلم جمع من الکبائرمالایحیظ بہ نطاق البیان وانااذھب الی جواز لعن مثلہ علی التعیین ۔
ترجمہ : میراگمان غالب یہ ہے کہ وہ خبیث(یزید)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین نہیں رکھتاتھا اوراس کے وہ تمام کرتوت جو اس نے حرمین والوں اوراہل بیت کے ساتھ زندگی میں ان کی موت کے بعد کیا اورجوکچھ اس کے شرمناک افعال اس سے صادر ہوئے وہ اس سے کمتر نہیں ہے جیساکہ ایک شخص اگر قرآن پاک کاورق گندگی میں پھینک دے تو یہ اس کے عدم ایمان کی علامت ہوگی۔(کہنایہ چاہتے ہیں کہ جس طرح کوئی شخص قرآن پاک یااس کا کوئی ورق گندگی میں پھینک دے تو ہرشخص سمجھ جاتاہے کہ یہ مومن نہیں ہے اگرصاحب ایمان ہوتاتوایسانہ کرتا تویزید نہ جوکچھ اہل حرمین مکہ اورمدینہ والوں کے ساتھ اوراسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کے ساتھ کیااس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ کی رسالت کا قائل نہیں تھا اگر ہوتا ہے تو اس سے ایسے افعال کا صدور نہ ہوتا ۔ اوراگرتسلیم کرلیا جائے کہ وہ خبیث (یزید) مسلمان تھا تو وہ ایسا مسلمان ہے جس نے کبائر میں سے ہر کبیرہ کوجمع کرلیا ہے اورجس کے بیان کرنے سے زبان عاجز ہے ۔ اورمیری رائے ہے کہ ایسوں پر نام کے تعیین کے ساتھ لعنت کرناجائز ہے ۔ (تفسیر روح المعانی 26/73)
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کی ہندوستان میں جوعظیم خدمات انجام دی ہیں اورجس کا اعتراف سبھوں نے کیا ہے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرہ کیلئے غیرمقلدین حضرات اپنے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب کی ابجد العلوم بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ یامولانا ابوالکلام آزاد کی تذکرہ بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یزید کے بارے میں کیا ہے اور حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں : ویزید بے دولت از اصحاب نیست ودربدبختی اوکراسخن کارے کہ آن بدبخت کرد ہیچ کافر فرنگ نکند ۔ بعضی از علماء اہل سنت کہ درالعن او توقف کردہ اند نہ آنکہ ازوے راضی اند بلکہ رعایت احتمال رجوع وتوبہ کردہ اند ۔ (مکتوبات ربانی ص133،دفتر اول مطبوعہ ترکی)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یزید بدبخت صحابی نہیں ہے اوراس کے بدبخت ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے اس بدبخت نے ایسے کام کئے جوفرنگی کافروں نے بھی نہیں کئے بعض علماء اہل سنت نے (مثل امام غزالی وغیرہ) جو اس پر لعنت کرنے میں توقف کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس کو پسند کرتے ہیں اوراس سے راضی ہیں بلکہ محض اس احتجام پر کہ شاید اس نے آخروقت میں توبہ کرلی ہو،اس بناء پر لعنت نہیں کرتے ۔
دیکھ رہے ہیں کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے کس طرح صاف اوروضاحت سے لکھاہے کہ اس کے بدبخت ہونے میں کوئی کلام نہیں اوراس سے ایسااعمال وافعال صادر ہوئے کو کفار اوروہ بھی فرنگی کفار سے بھی صادر نہ ہوئے تھے۔اورحضرت مجدد نے یہ بھی بتادیاکہ امام غزالی اوردوسرے علماء جو یزید کی لعنت سے توقف کرتے ہیں تواس لئے نہیں کہ یزید اچھاتھا بلکہ اس احتمال پر کہ شاید اس نے توبہ کرلی ہو ۔یعنی برے کام تو اس نے کئے ہیں لیکن توبہ اوررجوع کے احتمال کی وجہ سے لعنت کرنا درست نہیں سمجھتے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے علم وفضل کے تعلق سے کچھ کہنا تضییع اوقات کے سواکچھ نہیں اوران کی تفسیر مظہری ان کے علم وفضل پر شاہد عدل ہے اورہندوستان میں لکھی گئی تفسیروں میں اگر اس کو پہلے نمبر پر بھی رکھاجائے توبجاہے۔توکیوں نہ ہم معلوم کرلیں کہ حضرت قاضی صاحب کا یزید کے تعلق سے کیاخیال ہے۔چلئے اسے بھی دیکھتے چلتے ہیں ۔
تفسیر مظہری اردو مطبوعہ دہلی ص 56-57ج9تحت آیت استخلاف عربی صفحہ 554جلد 6،نیز فرماتے ہیں یزید نے دین محمدی کا انکار کردیا ۔ تفسیر مظہری اردو صفھة 307،جلد 8،تحت آیت الم تر الی الذین بدلوانعمت اللہ کفراً ۔
یعنی قاضی صاحب تو یزید کو مسلمان ہی نہیں مانتے اوراس کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ یزید نے دین محمدی کا انکار کردیا بھلا ایسا شخص مسلمان کیسے ہوسکتا ہے ۔
ہندوستان کے علماء میں مولانا عبدالحی لکھنوی کی اپنی امتیازی شان ہے ۔ وسعت مطالعہ ،علوم اسلامیہ میں گہرائی وگیرائی اوراسی کے ساتھ اعتدال وتوازن اورتعصب وتصلب سے دوری ان کی خاص پہچان ہے۔جب ان سے یزید کے تعلق سے پوچھاگیاتوانہوں نے جواب میں لکھا : مسلک اسلم آنست کہ آن شقی رابمغفرت وترحم ہرگز یاد نیابد کردوبہ لعن او کہ درعرف مختص بکفار گشتہ زبان خود راآلودہ نباید کرد۔یزید کے متعلق اسلم ترین مسلک یہ ہے کہ اس بدبخت کو مغفرت اورحمہ اللہ کے کلمات سے ہرگز یاد نہ کرے اورنہ ہی لعنت سے اپنی زبان کو آلودہ کرے الخ ۔ (فتاوی عبدالحی ص9-8جلد نمبر3مطبوعہ یوسفی لکھنئو)
دیکھئے یہاں مولانا عبدالحی لکھنوی جیسے محتاط اورثقہ عالم نے بھی اس کی صاف وضاحت کردی ہے کہ محتاط اوربہتر طریقہ یہ ہے کہ نہ اس کیلئے کوئی دعائے مغفرت کہے اورنہ رحمتہ اللہ علیہ یا دعائے رحم کرے ۔ اورنہ اپنی زبان کو یزید کے ذکر سے آلودہ کرے ۔
کیااس کے بعد بھی کوئی جھول باقی رہ جاتاہے جس پر انسان بحث کرے
(حضرت حسین کا) یزید کیس اتھ جنگ کرنے کا باعث اس سے ناجائز امور کے صادر ہونے کے سوا اورکوئی نہ تھا اورجب یہ آدمی ناجائز کام کا مرتکب ہوا اوراس پر اصرار کیا ورکام کو بہتر جانا تو حضرت ہمام رضی اللہ عنہ کی جانب سے دہتکارنے کے لائق ہوگیا اورآپ کے دشمنوں کے متابعت کنندوں میں داخل ہوگیا ۔ (صراط مستقیم اردو ص140،مطبوعہ کراچی)
اس کے علاوہ قابل ذکر علماء میں سے سعد الدین تفتازانی اورعلامہ ابن حجر ہیتمی نے الصواعق المحرقۃ میں جوکچھ کہاہے اس کا خلاصہ ذکر کردیتاہوں کہ یزید کے ایمان میں شک ہے اوراگر وہ مسلمان تھا تو انتہائی فاسق وفاجر تھااوراس کے فسق وفجور پر علماء کا اتفاق ہے۔
یہ چند علماء کی یزید کے تعلق سے تصریحات ذکر کی گئی ہیں میں نے تمام علماء کے نقول جمع کرنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ عجلت میں جوکچھ ہوسکا وہ نقل کر دیا ہے ۔ ورنہ توپھر ایک طویل مقالہ لکھنے کی ضرورت ہوگی جس میں یزید کے تعلق سے علماء اسلام نے جوکچھ کہاہے سبھوں کی رائے ذکر کی جائے ۔
یزید کے تعلق سے احادیث
یہ صحیح کہ وہ احادیث جس میں یزید کے نام آیا ہے اور شناعت بیان کی گئی ہے عموماایسی حدیثیں ضعف شدید اورکلام سے خالی نہیں ہیں ۔ اس کو لے کر کچھ لوگ شور مچاتے ہیں کہ یزید کے تعلق سے کوئی حدیث صحیح نہیں اوریہ سب رافضیوں کا تاثر ہے۔لیکن اگر وہ حدیث کے ذخیرہ میں اپنی نگاہ دوڑاتے اورپھرغیرجانبداری اورحق کی تلاش کی نیت سے دیکھتے تواس میں ان کو ایسی احادیث مل جاتیں جس سے ان کو صراحتامعلوم ہوجاتا کہ اس کے مصداق میں یزید بدرجہ اول داخل ہے۔
عن السائب بن خلاء رضي الله عنه أن رسول الله صلي الله عليه و اله وسلم قال: (( من أخاف أهل المدينة ظلماً أخافه الله وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل )) رواه النسائي)
جوشخص مدینہ کو ظلماًخوفزدہ کرے گا۔اس کو اللہ ڈرائے گا اوراس پر اللہ اورفرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہوگی اوراس سے فرض اورنفل کچھ بھی قبول نہ کیاجائے گا۔
اب اس حدیث کی متابعت کرنے والی دیگر احادیث پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں۔
من أخاف أهل المدينة فقد أخاف ما بين جنبي۔الراوي: جابر بن عبدالله الأنصاري المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/218خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح
جوشخص مدینہ والوں کوخوفزدہ کرتا تووہ میرے دل کو خوفزیدہ کرتاہے۔
دیکھئے اس حدیث میں کتنی بڑی وعید ہے کہ مدینہ والوں کو خوفزدہ کرنا گویا رسول پاک کوخوفزدہ کرنا اوررسول پاک کو خوفزدہ کرنا کتنی بڑی وعید ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔اس حدیث پرعلامہ منذری نے صحت کا حکم لگایاہے۔
من أخاف أهل المدينة فقد أخاف ما بين جنبي
الراوي: - المحدث: الهيتمي المكي - المصدر: الزواجر - الصفحة أو الرقم: 1/206خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
من أخاف أهل المدينة . . . فعليه لعنة الله وغضبه لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا
الراوي: جابر بن عبدالله الأنصاري المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 5/383
خلاصۃ حكم المحدث: إسناده صحيح
دیکھاجاسکتاہے کہ البانی صاحب بھی اس حدیث پر صحت کا حکم لگارہے ہیں۔ اب اس کے بعد ہم ذرا وہ تاریخی روایات بھی پیش کردیں جس سے واضح ہوجائے کہ یزید نے اہل مدینہ کوخوفزدہ کیاتھایانہیں ۔
بعض بزعم خود جید جاہلین جو خود کو تاریخ داں سمجھتے ہیں اورتاریخ کی ابجد سے بھی ان کی واقفیت نہیں ہے۔ان کیلئے اس تعلق سے واقعہ حرہ میں کتنے ابنائے صحابہ ومہاجرین کو قتل کیاگیااورکتنے صحابیوں شہید کیاگیااورعورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ اس تعلق سے چند دیگر مورخین کے بیانات بھی پیش کردوں۔ویسے ہدایت دینے والی ذات تواللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے۔
ثم دخلت سنة ثلاث وستين ففيها كانت وقعة الحرة
قال المدائني: عن أبي قرة قال: قال هشام بن حسان: ولدت ألف امرأة من أهل المدينة بعد وقعة الحرة من غير زوج " البداية والنهاية - ابن كثير ج 8 ص 238
واقعہ حرہ کے بعد ہزار عورتوں نے بغیر شادی کے بچہ جنا۔
یہ بیان حافظ ابن کثیر کا ہے کسی ایرے غیرے مورخ کا نہیں ہے اوراس بیان میں صرف حافظ ابن کثیر ہی بلکہ دیگر مورخین بھی ان کے ہمنواہیں دیکھئے حافظ سیوطی تاریخ الخلفاء میں کیاکہہ رہے ہیں۔
ونهيت المدينة وافتض فيها ألف عذراء فإنا لله وإنا إليه راجعون-( تاريخ الخلفاء للسيوطي باب يزيد بن معاوية)
مدینہ کولوٹا گیا اوراس میں تقریباہزار دوشیزاؤں کی عصمت دری کی گئی۔
اگراعدادوشمار میں کچھ غلطی ہو تب بھی بہرحال اتنی بات ثابت ہے کہ یزید نے مدینہ کو اپنے فوج کیلئے تین دن تک حلال کردیاتھا۔اوراس میں صحابہ کرام اورانصار ومہاجرین کی اولاد کو قتل کیاگیا۔ اس سلسلے میں یزید کے لشکر کے سالار کا اہل مدینہ پر غصہ اورقہر اتناواضح تھا کہ مروان بن حکم نے کسی صحابی کے قتل پر اعتراض کیاتو مسلم بن عقبہ نے اسے سختی کے ساتھ ڈانٹا اورکہاکہ اگر آئندہ تم نے کچھ کہاتو تمہیں بھی قتل کردوں گا۔
مسلم بن عقبہ جسے اب تاریخ مسرف کے نام سے یاد کرتی ہے ۔اس نے اہل مدینہ سے اس بات پر عہد لیاکہ وہ سب یزید کے غلام ہیں چاہے توان کو آزاد کردے اورچاہے تو بیچ دے ۔بعض لوگوں نے قرآن وسنت پر بیعت ہونا چاہاان کے سر تن سے جداکردیئے۔مسجد نبوی میں گھوڑے دوڑائے گئے۔مسجد نبوی میں نماز تک اداکرنے والاکوئی نہیں تھا۔حضرت سعید بن المسیب مسجد نبوی کے ایک کونے میں پڑے رہتے تھے ۔مدینہ کے دوبزرگوں نے یہ شہادت دے کر ان کی جان بخشی کرائی کہ وہ مجنون ہیں ۔
واقعہ حرہ میں اہل مدینہ کے ساتھ کیاسلوک کیاگیا۔اس کی تھوڑی تفصیل حافظ ابن حجر کی زبانی بھی سن لیجئے۔یہ میں اس لئے بتاناچاہتاہوں کہ یزید کے دامن پر صرف ایک قتل حسین کا داغ نہیں بلکہ واقعہ حرہ کا بھی بدنما داغ ہے۔
مسلم بن عقبة بن رباح بن أسعد بن ربيعة بن عامربن مالك بن يربوع بن غيظ بن مرة بن عوف المرّي ، أبو عقبة ، الأمير من قِبَل يزيد بن معاوية على الجيش الذين غزوا المدينة يوم الحرة ........وقد أفحش مسلم القول َوالفِعلَ بأهل المدينة ،وأسرف في قتل الكبير والصغير حتى سموه مسرفا ،وأباح المدينة ثلاثة أيام لذلك ،والعسكرُ ينهبون ويقتلون ويفجرون ،ثم رفع القتل ،وبايع من بقي على أنهم عبيد ليزيد بن معاوية (الإصابة (6/232ـ)
مسلم بن عقبیہ یزید بن معاویہ کی اس فوج کا امیر تھا جس نے یوم حرہ میں مدینہ پر لشکر کشی کی تھی۔مسلم نے اہل مدینہ کے ساتھ قول وفعل کے اعتبار سے انتہائی برا سلوک کیا۔اورچھوٹے بڑے کو قتل کرنے میں حد سے گزرگیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کا نام ہی مسرف رکھ دیا۔ مدینہ کو تین دن (قتل وغارت گری اورلوٹ مار کیلئے)جائز قراردیا اورفوجی لوگوں کا مال لوٹتے تھے اورلوگوں کو قتل کرتے تھے اوربراکام کرتے تھے۔پھراس نے قتل کرنا بند کیا اوربقیہ لوگوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ یزید کے غلام کے ہیں۔
غیرمقلدین حضرات بسااوقات دوسرے اجلہ علماء کی بات اشعری اورماتریدی کہہ کر ٹال دیتے ہیں اس لئے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کو علامہ ابن تیمیہ کا اس تعلق سے کیافرمان ہے وہ بھی بیان کردیں شاید اسی سے وہ سمجھ جائیں ۔
علامہ ابن تیمیہ واقعہ حرہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے فتاویٰ میں تحریر کرتے ہیں ۔ فتاوى ابن تیمیہ (3/412) : وجرت في إمارته ( أي يزيد )أمور عظيمة : أحدها: مقتل الحسين رضي الله عن وأما الأمر الثاني:فإن أهل المدينة النبوية نقضوا بيعته وأخرجوا نوابه وأهله ، فبعث إليهم جيشاً ، وأمره إذا لم يطيعوه بعد ثلاث أن يدخلها بالسيف ويبيحها ثلاثاً، فصار عسكره في المدينة النبوية ثلاثا يقتلون وينهبون ، ويفتضون الفروج المحرمة. ثم أرسل جيشاً إلى مكة ، وتوفى يزيد وهم محاصرون مكة، وهذا من العدوان والظلم الذي فُعِل بأمره.اهـ
ترجمہ : یزید کے دوراقتدار میں بڑے امور (منفی اعتبارسے)صادر ہوئے۔ان میں ایک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل ہے۔اوردوسرا جب اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑدی اوران کے کارندوں اورعمال کونکال دیا تواس نے مدینہ کی جانب لشکر بھیجااوراس کو حکم دیاکہ اگر وہ تین دن کے اندر اطاعت قبول نہ کریں تو بزورطاقت مدینہ میں داخل ہو اورتین دن کیلئے اس میں قتل وغارت گری کو جائز سمجھے۔لہذا تین دنوں تک اس کی فوج نے شہر نبوی میں قتل وقتال کا بازارگرم کیا ۔لوگوں کے اموال لوٹے اورعصمت دریاں کیں۔پھر مکہ کی جانب فوج بھیجا اوریزید کی موت اس حالت میں ہوئی کہ اس کی فوج مکہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھی اوریہ زیادتی اورظلم یزید کے حکم سے انجام دیاگیا۔
علامہ ابن تیمیہ نے منہاج السنۃ میں جو ایک شیعہ عالم کے رد میں لکھی گئی ہے اس میں وہ لکھتے ہیں ۔ وأما مافعله ـ يزيد ـ بأهل الحرة،فإنهم لما خلعوه وأخرجوا نوابه وعشيرته أرسل إليهم مرة بعد مرة يطلب الطاعة فامتنعوا ،فأرسل إليهم مسلم بن عقبة المري ، وأمره إذا ظهر عليهم أن يبيح المدينة ثلاثة أيام ، وهذا هو الذي عظم إنكار الناس له من فعل يزيد.اهـ(المنهاج2/365،چشتی)
اس میں دیکھ لیں سابقہ موقف کودوہرایاگیاہے اوراس میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ یزید سے کراہیت رفض اورشیعت کا تاثر نہیں بلکہ اس کی وجہ یزید کے اپنے اعمال وافعال ہیں ۔
مناسب ہے کچھ مزید تاریخی شہادتیں پیش کردی جائیں شاید اسی سے کسی کے خیال کی اصلاح ہوجائے۔
دیکھئے حافظ ذہبی کیاکہتے ہیں ۔ قال المدائني توجه إليهم مسلم بن عقبة في اثني عشر ألفا وأنفق فيهم يزيد في الرجل أربعين دينارا فقال له النعمان بن بشير وجهني أكفك قال لا ليس لهم إلا هذا الغشمة والله لا أقيلهم بعد إحساني إليهم وعفوي عنهم مرة بعد مرة فقال أنشدك الله يا أمير المؤمنين في عشيرتك وأنصار رسول الله صلى الله عليه وسلم وكلمه عبد الله بن جعفر فقال إن رجعوا فلا سبيل عليهم فادعهم يا مسلم ثلاثا وامض إلى الملحد ابن الزبير قال واستوص بعلي بن الحسين خيرا جرير عن الحسن قال والله ما كاد ينجو منهم أحد لقد قتل ولدا زينب بنت أم سلمة قال مغيرة بن مقسم أنهب مسرف بن عقبة المدينة ثلاثا وافتض بها ألف عذراء ..(سیر اعلام النبلاء3/323)
موطاامام مالک کے شارح زرقانی کیا کہتے ہیں ؟
ويوم الحرة بفتح الحاء المهملة والراء المشددة أرض ذات حجارة سود كأنها أحرقت بالنار بظاهر المدينة كانت به الوقعة بين أهلها وبين عسكر يزيد بن معاوية وهو سبع وعشرون ألف فارس وخمسة عشر ألف راجل سنة ثلاث وستين بسبب خلع أهل المدينة يزيد وولوا على قريش عبد الله بن مطيع وعلى الأنصار عبد الله بن حنظلة وأخرجوا عامل يزيد عثمان بن محمد بن أبي سفيان من بين أظهرهم فأباح مسلم بن عقبة أمير جيش يزيد المدينة ثلاثة أيام يقتلون ويأخذون النهب ووقعوا على النساء حتى قيل حملت في تلك الأيام ألف امرأة زوج وافتض فيها ألف عذراء وبلغت القتلى من وجوه الناس سبعمائة من قريش والأنصار ومن الموالي وغيرهم من نساء وصبيان وعبيد عشرة آلاف وقيل قتل من القراء سبعمائة ثم أخذ عقبة عليهم البيعة ليزيد على أنهم عبيده إن شاء عتق وإن شاء قتل وفي البخاري عن سعيد بن المسيب أن هذه الوقعة لم تبق من أصحاب الحديبية أحدا .. (شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك ج 3 ص 15
اس کے علاوہ اوربھی مزید تاریخی شہادتیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ واقعہ حرہ میں بلاتمیز مردوعورت بچے بوڑھے قتل عام ہوا۔ لوگوں کے مال کو لوٹاگیا۔ اوراس قتل وغارت گری میں صحابہ کرام اورغیرصحابہ کرام کا بھی کوئی فرق ملحوظ نہیں رکھاگیا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ جیسے جلیل القدر صحابی کو پہاڑ کے ایک کھوہ میں چھپ کر اپنی جان بچانی پڑی۔لوگوں سے جبری طورپر اس بات کی بیعت لی گئی کہ وہ یزید کے غلام ہیں اوروہ ان کے جان اورمال میں جیساچاہے فیصلہ کرے اس کو اس کاحق ہے۔اگرکسی نے قرآن وسنت پر بیعت کرنے کی کوشش کی ۔اس کی گردن ماردی گئی۔
خواتین اوردوشیزاؤں کی عصمت دری ہوئی ۔ان کی عصمت سے کھیلاہوگیا۔
مسجد نبوی میں نماز واذان کا سلسلہ منقطع ہوگیااور ایک کونے میں حضرت سعید بن المسیب گوشہ گیر رہتے تھے۔
اب کوئی دل پرہاتھ رکھ کر بتائے کہ کیایہ تمام واقعات مدینہ والوں کو خوفزدہ کرنے کے زمرہ میں آتے ہیں یانہیں آتے ہیں۔اوراسی جواب سے پتہ چل جائے گاکہ سامنے والاکس سے متاثر ہے رافضیت سے یاخارجیت سے ؟