abdullah786
رکن
- شمولیت
- نومبر 24، 2015
- پیغامات
- 428
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 46
محترم ساتھیوں
یزید کے بارے میں بہت سے لوگ سلف صالحین اور اکابرین امت کے منھج کو چھوڑ کر اس ڈگر پر چلے گئے کہ اس کو واجبی جنتی قرار دینے لگے ہیں جیسا شیخ سنابلی صاحب نے اپ کتاب یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں ثابت کیا ہے یہ ان کی رائے ہے جس سے کوئی بھی اختلاف رکھ سکتے ہیں اور علمی انداز میں اس اختلاف کو بیان کرنے کا حق بھی رکھتا ہے میں شیخ صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں ان کے کتب سے میں نے بہت استفادہ بھی کیا ہے مگر اس بارے میں جو میں نے اکابرین کے اقوال پڑھے ہیں وہ شیخ صاحب کی رائے سے مختلف ہے پہلے ہم وہ حدیث بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد پر یزید مغفور لھم میں شامل ہوتا ہے حالانکہ میرے مطالعہ کی حد تک یزید اس بشارت میں بھی شامل نہیں ہے مگر وقت اور زندگی نے ساتھ دیا تو کسی اور تھرڈ پر بیان کروں گا فلحال ہم اس حدیث کا مزداق یزید کو مانتے ہوئے اس پر گفتگو کرتے ہیں جس میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا(صحیح بخاری کتاب جہاد باب قتال الروم رقم 2924)
اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں "
قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے آئیں اس کو ایک اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھتے ہیں۔
حدثنا عبيدالله بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا قرة بن خالد عن أبي الزبير عن جابر بن عبدالله قال
Y قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من يصعد الثنية ثنية المرار فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيلقال فكان أول من صعدها خيلنا خيل بني الخزرج ثم تتام الناس فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم وكلكم مغفور له إلا صاحب الجمل الأحمر فأتيناه فقلنا له تعال يستغفر لك رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال والله لأن أجد ضالتي أحب إلي من أن يستغفر لي صاحبكم قال وكان الرجل ينشد ضالة له(صحیح مسلم رقم 2780)
ترجمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے پس سب سے پہلے اس پر چڑھنے والا ہمارا شہسواریعنی بنو خزرج کے گھوڑے چڑھے پھر دوسرے لوگ یکے بعد دیگرے چڑھناشروع ہو گئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب بخش دیئے گئے سوائے سرخ اونٹ والے آدمی کے ہم سب اس کے پاس گئے اور اس سے کہا چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے مغفرت طلب کریں گےاس نے کہا اللہ کی قسم اگر میں اپنی گمشدہ چیز کو حاصل کروں تویہ میرے نذدیک تمہارے ساتھی کی میرے لئے مغفرت مانگنے سے پسندید ہے اور وہ آدمی اپنی گمشدہ چیز تلاش کرتا رہا۔
اس حدیث میں بنی اسرائیل کے لئے بھی مغفر لہ کے الفاظ ہیں جیسا بخاری کی اس حدیث میں ہیں اگر بخاری کے مذکورہ الفاظ مغفور لھم جنت کو واجب کرتے ہیں تو پر لازمی یہ ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیل پر بھی جنت واجب ہو گئی ہے کیونکہ ان کے لئے بھی بین ہی وہی الفاظ فرمائے گئے جو بخاری کی روایت میں ہیں اور یہ بات مسلمہ ہے کہ بنی اسرائیل پر جنت واجب نہیں ہے اس کا اقرار کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے تو لامحالہ بخاری میں مغفور لھم سے مراد ابدی جنت نہیں لی جاسکتی ہے اس سے مراد وہی ہے کہ جو مسلم کی روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل سے اس کے پچھلے گناہ ختم کردیئے گئے تھے اسی طرح بخاری میں موجود مغفور لھم سے مراد یہی ہے کہ اس گروہ جس نے قسطنطنیہ میں جہاد کیا ہے اس کے پچھلے گناہ کی معافی مراد ہے وگرنہ بنی اسرائیل کے لئے بھی ابدی جنت ماننا پڑے گی جو قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہے۔چنانچہ امت کے اکابرین نے بھی اس کو بین ہی اسی طرح بیان کیا ہے کہ یہ مغفور لھم کی بشارت پچھلے گناہوں سے معافی ہے اس سے مراد وجوب جنت نہیں ہے۔
اکابرین امت کے اقوال
حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں ابن التین وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔
ابن التين وابن المنير بما حاصله: أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه وسلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم(فتح الباری تحت رقم 2942)
اس میں یہی بیان ہوا ہے کہ اہل علم کا اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مغفور لھم اس شرط سے مشروط ہے کہ اگر کوئی اس غزوہ کے بعد مرتد ہو گیا تو وہ اس عمومی بشارت میں داخل نہیں ہے پس یہ دلیل ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ مغفرت یافتہ وہی ہو گا جس میں اس کی شرائط پائی جائیں۔
تو اس سے یہی ثابت ہے کہ مغفرت اس وقت ہو گی جب تک آگے بھی نیک اعمال پر قائم رہے ورنہ مغفرت سے محروم ہو جائے گا۔
اور یہی بات تقریبا بخاری کے کئی شارح نے بیان کی ہے
(1) امام عینی نے بھی یہی لکھا ہے۔
(2) امام قسطلانی نے بھی یہی لکھا ہے۔
اور شاہ ولی محدث دہلوی جن کا احترام تینوں (اہلحدیث، دیوبندی،برہلوی)کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنی کتاب بخاری تراجم ابواب میں اسی قتال الروم کے تحت رقمطراز ہیں۔
انہ لا یثبت بھذا الحدیث الا کونہ مغفورا لہ ما تقدم من ذنبہ علی ھذہ الغزوۃ لان الجھاد من الکفارات و شان الکفارات ازالۃ آثار الذنوب السابقۃ علیھا لا الواقعۃ بعدھا۔
نعم لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے واضح فرما دیا کے جہاد کفارہ ہوتا ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں ہاں اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔
آئمہ کے ان اقوال سے اظہر من الشمس ہے کہ وہ دونوں احادیث میں جو مغفور لھم کی بشارت ہے وہ سابقہ گناہوں کی بخشش ہے اور اس کی آئمہ سے بھی تائید ہوتی ہے۔
صحابہ کرام کی بشارتین وجوب جنت پر دل تھی
آخر میں یہ مسئلہ بھی حل کر دیا جائے کہ بعض لوگ یزید کی بشارت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بشارت جیسا سمجھتے ہوئے اس مغفور لھم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جیسی بشارت سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جو بشارات دی گئی ہیں ان میں جنت میں جانے کی اور آگلی تمام خطاؤں کی بخشش موجود تھی اس کی ایک آدھا مثال سے ہی پڑھنے والوں پر واضح ہو جائے گا۔
غزوہ بدر میں شمولیت اختیار کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے بشارت کے یہ الفاظ زبان اقدس سے جاری ہوئے ہیں ۔
غفرت لکم ماشئتم۔
تم بخشش دیئے گئے ہو جو چاہے کرو۔
بیعت رضوان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں موجود ہے کہ " لایدخل النار احد بایع تحت الشجرۃ(صحیح مسلم، ترمذی)
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مبشرات کے ساتھ قرینہ موجود ہے مگر مغفور لھم کی اس حدیث کے ساتھ کوئی قرینہ نہیں جیسا اوپر شاہ ولی اللہ کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے کہ " اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔
حاصل کلام
یزید کے بارے میں اس ساری بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر تو وہ اس غزوہ میں سب سے پہلے لشکر میں شامل تھا تب بھی اس کے لیے وجوب جنت کا دعوی اس حدیث کے مطابق بے بنیاد اور باطل ہے اللہ اپنے تمام بندوں سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وجوب کے نہیں مغفور لھم کے الفاظ جاری ہوئے کیونکہ حدیث وحی خفی ہے اور وحی کبھی بھی تضاد نہیں ہو سکتی ہے کہ ایک طرف جنت کی بشارت ہو اور دوسری طرف شفاعت سے محروم کرنے والے کو کیسے جنت کی بشارت مل سکتی ہے
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
صنفان من أمتي لن تنالهما شفاعتي , إمام ظلوم غشوم , و كل غال مارق (سلسلہ احادیث صحیحہ رقم470)
اس میں ظالم حکمران کو شفاعت سے محرومی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ جنتی بھی ہو اور شفاعت سے محروم یعنی جہنم میں بھی جائے۔
اللہ سب کو سمجھنے کی توفقیق عطا کرے۔
یزید کے بارے میں بہت سے لوگ سلف صالحین اور اکابرین امت کے منھج کو چھوڑ کر اس ڈگر پر چلے گئے کہ اس کو واجبی جنتی قرار دینے لگے ہیں جیسا شیخ سنابلی صاحب نے اپ کتاب یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں ثابت کیا ہے یہ ان کی رائے ہے جس سے کوئی بھی اختلاف رکھ سکتے ہیں اور علمی انداز میں اس اختلاف کو بیان کرنے کا حق بھی رکھتا ہے میں شیخ صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں ان کے کتب سے میں نے بہت استفادہ بھی کیا ہے مگر اس بارے میں جو میں نے اکابرین کے اقوال پڑھے ہیں وہ شیخ صاحب کی رائے سے مختلف ہے پہلے ہم وہ حدیث بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد پر یزید مغفور لھم میں شامل ہوتا ہے حالانکہ میرے مطالعہ کی حد تک یزید اس بشارت میں بھی شامل نہیں ہے مگر وقت اور زندگی نے ساتھ دیا تو کسی اور تھرڈ پر بیان کروں گا فلحال ہم اس حدیث کا مزداق یزید کو مانتے ہوئے اس پر گفتگو کرتے ہیں جس میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا(صحیح بخاری کتاب جہاد باب قتال الروم رقم 2924)
اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں "
قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے آئیں اس کو ایک اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھتے ہیں۔
حدثنا عبيدالله بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا قرة بن خالد عن أبي الزبير عن جابر بن عبدالله قال
Y قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من يصعد الثنية ثنية المرار فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيلقال فكان أول من صعدها خيلنا خيل بني الخزرج ثم تتام الناس فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم وكلكم مغفور له إلا صاحب الجمل الأحمر فأتيناه فقلنا له تعال يستغفر لك رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال والله لأن أجد ضالتي أحب إلي من أن يستغفر لي صاحبكم قال وكان الرجل ينشد ضالة له(صحیح مسلم رقم 2780)
ترجمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے پس سب سے پہلے اس پر چڑھنے والا ہمارا شہسواریعنی بنو خزرج کے گھوڑے چڑھے پھر دوسرے لوگ یکے بعد دیگرے چڑھناشروع ہو گئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب بخش دیئے گئے سوائے سرخ اونٹ والے آدمی کے ہم سب اس کے پاس گئے اور اس سے کہا چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے مغفرت طلب کریں گےاس نے کہا اللہ کی قسم اگر میں اپنی گمشدہ چیز کو حاصل کروں تویہ میرے نذدیک تمہارے ساتھی کی میرے لئے مغفرت مانگنے سے پسندید ہے اور وہ آدمی اپنی گمشدہ چیز تلاش کرتا رہا۔
اس حدیث میں بنی اسرائیل کے لئے بھی مغفر لہ کے الفاظ ہیں جیسا بخاری کی اس حدیث میں ہیں اگر بخاری کے مذکورہ الفاظ مغفور لھم جنت کو واجب کرتے ہیں تو پر لازمی یہ ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیل پر بھی جنت واجب ہو گئی ہے کیونکہ ان کے لئے بھی بین ہی وہی الفاظ فرمائے گئے جو بخاری کی روایت میں ہیں اور یہ بات مسلمہ ہے کہ بنی اسرائیل پر جنت واجب نہیں ہے اس کا اقرار کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے تو لامحالہ بخاری میں مغفور لھم سے مراد ابدی جنت نہیں لی جاسکتی ہے اس سے مراد وہی ہے کہ جو مسلم کی روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل سے اس کے پچھلے گناہ ختم کردیئے گئے تھے اسی طرح بخاری میں موجود مغفور لھم سے مراد یہی ہے کہ اس گروہ جس نے قسطنطنیہ میں جہاد کیا ہے اس کے پچھلے گناہ کی معافی مراد ہے وگرنہ بنی اسرائیل کے لئے بھی ابدی جنت ماننا پڑے گی جو قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہے۔چنانچہ امت کے اکابرین نے بھی اس کو بین ہی اسی طرح بیان کیا ہے کہ یہ مغفور لھم کی بشارت پچھلے گناہوں سے معافی ہے اس سے مراد وجوب جنت نہیں ہے۔
اکابرین امت کے اقوال
حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں ابن التین وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔
ابن التين وابن المنير بما حاصله: أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه وسلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم(فتح الباری تحت رقم 2942)
اس میں یہی بیان ہوا ہے کہ اہل علم کا اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مغفور لھم اس شرط سے مشروط ہے کہ اگر کوئی اس غزوہ کے بعد مرتد ہو گیا تو وہ اس عمومی بشارت میں داخل نہیں ہے پس یہ دلیل ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ مغفرت یافتہ وہی ہو گا جس میں اس کی شرائط پائی جائیں۔
تو اس سے یہی ثابت ہے کہ مغفرت اس وقت ہو گی جب تک آگے بھی نیک اعمال پر قائم رہے ورنہ مغفرت سے محروم ہو جائے گا۔
اور یہی بات تقریبا بخاری کے کئی شارح نے بیان کی ہے
(1) امام عینی نے بھی یہی لکھا ہے۔
(2) امام قسطلانی نے بھی یہی لکھا ہے۔
اور شاہ ولی محدث دہلوی جن کا احترام تینوں (اہلحدیث، دیوبندی،برہلوی)کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنی کتاب بخاری تراجم ابواب میں اسی قتال الروم کے تحت رقمطراز ہیں۔
انہ لا یثبت بھذا الحدیث الا کونہ مغفورا لہ ما تقدم من ذنبہ علی ھذہ الغزوۃ لان الجھاد من الکفارات و شان الکفارات ازالۃ آثار الذنوب السابقۃ علیھا لا الواقعۃ بعدھا۔
نعم لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے واضح فرما دیا کے جہاد کفارہ ہوتا ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں ہاں اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔
آئمہ کے ان اقوال سے اظہر من الشمس ہے کہ وہ دونوں احادیث میں جو مغفور لھم کی بشارت ہے وہ سابقہ گناہوں کی بخشش ہے اور اس کی آئمہ سے بھی تائید ہوتی ہے۔
صحابہ کرام کی بشارتین وجوب جنت پر دل تھی
آخر میں یہ مسئلہ بھی حل کر دیا جائے کہ بعض لوگ یزید کی بشارت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بشارت جیسا سمجھتے ہوئے اس مغفور لھم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جیسی بشارت سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جو بشارات دی گئی ہیں ان میں جنت میں جانے کی اور آگلی تمام خطاؤں کی بخشش موجود تھی اس کی ایک آدھا مثال سے ہی پڑھنے والوں پر واضح ہو جائے گا۔
غزوہ بدر میں شمولیت اختیار کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے بشارت کے یہ الفاظ زبان اقدس سے جاری ہوئے ہیں ۔
غفرت لکم ماشئتم۔
تم بخشش دیئے گئے ہو جو چاہے کرو۔
بیعت رضوان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں موجود ہے کہ " لایدخل النار احد بایع تحت الشجرۃ(صحیح مسلم، ترمذی)
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مبشرات کے ساتھ قرینہ موجود ہے مگر مغفور لھم کی اس حدیث کے ساتھ کوئی قرینہ نہیں جیسا اوپر شاہ ولی اللہ کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے کہ " اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔
حاصل کلام
یزید کے بارے میں اس ساری بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر تو وہ اس غزوہ میں سب سے پہلے لشکر میں شامل تھا تب بھی اس کے لیے وجوب جنت کا دعوی اس حدیث کے مطابق بے بنیاد اور باطل ہے اللہ اپنے تمام بندوں سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وجوب کے نہیں مغفور لھم کے الفاظ جاری ہوئے کیونکہ حدیث وحی خفی ہے اور وحی کبھی بھی تضاد نہیں ہو سکتی ہے کہ ایک طرف جنت کی بشارت ہو اور دوسری طرف شفاعت سے محروم کرنے والے کو کیسے جنت کی بشارت مل سکتی ہے
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
صنفان من أمتي لن تنالهما شفاعتي , إمام ظلوم غشوم , و كل غال مارق (سلسلہ احادیث صحیحہ رقم470)
اس میں ظالم حکمران کو شفاعت سے محرومی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ جنتی بھی ہو اور شفاعت سے محروم یعنی جہنم میں بھی جائے۔
اللہ سب کو سمجھنے کی توفقیق عطا کرے۔