ایک اعتراض یہ کیا گیا شیعہ کی جانب سے -
کفایت الله سنابلی اپنی کتاب قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور امیر یزید بن معاویہ کے بارے میں بشارت نبوی – ایک تحقیقی جائزہ
کے صفحہ : ٥٠ پر یوں لکھتے ہیں
بلکہ اسی حدیث کے ایک اور طریق میں یہ الفاظ ہیں
ابو عمران نے کہا کہ : چناچہ ابو ایوب انصاری اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ قسطنطنیہ پر لشکر کشی کی اور وہیں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے [ تاریخ دمشق لابن عساکر :١٦ /٦٢ و فی اسناد ابن لھیہ و عنعنہ الولید فی بعض الطبقات ]
اس روایت میں ان الفاظ پر غور کیجیے ” حتي غزا القسطنطنية ” یعنی یہانن تک کہ انہوں نے قسطنطنیہ میں جہاد کیا .مطلب یہ کہ اس سے قبل انہوں نے قسطنطنیہ پہنچ کر جہاد نہیں کیا تھا.
یہاں پر باکل صراحت ہے کہ ان کے جہاد کی آخری کڑی لشکر قسطنطنیہ میں شرکت اور وفات تھی اور اس سے قبل وہ قسطنطنیہ تک نہیں پہنچ سکے تھے.ثابت ہوا کہ وہ وہی لشکر تھا جس کے عمومی امیر یزید بن معاویہ تھے.
ابن عساکر کی اس روایت کی سند ابن لھیعہ اور ولید کے بعض عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن چونکہ یہ مفہوم دیگر روایات کا بھی ہے اور اس روایت کی سند میں ابن لھیعہ کا ضعیف معمولی ہے کیونکہ وہ سچے ہیں صرف حافظہ کی خرابی ہے اور ولید نے اپنے شیخ سے تحدیث کی صراحت کردی ہے البتہ اس سے آگے عنعنہ موجود ہے اس لے یہ بھی بڑا ضعیف نہیں لہذ اس روایت کے الفاظ ست مفہوم طے کرنے میں کوئی حرج نہیں
آگے صفحہ : ٦٣ پر حافظ زبیر علیزئی رحمہ الله کا ردکرتے ہوئے یوں لکھتے ہے
عرض ہے کہ متابعت قطعاً ثابت نہیں ہے کیونکہ ابن عساکر کی سند میں لیث بن سعد سے نیچھے ضعیف موجود ہے وہ ولید بن مسلم القرشی ہیں جو تدلیس تسویہ کرتے تھے اور انہوں نے اپنے سے اوپر سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت نہیں کی ہے. جبکہ تدلیس تسویہ سے متصف راوی کی سند صحیح ہونے کے لے شرط ہے کہ وہ اپنے استاد سے اوپر تمام طبقات میں سماع یا تحدیث کی صراحت کرے چناچہ ……
جب روایت انکے حق میں ہے تب ولید کی تدلیس تسویہ معمولی اور جب انکے خلاف ہے تب غیر معمولی
اولا:
کیا یہ رافضی تضاد ثابت کرنا چاہتاہے ؟
تضاد تو تب ہوتا جب سنابلی صاحب نے ولید کے عنعنہ سے ایک جگہ سندکو صحیح کہا ہوتا اور دوسری جگہ ضعیف ۔
لیکن وہ دونوں جگہ ولید کے عنعنہ سے سند کو ضعیف ہی بتلارہے ہیں ۔
پہلی جگہ انہوں نے لکھا:
ابن عساکر کی اس روایت کی سند ابن لھیعہ اور ولید کے بعض عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
اوردوسری جگہ انہوں نے لکھا:
عرض ہے کہ متابعت قطعاً ثابت نہیں ہے کیونکہ ابن عساکر کی سند میں لیث بن سعد سے نیچے ضعف موجود ہے وہ ولید بن مسلم القرشی ہیں جو تدلیس تسویہ کرتے تھے اور انہوں نے اپنے سے اوپر سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت نہیں کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ روایت ضعیف ہے یہ متابعت ثابت ہی نہیں ۔
دونوں جگہ وہ سند کوولید بن مسلم کے بعض طبقات میں عنعنہ سے ضعیف بتارہے ہیں تو تضاد کدھرہے؟؟
اور رافضی نے جو یہ لکھا:
جب روایت انکے حق میں ہے تب ولید کی تدلیس تسویہ معمولی اور جب انکے خلاف ہے تب غیر معمولی
مجھے یہ رافضی بتائے کہ جو روایت ان کےحق میں نہیں تھی اس روایت میں کہاں انہوں نے ولیدکی تدلیس تسویہ کو غیر معمولی کہا ؟؟
انہوں نے صاف لفظوں میں دونوں جگہ روایت کی تضعیف کی ہے تضاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے
بلکہ یہ رافضی جس روایت کے بار ے میں کہہ رہاہے کہ یہ سنابلی صاحب کے حق نہیں نے اس روایت کو بھی اصلا سنابلی صاحب نے اپنی اسی کتاب میں ابوداؤد کی سند سے صحیح کہا ہے ۔
البتہ اس کی ایک متابعت کے بارے میں کہا ہے کہ یہ متابعت سند اضعیف ہے۔
اور جس روایت کو یہ رافضی ان کے حق میں بتارہاہے اس روایت کو انہوں نے پوری کتاب میں کہیں بھی صحیح نہیں ہے بلکہ ضعیف ہی کہا ہے۔
اوراس پر انہوں نے دلیل کی بنیاد قائم نہیں کی ہے بلکہ شیخ زبیر رحمہ اللہ وغیرہ نے لکھا کہ معمولی ضعیف روایت سے مفہوم طے کرنے میں حرج نہیں تو سنابلی صاحب نے ان کی اس بات کا حوالہ دے کر الزامی طور پر یہ روایت پیش کرکے اسے اپنے بیان کردہ مفہوم کی تائید میں پیش کیا ہے ۔
اور اپنے مفہوم کو اس سے پہلے وہ دوسرے دلائل سے ثابت کرچکے ہیں ۔
رافضیوں کے ایسے اعتراضات کی حقیقت ہر ذی عقل آدمی خود سمجھ سکتا ہے
آپ کو پتانہیں کیا ہوگیا کہ ایسے اعتراضات کو یہاں نقل کرنے بیٹھ گئے۔
ثانیا:
میں نے تین مثالیں ایسی طلب کی تھیں جن میں سنابلی صاحب نے صحیح کو ضعیف اور ضعیف کو صحیح کہا ہو ۔
لیکن یہاں آپ نے ایسی ایک بھی مثال نہیں پیش کی