عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
خطبہ جمعہ حرم مکی ......16 صفر 1433ھ
خطیب فضیلۃ الشیخ اسامہ خياط
مترجم: عمران اسلم
مترجم: عمران اسلم
پہلا خطبہ:
الحمد لله الذي يجعل بعد العُسر يُسرًا، أحمده - سبحانه - حمدًا يزيدُنا به نعَمًا وخيرًا، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له يخلُقُ ما يشاءُ ويختارُ المُتفرِّدُ في الكون نهيًا وأمرًا، وأشهد أن سيدنا ونبيَّنا محمدًا عبدُ الله ورسوله خيرُ الخلق طُرّا وأعظمُهم بِرًّا، اللهم صلِّ وسلِّم على عبدك ورسولك محمدٍ، وعلى آله وصحبه أصوبِ السالكين إلى الله وأهداهم سَيرًا.
حمد و ثنا کے بعد!
اے اللہ کے بندو اس سے ڈر جاؤ۔ یاد رکھو متقین کے لیے دنیا میں پاکیزہ زندگی اور آخرت میں ایسی جنت ہے جس کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔
بردرانِ اسلام:
مشکلات کے بعد آسانی اور دشواریوں کے بعد ان سے چھٹکارا ایسی چیزیں ہیں کہ اگر ان کا صحیح ادراک ہو جائے تو یہ بہت سے نقصانات و فسادات سے نجات کا باعث بن سکتی ہیں۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ اکثر لوگ ان سے ناواقفیت کی بناء پر بڑی بڑی غلطیوں کا ارتکاب کر جاتے ہیں۔
بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جب انھیں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کوئی بہت بڑا شر اپنے الاؤ لشکر سمیت ان پر حملہ آور ہو گیا ہے۔ اس سے خلاصی کے تمام راستے مسدود اور تمام دروازے بندہو چکے ہیں۔ ایسے شخص کو اپنے آپ سے کوفت ہونے لگتی ہے، وسیع و عریض زمین اس کو تنگ پٖڑ جاتی ہے، اس کا حسن ظن بد ظنی میں بدل جاتا ہے۔ وہ اپنے قدرے بہتر حالات سے متعلق مضطرب ہو جاتا ہے۔ اور تمام مسائل اسے لا ینحل نظر آنے لگتے ہیں۔
البتہ متقین اور اہل خرد کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہوتا ہے وہ اللہ اور اس کےرسولﷺ کی فراہم کردہ رہنمائی کی بدولت اس سے بہت اس سے بہت مختلف مؤقف کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں نقش ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے ساتھ ایسا سچا وعدہ کیا ہے جس کی وہ خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ وہ وعدہ یہ ہے کہ ہر مشکل کےساتھ آسانی ، ہر تنگی کے ساتھ فراخی اور ہر کرب کے پہلو میں کشادگی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
پھر فرمایا:فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا [الشرح: 5، 6]
’’ پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
اس سب کی بنیاد ایک چیز ہے اور وہ ہے تقویٰ، جو کہ بہترین زاد راہ اور اللہ سے ملاقات کی بہترین تیاری کا دوسرا نام ہے۔ ارشاد فرمایا:سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا[الطلاق: 7]
’’اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کر دے گا۔ ‘‘
تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جو متقی اور منہیات خدا کے مابین رکاوٹ بنتا ہے۔ یہی وہ پردہ ہے جو اس کو تحفظ دیتا ہے، یہی وہ متنبی ہے جو اس کو تنبیہ کرتا ہے، یہی وہ واعظ ہے اس کو ڈراتا اور نصیحت کرتا ہے۔وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ [النساء: 131]
’’اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
تقوی ہی انسان کے لیے وہ چیز ہے جو اس کے ہر معاملے کی آسانی کا باعث ہے اور اسی کی بدولت راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔
تقویٰ کی بدولت نیک برتاؤ انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتاہے۔ چاہے یہ برتاؤ اللہ کے سامنے پیش ہونے کی صورت میں ہو، اس کی عبادت کرنے میں ہو، یا محبت، خوف، امید، توکل، خشوع، خضوع، عاجزی، نماز، نذر، زکاۃ، روزہ، ذکر اور صدقہ کی صورت میں ہو۔ یا یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنے کی صورت میں ہو۔ یہی نیک بات کی تصدیق کی حقیقت ہے جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے:وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا [الطلاق: 4]
’’ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا۔‘‘
امام ابن قیم فرماتے ہیں:فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى [الليل: 5- 7]
’’جس نے دیا( اللہ کی راہ میں) اور ڈرا(اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔‘‘
دوسروں کےساتھ نیک برتاؤ کی ایک صورت یہ ہے کہ مشکل میں پھنسے انسان کو اس سے چھٹکارا دلایاجائے یا مشکل میں کمی کی کوئی صورت پیدا کر دی جائے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’ اللہ تعالیٰ باکمال صفات کے ساتھ متصف ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انھی صفات کا عکس اس کے بندوں میں بھی نظر آئے۔ وہ رحم کرنے والا ہے چاہتا ہے کہ ابن آدم بھی رحمدل ہو، وہ پردہ پوش ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی پردہ پوشی کریں، اللہ معاف کرنے والا ہے چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی معافی دینے والے ہوں، وہ بخش دینے والا ہے چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ایسا ہی کریں، وہ مہربان ہے چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی مہربانی کرنے والے ہوں، وہ سخت مزاجی، بے رحمی اور اکھڑ پن کو ناپسند کرتا ہے، وہ نرم خو ہے اور نرم خوئی کو پسند کرتا ہے۔ برد بار ہے بردباری کو پسند کرتا ہے، حسن سلوک کرنے والا ہے حسن سلوکی کرنے والے کو محبوب رکھتا ہے، عادل ہے عدل کرنے والے سے محبت رکھتا ہے، معذرت قبول کرتا اور معذرت قبول کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔
وہ اپنے بندوں کے ساتھ انھی صفات کے وجود اور عدم وجود کے اعتبار سے رویہ اختیار کرتا ہے، جو بندے معاف کرنے والے ہوتے ہیں وہ انھیں معاف کر دیتا ہے، جو دوسروں کو بخشتے ہیں اللہ ان کو بخشتا ہے، جو نرمی کرتے ہیں اللہ ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے اور جو رحمدل ہوتے ہیں اللہ ان پر رحم کرتے اور جو دوسروں کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے ہیں اللہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ انسان عاجزی و انکساری اختیار کرے اور خلوص دل کے ساتھ خداتعالیٰ سے دعا مانگتا رہے۔ موسیٰ فرماتے ہیں:«ومن يسَّرَ على مُعسِرٍ يسَّرَ الله عليه في الدنيا والآخرة»؛ أخرجه مسلم في "صحيحه".
’’جو مشکل میں مبتلا انسان کو آسانی بہم پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کو آسانی فراہم کرتے ہیں۔‘‘
اور ہمارے پیغمبر ﷺ مشکل پہنچنے پر یوں گویا ہوتے :قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (25) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (26) وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (27) يَفْقَهُوا قَوْلِي [طه: 25- 28]
’’موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار میرا سینہ میرے لیے کھول دے۔ اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے۔ اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے۔‘‘
ضروری ہے کہ دعا کرتے ہوئے آداب دعا اور اتباع رسولﷺ کو ملحوظ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ پر حمد و ثنا کے ساتھ دعا کی ابتدا کی جائے، نبی کریمﷺ پر درود پڑھا جائے، قبلہ رخ ہو ا جائے، اصرار کے ساتھ دعا کی جائے اور جلدی نہ مچائی جائے، اللہ کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کیا جائے، گناہوں کا اعتراف اور اللہ کی نعمتوں کا اقرار کیا جائے، اس کے اسمائے حسنہ اور صفات یا اپنے کسی اچھے عمل کا وسیلہ پکڑا جائے، یا کسی زندہ نیک شخص سے دعا کرائی جائے، ہاتھ اٹھا کر اور ممکن ہو تو وضو کر کے دعا کی جائے، حلال رزق کمایا اور کھایا جائے اور حرام سے اجتناب کیا جائے، کسی گناہ کے لیے دعا نہ کی جائے، اپنے اور اہل و عیال کے لیے بددعا نہ کی جائے اور اپنی آواز ضرورت سے زیادہ بلند نہ کی جائے۔«اللهم لا سهلَ إلا ما جعلتَه سهلاً، وأنت تجعلُ الحَزْنَ إذا شئتَ سهلاً».
’’اے اللہ! کوئی کام آسان نہیں مگر جسے توآسان کر دے اور تو جب چاہتا ہے مشکل کو آسان کر دیتا ہے۔‘‘
ان شاء اللہ اب دعا مقبول ہو گی، مشکلات کے بادل چھٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل میسر آئے گا۔
نفعَني الله وإياكم بهديِ كتابه، وبسُنَّة نبيِّه - صلى الله عليه وسلم -، أقول قولي هذا، وأستغفر الله العظيم الجليل لي ولكم ولجميع المسلمين من كل ذنبٍ، إنه هو الغفور الرحيم.قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ [يونس: 58].
’’آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیئے۔ وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں۔‘‘
دوسرا خطبہ:
إن الحمد لله نحمده ونستعينُه ونستغفرِه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهدِه الله فلا مُضِلَّ له، ومن يُضلِل فلا هاديَ له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبدُه ورسوله، صلَّى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
خطبہ مسنونہ کے بعد!
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام رقمطراز ہیں کہفَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا [الشرح: 5، 6]
’’ پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب بھی کوئی مشکل آئے گی آسانی بھی اس کے ساتھ ہی ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر مشکل گوہ کی بِل میں بھی پہنچے گی تو وہاں بھی آسانی پہنچے گی اور اس کو رفع کر دے گی۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
سورۃ الشرح کی آیت میں موجود الف لام استغراق کا ہے اس کے بعد لفظ ’یسر‘ کو الف لام کے بغیر ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہر تنگی کے ساتھ آسانی ناگزیر و لازم ہے۔سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا[الطلاق: 7]
’’اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کر دے گا۔ ‘‘
بندگان خدا! یہ ان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے جن کو مشکلات، درماندگیوں اور آزمائشوں کا سامناہے۔ عام طور پر تمام اہل اسلام اور خصوصاً ان اہل شام کے لیے جو ظلم، عداوت اور بغاوت کے عذاب کو جھیل رہے ہیں۔
تمہارے لیے اللہ کی مدد اور غم، آزمائش اور کرب سے نجات بہت قریب ہے۔ تکالیف سے نجات کا سورج طلوع ہوا ہی چاہتا ہے۔اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [فاطر: 43].
’’دنیا میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، اور ان کی بری تدبیروں کی وجہ سے اور بری تدبیروں کو وبال ان تدبیر والوں پر ہی پڑتا ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈر جاؤ، اس کے ساتھ حسن ظن رکھواور یاد رکھو اللہ اپنے اس وعدے سے کبھی انحراف نہیں کرے گا کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ نے تم کو اپنے نبیﷺ پر درود بھیجنے کا کثرت سے حکم دیاہے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [الأحزاب: 56].
اللهم صلِّ وسلِّم على عبدك ورسولك محمدٍ، وارضَ اللهم عن خلفائه الأربعة: أبي بكر، وعمر، وعثمان، وعليٍّ، وعن سائر الآلِ والصحابةِ والتابعين، ومن تبِعَهم بإحسانٍ إلى يوم الدين، وعنَّا معهم بعفوك وكرمك وإحسانك يا خيرَ من تجاوزَ وعفا.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، واحمِ حوزةَ الدين، ودمِّر أعداء الدين، وسائرَ الطُّغاةِ والمُفسدين، اللهم دمِّر الطُّغاةَ والمٌفسدين يا رب العالمين، وألِّف بين قلوب المسلمين، ووحِّد صفوفَهم، وأصلِح قادتَهم، واجمع كلمتَهم على الحق يا رب العالمين.
اللهم انصر دينكَ وكتابكَ وسنةَ نبيِّك محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - وعبادكَ المؤمنين المُجاهِدين الصادقين. اللهم آمِنَّا في أوطاننا، وأصلِح أئمَّتنا وولاةَ أمورنا، وأيِّد بالحق إمامَنا ووليَّ أمرنا خادمَ الحرمين الشريفين، وهيِّئ له البِطانةَ الصالحةَ، ووفِّقه لما تُحبُّ وترضى يا سميعَ الدعاء، واجزِه خيرَ الجزاء عن مواقفِهِ الإسلاميةِ الحكيمةِ الحازِمةِ مع قضايا المُسلمين كافَّةً ومع قضيةِ المُسلمين في سُوريةَ خاصَّةً يا رب العالمين.
اللهم إنا نجعلُك في نحور أعدائك وأعدائنا يا رب العالمين، اللهم إنا نجعلُك في نُحورهم ونعوذُ بك من شُرُورهم، اللهم إنا نجعلُك في نُحورهم ونعوذُ بك من شُرُورهم، اللهم اكفِنا شرَّ أعدائِك وأعدائِنا بما شِئتَ، اللهم اكفِنا أعداءَك وأعداءَنا بما شِئتَ، اللهم اكفِنا أعداءَك وأعداءَنا بما شِئتَ.
اللهم اكشِف عن أهل سُورية ضُرَّهم، ونفِّس عنه كربَهم، ويسِّر عُسرَهم، وفرِّج ضِيقَهم، واستُر عوراتهم، اللهم استُر عوراتهم وآمِن روعاتهم، اللهم استُر عوراتهم وآمِن روعاتهم، ونجِّهم مما يخافون يا رب العالمين، واكفِهم بما شئتَ شرَّ أعدائهم، واكفِهم بما شئتَ شرَّ أعدائهم، وارحَم ضعفَهم، اللهم ارحَم ضعفَهم، واجبُر كسرَهم، واشفِ جرحاهم، اللهم اشفِ جرحاهم، واكتُب أجرَ الشُّهداء لقتلاهم، وفُكَّ قيدَ أسراهم، وأطعِم جائِعَهم، واستُر عارِيَهم، وقِنا وإياهم شرَّ الفتن، اللهم قِنا والمُسلمين جميعًا شرَّ الفتن ما ظهر منها وما بطَن يا رب العالمين.
اللهم أحسِن عاقبتَنا في الأمور كلها، وأجِرنا من خِزي الدنيا وعذاب الآخرة، اللهم أصلِح لنا دينَنا الذي هو عصمةُ أمرنا، وأصلِح لنا دنيانا التي فيها معاشُنا، وأصلِح لنا آخرتَنا التي إليها معادُنا، واجعل الحياةَ زيادةً لنا في كل خيرٍ، والموتَ راحةً لنا من كل شرٍّ.
اللهم اشفِ مرضانا، وارحم موتانا، وبلِّغنا فيما يُرضيكَ آمالَنا، واختِم بالصالحات أعمالَنا.
اللهم إنا نعوذُ بك من زوال نعمتك، وتحوُّل عافيتك، وفُجاءة نقمتك، وجميعِ سخطك.
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ [الأعراف: 23]، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201].
وصلَّى الله وسلَّم على عبده ورسوله نبيِّنا محمدٍ وعلى آله وصحبه أجمعين، والحمد لله رب العالمين.
خطبہ سننے کے لیے یہاں کلک کریں