• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یورپ میں حجاب ونقاب کے خلاف مہم

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
فرانس حقوقِ نسواں کا اَن تھک علم بردار ہے، لیکن مسلم خواتین پر یہ جبر اس کی حکومت کے لئے کسی فکر مندی کا باعث نہیں بنتا۔ البتہ فرنچ حکام کے لئے یہ امر باعث ِتشویش ہے کہ کوئی بھی برقعہ پوش خاتون اسے اپنے اوپر مردوں کا جبر قرار دینے کی بجائے اللہ کے احکام کا تقاضا باور کرتی ہے۔ یہ خواتین اسے اختیاری یا اخلاقی رویہ قرار دینے کی بجائے شریعت ِاسلامیہ کا براہِ راست مطالبہ سمجھتی ہیں۔ ان مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ ’یورپی کونسل برائے ہیومن رائٹس‘ کے قوانین بھی ان کو مذہبی تقاضوں کے مطابق ہر لباس پہننے کی آزادی فراہم کرتے ہیں۔
فرانس میں اس قانون سازی سے قبل سرکاری گرفت کا خوف پیدا کرنے اور مسلمانوں کا رد عمل جاننے کے لئے ۲۴؍اپریل کو ایک برقعہ پوش خاتون کو ٹریفک پولیس نے پکڑ لیا اور اُنہیں روڈ سیفٹی کے نام پر ۲۲یورو جرمانہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک فرانس میں چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت پر کوئی قانون بھی موجود نہیں تھا۔
فرانس میں اس حوالے سے سماجی تنائو اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء کو فرانس میں خواتین ملبوسات کی ایک دکان میں باحجاب مسلم خاتون سے ایک فرانسیسی خاتون وکیل کھلم کھلا اُلجھ پڑی۔ مسلم خاتون کے شوہر کی موجودگی کے باوجود فرانسیسی خاتون وکیل نے عورت کے چہرے سے نقاب کھینچ ڈالا اور اسے ’جہنم کی سفیر‘ کا نام دیتے ہوئے کئی فحش گالیاں بکیں۔ عوام کی دخل اندازی سے مسلمان عورت کو چھڑایا گیا اور معاملہ پولیس نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس سے فرانس میں ا س بارے شدید تناؤ کی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
واضح رہے کہ برقعہ پر پابندی کے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر فرانس کی آئینی عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر نظر ثانی کی تلقین کی۔ عدالت نے کہا ہے کہ ’یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس‘ کے چارٹر میں لوگوں کو مرضی کا لباس پہننے کا حق دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں فرانس کی یہ آئینی عدالت بھی اسی طرح حکومت کو متنبہ کرچکی ہے، لیکن آخر کار اس کا کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ اس عدالت کا رویہ دوہرا ہے، ایک طرف سٹیٹ کونسل نے پیش کردہ قرار داد کو جس کے حق میں ایوان میں ۴۳۴ ووٹ پڑے ہیں، غیرآئینی قرار دینے کا اِمکان ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا اقدام فرنچ آئین اور ’انسانی حقوق کے یورپی کنونشن‘ کے مخالف ہوسکتا ہے تو دوسری طرف پبلک مقامات پر نقاب کو سیکورٹی وجوہات او ردھوکہ دہی کے خاتمے کے لئے درست قرار دیے جانے کا بھی امکان پیش کیا ہے۔
فرانس میں جاری نقاب پر اس بحث مباحثہ نے برطانیہ میں ا س موضوع کو ماضی کی طرح دوبارہ تازہ کردیا ہے۔ فروری ۲۰۱۰ء میں برطانیہ میں کئے جانے والے ایک سروے میں قرار دیا گیا کہ ایک تہائی برطانوی نقاب پر پابندی عائد کروانا چاہتے ہیں۔ یوکے انڈیپنڈنٹ پارٹی نے اس پابندی کی کھلم کھلا حمایت کی اور ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ برقعہ او رحجاب آزادی اور جمہوریت کے مخالف ہیں اور ہمارے کلچر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ اگر یورپی عورتیں برہنہ اور عریاں ہونے کو بے تاب ہوتی ہیں تو اس وقت کوئی قانون ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتا او رہم اس پر اعتراض نہیں کرتیں تو پھر اپنی توقیر ، وقار او رلوگوں کی ہوسناک نظروں سے بچنے کے لئے ہمارا حجاب و نقاب استعمال کرنے کا حق کیوں چھینا جارہا ہے؟ برطانیہ میں نقاب کے بارے میں شدت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ گذشتہ ماہ لیسٹر میں ریحانہ سدات نامی ایک راہ چلتی مسلم خاتون کا نقاب ایک برطانوی نوجوان نے نوچ لیا جس پر عدالت نے نوجوان کو ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا ۔
حجاب کے خلاف اس دیوانہ وار مہم میں یورپ کے ساتھ کھیلوں کے عالمی ادارے بھی شریک ہیں۔ چنانچہ ایران کی خواتین فٹ بال ٹیم(جو سرڈھانپ کر کھیل میں شریک ہوتی ہے) کے خلاف انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اور فیفا انٹرنیشنل نے اپریل ۲۰۱۰ء میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ سرڈھانپنے والی خواتین پر مشتمل ٹیم کو کسی ایونٹ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پر ایران نے او آئی سی اور مسلم ممالک کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کہ وہ کھیلوں کی ان عالمی تنظیموں کے خلاف اپنا دبائو ڈالیں تاکہ وہ اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
جوابی ردّ عمل
یورپی ممالک برقع اور حجاب کے مقبول ہونے کے شدید خوف میں مبتلا ہیں جبکہ مسلم خواتین کے اس مطالبہ کو مغربی خواتین بھی ان کا جائزحق قرار دیتی ہیں اور کینیڈا میں کچھ عرصہ سے ۲۶؍اکتوبر کو عالمی حجاب ڈے کے طورپر منایا جارہا ہے جس میں غیر مسلم خواتین بھی اظہارِ یک جہتی کے طورپر ان کے ساتھ شریک ہوتی ہیں۔ اس دن خصوصی طورپر متحرک ہونے والوں میں میک ماسٹر یونیورسٹی کے فرانسیسی شعبہ کی پروفیسر میریل واکر بھی ہیں جو عیسائی ہونے کے باوجود حجاب کو مسلم خواتین کا حق سمجھتی او راس کے لئے جدوجہد کو ضروری قرار دیتی ہیں۔
فرانس میں ۲۰۰۳ء کو لگنے والی پابندی کے بعد ۲۰۰۴ء میں امریکہ میں خواتین کی ایک تنظیم نے ’فریڈم اِن حجاب‘ کے نام سے مسلمان خواتین کے حق میں مہم چلائی۔
اسی طرح جنوری ۲۰۰۴ء میں علامہ یوسف القرضاوی کی زیرقیادت حجاب مخالف رجحانات کے دفاع کے لئے لندن میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس ’اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب‘ کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس نے ۴ ستمبر کو ’عالمی یومِ حجاب‘ قرار دے کر، مسلم خواتین کو اس پر منظم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
فرانس میں اس پابندی کا سامنا کرنے والی مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکومت کی یہ سیاسی حکمت ِعملی ہے اور مسلمانوں کو دباؤ میں رکھنے پر سارے فرانسیسی ہمیشہ متحد ہوتے ہیں، ان میں رواداری کے تمامتر دعووں کے باوجود مذہبی تعصب پوری شدت سے پایا جاتا ہے۔ فرانس کے اصل باشندے اپنے بارے میں خود پسندی کا شکار ہیں اوراپنے سے مخالف تہذیب کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ فرانس میں ہی پیدا ہونے والی ایک مسلم خاتون کرسٹل وش کا کہنا ہے کہ میں اس پر بالکل حیران نہیں کیونکہ ایسا کرنا فرانسیسی ذہنیت کا حصہ ہے، البتہ دکھی ضرور ہوں کہ وہ کیا اس حد تک بھی جاسکتے ہیں؟!ان کا کہنا ہے کہ
’’میں ابلاغیات کی طالبہ رہی ہوں او ر میرے حجاب ونقاب نے کسی مقام پر میرے لئے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ ہمارا معاشرتی رابطہ بھی مستحکم ہے اور یہ بات درست نہیں کہ رابطے کے لئے چہرہ کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔ بعض مسلمان عورتیں اپنا سر اورمنہ ننگا رکھتی ہیں، یہ ان کا ذاتی فعل ہے او رمجھے افسوس ہے کہ ہم تمام مسلمان دین پر عمل کرنے میں ایک جیسے کیوں نہیں۔ تاہم یہ کہنا کہ ہمارے دین اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے، یہ دعویٰ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہمارے نبی کی ازواجِ مطہراتؓ اپنے آپ پر پورا ایسا ہی لباس پہنتی تھیں اور خود کو پوری طرح ڈھانپ کر رکھتی تھیں ۔
اُنہوں نے مزید کہاکہ حضرت عیسیٰ کی والدہ حضرت مریم ؑ بھی پردہ کر تی تھیں اور میں نے ایسی کوئی تصویر نہیں دیکھی جس میں وہ نقاب سے نہ ہوں۔ اگر فرانس میں یہ قانون پاس ہوگیا کہ نقاب کرنا منع ہے تو میں اس پر کیسے عمل کروں گی؟ میں ۱۲ سال سے پردہ کررہی ہوں اور یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ فرانسیسی جو عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، مسلم خاتون کے ساتھ یہ جبر روا رکھیں گے۔ ہر عورت کو اپنی پسند اور مذہب کے مطابق لباس پہننے کی آزادی حاصل ہے اور میں نے بے نقاب نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر مجھے بے نقاب ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ آزادی تو نہ ہوئی۔ اگر ہمیں جرمانے ادا کرنے کو کہا جاتا ہے تو ہم جرمانے نہیں دیں گے، کیونکہ کسی کو اپنی پسند کا لباس پہننے سے روکنا یورپی قانون کے سراسر خلاف ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا، کیونکہ ہم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو غلط ہو۔‘‘
(بی بی سی:۲۳ جنوری ۲۰۱۰ئ)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
حجاب پر فرانس کی اس پابندی کو لادین حلقے بھی ناگوار سمجھتے ہیں۔ بی بی سی جو اپنے لبرل اورمتعصب تبصروں کی بنا پر مشہور ہے، کے ہندو تبصرہ نگار انور سن رائے نے ۲۷؍جنوری ۲۰۱۰ء کو اسے ’فرانس کی لبرل جارحیت‘ سے تعبیر کیا۔ بی بی سی کا تبصرہ نگار طالبان کے خلاف اپنے تعصب کے اظہار کے ساتھ اس صورتحال پر یوں رائے زنی کرتا ہے :
’’ایران اور افغانستان میں جو کچھ اسلام کے نام پر ہوا، وہ فرانس میں ثقافت کے نام پر کیا جارہا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نقاب اُتروانے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کرنے والوں کو برقعہ ، چادر اور حجاب پہننانے کے لئے طاقت استعمال کرنے والوں سے الگ کیسے کیا جائے۔ وہ اگر اسلامی شدت پسند ہیں تو یہ لبرل شدت پسند۔ اگر ہم اس پر کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم فرانس کے زوال اور انفرادی آزادی کی موت پر گریہ تو کرہی سکتے ہیں!!‘‘
ایسا ہی تبصرہ عاصمہ جہانگیر کے ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کی عہدیدار حنا جیلانی نے بھی کیا او رحجاب پر پابندی کو ناروا اور خواتین کی آزادی کے مخالف قرار دیا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
مسلم ممالک کی صورتحال
افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک طرف مغربی ممالک کو اسلامی شعائر سے شدید خوف کا سامنا ہے اور وہ اسے اپنی لبرل معاشرت کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں تو ان مغربی ممالک کی تقلید میں چلنے والے مسلم حکمران بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں۔
c۲۰۰۳ء میں فرانس میں منظور ہونے والے اس قانون سے تقویت پکڑتے ہوئے ترکی میں بھی حجاب پر پابندی کی توثیق کی گئی جب کہ سیکولر ملک ہونے کے ناطے ترکی میں پہلے سے ہی یونیورسٹیوں اور سرکاری عمارتوں میں حجاب سکارف لینے پر پابندی عائد ہے۔ ۱۹۹۸ء میں استنبول یونیورسٹی کی طالبہ لیلیٰ ساہن نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کیا تھا کہ حجاب پر پابندی کے بعد کالج میں داخل نہ ہونے سے اس کا حق تعلیم متاثر ہوتا ہے او ر وہ امتیاز کا نشانہ بنتی ہے، لیکن یورپی عدالت نے فرانس میں قانون آجانے کے بعد ۱۰؍نومبر ۲۰۰۵ء کو اپنی رولنگ میں یہ قرار دیا کہ سکارف پر استنبول یونیورسٹی کا رویہ بجا ہے، کیونکہ سکارف کی اجازت کسی ایک مذہب کو ترجیح دینے کی بات ہے ، اور اس پر پابندی لگانا امن کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
یاد رہے کہ ترکی میں حجاب پر پابندی اس وقت سے نافذ ہے جب سے یہاں مصطفی کمال اتاتر ک نے سیکولر دستور نافذکیا تھا، اس سیکولر ازم کی ترک فوج اور عدلیہ ہمیشہ سے نگران اور محافظ رہی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں طیب اردگان اور عبد اللہ گل کی حکومت میں سکارف کو پبلک مقامات پر جائز قرار دلوانے کی کوشش کی گئی اور موجودہ ترک صدر عبداللہ گل کی اہلیہ پارلیمنٹ کی تقریب میں حجاب پہن کر شریک ہوئیں تو اس پر ترکی میں اس فعل پر شدید مباحثہ شروع ہوگیا جس پر عبد اللہ گل کو نااہلی کا خدشہ لاحق ہوا تاہم سیکولر عدلیہ نے اس صورتحال پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ فکر مندی کا لمحہ یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک مثلاً فرانس وغیرہ کی عدلیہ حجاب پر پابندی کو ناپسندیدہ قرار دیتی ہے، جبکہ مسلم ممالک کی عدلیہ حجاب کی اجازت کو ناگوار خیال کرتی ہے!!
ایسی ہی صورتحال کا مسلم خواتین کو تیونس میں بھی سامنا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں تیونس میں یہ قانون پاس کیا گیا تھا کہ عوامی مقامات سکولوں اور سرکاری دفاتر میں حجاب پہننے کی ممانعت ہوگی، ایسی خواتین سرکاری ملازمت اور سرکاری علاج کی سہولت حاصل نہ کرسکیں گی۔ فرانس کے ۲۰۰۳ء کے فیصلے کے بعد تیونسی حکمرانوں نے اس پابندی کو زور وشور سے نافذ کرنے کی مہم شروع کردی اور ۲۰۰۶ء میں پبلک مقامات پر سکارف پہننے والی مسلم خواتین کو دھرلیا جاتا، اور آئندہ اس جرم کو نہ کرنے کا تحریری حلف لے کر ہی ان کو جانے کی اجازت دی جاتی۔ تیونسی صدر زین العابدین کا اِلزام ہے کہ حجاب سنی مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے کالباس ہے جو تیونس میں باہر سے آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلامی جماعتیں حجاب وسکارف کو اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
ان مسلم ممالک میں حجاب پر پابندی سے یورپی حکومتیں اپنے لئے تائید حاصل کرتی ہیں۔ جو مسلم عورتیں اسلامی تقاضوں کے عین برعکس حجاب نہیں پہنتیں، ان کوبے جا اُبھارا جاتا ہے۔ چنانچہ ستمبر ۲۰۰۳ء میں فرانس میں پابندی عائد کرنے سے ۴ روز قبل فرانس کے صدر نے تیونس کا پانچ روزہ دورہ کیا او رفرانسیسی اخبارات میں ’بے حجاب تیونس‘ کے نام سے مکمل صفحات مختص کرکے اُنہیں بڑے پیمانے پر فرانس میں مفت تقسیم کیا گیا۔افسوس کہ مسلمانوں کا اپنا کردار اسلام کے لئے شرمناک بن چکا ہے۔
cبنگلہ دیش میں بھی کچھ عرصہ قبل عدالت ِعظمیٰ اپنے فیصلے میں نقا ب پرپابندی کی تلقین کر چکی ہے۔ اس فیصلے کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے پاکستان میں جسٹس ناصرہ جاوید اقبال نے،جو شاعر مشرق علامہ اقبال کی بہو ہیں، مارچ ۲۰۱۰ء میں یہ’ ارشاد فرمایا‘ ہے کہ پاکستان میں بھی برقعہ پرپابندی ہونی چاہئے۔ یوں تواُنہوں نے ا سے مشرقِ وسطیٰ سے درآمد کا طعنہ دیا ہے، لیکن یورپ میں نقاب پر جاری بحث مباحثہ کے تناظر میں ان کے بیان کی معنویت بالکل واضح ہے۔ ان کی اس ہزرہ سرائی پر اخبارات میں کافی بیانات شائع ہوچکے ہیں۔ ازبکستان میں بھی نقاب پہننے والی خواتین اور داڑھی والے مسلمان مردوں کو انتہاپسند قرار دے کر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ خلیجی ملک کویت میں بھی ۲۰۰۵ء سے نقاب پہن کرڈرائیونگ پر پابندی عائد ہے جبکہ کویت یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں خواتین کیلئے سر ڈھانپنا بھی قانوناً ممنوع ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا جارہا ہے؟اس کے پیچھے درحقیقت کیا عوامل کارفرما ہیں اور اس سے مستقبل میں اسلام اور یورپ کے مابین تعلقات پر کیا اثر پڑے گا…
اہل مغرب کے اس رویے کے پس پردہ دراصل اسلام کا خوف پوشیدہ ہے، جو حقائق سے بڑھ کر وہاں کے متعصب میڈیا کا پھیلایا ہوا ہے۔ اس ابلاغی پروپیگنڈہ کی قیادت یہودی کررہے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے اسلام اور ملت ِاسلامیہ کے خلاف مغرب کو جمع ومتحد کیا جائے۔ امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں اپنے اور یورپی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے میڈیا میں اسلام کے خلاف ابلاغی جنگ شروع کی ہوتی ہے جس میں مسلمانوں کو تہذیب وتمدن سے نابلد اور اُجڈ و گنوار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
نائن الیون کے بعد کے سالوں میں تدریجا ً یورپی اقوام میں اسلام کے بارے میں پائی جانے والی یہ حساسیت مغربی میڈیا کا اپنا کیا دھرا ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ سوئٹرز لینڈ میں ۴۰ ہزار مسلمانوں کے لئے میناروں والی محض تین مساجد، بلجیم میں ۶ لاکھ میں سے یک صدنقاب لینے والی خواتین، فرانس کے ۶۰ لاکھ مسلمانوں میں سے صرف ۲ ہزار منہ ڈھانپنے والی مسلمان عورتیں؛ کوئی ایسی تعداد نہیں جس پر خوف کا شکار ہوا جائے اور اس کے لئے منظم پیش قدمی اور ٹھوس قانون سازی شروع کردی جائے۔
اس خوف کو اس وقت مزید ہوا دی گئی جب امریکہ جیسی نام نہاد سپرپاور کو عراق وافغانستان میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ظالمانہ جارحیت اور ہلاکت وبربریت کے بدترین مظاہرے کے بعد مسلمانوں کا امریکی افواج کو قدم نہ جمانے دینا ان کو شدیدخوف میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا۔ اس سلسلے میں بعض امریکی دانشوروں نے اسلامی دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرنے میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے اُمور کا متعصب یہودی ماہر برنارڈ لیوس، جو بش کابینہ کا مشیر بھی رہا ہے، اس نے عراق جنگ میں امریکہ کی ناکامی کے بعد اہل یورپ کو ملامت کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ اسلام کے ہاتھوں تحقیر کا ذریعہ بن چکے ہیں، جمہوری حقائق کے نام پر اہل یورپ کثیر تہذیبی دوڑ میں پھنس چکے ہیں۔‘‘ اس نے الزام لگایا کہ اس صورتحال میں اہل مغرب وفاداریاں کھورہے ہیں اور اعتماد کی کمی کے باعث اپنی تہذیب سے برگشتہ ہورہے ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
توہین آمیز خاکوں کے مکروہ منصوبے کے خالق مشہور امریکی یہودی ڈینیل پائپس نے بھی اس خوف کو پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے اہل مغرب کو خبردار کرتے ہوئے اپنے مضمون کو عنوان دیا ہے:
’’ خبردار مسلمان آرہے ہیں!‘‘
اس نے اہل یورپ میں تعصب پیدا کرتے ہوئے اُنہیں راہ سجھائی کہ
’’یورپ کا معاشرہ وسیع پیمانے پر ایشیائی لوگوں کی ہجرت کے لئے تیار نہیں ہے، ان تارکین وطن میں مسلمان سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
جارج ٹاؤن یونیورسٹی، واشنگٹن کا اُستاد جان ایل اسپوزیٹو لکھتا ہے کہ
’’جدید دور کے پیشین گوئی کرنے والے ماہر نجوم کہہ رہے ہیں کہ کچھ ہی دہائیوں میں پورے یورپ پر اسلام کی حکومت ہوگی، اور اس صدی کے آخر تک یورپ سے یُورَیْ ـبِیا (یورپ اور عرب کی مشترکہ حکومت کا نام) کی حکومت قائم ہوچکی ہو گی۔ میڈیا، سیاسی مبصرین اور رہنمائوں نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کو اسلامی دہشت گردی بآسانی ہدف بنا سکتی ہے۔ یہ ایک ظاہر وباہر حقیقت ہے کہ مسلمان مخلوط یورپی قوم کا حصہ ہیں، اسلام اب یورپ کا مذہب ہے۔ حقیقت میں اسلام اب بعض یورپی ممالک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے جس کے ماننے والے اب اوّل اور ثانوی درجے کی یورپی شہریتیں بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ‘‘
مغربی اِداروں کے پیش کردہ اَعداد وشمار کے مطابق اسلام اس وقت مغرب کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور ۲۰۵۰ء میں اس کے پہلے بڑے مغربی مذہب ہونے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ ان حالات میں اہل یورپ کا خوف اور ان کے مظالم اُنہیں اسلام کے خلاف سنگین جارحیت پر آمادہ کرتے ہیں۔ یورپ کے مختلف ممالک کی سیاسی تنظیمیں مثلاً ڈنمارک پیپلز پارٹی، آسٹرین فریڈم پارٹی، ہنگارین جابک پارٹی، برطانوی نیشنل پارٹی، گریٹ وائل کی فریڈم پارٹی نے یورپ میں مختلف انتخابات کے دوران مسلمانوں کی مذہبی رسومات اور اسلامی شعائر کے خلاف پابندی کی کھلے عام تحریک چلائی ہے۔ حتی کہ ہالینڈ میں وائلڈر کی اینٹی فریڈم مسلم پارٹی نے تو یہاں تک دبائو ڈالا ہے کہ
’’ مسلمانوں کی یورپ سے بے دخلی بے حد ضروری ہے، اور ہالینڈ سمیت یورپ کے لوگوں کو اسلام کے بڑھتے اثرورسوخ کے خلاف اپنے ووٹ کی قوت کو استعمال کرنا چاہئے۔ ‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
اسلامی قوت کے ان دعوؤں کا مقصد یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور اس چشمہ صافی کو منہ زو ردھارا بننے سے قبل ہی بند کردیا جائے۔یورپی حکومتوں کے حالیہ انسدادی اورقانونی اقدامات اسی رویے کا مظہرہیں۔
الغرض مغرب کی اسلامی شعائر کے خلاف مہم کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو آغاز میں ہی دبانے کے لئے اس کا خودساختہ خوف پیدا کرکے یورپی عوام کو اس کے مقابل مجتمع کیا جائے، اسطرح سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغربی دنیا کو اسلام کے مقابلے میں متحد کیا جارہا ہے۔
اہل یورپ کے اسلام کے خلاف جارحانہ اقدامات کی وجہ ان کی خودپسندی بھی ہے۔ یورپ میں ایسی سیاسی پارٹیاں بھی موجود ہیں جن کاایجنڈا مسلمانوں کو یورپ سے نکال باہر کرنا ہے۔ یہ لوگ اسلام سمیت دیگر تمام نظریات کے بارے میں شدید تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ فرانس کے وزیر تعلیم کلوڈا لاجر کا کہنا ہے کہ ’’سیکولرزم ہمارا اِعزاز وافتخار ہے، اسلام کے ماننے والوں کو اسے اختیار کرنا ہی ہوگا۔ ایسے کبھی نہیں ہوگا کہ اسلام کے لئے سیکولرزم کو تبدیل کردیا جائے، بلکہ اسلام کو ہی بدلنا ہوگا۔‘‘ جب فرانس میںایک عورت مسلمان خاتون کا سرعام نقاب کھینچ کر اسے جہنم کا سفیر قرار دیتی ہے، تو یہ اس کے شدید متعصب اور خودپسند ہونے کا نتیجہ ہے
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
فرانس کا سابق صدر شیراک کہتا ہے کہ
’’مکمل سیکولر حکومت طالبات کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ کھلم کھلا اپنے ہدایت یافتہ ہونے کا اعلان کرتی پھریں، حجاب میں جارحیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘
یورپی مفکرین کو اس امرکا شدید احساس ہے کہ مسلمان ان کی ثقافت کو کھلم کھلا قبول نہیں کرتے اور اپنے دین سے تعلق منقطع نہیں کرتے۔ان حالات میں مسلمانوں کو متعصب اور گنوار ثابت کرنے کے لئے بعض یورپی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف منظم جارحیت کا منصوبہ تشکیل دیتی ہیں اور اس جارحیت کے جواب میں مسلمانوں کے جوابی ردّعمل کو میڈیا کے بل بوتے پر بڑے پیمانے پر پھیلایا جاتا ہے۔یورپی عوام اصل جارح کو بھول کر جوابی مزاحمت کرنے والوں کو متشدد اورانتہا پسند قرار دے دیتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر واقعے کی توجیہ اور اس کے ردّعمل کو رپورٹ کرنے والا مغربی میڈیا ہے جو اس سے مطلب کی بات کشید کرکے مخصوص ذہنیت پروان چڑھاتا ہے جبکہ مسلم اُمہ کے مصائب ومشکلات اور موقف کی ترجمانی کرنے والا میڈیا سرے سے موجود ہی نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم ہو یا اس کا دفاع، ہردوصورت میں مسلمان ہی ظالم ٹھہرتاہے، کیونکہ اس واقعہ کی تعبیر یا زبان غیرمسلم کے پاس ہے۔ دو برس قبل سویڈن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تصویری خاکوں کے پس پردہ ایک سیاسی پارٹی کا یہی مذموم مقصد کارفرما تھا کہ اس ردّعمل سے مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جائے۔ حال ہی میں ایک سویڈش سیاسی رہنما کے انکشاف کے بعد اس معاملے کی سویڈن میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
 
Top