عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
فرانس حقوقِ نسواں کا اَن تھک علم بردار ہے، لیکن مسلم خواتین پر یہ جبر اس کی حکومت کے لئے کسی فکر مندی کا باعث نہیں بنتا۔ البتہ فرنچ حکام کے لئے یہ امر باعث ِتشویش ہے کہ کوئی بھی برقعہ پوش خاتون اسے اپنے اوپر مردوں کا جبر قرار دینے کی بجائے اللہ کے احکام کا تقاضا باور کرتی ہے۔ یہ خواتین اسے اختیاری یا اخلاقی رویہ قرار دینے کی بجائے شریعت ِاسلامیہ کا براہِ راست مطالبہ سمجھتی ہیں۔ ان مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ ’یورپی کونسل برائے ہیومن رائٹس‘ کے قوانین بھی ان کو مذہبی تقاضوں کے مطابق ہر لباس پہننے کی آزادی فراہم کرتے ہیں۔
فرانس میں اس قانون سازی سے قبل سرکاری گرفت کا خوف پیدا کرنے اور مسلمانوں کا رد عمل جاننے کے لئے ۲۴؍اپریل کو ایک برقعہ پوش خاتون کو ٹریفک پولیس نے پکڑ لیا اور اُنہیں روڈ سیفٹی کے نام پر ۲۲یورو جرمانہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک فرانس میں چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت پر کوئی قانون بھی موجود نہیں تھا۔
فرانس میں اس حوالے سے سماجی تنائو اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء کو فرانس میں خواتین ملبوسات کی ایک دکان میں باحجاب مسلم خاتون سے ایک فرانسیسی خاتون وکیل کھلم کھلا اُلجھ پڑی۔ مسلم خاتون کے شوہر کی موجودگی کے باوجود فرانسیسی خاتون وکیل نے عورت کے چہرے سے نقاب کھینچ ڈالا اور اسے ’جہنم کی سفیر‘ کا نام دیتے ہوئے کئی فحش گالیاں بکیں۔ عوام کی دخل اندازی سے مسلمان عورت کو چھڑایا گیا اور معاملہ پولیس نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس سے فرانس میں ا س بارے شدید تناؤ کی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
واضح رہے کہ برقعہ پر پابندی کے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر فرانس کی آئینی عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر نظر ثانی کی تلقین کی۔ عدالت نے کہا ہے کہ ’یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس‘ کے چارٹر میں لوگوں کو مرضی کا لباس پہننے کا حق دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں فرانس کی یہ آئینی عدالت بھی اسی طرح حکومت کو متنبہ کرچکی ہے، لیکن آخر کار اس کا کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ اس عدالت کا رویہ دوہرا ہے، ایک طرف سٹیٹ کونسل نے پیش کردہ قرار داد کو جس کے حق میں ایوان میں ۴۳۴ ووٹ پڑے ہیں، غیرآئینی قرار دینے کا اِمکان ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا اقدام فرنچ آئین اور ’انسانی حقوق کے یورپی کنونشن‘ کے مخالف ہوسکتا ہے تو دوسری طرف پبلک مقامات پر نقاب کو سیکورٹی وجوہات او ردھوکہ دہی کے خاتمے کے لئے درست قرار دیے جانے کا بھی امکان پیش کیا ہے۔
فرانس میں جاری نقاب پر اس بحث مباحثہ نے برطانیہ میں ا س موضوع کو ماضی کی طرح دوبارہ تازہ کردیا ہے۔ فروری ۲۰۱۰ء میں برطانیہ میں کئے جانے والے ایک سروے میں قرار دیا گیا کہ ایک تہائی برطانوی نقاب پر پابندی عائد کروانا چاہتے ہیں۔ یوکے انڈیپنڈنٹ پارٹی نے اس پابندی کی کھلم کھلا حمایت کی اور ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ برقعہ او رحجاب آزادی اور جمہوریت کے مخالف ہیں اور ہمارے کلچر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ اگر یورپی عورتیں برہنہ اور عریاں ہونے کو بے تاب ہوتی ہیں تو اس وقت کوئی قانون ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتا او رہم اس پر اعتراض نہیں کرتیں تو پھر اپنی توقیر ، وقار او رلوگوں کی ہوسناک نظروں سے بچنے کے لئے ہمارا حجاب و نقاب استعمال کرنے کا حق کیوں چھینا جارہا ہے؟ برطانیہ میں نقاب کے بارے میں شدت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ گذشتہ ماہ لیسٹر میں ریحانہ سدات نامی ایک راہ چلتی مسلم خاتون کا نقاب ایک برطانوی نوجوان نے نوچ لیا جس پر عدالت نے نوجوان کو ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا ۔
حجاب کے خلاف اس دیوانہ وار مہم میں یورپ کے ساتھ کھیلوں کے عالمی ادارے بھی شریک ہیں۔ چنانچہ ایران کی خواتین فٹ بال ٹیم(جو سرڈھانپ کر کھیل میں شریک ہوتی ہے) کے خلاف انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اور فیفا انٹرنیشنل نے اپریل ۲۰۱۰ء میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ سرڈھانپنے والی خواتین پر مشتمل ٹیم کو کسی ایونٹ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پر ایران نے او آئی سی اور مسلم ممالک کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کہ وہ کھیلوں کی ان عالمی تنظیموں کے خلاف اپنا دبائو ڈالیں تاکہ وہ اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوں۔
فرانس میں اس قانون سازی سے قبل سرکاری گرفت کا خوف پیدا کرنے اور مسلمانوں کا رد عمل جاننے کے لئے ۲۴؍اپریل کو ایک برقعہ پوش خاتون کو ٹریفک پولیس نے پکڑ لیا اور اُنہیں روڈ سیفٹی کے نام پر ۲۲یورو جرمانہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک فرانس میں چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت پر کوئی قانون بھی موجود نہیں تھا۔
فرانس میں اس حوالے سے سماجی تنائو اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ۱۹ مئی ۲۰۱۰ء کو فرانس میں خواتین ملبوسات کی ایک دکان میں باحجاب مسلم خاتون سے ایک فرانسیسی خاتون وکیل کھلم کھلا اُلجھ پڑی۔ مسلم خاتون کے شوہر کی موجودگی کے باوجود فرانسیسی خاتون وکیل نے عورت کے چہرے سے نقاب کھینچ ڈالا اور اسے ’جہنم کی سفیر‘ کا نام دیتے ہوئے کئی فحش گالیاں بکیں۔ عوام کی دخل اندازی سے مسلمان عورت کو چھڑایا گیا اور معاملہ پولیس نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس سے فرانس میں ا س بارے شدید تناؤ کی کیفیت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
واضح رہے کہ برقعہ پر پابندی کے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر فرانس کی آئینی عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر نظر ثانی کی تلقین کی۔ عدالت نے کہا ہے کہ ’یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس‘ کے چارٹر میں لوگوں کو مرضی کا لباس پہننے کا حق دیا گیا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں فرانس کی یہ آئینی عدالت بھی اسی طرح حکومت کو متنبہ کرچکی ہے، لیکن آخر کار اس کا کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ اس عدالت کا رویہ دوہرا ہے، ایک طرف سٹیٹ کونسل نے پیش کردہ قرار داد کو جس کے حق میں ایوان میں ۴۳۴ ووٹ پڑے ہیں، غیرآئینی قرار دینے کا اِمکان ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا اقدام فرنچ آئین اور ’انسانی حقوق کے یورپی کنونشن‘ کے مخالف ہوسکتا ہے تو دوسری طرف پبلک مقامات پر نقاب کو سیکورٹی وجوہات او ردھوکہ دہی کے خاتمے کے لئے درست قرار دیے جانے کا بھی امکان پیش کیا ہے۔
فرانس میں جاری نقاب پر اس بحث مباحثہ نے برطانیہ میں ا س موضوع کو ماضی کی طرح دوبارہ تازہ کردیا ہے۔ فروری ۲۰۱۰ء میں برطانیہ میں کئے جانے والے ایک سروے میں قرار دیا گیا کہ ایک تہائی برطانوی نقاب پر پابندی عائد کروانا چاہتے ہیں۔ یوکے انڈیپنڈنٹ پارٹی نے اس پابندی کی کھلم کھلا حمایت کی اور ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ برقعہ او رحجاب آزادی اور جمہوریت کے مخالف ہیں اور ہمارے کلچر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ اگر یورپی عورتیں برہنہ اور عریاں ہونے کو بے تاب ہوتی ہیں تو اس وقت کوئی قانون ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتا او رہم اس پر اعتراض نہیں کرتیں تو پھر اپنی توقیر ، وقار او رلوگوں کی ہوسناک نظروں سے بچنے کے لئے ہمارا حجاب و نقاب استعمال کرنے کا حق کیوں چھینا جارہا ہے؟ برطانیہ میں نقاب کے بارے میں شدت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ گذشتہ ماہ لیسٹر میں ریحانہ سدات نامی ایک راہ چلتی مسلم خاتون کا نقاب ایک برطانوی نوجوان نے نوچ لیا جس پر عدالت نے نوجوان کو ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا ۔
حجاب کے خلاف اس دیوانہ وار مہم میں یورپ کے ساتھ کھیلوں کے عالمی ادارے بھی شریک ہیں۔ چنانچہ ایران کی خواتین فٹ بال ٹیم(جو سرڈھانپ کر کھیل میں شریک ہوتی ہے) کے خلاف انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اور فیفا انٹرنیشنل نے اپریل ۲۰۱۰ء میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ سرڈھانپنے والی خواتین پر مشتمل ٹیم کو کسی ایونٹ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پر ایران نے او آئی سی اور مسلم ممالک کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کہ وہ کھیلوں کی ان عالمی تنظیموں کے خلاف اپنا دبائو ڈالیں تاکہ وہ اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوں۔