عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
یورپ کے حجاب ونقاب پر پابندی اور اسلامی شعائر کی تضحیک کے تناظر میں ایک اور حقیقت بھی نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ یورپ میں مسلم تارکین وطن کے حالات پر نظر رکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ دیگر مذاہب واقوام کے بالمقابل مسلمان اپنے مذہبی رویوں میں زیادہ حساس اور محتاط ہیں۔ مسلم تارکین وطن عام یورپی معاشرہ میں گھلنے ملنے کی بجائے ہر مقام پر باہمی روابط کو فروغ دیتے اور اپنے مذہب وکلچر کو پروان چڑھاتے ہیں۔ دنیوی مفادات کے حصول کے لئے اُنہوں نے یورپ کا تو ضرور رخ کیا ہے، لیکن اپنے مذہب کے معاملے میں ان کی حساسیت بعض صورتوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمان دین سے دوری کے خلجان میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اس بنا پراہل یورپ کو انہیں اپنے کلچر میں جذب کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کا اپنے تشخص پر اصرار اور معاشرتی کشمکش، اسلام کے خلاف اہل یورپ کو جارحیت کی راہ دکھاتی ہے۔ آئرلینڈ کی ایک محققہ سائیو بھان مکفی اپنی تحقیق کا خلاصہ یوں پیش کرتی ہے کہ
’’تمام مسلمانوں کا یہ متفقہ موقف ہے کہ عقیدہ ان کی شناخت کی روح ہے، مسلمانوں کا یہ موقف اُنہیں دیگر یورپی تارکین وطن سے بہت حد تک جدا کردیتا ہے… اکثر مسلمان اقلیتیں اپنے آپ کو دائمی غیرملکی تصور کرتی ہیں جو معاشرے کے خاص دائرے یا یورپی معاشرے سے الگ تھلگ زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ تمام مسلمانوں کے مابین ایک ایسا رشتہ پایا جاتا ہے جو قومیت یا نسل کی بجائے مذہب کی بنا پر استوار ہوتا ہے اور یہ ایک قوی ترین تعلق ہے۔
ایک مسلمان کی لازمی شناخت اس کا مذہب ہوتا ہے کیونکہ انجام کار ان کے ہاں کوئی بھی چیز اس جیسی اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کی علاقائی ثقافتوں کے تنوع کے باوجود ایمان کی روح اور اسلامی تقاضے اُنہیں ہر مقام پریکجا کردیتے ہیں۔ دار الحرب (کافرانہ حکومتوں) میں رہتے ہوئے بھی مسلمان اپنے ساتھیوں کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تمام سرحدوں سے بالا تر ہوکر اپنے مذہبی تعلق کو برقرار رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور فرمان ہے کہ
’’تمام مسلمانوں کا یہ متفقہ موقف ہے کہ عقیدہ ان کی شناخت کی روح ہے، مسلمانوں کا یہ موقف اُنہیں دیگر یورپی تارکین وطن سے بہت حد تک جدا کردیتا ہے… اکثر مسلمان اقلیتیں اپنے آپ کو دائمی غیرملکی تصور کرتی ہیں جو معاشرے کے خاص دائرے یا یورپی معاشرے سے الگ تھلگ زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ تمام مسلمانوں کے مابین ایک ایسا رشتہ پایا جاتا ہے جو قومیت یا نسل کی بجائے مذہب کی بنا پر استوار ہوتا ہے اور یہ ایک قوی ترین تعلق ہے۔
ایک مسلمان کی لازمی شناخت اس کا مذہب ہوتا ہے کیونکہ انجام کار ان کے ہاں کوئی بھی چیز اس جیسی اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کی علاقائی ثقافتوں کے تنوع کے باوجود ایمان کی روح اور اسلامی تقاضے اُنہیں ہر مقام پریکجا کردیتے ہیں۔ دار الحرب (کافرانہ حکومتوں) میں رہتے ہوئے بھی مسلمان اپنے ساتھیوں کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور تمام سرحدوں سے بالا تر ہوکر اپنے مذہبی تعلق کو برقرار رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور فرمان ہے کہ
’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگرجسم کا کوئی ایک حصہ بیماری سے متاثر ہوتا ہے تو اس کی بنا پر سارا جسم تکلیف اور بے خوابی کا شکارہوجاتا ہے۔‘‘