- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
عزیز بھائی! نہ جانے کیوں آپ کی ہر پوسٹ کا ٹمپریچر ہائی سے ہائی تر ہوتا جا رہا ہے۔ ذرا اوپر اپنے اقبتاس میں ہائی لائٹ کردہ سرخ الفاظ پر غور کیجئے، حتی کہ قرآن میں تحریف اور اس کو بدلنے کا الزام لگاتے ہوئے بھی آپ کا قلم نہیں کانپا!بھائی جان آپ کو ایک ہی بات پر میرا یہ تیسرا مراسلہ ہے ! طبری کی عبارت سے آیت قرآنی اور آیت قرانی سے میرے تضاد تک آنے کا شکریہ۔ امام طبری کی عبارت سے آپ کے محقق نے جو سلوک کیا تھا وہ تو آپ دیکھ ہی چکے ، اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے
یہ آیات کا ترجمہ دیکھیں، تضاد یا جو بھی اور توجیہہ کر لیں اور سر دھنیں کہ کس طرح ترجمہ قرآن تک کو اپنا مطلب نکالنے کے لیے بے دریغ استعمالا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ سب بھائی ذرا پہلی آیت اور باقی آیات میں لفظ "اولیاء" کے (علوی صاحب کے دست مبارک سے کیے گئے) ترجمے پر نظر رکھیں جنہیں ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔::
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ)(المائدة : ٥١)
'' اے اہل ایمان! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ' وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میںسے ان سے دوستی رکھے گا تو وہ بھی انہی میں سے ہے ۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب باقی آیات :
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَخَّذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَائَ) (المائدة : ٥٧)
'' اے اہل ایمان! نہ تم ان کافروں اور اہل کتاب کو قلبی دوست بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل تماشہ بنا لیا۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَائَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مُّبِیْنًا) (النساء : ١٤٤)
''اے اہل ایمان! تم اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو قلبی دوست نہ بناؤ۔کیا تم چاہتے ہو کہ تم اللہ کے لیے اپنے خلاف کوئی واضح دلیل بناؤ۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا آبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانُکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ) (التوبة: ٢٣)'
'اے اہل ایمان! اپنے آباء و اجدار اور بھائیوں کو قلبی دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر ترجیح دیں۔ اور جو کوئی تم میں سے ان سے تعلق ولایت رکھے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔''
لنک یہ رہا::http://www.kitabosunnat.com/forum/یونیکوڈ-119/توحید-حاکمیت-اور-فاسق-وظالم-حکمرانوں-کی-تکفیر-726/index2.html#post3607
اور یہاں قرآنی تراجم موجود ہیں ، تسلی کرتے جائیں : openburhan.com
محترم بھائی ! اول تو آپ ترجمے کے اس عدیم النظیر نمونے کی تائید میں کہیں سے کسی کونے کھدرے سے کوئی دلیل لائیں، کوئی مفسر مترجم محقق مدقق ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تو ہو !! ہاں البتہ اس "فنامنا" کی نظیر اعلیٰ حضرت احمد رضاخان صاحب بریلوی اور طاہر القادری کے ہاں ملتی ہے کہ ایک ہی لفظ کا ترجمہ دو جگہوں پر مختلف کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صاف نظر آتا ہے کہ اپنی مطلب براری مقصود ہے اور کوئی بات نہیں !!
اور دوم اولیاء اور ولی کا ترجمہ اپنے حسب منشاء کرنے پر صرف اقبال کا ایک شعر کہ:
خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ کو اعتراض ہے کہ اولیاء کا ترجمہ صرف دوستی کی بجائے قلبی دوستی کیوں کیا گیا ہے؟ اگر آپ میری پہلی پوسٹ پر ہی اعتراض برائے اعتراض والی نظر ڈالنے کی بجائے غور کرلیتے تو آپ کے سامنے بات واضح ہوجاتی۔ میں نے عرض کیا تھا۔
میری اس پوسٹ کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا:
اسی پر میں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ آپ کے اقتباس کے پہلے حصے سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ کو تسلیم ہے کہ سورۃ آل عمران میں دلی دوستی ہی مراد ہے۔ اور آپ قاعدہ القرآن يفسر بعضه بعضا کو بھی مانتے ہیں۔ گویا جب سورہ آل عمران میں معنیٰ ’دلی دوستی‘ ہے تو دیگر آیات میں اولیاء کا معنی ’دلی دوستی‘ ہی ہوگا۔جناب شاید آپ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ پوائنٹ امام طبری کی عبارت کے ترجمے پر اٹھایا گیا ہے ، نہ کہ نص قرانی کے ترجمے پر جس کے لیے آپ "یفسر بعضہ بعضا" کی بات کریں۔ ((ویسے آیت کا ترجمہ بھی تمام مترجم " یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ" ہی کرتے ہیں نہ کہ "یہود و نصاریٰ کو "قلبی دوست" نہ بناؤ" !! ))
امام صاحب رحمہ اللہ نے مطلقا لفظ "یوالی" بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے "قلبی دوستی" کہنا درست نہیں اس لیے کہ ساتھ ہی وہ اس کا خارجی سبب بھی بتا رہے ہیں کہ زمانے کی گردشوں کا خوف اس کا سبب بنا!
"ڈر کی دوستی" کیسے "قلبی دوستی" ہو سکتی ہے؟اس کا فیصلہ خود کر لیجئے گا۔ ساتھ ہی ترجمان سلف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت بھی دوبارہ دیکھ لیجئے گا جو اسی واسطے پیش کی تھی کہ اس میں اس دوستی کا حال بیان کیا گیا تھا ! جزک اللہ خیرا۔
لیکن اقبتاس کے اگلے حصے میں آپ اس سب سے یکسر انکار بھی کر دیتے ہیں۔ یا للعجب! محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا ذہن اس سلسلے میں کلیئر نہیں ہے۔
ازراہِ کرم آپ اپنا موقف واضح کریں کہ کیا آپ کے نزدیک ان قرآنی آیات میں اولیاء کا مطلب دلی دوستی نہیں کیا جا سکتا؟؟؟
اگر نہیں تو پھر سورۃ آل عمران کی آیت کریمہ اور قاعدہ القرآن يفسر بعضه بعضا کا کیا کریں؟؟؟
اسی ولایت (دوستی) کی وضاحت سورۃ المجادلۃ میں ودّ (دلی محبت) سے کی گئی ہے: فرمانِ باری ہے:
﴿ لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّـهِ وَاليَومِ الـٔاخِرِ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّـهَ وَرَسولَهُ وَلَو كانوا ءاباءَهُم أَو أَبناءَهُم أَو إِخوٰنَهُم أَو عَشيرَتَهُم ۚ أُولـٰئِكَ كَتَبَ فى قُلوبِهِمُ الإيمـٰنَ وَأَيَّدَهُم بِروحٍ مِنهُ ۖ وَيُدخِلُهُم جَنّـٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ خـٰلِدينَ فيها ۚ رَضِىَ اللَّـهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ ۚ أُولـٰئِكَ حِزبُ اللَّـهِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّـهِ هُمُ المُفلِحونَ ٢٢ ﴾ ۔۔۔ سورة المجادلة
مثال کے طور پر قرآن کریم میں کئی مقامات پر ﴿ حرمت عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير﴾ میں خون کو مطلق بیان کیا گیا ہے کہ لیکن سورۃ الانعام کی آیت کریمہ میں اسے بہے ہوئے خون سے خاص کر دیا گیا ہے: ﴿ قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما علىٰ طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير ﴾ تو القرآن يفسر بعضه بعضا کے قاعدہ کے مطابق جن آیات میں خون کو مطلق ذکر کیا گیا ہے ہم ان میں بھی مخصوص خون یعنی بہا ہوا خون ہی مراد لیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ذہن کھول دیں!
آپ نے بڑے دعوے سے فرمایا تھا:
امام ابن جریر طبری کو تو آپ مفسر، محقق، مدقق مانتے ہی ہوں گے، سورۃ التوبۃ کی آیت کریمہ: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ٢٣ ﴾محترم بھائی ! اول تو آپ ترجمے کے اس عدیم النظیر نمونے کی تائید میں کہیں سے کسی کونے کھدرے سے کوئی دلیل لائیں، کوئی مفسر مترجم محقق مدقق ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تو ہو !!
میں وہ اولیاء کی تشریح بطانہ یعنی دلی دوستی اور پوشیدہ اسرار سے اگاہی سے ہی فرماتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
يقول تعالىٰ ذكره للمؤمنين به وبرسوله: لا تتخذوا آباءكم وإخوانكم بطانة وأصدقاء تفشون إليهم أسرارَكم، وتطلعونهم على عورة الإسلام وأهله، وتؤثرون المُكْثَ بين أظهرهم على الهجرة إلى دار الإسلام ۔۔۔ تفسیر جامع البیان
تفسیر بغوی میں اسی آیت کریمہ کی تشریح میں ہے:
وقال مقاتل : نزلت في التسعة الذين ارتدوا عن الإسلام ولحقوا بمكة ، فنهى الله عن ولايتهم ، فأنزل الله : ( يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا آباءكم وإخوانكم أولياء ) بطانة وأصدقاء فتفشون إليهم أسراركم وتؤثرون المقام معهم على الهجرة ،
امام شنقیطی نے بھی اس آیت کریمہ کی تفسیر سورۃ المجادلۃ کی آخری کریمہ سے ہے، جس میں کفار سے موادّہ (محبت) سے منع کیا گیا ہے خواہ وہ باپ بھائی یا خاندان کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ دیکھئے:
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=64&surano=9&ayano=23