یـہــودی
دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی تعداد فی زمانہ ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے جن میں سے اڑتالیس لاکھ خود اسرائیل میں بستے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہ تو یہ زمین ان کی تھی اور نہ یہ مکانات ان کے تھے۔ دنیا بھر میں راندئہ درگاہ بنے ہوئے ان یہودیوں کو عرب دنیا کے عین قلب میں آباد کرنے کی سازش جنگ عظیم اول کے اختتام پر شروع ہوئی جسے اعلان بالفور کا نام دیا گیا۔ یہ ٹھیک وہی زمانہ تھا جب عیسائی اقوام نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی پر کاری ضرب لگائی تھی۔ انہوں نے وسیع و عریض خلافت عثمانیہ کو توڑ کر پاش پاش کیا اور دسیوں چھوٹی بڑی عرب ریاستیں وجود میں لے کر آئے۔ اس دن سے آج تک مسلمانوں کو نہ تو پھر ویسی اتحاد و یکجہتی میسر ائی اور نہ ’’اسرائیلی‘‘ ریاست سمٹ کر مختصر ہوسکی۔ آج عالم یہ ہے کہ یہ یہودی ریاست ۱۹۴۸ء کے بعد سے مسلسل توسیع پذیر ہے اوراس کی سرحدیں آئے دن پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔
بدقسمتی سے یہودی ایک ایسی قوم رہے ہیں جنہوں نے اپنی ہزاروں سالہ زندگی اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانیوں میں گزاری ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دور سے بنی اسرائیل نام کی قوم کا آغاز ہوا اور دم تحریر تک یہ قوم مسلسل بغاوت، سازش اور فساد کی علمبردار ہے۔ اس قوم پر رب کائنات نے متعدد بار لعنت کی ہے۔ اسرائیلیوں کی مکرو فریب کی پوری تفصیل قرآن پاک میں محفوظ کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طویل چارج شیٹ ان کے نام سے مرتب کی ہے جس کے بعد اس نے اس قوم کو قیادت کے منصب سے معزول کر کے مسلمانوں کو اس مقام پر فائز کیا۔ دنیا بھر کی اقوام میں یہ وہ واحد قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ غضب و غصے اور پھٹکار و ملامت کا سزاوار ٹھہرایا ہے۔ قرآن پاک کے تفصیلی مطالعے سے یہودیوں کے جو طویل جرائم ہمارے سامنے آتے ہیں، انہیں پڑھ کر اس قوم کی نفسیاتی کیفیت ہمارے سامنے آتی ہے۔ ان میں سے چند جرائم مثالاً آپ کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔
l یہ قوم عہد و پیمان کی مسلسل نافرمانی کرتی تھی جس کے بعد کوہ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لٹکایا گیا۔ تاہم اس کے باوجود عہد شکنیوں کاان کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
l یہ اللہ کی آیات کو فروخت کرتے تھے اور ان سے اپنے ڈھب کے مطلب برآمد کرتے تھے۔
l اللہ نے جب انہیںآسمان سے بلامحنت و مشقت رزق (من و سلویٰ) فراہم کیا تو ضد کر کے اسے بند کروایا اور مطالبہ کیا کہ ان کے لئے زمین سے اناج اور سبزیاں اگانے کا بندوبست کیا جائے۔
l اللہ نے انہیں ایک بستی میں داخل ہوتے وقت ’’حطّـہ‘‘ (معانی) کا لفظ ادا کرنے کے لئے کہامگر انہوں نے ضد میں اسے بدل کر کسی اور لفظ میں تبدیل کردیا۔
l آسمان سے بھیجے گئے اپنے پیغمبروں کو قتل کرنے اور انہیں پھانسی پر چڑھانے سے بھی انہیں کوئی عار نہ تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کروایا۔ ایک نبی کو کنوئیں میں الٹا لٹکا کر چھوڑ دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تختہ دار تک پہنچانے کی سازش میں پیش پیش رہے۔
l
اللہ نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بہت سٹپٹائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانچ دفعہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے رب سے اس کے بارے میں ٹھیک ٹھیک حکم لے کر آئیں تاکہ وہ کسی طرح گائے کے ذبح سے بچ جائیں وغیرہ وغیرہ۔