• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ تحقیق کہاں تک صحیح ہے؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
12 ربیع الاول 11 ہجری نبی کریم کا یومِ وفات ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے یہ تحریر توجہ کے قابل ہے،

لیکن صاحبِ تحریر نے اس کے نتیجے میں جو یہ دعویٰ کیا ہے، نہایت قابل اعتراض ہے کہ
ایک عام فہم شخص بھی بغیر کسی بحث وتکرار کے بآسانی یہ بات ضرور تسلیم کر لے گا کہ 12 ربیع الاول رسول اللہ کا یوم ولادت تو ہے مگر قطعاً یومِ وصال نہیں۔
اس تحریر اور احادیث مبارکہ سے نبی کریم کے ’یومِ وفات‘ کے حوالے سے تو کوئی استدلال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس پوری تحریر کا دور ونزدیک سے بھی نبی کریمﷺ کے ’یومِ ولادت‘ سے کوئی تعلق نہیں تو اس سے خوامخواہ ’12 ربیع الاول‘ کو ’یومِ ولادت‘ قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
 

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
السلام علکم !
اگر سائل یہ بھی بتا دیتے کہ اس تحریر کا مقصد کاے ہے- تو سمجھنے مں اور جواب دینے مںک کافی آسانی ہوتی-
جہاں تک تحریر سے پتا چلتا ہے اور جو نقطہ انس نظر بھائی نے بھی اجاگر کا ہے، اس سے ہمں یہ پتا چلتا ہے کہ صاحب تحریر نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے- ، کہ١٢ ربعھ الاول کو رسول صلی الله علہل وسلم کا یوم ولادت ہے اور ان لوگوں کی نفی کی گئ ہے جو یہ دعوی کرتے ہںا کہ ١٢ ربع الاول رسول صلی الله علہئ وسلم کا یوم وفات ہے- آ یے صاحب تحریر کی اس تحقیق کو اہلے علم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں-
یہاں پر صاھب تحریر نے ٢ دعوے کئے ہںہ-
پہلا دعوی : ١٢ ربعو الاول یوم ولادت ہے-
جواب:
تمام مؤرخنر اور اصحاب ِسرا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرتؐ کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی جساے کہ صححخ مسلم وغراہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولؐ سے سوموار کے روزہ کے بارے مںی دریافت کاص گاے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''ذاک یوم ولدت فہ، ویوم بعثت أو أنزل علی فہل'' ''یی وہ دن ہے جس مںی مںک پدہا ہوا اور جس مںح مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کال گان۔'' (مسلم: کتاب الصاہم: باب استحباب صابم ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲)
البتہ اس بات مںی اختلاف ہے کہ حضورؐ کی تاریخ ولادت کاک ہے۔ حافظ ابن کثرؒت فرماتے ہںل کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضورؐ عام الفلا (یینے جس سال ابرہہ نے ہاتھورں کے لشکر سے بتس اللہ شریف پر حملہ کاا)مںل پداا ہوئے۔ نزک فرماتے ہںف کہ اس مںک بھی اختلاف نہںد کہ آپؐ سوموار کے روز پدعا ہوئے۔ نزئ لکھتے ہںت کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپؐ ماہ ربعل الاول مںت پدما ہوئے لکنب یہ کہ آپؐ اس ماہ کے اول، آخر یا درما ن یا کس تاریخ کو پدبا ہوئے؟ اس مںک مؤرخنب اور سرںت نگاروں کے متعدد اقوال ہںز کسی نے ربع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائس ربعئ الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثرؒ نے ان اقوال مںی سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو مںم سے آٹھ ربعر الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ (تفصل کے لئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲؍ ج۲) علاوہ ازیں بہت محققنہ نے ۱۲ کی بجائے ۹ ربعر الاول کو یومِ ولادت ثابت کار ہے ، مثلاً

1۔قسطنطنہخ کا مشہور ہئتت دان:قسطنطنہر (استنبول) کے معروف ماہر فلکالت اور مشہورہئتت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب 'التقویم العربی قبل الاسلام' مںو ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی مںئ متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کان ہے کہ ''عام الفل ماہ ربعق الاول مںع بروز سوموار کی صحت کو پشن نظر اور فرزند ِرسول 'حضرت ابراہمؑس کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آنحضرتؐ کی وفات کی صححب تاریخ ۹ ربعہ الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عسووی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت ۲۰ ؍اپریل ۵۷۱ء بروز پرھ کی صبح قرار پاتا ہے۔ اور مولانا اشرف الی تھانوی نے بھی اس راۓ کی بھرپور تائید کی ہے '' (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامہی از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ ؍ج۱)

2۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سرلت نگاری کے عالمی مقابلہ مںِ اوّل انعام پانے والی کتاب 'الرحقا المختوم' کے مصنف کے بقول ''رسول اللہؐ مکہ مںئ شعب بنی ہاشم کے اندر ۹؍ ربعؒ الاول سن۱، عام الفلح یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پد ا ہوئے۔'' (ص:۱۰۱)

3۔ برصغرو کے معروف مؤرخنے مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلماہن منصور پوری، اکبر شاہ نجبه آبادی وغرلہ نے بھی ۹؍ ربع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحققی جدید صححر ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:سرلت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱؍ ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ :ص۸۷ ؍ج۱/رحمۃ للعالمنس از منصور پوری: ص۳۶۱ ج۲)

4- امام نووی فرماتے ہںر : 4- امام نووی فرماتے ہیں کہ اس پر پر اتفاق ہے کہ رسول صلی الله علہل وسلم پیر کے دین ربیع الاول کے مہینے میں پیدا ہوئے، مگر اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ 2 ، 4 ، 8، یا 12 تاریخ تھی- اور یہ اس کے متعلق چار مشہور راۓ ہیں – (تہذیب سیرت النبویہ)

5- القسطلانی ربیع الاول کو ولادت کا مہینہ قرار دیتے ہیں مگر تاریخ کا ذکر نہی کرتے- (المواہب اللدنیہ)

6- ابن عبدل البر فرماتے ہیں کہ رسول صلی الله علہک وسلم ٢ ربیع الاول کو پیدا ہوئے- ابن حزم فرماتے ہیں کہ رسول صلی الله علہو وسلم 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے- ابو جعفر الصادق ١٠ ربیع الاول کو رسول صلی الله علہا وسلم کا یوم ولادت قرار دیتے ہیں- ابن اسحاق کہتے ہیں ١٢ ربیع الاول اور ابن عبدل البر نے زبیر ابن بکر سے روایت کرتے ہوئے رسول صلی الله علہ وسلم کی یوم ولادت کا مہینہ رمضان کو قرار دیا ہے- ( سیرہ النبویہ ابن کثیر )-


دوسرا دعوی: ١12١٢ ر بیع الاول یوم وفات نہیں-
جواب:

جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول حضورؐ کا یوم وفات ہے۔ بطورِ مثال چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے ہیں:
1۔ ابن سعد، حضرت عائشہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲)
2۔ حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔ (دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹)
3۔ حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسولؐ ۱۲؍ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (البدایۃ والنھایۃ: ۲۵۵؍۵)
4۔ مؤرخ ابن اثیرؒ رقم طراز ہیں کہ نبی اکرمؐ ۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔ (اسدالغابۃ: ۴۱؍۱/الکامل:۲۱۹؍۴)
5۔ حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا۔ (فتح الباری ۲۶۱؍۱۶)
6۔ محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص۴۰۴)
7۔ امام نوویؒ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ (شرح مسلم :۱۵؍۱۰۰)
8۔ مؤرخ و مفسر ابن جریر طبریؒ نے بھی ۱۲؍ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (تاریخ طبری:۲۰۷؍۳)
9۔ امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔ (دلائل النبوۃ: ۲۲۵؍۷)
10۔ ملا علی قاریؒ کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۱۰۴؍۱۱)
11۔سیرت نگار مولانا شبلی نعمانیؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ (سیرت النبیﷺ: ص۱۸۳؍ج۲)
12۔. قاضی سلیمان منصور پوری کی بھی یہی رائے ہے۔ (رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱)
13۔ صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (الرحیق: ص۷۵۲)
14۔ ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی رائے ہے۔ (السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴)
15۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ ۱۲ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔ (ملفوظات)-

تمام غلطیاں میری طرف سے اور تمام اچھائی الله کی طرف سے ہے- الله ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں- آمین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
سلام . اس تحقیق میں صرف یہ پوچھنا ہے کہ اگر تاریخ ١٢ ربی اول ہے حضور صلی اللہ وسلم کے فوت ہونے کی تو وہ دن صحیح حدیث کے مطابق سوموار کا ہے .

آپ نے سب کے اقوال تو لکھ دیے لکن دن کے بارے میں کچھ نہیں کہا

یہی پوچھنا چاہتا ہوں کہ ١٢ تاریخ کو سوموار کا دن ثابت کریں
 

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
بھائی اگر اس بات میں اتفاق ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پیر ہی کے دن وفات پا گئے تھے، اور اوپر دیے گئے دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تاریخ وفات ١٢ ربیع الاول تھی - تو یہ اپنے آپ ثبوت نہیں ہے؟ ہاں اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی mathematical ریسرچ آپکے سامنے پیش کروں، تو معذرت خواں ہوں-
 
Top