محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
ایک اھم بات ھے ،جو ھر گھر کا فسانہ ھے اور صدیوں سے جاری ھے ،مگر اس کا معمہ نہ تو مذھب حل کر سکا ھے، اور نہ فلسفی،، یہ ھر مذھب کی کہانی ھے،، ھر ملک،رنگ،نسل اور زبان میں یکساں ماجرا ھے،، اتنی یکسانیت دنیا کے کسی اور مسئلے مین نہین پائی جاتی،، مگر اس کو خواتین حل کر سکتی ھیں،اگر وہ سچ بولنے کا تہیہ کر لیں اور اندر کی بات بتا دیں،،مذھب نے تو ھاتھ کھڑے کر دیئے ھیں،،
اور اجازت دے دی ھے کہ جھوٹ بول کے جان بچاؤ،، گھر کا ماحول اور اولاد کا مستقبل بچاؤ،،کوئی گناہ نہیں،، یعنی حدیث میں گھریلو ماحول درست رکھنے کے لئے جھوٹ کی اجازت دی گئی،، مسئلہ یہ ھے کہ مرد جب کوئی بھی چیز لاتا ھے تو عورت یہ کیوں پوچھتی ھے کہ کتنے کی لائے ھو؟ پھر مرد اگر قیمت سچ بتاتا ھے تو عذاب بن جاتا ھے،، اور پھر اس کو 50 کی چیز 30 کی بتانا پڑتی ھے،، اس پر بھی اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ کہا جاتا ھے کہ چٹ دکھاؤ ،، رسید کہاں ھے؟بائی دا وئے اگر وہ چیز مہنگی بھی لایا ھے تو اس کی اپنی کمائی ھے،، کوئی سسرال سے مانگ کے تو لایا نہیں اور نہ سالوں کی کمائی ھے،، نفع نقصان اس کا اپنا ھے،، فساد کیوں؟ کیا اس کے پیچھے کوئی کمپلیکس ھے؟ اگر شوھر یہی سوال عورت سے کرنا شروع کر دے تو قیامت آ جاتی ھے کہ جناب شوھر بہت سخت ھے،، بات بات پر حساب لیتا ھے،، جی رسیدیں چیک کرتا ھے،،مگر مرد کہاں جائے،،کس سے فریاد کرے؟
آپ کہہ سکتے ھیں کہ یہ مرد کی ھی خیر خواھی ھے ایسی خیر خواھی جو گھر اجاڑ دے ،، نادان دوست کی دوستی جیسی ھوتی ھے جو کہ عقلمند کی دشمنی سے بدتر ھوتی ھے ! یہی خیر خواھی جب مرد کرے اور بات بے بات پوچھے کہ یہ چیز کتنے کی لائی ھو،، رسید دکھاؤ یا قیمت کا سٹکر دیکھ کر کہے کہ ابھی جاؤ جا کر واپس کر کے آؤ ،، تو پھر یہ ظلم کیوں بن جاتا ھے؟ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے مرد کا دل عورت کی طرف سے خراب ھو جاتا ھے ، اور عورت پوچھتی پھرتی ھے کہ ان کو ھوا کیا ھے ؟پچھلے رمضان کی بات ھے شوھر مارکیٹ سے ایک الیکٹرونک چیز لے کر آیا ،، بیوی کو حسبِ معمول کم قیمت بتائی ، بیوی نے اسے کہا کہ یہ مہنگی ھے اس کے بدلے فلاں چیز لے آؤ ، شوھر نے کہا کہ میں واپس نہیں جاؤں گا ،،
کیونکہ وہ قیمت کا اسٹیکر اتار چکا تھا،، شوھر یہ بات کہہ کر نماز پڑھنے چلا گیا ! بیوی زیادہ چالاک بنی اور اپنے بہنوئی کو بلا کر کہا کہ امارات جنرل مارکیٹ میں جاؤ اور انہیں کہو کہ فلاں چیز کے ساتھ تبدیل کردیں اور قیمت وھی بتائی جو شوھر نے بتائی تھی ! اس نےبالکل اسی طرح کیا جیسے باجی نے کہا تھا ،،چونکہ قیمت بہت کم بتائی گئ تھی اور اسٹکر بھی ھٹا دیا گیا تھا ،، مارکیٹ والوں کو شک پڑا کہ اس نے یہ چیز چوری کی ھے ! انہوں نے سیکورٹی گارڈ بلا کر بندہ گرفتار کرا دیا ! وہ بے چارہ اپنے ھم زلف کو فون کرے جو تراویح پڑھنے گیا ھوا تھا - جب تک ساڈو صاحب تراویح پڑھ کر آتے وہ حضرت پولیس اسٹیشن منتقل ھو چکے تھے،، ھم زلف نے مارکیٹ جا کر ان کو رسید دکھائی جو کہ وہ گاڑی میں ھی چھوڑ گئے تھے ،"بیوی کے ڈر سے "مارکیٹ والے مینیجر صاحب بات کو سمجھ گئے کیونکہ وہ بھی شادی شدہ تھے ،کیس واپس لے لیا مگر یہاں کا قانون ھے کہ بندہ ایک دفعہ شرطے چلا جائے تو کفیل ھی واپس لاتا ھے ،ویسے پولیس نہیں چھوڑتی ، اب اس کا کفیل عمرے پر گیا ھوا تھا ، عید والے دن اپنا عشرہ اعتکاف پورا کر کے آیا اور ساڈو جی کا رمضان اور عید پولیس اسٹیشن مین ھی گزری !
اس سے بھی آگے کی چیز ،، آپ پراجیکٹ مینیجر ھیں 500 آدمی آپ کے انڈر کام کر رھا ھے اور کروڑوں کے بل آپ کے دستخط سے پاس ھوتے اور چیک بنتے ھیں، بڑی بڑی ٹرانسپورٹ کمپنیاں آپ تک رسائی پانے کے جتن کرتی ھیں،، آپ کے ماتھے کا ایک بل گئ گھرانے معاشی طور پر برباد کر دیتا ھے،،مگر بیوی آپ کو ایک درھم کے دھنیا کے لئے دکان کے دو چکر لگوا دے گی کہ تبدیل کر کے لاؤ ،، تمہیں دھنیا کی بھی پہچان نہیں،،؟ آپ کہیں کہ اسے کچرے میں پھینک دو میں دوسرا لے آتا ھوں،، پھر وھی ڈال لے گی کہ نیا نہیں لاؤ اسی سے گزارا کر لیتی ھوں،، یہ ھے مرد کی ویلیو ،، یہ گزارہ اعتراض کرنے سے پہلے بھی کیا جا سکتا تھا،، یہ کمپرومائز ایک درھم کے ساتھ ھوا ھے ، شوھر کے ساتھ نہیں !
ایک میاں بیوی امریکہ سے تشریف لائے ھوئے تھے اور ٹی وی پر انٹرویو چل رھا تھا،، وہ بتا رھے تھے کہ میں سیب لایا 35 روپے کے درجن لایا ،، پرانی بات سنا رھے تھے،، اس نے پوچھا تو میں نے 26 کے درجن بتا دیا،، اگلے دن پڑوسن آئی تو میری بیوی نے اس کو بھی 26 روپے درجن ریٹ بتا دیا،، اس کا شوھر پورا بازار گھوم کے آ گیا مگر کہیں بھی 26 کے درجن نہ ملے،، تو میری بیوی اپنے اٹھا کے اسے دے دیئے اور 26 روپے لے لیئے اور جب مین گھر واپس آیا تو بولی وہ سیب میں نے پڑوسن کو 26 کے دے دیئے ھیں،، کل آتے ھوئے اپنے پکڑ کے لے آنا،،،، ایک صاحب بیوی کا سوٹ لائے 65 درھم کا ،،مگر بیوی کو 45 کا بتایا کہ یہ ھمیشہ شور کرتی ھے تم مہنگا لاتے ھو،،ایک تو پیار سے سوٹ لاؤ اور الٹا بے عزتی کراؤ،، اور موڈ الگ خراب،، خیر بیوی نے وہ اٹھا کر سہیلی کو 45 درھم کا دے دیا کہ میرے پاس پہلے ھی ایک سوٹ پڑا ھوا ھے،یہ تم لے لو ،، میری خواتین سے گزارش ھے کہ وہ اس سوال سے کیا حاصل کرنا چاھتی ھیں،، اور اپنی کس حس کی تسکین کرتی ھیں،، اگر بات واضح ھو جائے تو شاید بچیوں کی تربیت سے جھوٹ کی اس فیکٹری کو بند کرنے میں مدد ملے،،
اور اجازت دے دی ھے کہ جھوٹ بول کے جان بچاؤ،، گھر کا ماحول اور اولاد کا مستقبل بچاؤ،،کوئی گناہ نہیں،، یعنی حدیث میں گھریلو ماحول درست رکھنے کے لئے جھوٹ کی اجازت دی گئی،، مسئلہ یہ ھے کہ مرد جب کوئی بھی چیز لاتا ھے تو عورت یہ کیوں پوچھتی ھے کہ کتنے کی لائے ھو؟ پھر مرد اگر قیمت سچ بتاتا ھے تو عذاب بن جاتا ھے،، اور پھر اس کو 50 کی چیز 30 کی بتانا پڑتی ھے،، اس پر بھی اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ کہا جاتا ھے کہ چٹ دکھاؤ ،، رسید کہاں ھے؟بائی دا وئے اگر وہ چیز مہنگی بھی لایا ھے تو اس کی اپنی کمائی ھے،، کوئی سسرال سے مانگ کے تو لایا نہیں اور نہ سالوں کی کمائی ھے،، نفع نقصان اس کا اپنا ھے،، فساد کیوں؟ کیا اس کے پیچھے کوئی کمپلیکس ھے؟ اگر شوھر یہی سوال عورت سے کرنا شروع کر دے تو قیامت آ جاتی ھے کہ جناب شوھر بہت سخت ھے،، بات بات پر حساب لیتا ھے،، جی رسیدیں چیک کرتا ھے،،مگر مرد کہاں جائے،،کس سے فریاد کرے؟
آپ کہہ سکتے ھیں کہ یہ مرد کی ھی خیر خواھی ھے ایسی خیر خواھی جو گھر اجاڑ دے ،، نادان دوست کی دوستی جیسی ھوتی ھے جو کہ عقلمند کی دشمنی سے بدتر ھوتی ھے ! یہی خیر خواھی جب مرد کرے اور بات بے بات پوچھے کہ یہ چیز کتنے کی لائی ھو،، رسید دکھاؤ یا قیمت کا سٹکر دیکھ کر کہے کہ ابھی جاؤ جا کر واپس کر کے آؤ ،، تو پھر یہ ظلم کیوں بن جاتا ھے؟ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے مرد کا دل عورت کی طرف سے خراب ھو جاتا ھے ، اور عورت پوچھتی پھرتی ھے کہ ان کو ھوا کیا ھے ؟پچھلے رمضان کی بات ھے شوھر مارکیٹ سے ایک الیکٹرونک چیز لے کر آیا ،، بیوی کو حسبِ معمول کم قیمت بتائی ، بیوی نے اسے کہا کہ یہ مہنگی ھے اس کے بدلے فلاں چیز لے آؤ ، شوھر نے کہا کہ میں واپس نہیں جاؤں گا ،،
کیونکہ وہ قیمت کا اسٹیکر اتار چکا تھا،، شوھر یہ بات کہہ کر نماز پڑھنے چلا گیا ! بیوی زیادہ چالاک بنی اور اپنے بہنوئی کو بلا کر کہا کہ امارات جنرل مارکیٹ میں جاؤ اور انہیں کہو کہ فلاں چیز کے ساتھ تبدیل کردیں اور قیمت وھی بتائی جو شوھر نے بتائی تھی ! اس نےبالکل اسی طرح کیا جیسے باجی نے کہا تھا ،،چونکہ قیمت بہت کم بتائی گئ تھی اور اسٹکر بھی ھٹا دیا گیا تھا ،، مارکیٹ والوں کو شک پڑا کہ اس نے یہ چیز چوری کی ھے ! انہوں نے سیکورٹی گارڈ بلا کر بندہ گرفتار کرا دیا ! وہ بے چارہ اپنے ھم زلف کو فون کرے جو تراویح پڑھنے گیا ھوا تھا - جب تک ساڈو صاحب تراویح پڑھ کر آتے وہ حضرت پولیس اسٹیشن منتقل ھو چکے تھے،، ھم زلف نے مارکیٹ جا کر ان کو رسید دکھائی جو کہ وہ گاڑی میں ھی چھوڑ گئے تھے ،"بیوی کے ڈر سے "مارکیٹ والے مینیجر صاحب بات کو سمجھ گئے کیونکہ وہ بھی شادی شدہ تھے ،کیس واپس لے لیا مگر یہاں کا قانون ھے کہ بندہ ایک دفعہ شرطے چلا جائے تو کفیل ھی واپس لاتا ھے ،ویسے پولیس نہیں چھوڑتی ، اب اس کا کفیل عمرے پر گیا ھوا تھا ، عید والے دن اپنا عشرہ اعتکاف پورا کر کے آیا اور ساڈو جی کا رمضان اور عید پولیس اسٹیشن مین ھی گزری !
اس سے بھی آگے کی چیز ،، آپ پراجیکٹ مینیجر ھیں 500 آدمی آپ کے انڈر کام کر رھا ھے اور کروڑوں کے بل آپ کے دستخط سے پاس ھوتے اور چیک بنتے ھیں، بڑی بڑی ٹرانسپورٹ کمپنیاں آپ تک رسائی پانے کے جتن کرتی ھیں،، آپ کے ماتھے کا ایک بل گئ گھرانے معاشی طور پر برباد کر دیتا ھے،،مگر بیوی آپ کو ایک درھم کے دھنیا کے لئے دکان کے دو چکر لگوا دے گی کہ تبدیل کر کے لاؤ ،، تمہیں دھنیا کی بھی پہچان نہیں،،؟ آپ کہیں کہ اسے کچرے میں پھینک دو میں دوسرا لے آتا ھوں،، پھر وھی ڈال لے گی کہ نیا نہیں لاؤ اسی سے گزارا کر لیتی ھوں،، یہ ھے مرد کی ویلیو ،، یہ گزارہ اعتراض کرنے سے پہلے بھی کیا جا سکتا تھا،، یہ کمپرومائز ایک درھم کے ساتھ ھوا ھے ، شوھر کے ساتھ نہیں !
ایک میاں بیوی امریکہ سے تشریف لائے ھوئے تھے اور ٹی وی پر انٹرویو چل رھا تھا،، وہ بتا رھے تھے کہ میں سیب لایا 35 روپے کے درجن لایا ،، پرانی بات سنا رھے تھے،، اس نے پوچھا تو میں نے 26 کے درجن بتا دیا،، اگلے دن پڑوسن آئی تو میری بیوی نے اس کو بھی 26 روپے درجن ریٹ بتا دیا،، اس کا شوھر پورا بازار گھوم کے آ گیا مگر کہیں بھی 26 کے درجن نہ ملے،، تو میری بیوی اپنے اٹھا کے اسے دے دیئے اور 26 روپے لے لیئے اور جب مین گھر واپس آیا تو بولی وہ سیب میں نے پڑوسن کو 26 کے دے دیئے ھیں،، کل آتے ھوئے اپنے پکڑ کے لے آنا،،،، ایک صاحب بیوی کا سوٹ لائے 65 درھم کا ،،مگر بیوی کو 45 کا بتایا کہ یہ ھمیشہ شور کرتی ھے تم مہنگا لاتے ھو،،ایک تو پیار سے سوٹ لاؤ اور الٹا بے عزتی کراؤ،، اور موڈ الگ خراب،، خیر بیوی نے وہ اٹھا کر سہیلی کو 45 درھم کا دے دیا کہ میرے پاس پہلے ھی ایک سوٹ پڑا ھوا ھے،یہ تم لے لو ،، میری خواتین سے گزارش ھے کہ وہ اس سوال سے کیا حاصل کرنا چاھتی ھیں،، اور اپنی کس حس کی تسکین کرتی ھیں،، اگر بات واضح ھو جائے تو شاید بچیوں کی تربیت سے جھوٹ کی اس فیکٹری کو بند کرنے میں مدد ملے،،
یہ میرے گھر کی بھی کہانی ہے - ابتسام
محمد ارسلان بھائی