• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ نبوی مباہلہ نہیں مرزائی مباہلہ ہے۔( فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی )

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
یہ نبوی مباہلہ نہیں مرزائی مباہلہ ہے

ذہنی توازن کا بگاڑ اور مالیخولیا کا دورہ:
سنا گیا ہے شبابِ اسلام کے سربراہ، کٹولی مدرسہ کے ذمہ دار اور ڈاکٹر سید عبدالعلی طبیہ کالج کے بانی کا بلڈپریشر اتنا ہائی ہو گیا ہے کہ اب ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے ذہنی توازن کو درست فرمادے۔ ذہنی توازن بگڑنے کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔
۱۔ اپنی ذات سے شدیدمحبت۔ ۲۔ ذاتی مفادات سے شدید محبت۔ ۳۔ شہرت کے لیے دیوانگی۔
تینوں اسباب مرزا غلام احمد قادیانی کے اندر جمع تھے اسی لیے وہ مالیخولیا کا مریض بن گیا تھا۔ مالیخولیا ذہنی توازن کے بگاڑکی بہت بڑی علامت ہے۔ مالیخولیائی انسان روشن دن میں جاگتے ہوئے عالمِ تصورات میں رہتا ہے اور خود کو کبھی اڑتا ہوا محسوس کرتاس ہے، کبھی چلتا ہوا اور کبھی منصب کے سنگھاسن پر فائز مسکراتا اور ہنستا نظر آتاہے۔
ایسا لگتا ہے شباب اسلام کے سربراہ کا ذہنی توازن مالیخولیا کے قسم کا ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی کے قبیل کا مرض ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی سماجی اور اقتصادی حالت بگڑ گئی تھی وہ ان کی سدھار چاہتا تھا اور ذاتی امنگ اور سوچ ایسی تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ اسے دولت، شہرت اور منصبِ قیادت حاصل ہو، پھر آگے چل کر اس راہ میں مخالفین سے شدید نفرت بھی اسباب جنون میں شامل ہوگئی۔ یہی سب کچھ اس طنطنے اور ہمہمے والے مولوی کے پاس بھی ہے۔ مولوی صاحب بھی پیدائشی نرجسی اور خود پرست ہیں قیادت منصب اور دولت کے بھوکے۔ اسی میں عمر کٹ رہی ہے اس حب ذات، حب منصب اور حب دولت اور مخالفین سے شدید نفرت نے جناب کواس موڑ پر پہونچا دیا ہے کہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اور اس کے باوجود بھی اگر مقصد حاصل نہ ہو یا کوئی رکاوٹ کھڑی ہو تو نفرت میں جنون کی حد تک پہونچ جاتے ہیں، اسی مالیخولیا کا اثر ہے کہ جناب نے مباہلہ کا چیلنج دیا ہے۔
مباہلے کی دعوت:
مولوی صاحب کا مباہلے کی دعوت، کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہے۔ یہ در اصل ایک فریب ایک پلولی(PLOY) اور مصیبت سے جان چھڑانے کی بات ہے، جناب نے بڑے طنطنے سے زنانہ مکر کے لہجے میں الفاظ کی قے کر کر کے سعودی حکمرانوں کو کوسا تھا اور اتنی اونچائی سے بات کی تھی جیسے سارے حقائق کی تازہ تازہ وحی شبلی ہاسٹل کے مناروں سے ان کو ہوئی ہے اور سارے درشہوار غیب سے انھیں کے حق میں نام زد ہوکر آئے ہیں۔ اپنے ہی جال میں پھنسے تو اب لے دے کر بات اس پر رکی کہ سعودی عرب کا رویہ اپنے ہمسایوں کے حق میں سازشی ہے اور اسلامی اخوت کے برعکس ہے اسرائیل اور امریکہ کے ہم نوا ہے، شام مصر اور ایران میں اس نے شیعوں اور دین دشمنوں کا ساتھ دیا ہے۔ انسان جب خوش فہمی کے گنبد میں جیتا ہے اور شان کبر سے آراستگی کو کمال سمجھتا ہے اور دین کو اپنی آن بان قابلیت اور عظمت و رفعت کے لیے استعمال کرنے میں ڈھیٹ بن جاتا ہے تو ایسی حرکتیں کرتا ہے۔ جب ان سے کچھ نہ بات بنی، اور دیکھا ناک کٹ رہی ہے تو ناک بچانے کی خاطر مباہلے کی دعوت دے بیٹھے۔ مرزا غلام احمد کی اولاد کو بڑی خوشی ہوئی ہوگی کہ برصغیر کی اکال الامم سرزمین میں ان کی مانند ذہنیت کا ایک اور انسان پیدا ہوگیا۔ اس کی عیاری مکاری اور چالاکی سید سلمان ندوی کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔
ہمارے مولوی صاحب نے سمجھا تھا کہ دو تقریر کریں گے اور سارے ملک میں لوگ تیارہو کر ان کے ساتھ سعودی عرب کو گرانے شام کو نجات دلانے اور مصر کو بچانے نکل پڑیں گے۔ بدقسمتی سے ان کے غبارے کی ہوا نکل گئی اور ان کے کبر کے تابوت میں ارشد مدنی نے کیل ٹھونک دی۔ ترکی سے تازہ تازہ اور فریش انرجی لے کر لوٹے جہاں اتفاق سے ماحول ان کی خوابوں اور اوہام کے ہم آہنگ ہے، جوش جنوں میں مولوی اصغر اور سارے اہل حدیثوں کو مباہلے کی دعوت دے بیٹھے، اور مولوی ارشد مدنی کو تذکیر و فضیحت۔ مباہلہ کیا ہے اسے ہم بعد میں بتائیں گے لیکن اگر ہم جناب کے اس پلوئی اور تماشے کو شرعی مباہلہ سمجھتے، اسے ناٹک کے بجائے حقیقت جانتے تو بھی ہم یہی سمجھتے کہ ان کے مباہلے کی دعوت ایسی نہیں کہ کسی سنجیدہ دین دار اور ذی علم انسان کے لیے درخور اعتناء ہو۔ ان کے مباہلے کے لیے ندوہ ہی میں کوئی اہل حدیث چپراسی ہی کافی ہوتا، ندوہ کے فیلڈ میں وہ اپنی آل و اولاد لے جاتے اور اسی طرح اہل حدیث چپراسی بھی اپنی آل و اولاد لے کر آتا اور پھر دونوں طرف سے مباہلہ کے لیے دعا ہوتی ندوہ کے سارے طلباء و اساتذہ یہ منظر دیکھتے اور وہیں یہ طے ہو جاتا کہ سحر انگیز فریب کار طنطنہ خیز سید کے نئے فتوحات کیا ہوتے ہیں۔ اور اگر اس پر راضی نہ ہوتے تو حافظ عتیق صاحب وہیں پر موجود ہیں، ماشاء اللہ اس وقت ان کی بھی اہل حدیثیت زوروں پر ہے اصغر صاحب کے مرید خاص بھی ہیں دونوں حقوق ادا ہو جاتے، اہل حدیثیت کا بھی اور اصغر سے دوستی کا بھی۔ اس سے بہتر اور کیا ہوتا کہ حق ندوہ کے فیلڈ میں نمایاں ہو جاتا۔ اگر یہ منظور نہ ہوتا اور انا ہزارے بننے کا شوق چرایا ہے، نگاہ انتخاب رام لیلا گراؤنڈ پر پڑی ہے تو وہیں آجائے مرکزی جمعیت کا ایک کارکن ضیاء الحق اس کے لیے کافی ہوتا۔ ماشاء اللہ محنتی ہے، حق حلال کی روزی کھاتاہے، چندہ خورچندہ بٹور نہیں اور سلمان صاحب کی داڑھی سے بڑی اس کی داڑھی ہے اور ان سے زیادہ پکا نمازی بھی ہے، کبرو غرور شیخی و تعنت سے بھی پاک ہے خوش گفتار خوش کردار اور ملنسار و ہنس مکھ ہے اور حق کا طلب گار واقعی ضیاء الحق ہے۔ بس یہی کافی ہوتا ان سے مباہلہ کرنے کے لیے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مباہلہ کیا ہے:
مباہلہ حق آشکار ہونے کے لیے انابت اور ابتہال کی کیفیت کی ایک دعا ہوتی ہے، اس کا مرحلہ اس وقت آتا ہے جب حق پرست حق کو دلائل و حجت کے ذریعہ مبرہن کر دیتا ہے اور مخالف پھر بھی نہیں مانتا ہے تو حق پرست بارگاہ الہی میں التجا کرتا ہے اور مخالف کو بھی بلاتا ہے کہ وہ آئے اور حق کو آشکارا ہونے کے لیے دعا کرے اور سب اپنے بچوں کو بھی لائیں اور حق نہ ماننے والے ظلم کاذب پر بددعا کریں اور لعنت بھیجیں۔
مباہلہ کا عمل جاری ہونے کے لیے کتنے امور ہیں جن کا پورا ہونا لازمی ہے انھیں جاننا ضروری ہے۔
(۱)حق کا وجود۔ (۲) حق کا داعی (۳) حق کا مدعو (۴) حق کو مبرہن کر دیا گیا ہو (۵) مدعو حق کا انکاری ہو۔(۶) داعی حق کے مطابق صاف ستھرا ہو(۷) مدعو باطل پرست ہو (۸) داعی مدعو کو دعوت دے کہ دونوں اپنی آل و اولاد لے کر پبلک میں آئیں (۹)ابتہال کے ساتھ دعا کریں کہ حق آشکار ہو جائے اور باطل پرست ہلاک ہو جائے۔
سید سلیمان حسینی ندوی سے سوال ہے کیا مباہلہ کرنے کے لیے انھوں نے یہ شرائط پورے کر لیے ہیں۔ اگر وہ یہ شرائط پورے نہیں کیے ہیں نہ کر سکتے ہیں تو دین کے ساتھ کھیل کیوں کرتے ہیں۔ کیا ان کی ناک اونچی، نفس ناطقہ دراز اور روح بلید ہو گئی ہے کہ وہ خالص ابتہال و انابت کی کیفیت اور تلاش حق کو بھی سیاسی مجادلہ کا مسئلہ بنا رہے ہیں اور دعا کو بھی اپنی اکٹر اور شیخی کا قضیہ بتا رہے ہیں۔ چلئے ہم ایک ایک شرط پر بحث کر لیتے ہیں۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
(۱) آپ کے پاس کون ساحق ہے جس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اور اسے ماننے کے لیے آپ سارے ہندوستان کو مکلف کر رہے ہیں اور اس کے داعی بنے ہوئے ہیں اور لوگوں کو مدعو بنائے ہوئے ہیں۔ حق کی تعیین تو کیجئے بنیادی اور اساسی دین یعنی الوہیت الہ اور اکیلے معبود برحق کی عبادت کے لیے رسول گرامی ﷺ نے نصاری سے مباہلہ کیا تھا۔ کیا کسی مسلمان کا کسی اہل حدیث سے مباہلہ ہو سکتا ہے؟ کیا کسی سیاسی مسئلے کے لیے مباہلہ ہو سکتا ہے؟ جس میں اختلاف آراء کا پورا امکان ہوتا ہے۔ مباہلہ کے لیے الوہیت ایک منصوص متعین اور فکس مسئلہ حق ہے اصل میں اس میں شرعا اختلاف کی گنجائش نہیں ممکن ہے۔ مسلمانوں کے اندر متنوع شرک موجود ہے اس کا اعتبار نہیں۔ اور اس کا ماننا سب کے لیے واجب اور قیامت تک تمام انسانوں سے مطلوب ہے سوال یہ ہے کیا آپ کے زعم کے مطابق سعودی حکمرانوں کی غلط سیاسی روش کوئی منصوص مسئلہ ہے۔ کہ فردا فردا اس کی برائی کو تسلیم کرنا امت پر واجب ہے۔ ظاہر ہے اس کے وجوب کی بات ایک پاگل انسان ہی کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا آپ کے زعم کے مطابق غلط سعودی سیاست ایسا مسئلہ ہے کہ اسے مباہلے کا مسئلہ بنایا جائے۔اگر ایسا نہیں تو کس نے آپ کو اختیار دیا ہے کہ ہندوستان کے کمزور مسلمانوں کا جو مسئلہ نہیں ہے اسے مسئلہ بنا کر فتنہ کھڑا کریں۔ کیا آپ کا نفس اتنا موٹا ہوگیا ہے کہ فساد فی الارض کے بغیر آپ کانفس امارہ مطمئن نہیں ہو سکتا ہے۔
اس کو ہم انتہا پسندی کہیں یا حماقت گردانیں، دوسرے ممالک بھی ہیں سعودی عرب کے بعد کیا ان کی پالیسیوں کے متعلق بھی مباہلہ کریں گے، لگتا ہے اب کٹولی میں مرزائی مباہلے کی دکان بھی سجی رہے گی۔
ضمنا سوال ہے آپ کے کالے کرتوت آپ کے چھوٹے دائرے میں ایک حکومت کے بڑے دائرے کے اخطاء کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہیں آپ کے کرتوت کے سیاہ ہونے پر جن کو یقین ہے وہ کس جگہ آپ سے مباہلہ کریں۔ کٹولی مدرسے کے گراؤنڈ میں یا بھٹکل کے مدرسے میں۔
مولوی صاحب ہوش میں آؤ تعنت مت دکھلاؤ، اپنی اوقات کو جانو ]انک لن تخرق الأرض ولن تبلغ الجبال طولا[ ویسے آپ کو حق ناحق سے کیا مطلب؟ ۷۰؍چوہے کھا کر بلی خالہ حج کو چلی ہیں۔ اگر حق کے لیے لڑنے کا شوق ہے تو ہزاروں عنوان ہیں لڑو بڑا ثواب ملے گا۔اور اسی ہندوستان میں ہزاروں راہیں ہیں حق نمائی، حق پرستی کے لیے اسے کیجئے، یہ کیا ]مالی اری جعجعۃ ولا اری طحنا[ کا شور مچا رکھا ہے۔ اپنے گھر کی خبر لیجئے یہاں روز شام، مصر اور یمن کی جنگ بپا ہے پرسوں آسام کل مظفر نگر، بھاگلپور، احمد آباد آج کچھ کل کچھ کیا اس سے سیری نہیں ہوتی۔مفت کی شہرت اور تبختر کا سامان کیوں کرتے ہیں۔ مولوی صاحب جنون چھوڑیے سچا انسان بنئے۔ مصر و شام اور یمن کے مسائل پر سارے تحریکی روز چلاتے بولتے ہیں ان کی یہی خوراک ہے یہ موضوع ان کے لیے چھوڑدیجئے ان کے بھی جینے کھانے کا تو جتن رہنے دیں آپ کو مانگنے کھانے کے لیے سارا عالم پڑا ہے۔
(۲) سعودی عرب کی سیاسی روش غلط ہے اس پر آپ کو یقین ہے اور اس یقین کو ایسا حق جانتے ہیں کہ اس کی دعوت واجب ہے اور جو نہ مانیں ان سے مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پتہ ہے مباہل کے کیا صفات ہوتے ہیں اس کو حق کی طرح کلین اور کلیر ہونا چاہئے۔جو مباہل حق کی طرح صاف ستھرا اور معصیتوں سے پاک نہ ہو وہ مباہل نہیں بن سکتا۔ یہ تو مرزا غلام احمد قادیانی کا طریقہ ہے کہ دجالی اور مباہلہ۔ ایسا مباہلہ ایک کھیل تماشا فریب اور جنون ہوتا ہے۔ حسینی کوثری اور جہمی صاحب مباہلہ کرنے سے پہلے سوچ لیجئے کیا آپ نبوی مباہلہ کر رہے ہیں یا مرزائی مباہلہ۔ آپ کے پاس کون سا منصوص علیہ اور مدلل مخصوص و متعین حق ہے جس کی دعوت دے رہے ہیں۔ کیا آپ کسی حق کی دعوت دے رہے ہیں یا اپنے تصور کردہ مخالف سعودی عرب کو گالی دے رہے ہیں۔تہمتیں لگا رہے ہیں، سنی سنائی باتوں کو منصوص حق کا درجہ دے رہے ہیں۔مولوی صاحب دعوت حق کا جوش آج ہی کیوں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ کل تک آپ اسی سعودی عرب ظالم وجابر اور غدار مسلمین سے امام حرم کو مانگ کر اپنے علاقے میں اپنی گرتی ساکھ کو بچانے اور اپنی کرپٹ نیتائی کو چمکانے کے لیے گھماتے پھرے یہ سب کیا تھا؟ امام حرم کی آمد سے پہلے بھی تو شام، یمن اور عراق کا مسئلہ تھا۔ اس وقت حق گوئی کہاں سوئی پڑی تھی اور جنون مباہلہ کیوں نہیں پیدا ہوا تھا۔ ذرا پنی حق گوئی کی ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو ملائیے۔ کہیں ایسا تو نہیں یہ حق گوئی موسمی ہے اور ابھی موہوم شہرت کا سورج عروج پر ہے اس لیے حدت اور گرمی زیادہ ہے اور جب کل کلاں کوپیسوں کی ضرورت ہوگی اور مزاج زمہریری ہو جائے گا تو سعودی بارگاہ میں حاضر ہوکر یہ بھی کہہ سکتے ہیں حضور کل ہم سے غلطی ہوگئی اس پر جو چاہو سزا دے لو لیکن عنایت جاری رکھو۔
جن کے پاس نہ حق ہے نہ حق کا واضح تصور ہے تو اس کی دعوت کیسی۔ آدمی جھوٹ اور نفس پرستانہ رجحانات کے مطابق شخصی بیانات اکاذیب اور اتہامات کو بیان کرتا پھرے اور اسے دعوت کہے اس سے بڑا بدنصیب کون ہو سکتا ہے۔ حق کو پہنچانا اور حق کی دعوت دینا متکبرین اور جبارین کا کام نہیں ہوتا۔ یہ اللہ والوں کا کام ہے جن کی زندگی کی بھاگ دوڑ کا ماحصل چندہ جتھا دولت شہرت طنطنہ تبختر نہ ہو وہ کیا جانے حق کیا ہے اور حق کی دعوت کیا ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
۳۔سعودی حکومت ظالم ہے یہ حسینی حق ہے۔ اس حق کا مدعو کیا صرف اہل حدیث ہیں۔ اگر یہ حق وقت کا سب سے بڑا کام ہے کہ اس کے نام پر مباہلہ کیا جا سکتا ہے تو پھر مساجد کے خطبوں میں مدارس کے نصاب میں داخل کر لیجئے اور دعوت کے اساسی امور میں شامل کیجئے کٹولی کے مدرسے کے نصاب تعلیم میں بنیادی مضمون کی حیثیت سے پڑھائیے جس طرح دیوبند میں عدم تقلید اور موددودیت کو طلباء کے لیے لازمی مضمون بنا دیا گیا ہے اور اب بڑے پیمانے پر پورے ملک کے ائمہ مساجد و مؤذنین کو اس کو تردید باطل کے مشن میں شامل کیا جائے گا۔ حسینی صاحب صرف اہل حدیثوں پر عنایت کیوں ؟وہی کیوں ان کی دعوت حقہ یعنی سعودیہ عرب ظالم ہے کے مدعو مخاطب۔ گر وقت کا یہ سب سے بڑا حق ہے جس طرح معبود برحق کی عبادت کی دعوت ہے تو پھر سارے عالم میں اس کی دعوت ہونی چاہئے صرف اہل حدیثوں میں کیوں؟ اور اہل حدیث ایک ابن الوقت چندہ خور چندہ بٹور متکبر شیخی باز اور شو باز کی بات کیوں سننے اور اس پر کان دھرنے لگے۔ حسینی صاحب بکتے رہو تمہارے بکنے سے کیا ہوتا ہے بھونکنے سے کبھی کچھ فرق پڑا ہے۔
۴۔ مباہلہ کرنے سے پہلے جس شخص نے جس حق کو جانا ہے اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتا ہے اسے اس حق کو مبرہن کرنا چاہئے۔ سعودی حکومت یہ ہے وہ ہے اپنے دعوے کی سچائی پر جناب ایک دلیل نہیں دے سکے ہیں۔ ہمہ شما کی باتیں سیاق و سباق سے کٹی ہوئی باتیں، تحریکی سرپھروں کے چبائے ہوئے سڑے لقمے، رافضی کذابوں کے اکاذیب پر جناب اچھل رہے ہیں اور سارے حقائق کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں مباہلہ کی دعوت میں سلمان کی ساری باتیں گپ اور جھوٹ ہیں دلیل دیں ایک مظلوم حکومت کے مزعومہ اخطاء کی تتبع کرنا سب سے بڑا حق ہے اور اس ابلیسی کام پر مباہلہ کرنے کا طنطنہ ہے اگر جناب کا دعوی ہے کہ سعودی عرب ظالم ہے خونخوار ہے غدا ر ہے تو اپنے تحقیقی دلائل پیش کریں۔ یہ کیا کہ گھر بیٹھے توڑ مروڑ کر سیاق وسباق سے کاٹ کر لوگوں کے بیانات پیش کر رہے ہیں۔ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
یمن کے حوثی زیدی شیعہ ایران کی مدد سے صعدہ میں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں سب سے زیادہ صعدہ میں موجود سلفیوں کو انھوں نے نقصان پہونچایا ہے ابھی حال ہی میں جامعہ اسلامیہ سے ایم اے کیے ہوئے شیخ مقبل الوادعی ؒ یمن کے مشہور محدث سلفی عالم کے مدرسے کے دو سو طلباء کو حوثی شیعوں نے مار دیا ہے، گذشتہ پیوستہ سال حوثی شیعہ ایران کی شہہ پر سعودی سرحد میں گھس آئے تھے سعودی عرب نے بمباری کر کے انھیں وہاں سے کھدیڑا۔مسلم یونیورسٹی میں یمن کے ایک حوثی طالب علم بم کے جو ٹورازم میں ڈپلوما کر رہا تھایونیورسٹی کینٹین میں ملاقات ہوگئی باتوں باتوں میں وہ فخر سے کہنے لگا ہم نے چار سو سعودی فوجیوں کو آسانی سے مار دیا، سعودی عرب کی حوثیوں پر بمباری کی خبریں سارے اخبارات میں چھپی تھیں، مگر اس بیوقوف مولوی کو دیکھو حقائق سے اتنی بے خبری اور چلا ہے مرزائی طرز کا مباہلہ کرنے، جناب کو چندہ مانگنے اور ہنس کی چال چلنے سے فرصت نہیں اور بات ایسے کر رہے ہیں جیسے دنیا کی خبروں کے ورود و صدور کا مرکزیہی ہیں کیا حوثی زیدی شیعوں کی مدد سعودی عرب اس لیے کر رہا ہے کہ وہ اس پر حملہ کریں۔
آئے دن آخبارات میں خبریں بیانات اس کے آتے ہیں کہ شام کے اہل سنت کا سب سے بڑا معاون سعودی عرب ہے۔ ایران اور ۶؍بڑے کفن چور ممالک کے درمیان جنیوا میں معاہدہ کے بعد یورپ کلی طور پر بشار اسد کا حمایتی بن گیا ہے اور اگلے سال انتخاب میں اس کی کامیابی اور پانچ سال کے لیے پھر اس کی صدارت کا متمنی ہے۔ ایران پوری طرح حزب اللہ کے ساتھ اہل سنت کو مارنے میں لگا ہے۔ امریکہ مداخلت کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اس کے ارادے بدل گئے ہیں اور ایران کی جنبہ داری کرنے لگا ہے۔ سعودی عرب نے سیکورٹی کاؤنسل میں اس احتجاج میں سیٹ قبول نہیں کی۔ ISIS کے نام پر شام کی آزادی کے لیے سعودی عرب حمایت یافتہ سب سے زیادہ مؤثر فوج ہے۔ پھر یہ کہ ایران کا شام کے ساتھ کئی دہوں سے ہم مذہبی کے سبب تال میل ہے اور ہمہ جہتی تعاون ہے اور خطہ پر کنٹرول کرنے کے لیے اس کا مضبوط ساتھی ہے۔سوال یہ ہے کیا امریکہ اسرائیل یورپ چین روس اور ایران کے ساتھ سعودی عرب بھی بشار الاسد کا حمایتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یقیناًسعودی عرب خود کشی پر تلا ہے اور وہ اپنا نفع و نقصان نہیں جانتا ہے اور وہ ان کفن چوروں کا ہم آہنگ ہوگیا ہے ایسا بے وقوف ایک بھٹیار خانے کا مالک بھی نہیں ہو سکتا۔ دراصل سعودی عرب ایسا کچھ نہیں کرتا یہ دراصل ایک بے وقوف ملا کے ذہنی کباڑ خانے کی ایک خودساختہ بات ہے۔ واقعی جس کی زبان لمبی ہوتی ہے اسکی عقل ماری جاتی ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
رہ گئی بات مصر میں مرسی حکومت گرنے گرانے کی تو سنی سنائی اور تحریکی پھکڑوں کی اڑائی باتوں کے بجائے حالات کا جائزہ لیں اور کاسہ گدائی لیے بھیک مانگنے سے فرصت ملے تو جناب حق کی نیت سے سارے پس منظر پیش منظر کو پڑھیں اس کے بعد کسی نتیجے پر پہونچیں۔ بلاوجہ جانے بوجھے کسی کو ملزم ٹھہرانا اچھا نہیں ہے۔کم از کم مرسی کے آنے اور جانے کے متعلق اتنی باتیں جان لیں:
۱۔مرسی کیسے آئے؟۲۔کیسے ان کی صدارت دشمنوں نے گوارا کی؟۳۔ کس کی حمایت سے صدارت تک پہونچے؟ ۴۔ ان کی کارکردگی کیا تھی؟ ۵۔کمیاں کیا تھیں؟ ۶۔کتنا کامیاب تھے؟۷۔کیوں ہنگامے ہوئے؟ ۸۔ان سے نمٹنے کا کیا جتن کیا؟۱۰۔کیوں ان کا تختہ پلٹا گیا؟ ۱۱۔کس نے کیا؟ ۱۲۔کیا ان کی حکومت اسلامی تھی؟ ۱۳۔اسلام پسند ہونے کے سبب ان کی حکومت کو اسلامی کہا گیا یا ریل میں وہ اسلامی تھی؟ ۱۴۔تختہ پلٹنے کے بعد کیا اخوانیوں کا رویہ صحیح تھا یا ہے؟ ۱۵۔کیا سب سے زیادہ ذمہ دار ہونے کے سبب ان کو مصالحت کا رویہ اختیار کرنا چاہئے یا مجادلت کا؟ ۱۷۔جان مال اور املاک کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ۱۸۔بیلٹ باکس کے ذریعہ آئی اور گئی حکومت کے لیے خون بہانا کیا درست ہے؟ ان سوالات کے جوابات اپنی کھوپڑی کے اندر موجود اگر گودا ہے تو اس کو استعمال کرکے تلاش کیجئے، تحریکی سرپھروں کے پروپیگنڈوں اور اکاذیب پر مت جائیے نہ رافضی کذابوں کی تہمتوں پر۔
اور جن علماء کے بیانات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ مصری فوج کے تصرفات پر مذمتی بیان ہے، کون صحیح الدماغ مسلمان ہے جو مذمت نہیں کرے گا۔ ہم نے بھی مذمت کی ہے سعودی عرب کا مذمتی بیان بھی ہم نے پڑھا ہے اسے آپ اپنے دعوے کے حق میں دلیل بنائیں ایمانداری سے کہیں یہ کہاں تک درست ہے۔ اور عریفی جیسے لوگوں کی بات کرتے ہیں وہ بھی آپ ہی جیسا خالی کھوپڑی کا انسان ہے بالکل بے دماغ ڈالے کا رینگی کا چیلا ہے بے شک ہم سفر الحوالی کی عظمت کے قائل ہیں اور ان کی علمی بصیرت اور گہرائی کے بھی۔ آپ بھی ان کی ''ظاہرۃ الارجاء'' ''منہج المذہب الاشعری'' اور ''العلمانیۃ'' کا مطالعہ کر لیجئے، آپ کی جہمیت ارجاء اور پھکڑ پن کرپٹ نیتائی کا جو آپ کا پیشہ بن گیا ہے علاج مل جائے گا اور آپ صحیح العقیدہ صحیح العمل مسلمان بن جائیں گے۔ اس سب کے باوجود اتنا کہنے دیں کہ سعودی عرب میں ایسے علماء پیدا ہوگئے ہیں جن کے اوپر اخوانی تحریکیت کی غیر منہجیت زیریلااثر رکھتی ہے اور وہ سب اپنے اندر ثوریت اور انقلابیت کا مہلک جرثومہ رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے اخوانیوں پر کرم کیا تھا اور وحدت الوجودی جہمی اباحیت پسند اخوانیوں تک کو اپنی درسگاہوں میں رکھ لیا تھا۔ غزالی جیسا اعتزال پسند، محمد قطب جیسا جمہوری، ابوغدہ جیسا جہمی وقبوری نورالدین عتر جیسا متہالک فرقہ پرست سعید حوی جیسا وحدۃ الوجودی صابونی جیسا متہالک اشعری جن کے رد میں ۵۶؍علماء نے لکھا اور بہت سے تحریکی اباحیت پسند اور چاپلوسوں کی کمی نہیں۔جامعۃ الامام محمد بن سعود کو بعض تحریکی پسند دنیا پرست سعودی علماء نے اپنے دور ادارت میں غلط عقیدہ کے لوگوں سے بھر دیا تھا ندوۃ الشباب، الفیصلیہ، اور رابطہ میں یہی کالی بھیڑیں سعودی عرب کی جڑیں کھودتی رہیں اور انھیں کی جہود نا مرضیہ سے ایک ایسی نسل تیارہوگئی جو سلفی منہج کو جاننے کے باوجود تحریکیت کے نشانہ پر ہے۔ اور اندر اندر سعودی عرب کے خلاف ابال کھاتی رہتی ہے۔ یہی عناصر اس کے لیے درد سربنے ہوتے ہیں اور یہی اپنے ہم جنسوں سے لنک بڑھا کر سعودی عرب کے لیے مزید مصیبتیں کھڑی کرنے کے چکر میں رہتے ہیں اسی طرح کے غالی سعودی تحریکی عناصر ملک کو تباہ کر نے کے لیے ہر طرح کی سازش اور تشدد اختیار کرچکے ہیں کیا دھماکوں کا ہنگامہ خیز وقفہ لوگ بھول گئے ایسے ہی عناصر اگر سعودی عرب اور علماء سعودی عرب سے باہر مصری کی صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں جس طرح سلمان صاحب آپ ان حالات کا ناجائز فائدہ اٹھاکر ہیرو بننا چاہتے ہیں تو کیا یہ دلیل بن جائے گی کہ سعودی حکمرانوں کو ظالم، قاتل اورغدار کہنا اور کہنے کی دعوت دینا عین دین اور عین اسلام اور عین حق ہے اور جو نہ مانے اس سے مباہلہ کرنا لازم ۔ جو سعودی حکمرانوں کی تائید کرے ان کی تعریف کرے وہ باطل مجرم منکر حق اور گردن زدنی۔ سلمان تم اتنی سطحیت پر اتر آئے ہو۔ افسوس تمہیں شرم نہیں یہ کہ ایسی باتوں کو ہنگامہ آرائی کا ذریعہ بناؤ، ’’لیجئے جواب حاضر ہے‘‘ پھر سے پڑھ لیجئے اس میں تمہارے سارے استکبار کا علاج ہے اور مباہلہ میں اٹھائے گئے سوالات کا بھی اور تمہاری ہیکڑی کا بھی اس میں علاج ہے۔
سلمان تم کس دنیامیں رہتے ہو ابناء کم و جلدتکم نے اندراگاندھی کی کامیابی کے لیے مساجد میں رو رو کر دعا مانگی ہے۔صدام کے لیے مساجد میں دعائیں کی ہیں۔تمہاری قوم ہندوستانی مسلمانوں نے خمینی کو امام اکبر مانا ہے اور اس پرنچھاور ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ گاندھی کے متعلق فرمایا کہ اگر نبوت کا اختتام نہ ہو گیا ہوتا تو نبی ہوتے۔ مولانا احمد رضا خان نے اسی بنیاد پر مولانا عبدالباری فرنگی محلی مولانا آزاد سبحانی، محمد علی جوہر مولانا عبدالماجد بدایونی وغیرھم کو کافر قرار دیا تھا انگریز گورنر نے ندوہ کی بنیاد رکھی اور اس کے سامنے سارے مقتدر علماء ہند لیٹ گئے۔ نریندر مودی جیسے موذی کی تعریف میں ابناء جلدتکم تھکتے نہیں اور اسی کے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں راجستھان اور مدھیہ پردیش کے ریاستی انتخاب میں ہزاروں داڑھیوں والوں اور نقاب والیوں کو اس کی ریلیوں میں شریک کرنے کا انتظام ہوا اور شرکت ہوئی۔ ایسے ماحول میں سعودی عرب کے مداحوں سے میان سلمان ندوی مباہلہ کرنے آئے ہیں۔ تف ہے جناب اگر آپ آبروباختہ ہو گئے ہیں تو یہ آپ کو اختیار ہے اپنی ہیکڑی کے مظاہرے کے لیے اسلام حق اور مباہلے کو کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ ہیکڑی میں یہ اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ ساری دنیا بے وقوف ہے اور یہ تنہا عقلمند ہیں۔ مباہلہ کی دعوت کے پیچھے مکروہ عزائم اور بدنیتی کی سڑاندھ نمایاں ہے چھپ نہیں رہی ہے۔
جناب آپ کو پتہ ہوگا شرق اوسط میں ایران اس وقت پولیس بن چکا ہے۔ اور شرق و غرب اعداء اسلام اہل سنت کو فنا کرنے کے لیے اس کی صلاحیت کو تسلیم کر چکے ہیں اسے نیوکلیر پاور مان چکے ہیں اپنی اور اس کی اہل سنت دشمنی اور مقاصد میں ہم آہنگی ان کے لیے بہت بڑی حقیقت بن چکی ہے۔شرق اوسط میں اس کی کامیابیاں نمایاں ہو چکی ہیں۔رافضی اسلام چار ملکوں ایران، عراق، شام لبنان، تحریکی اسلام مصر، تونس، لیبیا اردن قطر مغرب اور سیکولر اسلام ترکی اور صلیب و صہیون کا ایک جتھا اوبامہ کے پلان کے مطابق بننے جا رہا تھا لیکن مصری قوم پرستوں نے مرسی کا تختہ پلٹ دیااور اس جتھا کے مقابلے میں مصر نے گلف ممالک کا ساتھ دیا، یوں یہ جتھا نہ بن سکا۔ لیکن پھر جنیوا میں معاہدہ کی شکل میں ایک تثلیثی رافضی اسلام صلیب اور صہیون کا جتھا بن گیا جس کا ہدف اہل سنت اور گلف ممالک ہیں۔ اس جتھے سے تحریکی اسلام والے اور سیکولر اسلام و الے کمپرومائز کر لیں گے اور اہل سنت کے لیے یہ ایک مستقل خطرہ ہے۔ جناب سلمان ثرثار صاحب ہر ایک کو اپنی موت و حیات کی فکر ہوتی ہے آپ کو تو آپ کے آگ اگلنے والے پھیپھڑے کی قیمت حیدرآباد بنگلور میں مل جائے گی سعودی عرب دشمنان اسلام سے اپنے بچاؤ اور تحفظ کے لیے اگر ساتھی اور ہمراہی تلاش کرے تو آپ کے خون میں ابال کیوں آرہا ہے اور آپ کے نتھنے کیوں پھول رہے ہیں اور آپ کے پھیپھڑے کی دھونکنی کیوں سر گرم عمل بن رہی ہے۔ امریکہ اسرائیل کے نام پر ہوا کھڑا کرکے بے وقوف بنانے کا طرز آپ نے کہاں سے سیکھا ہے۔ امریکہ اسرائیل اعدائے اسلام رافضی تحریکی صوفی قبوری سیکولر کمیونسٹ ہر طرز زندگی اپنانے والے سعودی عرب کے ہمیشہ درپئے آزار رہتے ہیں۔ اور رہے ہیں اور مظلوم سعودی عرب ان سے جان چھڑانے کے لیے برابر لٹ رہا ہے اس کے باوجود یہ گل اندام کس سیارے پر رہتے ہیں اور کیسی ہوائی باتیں کرتے ہیں کہ انھیں اس کی خبر نہیں۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مولوی صاحب اگر مباہلے کا شوق ہے تو اپنے اوہام بدگمانیوں، بدنیتیوں اتہامات اکاذیب اور دشنام کو حق بنانے سے پرہیز کریں اور اپنی دعوت کو مبرہن کریں اور جس حق کی دعوت لے کر اٹھے ہیں اسے سورج کی طرح کلیر کریں، اسے منصوص اساسی اور متعین اور مخصوص بنائیں۔ اور سو فیصد حقیقت ثابت کریں کہ سعودی عرب گیا گذراملک ہے اگر ایسا نہیں کر سکتے اور سوعمر پاکر بھی ایسا نہیں کر سکتے تو جائیں توبہ و استغفارکرئیں اور اپنی اصلاح کی فکر کریں یا پھر اپنی دکان چلائیں خیرات بٹوریں پیٹ پالیں، شان بگھاریں آپ کو کیا لینا دینا مسائل امت سے۔
اگر آپ کے پاس آپ کے دعوے کے پیچھے ثبوت نہیں ہے اور اپنے دعوے کو حق مبرہن اور متفق علیہ ومنصوص ثابت نہیں کر سکتے تو مباہلہ کے مرحلے میں داخل ہونے کی شرعا آپ کو اجازت نہیں ہے، اس عدم اجازت کے باوجود بھی اگرآپ مباہلہ کرتے ہیں تو اپنی نفس پرستی کا گند پھیلاتے ہیں اور مرزا غلام کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔
۵۔ مباہلہ کی دعوت سے پہلے پانچواں مرحلہ یہ ہے کہ آپ اپنے مدعوکو متعین کریں اور یہ ثابت کریں کہ کب آپ نے ان کو اسکی دعوت کہ سعودی عرب کو ظالم خونخوار اور مسلمانوں کا غدار مانیں اور کب انھوں نے انکار کیا تب ہی تو مباہلہ کی دعوت دے سکتے ہیں باہم چند لوگوں کا معارضہ ہے اور دعوت مباہلہ ساری دنیائے سفلیت کو یہ کیا ہے ذاتی مفادات کے لیے قوم کو الو بنانا اور فرقہ پرستی کی آگ جلا کر نیتائی کی روٹی سیکنا۔ ایسی بدبودار اور غلیظ دنیا داری۔ تف ہے ایسی بے وقوفی پر۔ہم آپ کی رد کرتے ہیں آپ ہماری تردید کرتے ہیں اور آپ ہماری تردید کر بھی نہیں پاتے پھر بھی قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے مباہلہ کی دعوت دعوت دیتے ہیں اور وہ بھی مرزائی طرز پر اور بحث چل رہی ہے فردفردکی اور دعوت دیتے ہیں سارے اہل حدیثوں کو اور سلفیوں کو۔ اگر یہی دعوت عام ہے تو ہماری طرف سے ندوہ میں موجود کسی اہل حدیث چپراسی سے مباہلہ کرلیں آپ کا مقام اس سے زیادہ نہیں۔
۶۔مباہلہ کی دعوت دی ہے تو یہ ثابت کیجئے کہ آپ مباہل اول حضرت محمد ﷺ کی مانند دین حق پرقائم ہیں۔ اعلی اخلاق کے حامل ہیں۔منکرات اورمعصیتوں سے دور ہیں عقیدہ صحیح ہے۔عمل درست ہے، حق کے طالب ہیں امت کے خیر خواہ ہیں۔ سب سے پہلے عقیدے کو لیں جہاں تک معلوم ہے آپ کوثری جہمی ہیں، تصوف کے منکرات کے حامل ہیں، ارجاء کا بھی عقیدہ لازما ہوگا کہ آپ کے نزدیک (الایمان لایزید ولاینقص) درست ہے۔ آگے چلیے بیس سالہ زکوۃ و خیرات وصولنے اور خرچ کرنے کا حساب دیجئے، خیانت سے پاک ہونے کا ثبوت دیجئے۔ سید ہیں زکوۃ کو ذاتی مصرف میں نہ خرچ کرنے کا ثبوت اور حلف نامہ دیجئے۔ اگر اپنے عقیدہ کی صفائی کا خیانتوں سے برأت کا ثبوت نہ دے سکیں گے تو ہرناحیے سے آپ مشکوک ٹھہریں گے اورمباہلہ کرنے کے اہل نہیں ٹھہریں گے۔ مباہلہ ایک حق پسند سچے انسان کے لیے انسانی وسعت سے باہر رب کریم سے حق آشکار کرنے کی التجا کا نام ہے جو شخص عقیدۃ عملا اور رزقا درست نہیں ہو اور موجود حق و ہدایت پر عامل نہ ہو وسعت بشری باہر اللہ سے حق آشکار کرنے کی التجا اس کے لیے بے معنی ہے۔
اور تو اور ہندوستانی نیتا گیری سے توبہ کا اقرار نامہ پیش کیجئے ایسی الا بلا کے ہوتے ہوئے دعوت مباہلہ دھوکہ دینے اور آبروبچانے کی ناکام کوشش ہے۔
۷۔مدعو کو آپ باطل پرست ثابت کریں نصوص دینیہ کے دلائل کے ساتھ۔ نفس پرستانہ اور ہوس پرستی کے بیانات سے نہیں۔ اگر مدعو کو باطل پرست ثابت نہیں کر سکتے بلکہ مدعو آپ کے باطل پرہونے اور آپ کے دعوی کے بطلان پر دلائل فراہم کر سکتا ہے تو پھر آپ مباہلہ کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں ایسی صورت میں آپ کا مباہلہ نبوی مباہلہ نہیں مرزائی مباہلہ ہے۔
۸۔ نبوی مباہلہ میں مباہل کو اپنی آل و اولاد سمیت پبلک کے سامنے آنا پڑتا ہے اور پھر دعا کرنی پڑتی ہے۔ اگر سید حسینی صاحب نبوی مباہلہ کر رہے ہیں تو اپنی آل واولاد کو لے کر رام لیلا گراؤنڈ میں پہنچ کر اسے مقدس بنائیں اور اگر انا ہزارے بننے کا شوق ہے تو مرزائی مباہلہ کرنے کے لیے وہاں اکیلے پہنچ جائیں۔
۹۔ مباہلہ میں ابتہال انابت اور تضرع کے ساتھ دعا اصل شے ہے، کیا جناب سید صاحب کے اس طنطنے اور ہمہمے میں یہ کیفیت باقی رہے گی۔ اور یہ بھی بتلا دیں آپ جس استکبار کی سواری پر تیس سالوں سے سوار ہیں کیا انابت ابتہال اور تضرع کی لذت سے آشنا بھی ہیں، میرا تو یہی ماننا ہے کہ متکبر اور چندہ خور چندہ بٹور ایسی کیفیت سے لذت آشنا ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کیوں زبانی جمع خرچ کو بلائے ناگہانی بنانے کا شوق پالتے ہیں۔
ہمیں سمجھ میں نہیں آتا یہ آدمی ندوہ میں پڑھاتا ہے یا نیتا گیری کرتا ہے یا فرقہ پرست گوریلے تیار کرتا ہے جس کو دینی مباہلے کی خبر نہیں اپنے تئیں علی میان ندوی بنا گھومتا ہے۔جناب کو نبوی مباہلے کی حقیت معلوم ہے نہ اس کے آداب و شروط نہ اس کے موضوعات اور چلے ہیں مباہلہ کرنے۔آپ کی دعوت مباہلہ مرزائی مباہلہ ہے توبہ کیجئے اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کیجئے۔ جناب نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے کیا چالاکی کی ہے کہ مرزائی مباہلہ کی دعوت دی ہے نرم چارا اپنے تئیں طے فرمایا ہے۔ جیسے سلطان محمد کی بیوی محمدی بیگم سے متعلق مرزا مباہلے کی دعوت دیتا رہتا تھا اور چیلنج کرتا رہتا تھا لیکن ناکام حسرتوں کے ساتھ وہ چلا گیا اور محمدی بیگم نے سو سال کے قریب طویل عمر پاکر دنیا سے کوچ کیا۔
اگرمباہلے کاشوق ہے تو جناب کو میدان عرفات میں جانا چاہئے اور اپنے ساتھ سعودی عرب کے ان ۵۶؍علماء کو ملا لینا چاہئے جو ان کے بقول سعودی عرب کو ظالم خونخوار غدار ماننے میں ان کے ہمنوا ہیں اور ان کے ساتھ ان تمام سلفی علماء کو بھی لے لینا چاہئے جن کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ سعودی عرب کو ظالم خونخوار غدار اور سارے عالم میں برائیوں کی جڑ بتانے میں ان کے ساتھ حق بجانب ہیں۔ جائیں میدان عرفات میں اور وہیں سعودی حکمرانوں سے مباہلہ کر کے اپنی حق پرستی اور شجاعت پرستی کا مظاہرہ کریں یا ان کو یہیں رام لیلا گراؤنڈ میں بلا لیں اس سے بہتر اور کیا ہو گا کہ ان کے ظالم قرار دادہ حکمرانوں سے امت نجات پا جائے۔ بزعم خویش برائی کی جڑ ہی کاٹ کر آجائیں، اس کا حوصلہ نہیں اور آئے ہیں مرزائی مباہلہ کرنے اور ان سے جو ایک مظلوم حکومت کی زبانی حمایت ہی کر سکتے ہیں۔شوق ہے تو کلی مباہلہ کیجئے، حاشیئے پر بیٹھ کر مفادات کے تحفظ کے لیے
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مرزائی مباہلہ کیوں؟
ثابت کرنا ہے ظالم باغی اور خونخوار سعودی عرب کو اور مباہلہ اہل حدیثوں سے۔ مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ والی مثل ہے۔ حضرت کو اتنی عقل نہیں کہ بات سمجھیں۔ کیا تھرڈ پارٹی سے مرزائی مباہلے کی گنجائش ہے؟ مسئلہ کسی کا اور مباہلہ کسی اور سے۔ معاملہ ذاتی غصہ اور نفع نقصان کااور مسئلہ پوری قوم کا۔ یہی فتنہ ہے اور غلو و فسادکی طلب۔ یہی جناب کے لیے مالیخولیائی ہونے کی دلیل ہے۔
یہ سب چندہ خور چندہ بٹور ذلیل لوگ اپنا اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور قوم کو بیوقوف بناتے ہیں۔ کام کا اور کوئی موضوع نہیں رہ گیا ہے آئے ہیں چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے اور اپنے مالی نقصان کا دردملت و مسلک کے حوالے سے بیان کرنے۔
ہمارے خیا ل سے قضیے کا حل یہ ہے کہ سلمان اور اصغر دونوں رام لیلا گراؤنڈ میں مقابلہ کر لیں کہ ان دونوں میں کون بڑا چندہ خور اور چندہ بٹور ہے وہیں فیصلہ ہو جائے گا اور قوم کی نگاہ میں طے ہوجائے گا کہ کون مرد میدان ہے اور کون بازی لے گیا، اور کون سعودی عرب کی عنایت کا زیادہ مستحق ہے، اور سارا ہنگامہ چیخنے چلانے کا ختم ہو جائے گا۔ یہ اپنی ذاتی مصلحتوں کو قوم و ملت کا مسئلہ کیوں بناتے ہیں۔ پیٹ نہیں بھر رہا ہے تو کاسہ گدائی لے لیں اور بھیک مانگیں قوم کو الو نہ بنائیں۔
خود پرستی میں انسان اس حد تک آگے جا سکتا ہے کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا سلمان کو کون نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے۔ ساری زندگی خیرات زکوۃ اور صدقات کے پیسوں میں کتر پیونت کرتے گذر گئی اور خیرات کے حصول میں مکرو فریب کی تدبیریں کرتے بیت گئی، لگتا ہے برسوں برسوں سے دولت کا بھوکا تھا مانگے کا موقع ملا ہے تو چاہتا ہے کہ کسی طرح بھی دولت آئے آنے دو۔ پھر شہرت کی بھوک ایسی ہے کہ چاہتا ہے کہ علی میاں کی خالی جگہ اسے مل جائے اس کے لیے رات دن ہاتھ پاؤں مارتارہتا ہے ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کی ہیکڑی ندوہ سے نکلنے کا باعث بن جائے اور علی میاں بننے کا سارا خواب دھرا کا دھرا رہ جائے۔
اگر میری مانیں تو میں کہوں گا جناب سید صاحب آپ زندگی کے جس مرحلے میں ہیں حیات مستعار کے بہت کم ایام مہہ و سال باقی رہ گئے ہوں گے۔۶۰؍سال کے تو کم از کم ہوں گے ہی، سکون سے بیٹھئے ذکرو اذکار کیجئے دلجمعی سے پڑھنے پڑھانے کا مشغلہ اختیار کیجئے تو بہ استغفار کیجئے خود بھی چین سے رہیں اور ندوہ والوں کو بھی چین سے بیٹھنے دیں۔کیوں ایسے کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں جس سے آپ کا ہاتھ ہمیشہ جلا، کہیں ایسا نہ ہو دامن اور جیب و دستار بھی جل جائے۔ یا یہ بھی طے مان کر بیٹھے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالی نے علی میاں کو ۸۷؍سال عمر دی تھی آپ کو بھی ملی ہے اس لیے تیس سالوں میں علی میاں کے لینڈ مارک کو پار کر جانے کا عزم ہے۔
سلمان صاحب آپ سن لیجئے آپ اس عمر میں بھی لاڈ پیار سے بگڑے بچے کی طرح ہیں اور ہمیشہ ایک کھلونے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت آپ نے ''مباہلہ'' کو کھلونا بنایا ہے ندوہ میں نواسا بگڑا ہو ا ایک بچہ بن گیا اور بڑھاپے تک اس کا بچپنا اس کا پیچھا کیے ہوئے ہے۔ اگر نواسہ زادگی کی شروع سے لگام لگی ہوتی تو یوں نہ اڑتا اور ''ماماؤں ''کی ناک میں دم نہ کرتا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سعودی عرب سے سلمانی عداوت کا سبب:
لوگوں کو شاید پتہ نہیں ہے کہ سلمان ثرثار کی سعودی عرب سے عداوت کی وجہ کیا ہے؟ جناب سعودی عرب سے اس لیے بغض نہیں رکھتے ہیں کہ انھیں اس پر یقین ہے جو کہتے یا جس پر مباہلہ کی دعوت دی ہے۔آخر وہ قطر کویت اور عرب امارات کے حکمرانوں پر کیوں نہیں اپنی تان توڑتے اور ناٹک کرتے وہ بھی گلف کی سیاست میں سعودی عرب کے ہم نوا ہیں۔ذرا اس سید زادے سے کوئی پوچھے یہ تفریق کیوں؟ کیا اس لیے کہ عرب امارات سے اسے جیب وشکم بھرنے کو زیادہ مل جاتا ہے اور قطرمیں شیخ یوسف قرضاوی کی حمایت سے چگنے کو دانے زیادہ مل جاتے ہیں۔ اورکویت میں بھی خانقاہیوں تحریکیوں کے ہاں کافی پذیرائی ہوجاتی ہے؟ یااس لیے کہ ا ن ملکوں میں مصر شام اور بر صغیر کے خانقاہیوں صوفیوں اور قبوریوں کا تخریبی مشن کامیاب ہو گیا اور یہاں کے حکمرانوں کو اب ان لوگوں سے وحشت نہیں رہ گئی ہے بلکہ درباروں اور ایوانوں کے بندوں نے یہاں رسائی پالی ہے اور ایک جتھا مفاد پرستوں کاادعائے وفا و خلوص سعایہ اور فریب کاری کے ذریعہ سعودی عرب میں بھی تقرب کے لیے لگا ہوا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سید ثرثار صاحب سعودیہ سے اپنی فرقہ پرستی کی بنیاد پر ناراض ہیں۔ انھیں رافضیوں قبوریوں تحریکیوں اور صوفیوں کی طرح سعودی عرب سے نفرت ہے یہ ان لوگوں کی طرح سعودی عرب کو وہابی کے تنابز بالالقاب سے جانتے ہیں اور ارشد مدنی کو کھلا خط لکھا ہے اس میں ان کی حقیقت کھل گئی ہے۔ در اصل یہ صاحب اس لیے چڑھتے ہیں کہ سعودی عرب میں جالیات کے ذریعہ کتاب و سنت کی تعلیمات کی اشاعت ہو رہی ہے اور لوگ بکثرت اسلام بھی قبول کر لیتے ہیں اور تقلید چھوڑ کر تصوف سے توبہ کر کے کتاب و سنت سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنی الجھن اور پریشانی کو کھل کر بیان نہیں کر پا رہے ہیں اس لیے کہ بہت سی مصلحتیں ہیں۔ ان کی گرویدگی شیخ عبدالفتاح کے ابوغدہ سے رہی۔ وہ شیخ زاہد کوثری کے دیوانے تھے شیخ کوثری اہل سنت کے دشمن تھے انھوں نے ائمہ ثلاثہ کو گالی دیا سلف صالحین میں کسی کو نہیں بخشا جس کو گالی نہ دی ہو جناب شیخ کوثری کی فکر کے حامل ہیں ان کے اندر بھی ان کی شدت پوری طرح موجود ہے ایک طرف فکری انتہا پسندی اور کوثری فکری اور عقیدے کی خرابیوں کے حامل ہیں علی میاں بننا چاہتے ہیں اس لیے ہر اسٹیج پر چمکنے کے خواہش مند رہتے ہیں اورشہرت کا پٹارہ بھی سر پر اٹھائے رکھنا چاہتے ہیں اور مادی مفادات کی تلاش و جستجو اور تحفظ کے خواہش مند بھی رہتے ہیں اس لیے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے اور بہروپ بھرنے کی عادت ہے ان چیزوں نے ان کو تضاد کا پیکر بنا دیا ہے۔
اس بار ان کا پارہ زیادہ ہی چڑھ گیا اور سعودی عرب کے خلاف گل افشانیاں شروع کر دی ہیں یہ بھی ایک سودا گری ہے بڑا لیکھا جوکھا اقدام۔ چاہتے ہیں سعودی عرب کے خلاف بول کر رافضی تحریکی اور سیکولر اسلام کی نگاہ کا کا تارا بن جائیں اور ہندوستان میں ان کی پکڑ ارشد مدنی یا محمود مدنی سے زیادہ بڑھ جائے۔ ظاہر ہے یہ بڑے فائدے کا سودا ہے ایک سعودی عرب چھوٹے اور دیگر دسیوں دروازے کھل جائیں تو اس سے بہتر کیا ہوگا۔مرزائی مباہلہ کی دعوت سے دنیاوی اور مادی فوائد تو ضرور جناب کو مل جائیں گے اور کل سعودی عرب سے بھی معافی مانگ لیں گے لہذا وقتی نقصان بڑے فائدے کی امید میں گوارا کیا جا سکتا ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
شاید انھیں خبر ہو:
شرق اوسط، افریقہ افغانستان پاکستان سویت یونین سے آزاد جمہوریات میں ایران کے اثر ورسوخ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کے مسائل میں وہ دخیل بن چکا ہے اور ایران سیریا لبنان پر اس کا کلی اختیار قائم ہو چکا ہے۔ گلف کے عدم استحکام کے وہ درپے ہے یمن اور بحرین کا بحران اسی کا پیداکردہ ہے۔ مسلم اقلیات میں اس کے خاموش اقدام کا نفوذ اور مسلسل پیش قدمی کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ سارے شرق و غرب کے اعدائے اسلام اسلام بطور شیعہ طاقت اسے آگے بڑھارہے ہیں اور مکمل تعاون دے رہے ہیں تا کہ اہل سنت کے موہوم خطرے سے وہ نمٹتا رہے اور ان کے درمیان مشترکہ مفادات کا بٹوارہ اور تحفظ ہوتا رہے۔ استعمار عمالہ موہوم انتہا پسندی اور اور اعدائے اسلام کی ساختہ پر داختہ دہشت گردی کے بعد اب یہ تماشاہوگا کہ فنٹک FANATIC رافضیت کو اہل سنت پر مسلط کر دیا جائے تا کہ لشکر کشی اور لمبے خرچ کے بجائے مغرب و مشرق کے لٹیرے صدیوں کے آزمودہ دوست سے کام لیں اور ضرورت پڑے تو ڈرون حملوں سے مظلوموں کا صفایا کر دیں۔ رافضی ایران صدیوں سے پیوست اہل سنت کے خلاف جذبۂ انتقام محاسدت اور پھر چاروں ملکوں پر براہ و راست و بالواسطہ حکومت نے خود اسے اور اعدئے اسلام کو یہ یقین دلایا ہے کہ یقیناًوہ اس کا اہل ہے کہ معرکہ حق و باطل ظلم و مظلومیت اسلام اور کفر میں تمام اعدائے اسلام کی نمائندگی کرے اور اہل سنت مسلمانوں سے لڑتا بھڑتا رہے۔ موجودہ معاہدہ جو ایران اور چھ ڈاکو ملکوں کے درمیان ہوا ہے اس کے مضمرات یہی ہیں کہ ایران کو جوہری توانائی ملک تسلیم کر لیا گیا ہے تا کہ شرق اوسط میں شیر بن کر آگے آئے۔اور سارے شرق اوسط میں اس کی دھاک بیٹھ جائے، افغانستان اور پاکستان کا پس منظر اور تاریخ اعدائے اسلام کے لیے نہایت خوفناک ہے اس لیے یہاں خطرات اور مشکلات برابر پیدا کیے جاتے رہے ہیں تا کہ یہ اپنا زخم چاٹتے رہیں اور مسائل کے بوجھ سے لدے کبھی دوسری طرف نہ دیکھ سکیں۔ خود اس خطے میں بھی ایران کی شیعہ گردی جاری ہے اور خطے کے شیعوں کی پشت پناہی اسے حاصل ہے۔ آخر کیا بات ہے کہ عراق اور افغانستان میں مغربی استعمار کے دوران پاکستان اور افغانستان پر شیعہ حکمراں مسلط کر دیئے گئے۔
ایران کو خطے کا پولیس بنانے کے لیے دس سالہ خونریزی اہلاک و افساد احراق و تبدید کے بعد جوشیلے تحریکیوں کو بے وقوف بنانے اور ان کے جذبات کا استحصال کرنے اور انھیں اپنے دامن میں سمیٹنے اور پرانے فرسودہ ناکارہ مہروں(مبارک، زین العابدین، قذافی وغیرہ) کو ڈھکیلنے کے لیے قصر ابیض کے انسانیت دشمن سازشیوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ اپنے آلہ کار سیکولر ایجنٹوں دین کے باغیوں اسلام اور مسلم دشمنوں کو آمادہ کردیں کہ میڈیاخصوصا انٹر نیٹ کا استعمال کریں اور سڑک پر آجائیں۔ پرانے مہرے اسلام پسندوں اور اسلام دشمنوں کے مشترکہ مخالف تھے، اسلام پسندوں کے دشمن اصلی اور اسلام دشمنوں کے بناؤٹی یا ذاتی مفادات کی جنگ کے سبب۔ مشترکہ مخالف کے خلاف جذباتی نعروں نے ایک مضبوط محاذ بنا دیااور کئی پرانے مہرے لڑھک گئے، حکمرانی کا خلا پیدا ہوا حسب توقع اسے پر کرنے کا موقع تحریکیوں کو ملا اور انھیں یہ موقع ملا کہ اگر یہ حکمرانی میں کامیاب ہوگئے تو سیکولر اسلام، تحریکی اسلام، رافضی اسلام کو ایک جگہ جمع کیا جا سکے گا اور اگر ناکام ہوگئے تو ایک پبلسٹ فورس سے اعدائے اسلام کو نجات مل جائے گی، ان کی کامیابی کی صورت میں بھی اعدائے اسلام کی کامیابی تھی۔ اور ناکامی کی صورت میں بھی کامیابی۔ ان کی کامیابی کی صورت میں سارے سیکولر مسلمان تحریکی مسلمان اور رافضی مسلمان غرب و شرق کے اعداء ایک ہوکر اعداء اسلام کے موہوم خطرے اہل سنت اور سلفیت سے نجات پاجائیں گے۔ اس گیم پلان کا زیادہ مہلک اثر سارے عالم میں اہل سنت سلفیوں پر پڑنا طے ہے اور جس طرح تحریکی اور رافضی اسلام کو اہل سنت خصوصا سلفی اسلام سے دشمنی رہی ہے اور تیس سالوں سے جس طرح انھوں نے تباہی میں دشمنوں کا ساتھ دیا ہے تاریخ کا ایک المناک باب ہے ان حقائق کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام پسندوں سے نہ ڈرو سلفیوں سے ڈرو(DONT FEAR ISLAMIST\'S FARE SLAFI\'S) نعرہ لگ رہا ہے اور یہ نعرہ تحریکیوں کو بہت پسند ہے قذافی کے دم چھلوں کو بھی یہ نعرہ بہت اچھا لگا، ملی گزٹ میں بڑی والہیت سے یہ نعرہ لگایا گیا۔ کیا حقیقت پسنددین پسند، اہل سنت سلفی اور دشمنوں کی سازشوں سے باخبر سادہ مسلمان اسے نظر اندازکرسکتے ہیں۔ تحریکی پپلسٹ ناکامی کا اشارہ دینے لگے تو جھٹ جنیوا میں رافضی اسلام کو دشمنوں نے گلے لگا لیا اور یہ امید یقینی صورت میں لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی بھی پرکشش نعرے سے تحریکیوں کو پھر سے اپنے مقاصد میں استعمال کریں گے جس طرح وہ جہاد افغانستان اور چاروں خلیجی جنگوں میں استعمال ہوئے۔
یہاں ملت کی بربادی کے لیے دشمنوں کے آشیانوں میں منصوبے بن رہے ہیں اور ادھر ایک بگڑا ہو نواسہ زادہ شہرت اور ذاتی مصالح کے موہ میں اندھا ہو اجا رہا ہے اور مرزائی مباہلہ کی دعوت دے رہا ہے اور بے سمجھے بوجھے اعدائے اسلام اور اس کے پرانے آزمودہ کار چالاک ایجنٹ کے خاکوں میں رنگ بھر رہا ہے اور شیطان نے اس کی اس حماقت کو اتنا مزین کر دیا ہے کہ کہ اپنی حماقت نفس پرستی اور مادہ پرستی کو حق الیقین سمجھ رہا ہے۔ کیا مرزا غلام آف قادیان اور کٹولی کے سید زادے کی ذہنیت کے درمیان کو ئی فرق ہے۔ اس کے نزدیک ایک مظلوم دنیا کے سارے ممالک اور ان کے حکمرانوں سے بہتر حکومت اور حکمرانوں کی زبانی حمایت بھی جرم عظیم ہے شاید کفرہے۔ رافضیت اور اس کے مخالف اعدائے اسلام کا وہ نشانہ ہے اور اس طرح اس کے گرد گھیرا ڈالا گیا ہے کہ انھوں نے اس کی تباہی کے سارے انتظام کر لیے ہیں اور وہ بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اس کا ژلہ خور اس وقت اس پر خوشی سے بغلیں بجا رہا ہے کہ سعودی عرب تباہ ہو رہا ہے۔ اور تماشائی دشمن کی طرح چلا رہا ہے کہ ڈوپ جاؤ بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں کیوں مارتے ہو۔ اور جو زبانی طور سے تسلی دے رہے ہیں یہ حماقت کا پیکر ان سے مباہلہ کرنے چلا ہے، اکیسویں صدی میں ایسے احمق بھی جیتے ہیں، دنیا دیکھ لے اس پیکر حماقت کو اوراسے میوزیم میں سجانے کا انتظام کرکے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اخری بات:
مولوی صاحب: دین و ملت رجال وافکار کھیل تماشا نہیں ہیں، یہاں (فاماالزبد فیذہب، جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض) کا عمل جاری ہے نظام حیات رب العالمین کے ہاتھ میں ہے، نیک نیتی و بدنیتی کا حساب اور جزاء و سزا طے ہے اور سامنے آتا رہتا ہے۔ آپ کے تصرف سے ایسا لگتا ہے جیسے آپ کی اکڑاور شیخی کے تحت سارے کاروبار حیات چلتے ہیں۔ اللہ کی زمین میں علواستکبار اور فساد کا کام صرف جبارین و متکبرین کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت نے بھی سعودی حکمرانوں کے اندر اتنااستکبار اور علو کا مزاج نہیں بنایا ہے جس قدر آپ کے اندر ہے جب کہ آپ محض ایک چندہ خور اور چندہ بٹور ہیں۔
آپ نے خوشامدی ابن الوقت اور شکم پرور قسم کے لوگوں کے جال میں پھنس کر حیدرآباد سے سعودی عرب کے خلاف لفظی اور مصنوعی جنگ چھڑی ہے ان کے پھندے سے باہر آئیے۔ حالات کی نزاکت کو سمجھئے اعدائے اسلام اور رافضیوں کی اہل سنت کو گھیرنے کے مذموم عزائم کو سمجھئے۔ اپنے تحریکی دوستوں کی سطحیت ناسمجھی اور بڑ کوپہچانئے اور تمام اہل سنت کو اعدائے اسلام اور ان کے کارندے رافضی ایران کے خلاف کھڑا کیجئے۔ وقت کا سب سے بڑا یہی تقاضا ہے کہ سارے اہل سنت مل کر اعدائے اسلام کی یلغار کو روکیں اہل سنت کی ناموس اور حرمین کی عظمت کی رافضیوں سے حفاظت کریں۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو اہل سنت کوان کی ناموس اور حرمین اور ان کی عظمت کو رافضی اسی طرح پامال کر ڈالیں گے جس طرح ایران میں اہواز خراسان اور بلوچستان کے سنیوں کو تباہ کردیا ہے عراق کے اہل سنت جس طرح برباد کیے گئے اور جس طرح بحرین کو برباد کرنے پر تلے ہیں۔
مولوی سلمان صاحب ہوش میں آؤ، گپ مت ہانکو اور گپ کی اساس پر مفادات کے تحفظ کے لیے مرزائی مباہلے کی احمقانہ دعوت مت دو۔ ذاتی مفادات رنج و غم اور نفرت اور عداوت کی آگ میں قوم کو جھونکنے کی کوشش مت کرو مولوی سلمان اگر آپ کی حسینی سیادت میں کچھ دم باقی ہے تو شیعوں کی حمایت مت کرو۔ تمہارے آباء و اجداد کے خون کے چھینٹے آج بھی ان کے دامن پر بکھرے ہوئے ہیں۔ انھیں آنکھ اٹھا کر دیکھو اور عبرت حاصل کرو اگر انھیں موقع ملے گا تو پھر ہمیں تمہیں اسی طرح ذبح کریں گے جس طرح پہلے کر چکے ہیں اور اپنے دامن کو اسی طرح ہمارے خون سے سجائیں گے جس طرح پہلے سجا چکے ہیں۔ علی زین العابدین کے مقولے کو یاد کرو جب انھون نے کوفہ میں ان کی آہ و بکا سنی تھی تو پوچھا تھا یہ کون رو رہے ہیں، بتلایا گیا تمہارے بابا کی مظلومیت اور آل نبی کے گھرانے پر رو رہے ہیں انھوں نے کہا پھر ہم اپنے خون کے چھینٹے کس کے دامن پر تلاش کریں؟
تحریکی سر پھر ے سلمان کو اس وقت ہیرو بنائے ہوئے ہیں۔ کیا وہ بھی رام لیلا گراؤنڈ میں ان کے ساتھ آئیں گے اور حاضرین کو پانی چائے پلائیں گے۔ یاتماشائی بن کر لطف لیں گے جیسا کہ ایسے موقعوں پر ان ابن الوقتوں کی عادت ہے۔ یہ ایسے موقعوں پر تماشائی اور بی جمالو بن کر موقع سے خوب فائدہ اٹھا کر لطف اندوز ہوتے ہیں یہی ان کا شیوہ رہا ہے۔ باتیں بنانا اور خلوت کدوں میں شیخی بگھارنا۔مشفق ناصح بن کر روباہی کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ اسعد مدنی نے جب ۲۰۰۱ء میں فتنہ اٹھایا تھا تو بلا نوعیت جانے بوجھے مشفق ناصح بن کر انھوں نے خوب لطف لیا اور وہی پرانا دنیا دارانہ اتحاد کا نعرہ لگایاتھا۔ حق کیا ہے باطل کیا ہے جارح کون تھا اور مظلوم کون اس کی پہچان کی بھی انھیں سکت نہیں اور جھٹ سے آگئے تھے ملت کے ٹھیکیدار بننے۔ واقعی میں اگر کوئی حق جانے اور دلسوز ی سے اسے بیان کرے تو بہتر ہے یااپنی حد تک کوشش کرے تو روا ہے لیکن ایسے مواقع پر حق کا چمپین بننا منافقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 
Top