سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
یہ نبوی مباہلہ نہیں مرزائی مباہلہ ہے
ذہنی توازن کا بگاڑ اور مالیخولیا کا دورہ:
سنا گیا ہے شبابِ اسلام کے سربراہ، کٹولی مدرسہ کے ذمہ دار اور ڈاکٹر سید عبدالعلی طبیہ کالج کے بانی کا بلڈپریشر اتنا ہائی ہو گیا ہے کہ اب ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے ذہنی توازن کو درست فرمادے۔ ذہنی توازن بگڑنے کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔
۱۔ اپنی ذات سے شدیدمحبت۔ ۲۔ ذاتی مفادات سے شدید محبت۔ ۳۔ شہرت کے لیے دیوانگی۔
تینوں اسباب مرزا غلام احمد قادیانی کے اندر جمع تھے اسی لیے وہ مالیخولیا کا مریض بن گیا تھا۔ مالیخولیا ذہنی توازن کے بگاڑکی بہت بڑی علامت ہے۔ مالیخولیائی انسان روشن دن میں جاگتے ہوئے عالمِ تصورات میں رہتا ہے اور خود کو کبھی اڑتا ہوا محسوس کرتاس ہے، کبھی چلتا ہوا اور کبھی منصب کے سنگھاسن پر فائز مسکراتا اور ہنستا نظر آتاہے۔
ایسا لگتا ہے شباب اسلام کے سربراہ کا ذہنی توازن مالیخولیا کے قسم کا ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی کے قبیل کا مرض ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی سماجی اور اقتصادی حالت بگڑ گئی تھی وہ ان کی سدھار چاہتا تھا اور ذاتی امنگ اور سوچ ایسی تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ اسے دولت، شہرت اور منصبِ قیادت حاصل ہو، پھر آگے چل کر اس راہ میں مخالفین سے شدید نفرت بھی اسباب جنون میں شامل ہوگئی۔ یہی سب کچھ اس طنطنے اور ہمہمے والے مولوی کے پاس بھی ہے۔ مولوی صاحب بھی پیدائشی نرجسی اور خود پرست ہیں قیادت منصب اور دولت کے بھوکے۔ اسی میں عمر کٹ رہی ہے اس حب ذات، حب منصب اور حب دولت اور مخالفین سے شدید نفرت نے جناب کواس موڑ پر پہونچا دیا ہے کہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اور اس کے باوجود بھی اگر مقصد حاصل نہ ہو یا کوئی رکاوٹ کھڑی ہو تو نفرت میں جنون کی حد تک پہونچ جاتے ہیں، اسی مالیخولیا کا اثر ہے کہ جناب نے مباہلہ کا چیلنج دیا ہے۔
مباہلے کی دعوت:
مولوی صاحب کا مباہلے کی دعوت، کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہے۔ یہ در اصل ایک فریب ایک پلولی(PLOY) اور مصیبت سے جان چھڑانے کی بات ہے، جناب نے بڑے طنطنے سے زنانہ مکر کے لہجے میں الفاظ کی قے کر کر کے سعودی حکمرانوں کو کوسا تھا اور اتنی اونچائی سے بات کی تھی جیسے سارے حقائق کی تازہ تازہ وحی شبلی ہاسٹل کے مناروں سے ان کو ہوئی ہے اور سارے درشہوار غیب سے انھیں کے حق میں نام زد ہوکر آئے ہیں۔ اپنے ہی جال میں پھنسے تو اب لے دے کر بات اس پر رکی کہ سعودی عرب کا رویہ اپنے ہمسایوں کے حق میں سازشی ہے اور اسلامی اخوت کے برعکس ہے اسرائیل اور امریکہ کے ہم نوا ہے، شام مصر اور ایران میں اس نے شیعوں اور دین دشمنوں کا ساتھ دیا ہے۔ انسان جب خوش فہمی کے گنبد میں جیتا ہے اور شان کبر سے آراستگی کو کمال سمجھتا ہے اور دین کو اپنی آن بان قابلیت اور عظمت و رفعت کے لیے استعمال کرنے میں ڈھیٹ بن جاتا ہے تو ایسی حرکتیں کرتا ہے۔ جب ان سے کچھ نہ بات بنی، اور دیکھا ناک کٹ رہی ہے تو ناک بچانے کی خاطر مباہلے کی دعوت دے بیٹھے۔ مرزا غلام احمد کی اولاد کو بڑی خوشی ہوئی ہوگی کہ برصغیر کی اکال الامم سرزمین میں ان کی مانند ذہنیت کا ایک اور انسان پیدا ہوگیا۔ اس کی عیاری مکاری اور چالاکی سید سلمان ندوی کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔
ہمارے مولوی صاحب نے سمجھا تھا کہ دو تقریر کریں گے اور سارے ملک میں لوگ تیارہو کر ان کے ساتھ سعودی عرب کو گرانے شام کو نجات دلانے اور مصر کو بچانے نکل پڑیں گے۔ بدقسمتی سے ان کے غبارے کی ہوا نکل گئی اور ان کے کبر کے تابوت میں ارشد مدنی نے کیل ٹھونک دی۔ ترکی سے تازہ تازہ اور فریش انرجی لے کر لوٹے جہاں اتفاق سے ماحول ان کی خوابوں اور اوہام کے ہم آہنگ ہے، جوش جنوں میں مولوی اصغر اور سارے اہل حدیثوں کو مباہلے کی دعوت دے بیٹھے، اور مولوی ارشد مدنی کو تذکیر و فضیحت۔ مباہلہ کیا ہے اسے ہم بعد میں بتائیں گے لیکن اگر ہم جناب کے اس پلوئی اور تماشے کو شرعی مباہلہ سمجھتے، اسے ناٹک کے بجائے حقیقت جانتے تو بھی ہم یہی سمجھتے کہ ان کے مباہلے کی دعوت ایسی نہیں کہ کسی سنجیدہ دین دار اور ذی علم انسان کے لیے درخور اعتناء ہو۔ ان کے مباہلے کے لیے ندوہ ہی میں کوئی اہل حدیث چپراسی ہی کافی ہوتا، ندوہ کے فیلڈ میں وہ اپنی آل و اولاد لے جاتے اور اسی طرح اہل حدیث چپراسی بھی اپنی آل و اولاد لے کر آتا اور پھر دونوں طرف سے مباہلہ کے لیے دعا ہوتی ندوہ کے سارے طلباء و اساتذہ یہ منظر دیکھتے اور وہیں یہ طے ہو جاتا کہ سحر انگیز فریب کار طنطنہ خیز سید کے نئے فتوحات کیا ہوتے ہیں۔ اور اگر اس پر راضی نہ ہوتے تو حافظ عتیق صاحب وہیں پر موجود ہیں، ماشاء اللہ اس وقت ان کی بھی اہل حدیثیت زوروں پر ہے اصغر صاحب کے مرید خاص بھی ہیں دونوں حقوق ادا ہو جاتے، اہل حدیثیت کا بھی اور اصغر سے دوستی کا بھی۔ اس سے بہتر اور کیا ہوتا کہ حق ندوہ کے فیلڈ میں نمایاں ہو جاتا۔ اگر یہ منظور نہ ہوتا اور انا ہزارے بننے کا شوق چرایا ہے، نگاہ انتخاب رام لیلا گراؤنڈ پر پڑی ہے تو وہیں آجائے مرکزی جمعیت کا ایک کارکن ضیاء الحق اس کے لیے کافی ہوتا۔ ماشاء اللہ محنتی ہے، حق حلال کی روزی کھاتاہے، چندہ خورچندہ بٹور نہیں اور سلمان صاحب کی داڑھی سے بڑی اس کی داڑھی ہے اور ان سے زیادہ پکا نمازی بھی ہے، کبرو غرور شیخی و تعنت سے بھی پاک ہے خوش گفتار خوش کردار اور ملنسار و ہنس مکھ ہے اور حق کا طلب گار واقعی ضیاء الحق ہے۔ بس یہی کافی ہوتا ان سے مباہلہ کرنے کے لیے۔