سنن الکبری نسائی کی ایک روایت ہے جس کو ماہنامہ الحدیث میں سند حسن کہا گیا ہے وہ روایت یہ ہے ۔
أخبرنا قريش بن عبد الرحمن الباوردي قال: حدثنا علي بن الحسن قال: أخبرنا الحسين بن واقد قال: حدثنا عبد الملك بن عمير قال: سمعت ابن الزبير يقول: سمعت عمر بن الخطاب يخطب
یہ حدیث صحیح ہے ،کئی اسانید سے منقول ہے ،تفصیل کا وقت نہیں
اگر کسی کو ۔۔عبدالملک بن عمیر ۔۔ والی سند پر اعتراض ہے ،تو عبدالملک بن عمیر کے علاوہ دوسری اسناد سے پیش کئے دیتے ہیں :
امام ترمذیؒ نے روایت کیا کہ :
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا النضر بن إسماعيل ابو المغيرة، عن محمد بن سوقة، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: خطبنا عمر بالجابية، فقال: يا ايها الناس، إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا، فقال: " اوصيكم باصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب، حتى يحلف الرجل ولا يستحلف ويشهد الشاهد ولا يستشهد، الا لا يخلون رجل بامراة إلا كان ثالثهما الشيطان، عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين ابعد، من اراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد رواه ابن المبارك، عن محمد بن سوقة، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں (میرے والد) عمر رضی الله عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تبع تابعین) کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔
سنن الترمذی 2165 ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۷ (۲۳۶۳) (والنسائي في الکبری:
https://archive.org/stream/waq51186/snk08#page/n286
و مسند احمد (۱/۱۸، ۲۶) (تحفة الأشراف: ۱۰۵۳۰)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2363)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام حمیدیؒ نے روایت کیا کہ :
حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن ابن أبي لبيد، عن ابن سليمان بن يسار، عن أبيه عن عمر بن الخطاب أنه خطب للناس بالجابية فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم كقيامي فيكم فقال: «أكرموا أصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يظهر الكذب حتى يشهد الرجل ولم يستشهد، ويحلف ولم يستحلف، ألا لا يخلون رجل بامرأة فإن ثالثهما الشيطان، ألا ومن سرته بحبحة الجنة فليلزم الجماعة فإن الشيطان مع الفذ وهو من الاثنين أبعد، ألا ومن سرته حسنته وساءته سيئته فهو مؤمن»
https://archive.org/stream/MusnadHumaidi/Musnad Humaidi#page/n31
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔