اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
میں آپ کی بات پوری طرح سمجھ نہیں سکا شاید۔ہر چیز کا توڑ کیا جا سکتا ہے اور جو چاہے ذاتی تجربہ کر لے ۔ صرف ایک قوت ہے جو کسی بهی پست کو بالا کر سکتی ہے اور کسی بهی بالا کو پست ۔ اس کی ذات پر اعتماد ہو ۔ ایمان کی قوت پاس ہو تو ہر علم ، خواہ انسانی ہو یا شیطانی کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا ۔ مسلمان پر شیطان اسی وقت تسلط کر سکتا ہے جب مسلمان کا ایمان کمزور ہو ۔
ایک عام انسان کسی بهی سحر کو ۔ نظربندی کو ۔ یا کسی بهی محیر العقل واقعہ کو چاہے جس نظر سے دیکهے ، ایمان والے لا حول ولا قوة إلا بالله ہی پڑهتے ہیں اور ایسی تمام حرکات کو شیطانی حرکات ہی سمجهتے ہیں ۔ ورنہ جلیل القدر صحابہ الکرام سے بڑهکر تقوی کسکا ہو سکتا ہے بهلا اور کون ان سا زاہد اور مخلص فی الدین ہو سکتا ہے ۔ ابو بکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم سے ایسی کوئی مثال کیوں موجود نہیں ۔ یہ کون سی ریاضت ہے جو صحابہ الکرام سے ثابت نہیں ! یہ کون سے علوم ہیں جو صحابہ کے پاس نہیں تهے ۔
کمال کی بات ہے کہ ایسا علم ہے جو مشترکہ طور پر غیر مسلمین کے پاس ہے اور وہ ریاضتیں مشقیں جو بهی ہوں وہ بهی کرتے ہیں ۔
میں اہل علم کی رائے چاہتا ہوں ۔
بہر حال۔ ہر علم تو کجا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بہت سے وہ عمومی کام بھی ثابت نہیں جو ہم میں عام ہیں اور جائز کام ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علوم یا ان کاموں کا تعلق اسلام سے بلاواسطہ نہیں ہے۔ تابعین و علماء جانتے تھے کہ انہوں نے کیا نقل کرنا ہے اور کیا فائدہ مند ہے۔ انہوں نے وہی نقل کیا۔ اس سے نہ تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے پاس یہ علوم نہیں تھے اور نہ یہ کہ ان کے پاس یہ علوم تھے یا یہ طاقتیں تھیں۔
ویسے ہر چیز سے قطع نظر، بجلی ایک طاقت ہے جو مادے میں پائی جاتی ہے اور بہت مفید ہے۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ صحابہ کرام نے اس طاقت کو کیسے اخذ نہیں کیا؟ یہ کیسا علم ہے جو آج کے شرابی سائنسدانوں کے پاس ہے اور صحابہ کے پاس نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ تو ہم اسے کیا کہیں گے؟؟؟
دین سے متعلق ہر امر وہی معتبر ہے جس کا تعلق نصاً یا استنباطاً نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ہو۔ لیکن غیر دین میں ایسا کوئی اصول نہیں۔
آپ نے جو ارشاد فرمایا:
یہ بات درست نہیں۔ آپ کا ایمان قوی ہو لیکن کوئی آپ کو بجلی کی تاروں سے جوڑ دے تو سائنس کا علم آپ کو جلا دے گا۔ اسی طرح یہ علم بھی ایک سائنس ہے۔ اور ہر علم کی اپنی دنیا ہے۔ایمان کی قوت پاس ہو تو ہر علم ، خواہ انسانی ہو یا شیطانی کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا
نظر بندی اور ہپناٹزم وغیرہ کو بہت سے علماء نے سحر قرار دیا ہے۔ کچھ نے شیطانی علوم بھی کہا ہے لیکن یہ سحر کی تعریف میں داخل نہیں ہوتے نہ ہی ہر جگہ شیطان کا ان سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔
تصوف کی جو ریاضتیں ہوتی ہیں ان کے متعلق پہلے ایک بات سمجھ لیجیے۔ اسلام سے متعلق علوم میں تصوف وہ علم ہے جو سب سے زیادہ مکدر ہوا ہے اور سب سے زیادہ بگڑا ہے۔ تصوف کا مقصد دین پر چلنا تھا چاہے جس نام سے بھی ہو۔ لیکن اس میں بہت کچھ خلط ملط ہو گیا۔ اور اس کی دو وجہیں بنیں:
اول: بہت سے ایسے لوگ آئے جنہوں نے اپنی دکان چلانے کے لیے عجیب عجیب باتیں اور اعمال گھڑ کر انہیں دین کا حصہ بنا دیا۔
ثانیا: بہت سے صحیح حضرات صفات محمودہ سے متاثر ہو کر انہی کو اصل سمجھ بیٹھے۔
اسی طرح فی نفسہ ایک چیز نہ محمود ہوتی ہے نہ مذموم۔ کوئی شخص اسے اپنی طبیعت سے متاثر ہو کر یا اس میں کسی اور عمل کے لیے فائدہ سمجھ کر اسے اختیار کرتا ہے اور آئندہ آنے والے اسی کو عبادت سمجھ بیٹھتے ہیں تو اس میں اس شخص کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔
تو تصوف کی ریاضتوں کو اگر ان کی حد میں رکھا جائے تو درست ہیں لیکن اگر حد سے باہر نکالا جائے یا غلط مقصد کے لیے اپنایا جائے تو یہ درست نہیں ہیں۔ یہ ہر مباح معاملے میں اصول ہے۔
یہ جو ہم نے یہ اصول بنا لیا ہے کہ تصوف کا ہر کام غلط ہے تو یہ اصول درست نہیں۔ کام کی حیثیت کو دیکھنا چاہیے پھر اس کا شرعی اعتبار سے جائزہ لینا چاہیے۔