• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ کونسی عبادت ہے؟؟؟؟

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہ بات درست نہیں۔ آپ کا ایمان قوی ہو لیکن کوئی آپ کو بجلی کی تاروں سے جوڑ دے تو سائنس کا علم آپ کو جلا دے گا۔ اسی طرح یہ علم بھی ایک سائنس ہے۔ اور ہر علم کی اپنی دنیا ہے۔
محترم معذرت کے ساتھ لیکن محترم طارق صاحب کے جواب میں آپ نے جو یہ تحریر فرمایا ہے یہ بلکل بھی درست نہیں. اور نہ ایسا موازنہ آپ کو زیب دیتا ہے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

تصوف کی اصطلاح کو زہد و تقوی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، مسئلہ دراصل یہ ہے کہ کون کس عمل کو کیا کہہ رہا ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں سیاق و سباق کو سمجھنا ضروری ہے۔
جب علماء تصوف کی نکیر کرتے ہیں تو اس سے وہی آج کا معروف تصوف مراد ہوتا ہے، جو ابن عربی وغیرہ کا ہے!
جزاک اللہ خیرا ۔ اشماریہ بهائی نے ہمیشہ اسی اصل تصوف کی مثالیں دی ہیں ۔ جنہیں ہم زہد اور تقوی کهتے ہیں ۔ اگرچہ میری تمام کهی باتیں اسی طرح سمجهی جائیں تو مغالطہ نہیں ہوگا ۔ ان شاء اللہ۔
وجزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ہماری فکر ایسی ہیکہ ہر چیز پر قادر اللہ ہے ۔ اس میں زندگی ، موت ، رزق سے لیکر ہر ہر چیز ہے ۔ ہماری فکر یوں ہیکہ اللہ جس سے چاہے جیسا چاہے کام لے سکتا ہے ، مثلا اللہ نے قوموں کی ہلاکت آواز سے کی ، پانی سے کی ، برق سے کی اور ابرہا کا لشکر ابابیلوں سے ریزہ ریزہ کردیا ۔ وہ کنکریاں مثل صواریخ (میزائیل) ہاتهیوں کے سروں کو پاش پاش کر گئیں ۔
تصوف جسکا رد ہر دور میں ہر صحیح العقیدہ نے کیا (زہد اور تقوی سے ہٹکر ابن عربی ٹائپ تصوف)، اس میں تو سارا کام اللہ کے هاتهوں میں ہے ہی نہیں ۔ یہ تو سب نعوذ باللہ منقسم ہے انسانوں کے درمیان ، زندہ تو زندہ یہاں تک کہ مردہ انسان بهی ہر معاملہ میں دخیل ہوتا ہے ۔ یہ طاہیں تو گهروں کو برکتوں سے بهر دیں ، چاہیں تو بچوں سے بهر ں ۔ الغرض ہر وہ کام کردیں جو خود چاهیں ۔ یہ سب کیا ہے ؟ تصوف؟ یہ کیسا تصوف ہے جو غیر اللہ کو پکارنے کہتا ہے ، یہ کیسا تصوف ہے جو غیر اللہ کو سجدہ تک کروا لیتا ہے اور یہ کیسا تصوف ہے جس میں عبادات اور ان عبادات کے طریقے تک غیر اسلامی ، غیر شرعی ہیں اور یہ کیسا تصوف ہے جو دین اللہ سے براہ راست ٹکراتا ہے ، متصادم و متحارب ہوتے ہوئے بهی اسلام کا حصہ ہے ؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جو تصور زہد و تقوی کا ہے ، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ہے ، وہ تمام کے تمام شریعت اللہ کے احکامات کے دائرے سے خارج ہے ہی نہیں ۔
جہاں میری فکر غلط ہو ، شریعت سے مخالف ہو تو میری اصلاح کیجائے ۔ لیکن ایک درخواست بهی ہے کہ جوگیوں ، سنتوں ، مہاپرشوں اور بزرگوں کی مشقوں ، ریاضتوں اور عبادتوں کو اسلامی تصوف نا کہیں اور ان تمام اقوال و اعمال کی کهل کر تنقید کریں ۔
والسلام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کی معلومات کا اور سمجہانے کا شکریہ ۔
تصوف زہد اور تقوی کے علاوہ بهی کچہ ہے اگر وہ "حد" میں ہو ؟
برسوں سے ایک جملہ اور قاعدہ پڑھتے آ رہے ہیں "لا مشاحۃ فی الاصطلاح"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصطلاحات میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ دو اشخاص ایک ہی کام کو دو الگ الگ نام دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔
جسے زہد و تقوی کہا گیا اسی کو تصوف کہا گیا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی (کما قال بعض العلماء) کہ زاہد و متقی حضرات سادہ کپڑا پہننے کی غرض سے صوف کا جبہ پہنتے تھے۔ اس سے انہیں متصوف کہا جانے لگا۔

وہ مشقیں اور ریاضتیں کیا زہد اور تقوی کہلائی جا سکتی ہیں ؟
ان مشقوں اور ریاضتوں کی قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بهی واضح دلائل اور احکامات ملنے چاہئیں ۔
نہیں یہ ریاضتیں صرف بعض کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ قرآن و سنت سے دلائل اور احکامات ان چیزوں کے ملتے ہیں جو مقصود ہوں۔ ویسے تو نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ سے یہ باتیں ملتی ہیں کہ آپ کے یہاں تین تین روز تک چولہا نہیں جلتا تھا، اسودین (پانی اور کھجور) کے علاوہ کچھ کھانے کو نہیں ہوتا تھا، اور آپ شاہی کپڑوں کے بجائے سادہ کپڑے پہنتے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی مقصود نہیں۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے بعد میں اس طرز زندگی کو ترک کر دیا تھا اور خوشحالی کی طرف آ گئے تھے۔ حتی صحابہ (غالبا ابو ہریرہ رض کی روایت ہے) کہ اپنے ماضی کو یاد کر کے غمزدہ ہوتے تھے۔
اگر یہ سب مقصود ہوتا تو وہ اس ثابت شدہ چیز کو کبھی نہ چھوڑتے۔
تصوف میں بھی صوفیاء (میں حقیقی صوفیاء کی بات کر رہا ہوں) نے بعض ریاضتوں کو بطور مددگار استعمال کیا۔ اس لیے ان کے لیے واضح دلائل ملنے ضروری نہیں ہیں۔ میں ایک مثال آج کے دور سے دیتا ہوں۔ ہم میں سے بہت سے علماء کمر کی تکلیف کی وجہ سے فرشی نشست پر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی مددگار ہے جو نبی کریم ﷺ سے ہرگز ثابت نہیں۔ لیکن چونکہ یہ مددگار ہے، مقصود نہیں اور مقصود یعنی نماز کی ادائیگی میں آسانی کا ذریعہ ہے اس لیے یہ درست ہے۔

یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ ریاضتیں کچھ لوگوں کے لیے مفید ہوتی ہیں لیکن دوسرے بعض کے لیے تباہ کن ہوتی ہیں۔ نبی ﷺ مساکین کے ساتھ بیٹھنے کو پسند فرماتے تھے، اپنے پاس موجود مال تقسیم فرما دیتے تھے لیکن ساتھ میں "کاد الفقر ان یکون کفرا" کا ارشاد بھی ہے۔

جسے اصل تصوف ثابت کیا گیا وہ دراصل زہد اور تقوی ہی ہے ۔ جو بهی قول ، حرکت ، آواز شریعت سے ٹکراتی ہو اسے تصوف بمعنی زہد و تقوی کس طرح کہا جاسکتا ہے ۔
اسی كے لیے میں نے عرض كیا تھا کہ تصوف کو سب سے زیادہ مکدر کیا گیا ہے۔ جو کچھ اس میں غلط شامل کیا گیا ہے وہ حقیقتا تصوف ہے ہی نہیں۔ مثال کے طور پر آپ اوپر موجود ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ شعبدہ بازی ہے تصوف نہیں۔ تصوف اصلاح اور احسان کا نام ہے۔

زاہد کو زاہد اور متقی کو متقی ہی کہنا چاہئیے اس کے زہد اورتقوی کو الگ نام کیوں دیں ۔ اس طرح آسانی بهی ہوگی اور کسی کو برا بهی نہیں لگے گا ۔
لا مشاحۃ فی الاصطلاح۔ یوں کہہ لیں۔
لیکن جب ایک اصطلاح چل پڑی ہے تو اسے آپ یا میں لوگوں کے اذہان سے نکال نہیں سکتے۔

میں نے کہا :
ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻗﻮﺕ ﭘﺎﺱ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻋﻠﻢ ، ﺧﻮﺍﮦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺷﯿﻄﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ
آپ نے جوابا کہا :
یﮧ ﺑﺎﺕ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ- ﺁﭖ ﮐﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻗﻮﯼ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺟﻮﮌ ﺩﮮ ﺗﻮ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﻼ‌ ﺩﮮ ﮔﺎ- ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮨﮯ- ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ-
جی میں نے یہ عرض کیا ہے کہ ایمان کی اپنی حیثیت ہے اور علوم کی اپنی۔ علوم کی ہم قسمیں کر سکتے ہیں: مادی، روحانی، نورانی، شیطانی، عالی، آلی وغیرہ۔ لیکن کسی بھی علم کے اثر کو ایمان کے مقابلے میں نہیں لا سکتے۔
جادو ایک علم ہے اور شیطانی علم ہے لیکن نبی ﷺ پر اثر انداز ہوا ہے حالانکہ آپ سے بڑھ کر ایمان کس کا تھا؟ اسی طرح فرعون کے جادوگروں کی رسیوں اور لاٹھیوں کو حضرت موسیؑ نے دوڑتے سانپ دیکھا۔ ان سے زیادہ مضبوط کس کا ایمان ہو سکتا تھا؟
کسی علم کا بھی ایمان سے تقابل نہیں کیا جا سکتا۔

تصوف کی اصطلاح کو زہد و تقوی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، مسئلہ دراصل یہ ہے کہ کون کس عمل کو کیا کہہ رہا ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں سیاق و سباق کو سمجھنا ضروری ہے۔
جب علماء تصوف کی نکیر کرتے ہیں تو اس سے وہی آج کا معروف تصوف مراد ہوتا ہے، جو ابن عربی وغیرہ کا ہے!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ بات درست ہے کہ جب علماء نکیر فرماتے ہیں تو مراد غلط تصوف ہوتا ہے۔ البتہ ابن عربی کا نام نہ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ ابن عربی ایک انتہائی مختلف فیہ شخصیت ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی کتب باطنیوں کے ہاتھ سے گزر کر آئی ہیں خصوصا الفتوحات المکیہ اور باطنہ نے اپنی عادت کے مطابق ان کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان میں بہت دسیسہ کاری کی ہے۔ چونکہ حقیقت حال سے صرف اللہ پاک واقف ہیں اس لیے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان کی شخصیت پر حملہ نہ کریں بلکہ جو عقائد ان کی کتب میں لکھے ہیں ان پر جرح کریں۔ وحدت الوجود اور اس قسم کے عقائد میں ان کی کتب میں تعارض بھی ہے۔ ایک کتاب میں بالکل درست عقیدہ ہے تو دوسری میں بالکل غلط۔۔۔۔ واللہ اعلم۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں آج بھی صحیح اور غلط دونوں قسم کے تصوف موجود ہیں۔ لیکن علماء جب نکیر کرتے ہیں تو صرف تصوف کا نام لیتے ہیں۔ ان کی مراد تو غلط تصوف ہوتا ہے لیکن عوام کو کیا معلوم؟ اس لیے وضاحت سے نکیر کرنی چاہیے کہ فلاں فلاں کام جو کرتا ہے وہ غلط ہے اور جو فلاں کام نہیں کرتا وہ درست ہے۔

واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جو تصور زہد و تقوی کا ہے ، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ہے ، وہ تمام کے تمام شریعت اللہ کے احکامات کے دائرے سے خارج ہے ہی نہیں ۔
جہاں میری فکر غلط ہو ، شریعت سے مخالف ہو تو میری اصلاح کیجائے ۔ لیکن ایک درخواست بهی ہے کہ جوگیوں ، سنتوں ، مہاپرشوں اور بزرگوں کی مشقوں ، ریاضتوں اور عبادتوں کو اسلامی تصوف نا کہیں اور ان تمام اقوال و اعمال کی کهل کر تنقید کریں ۔
والسلام
میرے بھائی میں نہیں جانتا کہ آپ عالم ہیں یا نہیں۔ لیکن اہل علم کا عمومی معتدل طرز یہ رہا ہے کہ کسی کام پر اس وجہ سے تنقید نہیں کرتے کہ وہ جوگیوں وغیرہ کا ہے۔ بلکہ دیکھتے ہیں کہ وہ شریعت سے ٹکراتا ہے یا نہیں۔
جس طرح ایک حرام کو حلال قرار دینا بلا دلیل شریعت میں بڑا جرم ہے بالکل اسی طرح حلال کو حرام کرنا بھی جرم ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
واللہ اشماریہ بهائی میں عالم نہیں ، بلکہ اس فورم میں شمولیت ہی اس غرض سے کی ہیکہ سوالات کر کے علم حاصل کروں ۔ آپ خود دیکہیں میں نے نا تو قرآن کی آیتوں سے حوالے دئیے نا ہی احادیث لکہیں ۔ ہاں حاص جو معلومہ ہیں انکا سب سے بڑا ذریعہ تو اصل کتب ہی ہیں ، مثلا میرا یہ کہنا کہ شیطان اس وقت تک انسان پر غالب نہیں آسکتا جب تک انسان کا ایمان کمزور نا ہو یہ تو واضح طور پر قرآن کا فرمان ہے ۔
زلزلوں میں دفن شدہ ملبہ سے کئی کئی روز بعد زندہ بچ نکلنے والے بهی ہیں ، رات کو سو کر صبح نا اٹهنے والے اور ابدی نیند سوجانے والے بهی ہیں ۔
کیا کہتی ہے سائنس یہاں ؟
میرائکل ! یہ تو سائنسی لفظ ہی نہیں ، ہاں یہ کہتے سنا ہیکہ فلاں صاحب قبر نے اسے بچا لیا کہ وہ فلاں اس صاحب قبر کا معتقد تها ۔ یعنی کنارے پہونچ کر اللہ کا نہیں بتوں کی حمد و ثناء اور وسط دریا عالم طوفان میں صرف اللہ ۔
میری تشفی نا ہو سکی ، للہ سمجهائیں مجهے ۔ آپ کے لئیے اس فورم کے اہل علم نے ہمیشہ یہی کہا کہ آپ صاحب علم ہیں ۔ مذہب اختلافات اپنی جگہ لیکن آپ کے عقائد آپ کی تحریروں میں واضح ہیں ۔ بات آپ نے اصطلاحات پر کی ہے ۔ میں تو آپ کو صحیح العقیدہ حنفی ہی تصور کرتا ہوں ۔ یہاں معاملہ عقیدہ کا ہے ۔ تو عقیدہ اسلامی کے مطابق ہی میری تشفی فرمائیں ۔
جزاک اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہاں معاملہ عقیدہ کا ہے ۔ تو عقیدہ اسلامی کے مطابق ہی میری تشفی فرمائیں ۔
میرے بھائی میں ایک طالب علم ہوں فقط۔اہل علم کا خادم ہوں۔

یہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ "ان عبادی لیس لک علیہم سلطان"۔ لیکن اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایمان والے کسی قوت اور علم کے آگے جس کا تعلق شیطان سے ہو مغلوب ہی نہیں ہوں گے۔ ایمان والے جب احد میں مغلوب ہوئے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی تھی "و تلک الایام نداولہا بین الناس" ان دنوں کو ہم لوگوں میں پھراتے ہیں۔
اس ارشاد کا سیاق و سباق دیکھیں تو یہ گمراہی سے متعلق ہے۔ یعنی شیطان نے دعوی کیا تھا کہ میں سب کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے (اللہ پاک کے) مخصوص بندوں کے۔ تو اللہ پاک نے اسے یہ جواب دیا کہ بے شک میرے بندوں پر تیری کوئی طاقت نہیں ہوگی۔ چنانچہ یہی ہوتا ہے۔ جو صدق دل سے اور صحیح طریقے سے اللہ پاک کے راستے پر چلتا ہے اللہ پاک اسے ان مقامات میں گمراہی سے بچنے کا راستہ عنایت فرماتے ہیں جو مشکل ہوں۔
"و من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا" میں اسی کا بیان ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کا راستہ نکاتے ہیں۔

اس گمراہی کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں ان میں اللہ پاک نے دنیا کو دار الاسباب بنایا ہے۔ اگر کوئی شیطانی علم ہے تو اس کے مقابلے میں روحانی علم کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اگر مادی علم ہے تو اس کے مقابلے میں مادی علم ضروری ہوتا ہے۔ البتہ ایمان کی قوت کثرت و قلت کے فرق کو برابر کر دیتی ہے اور اہل ایمان قلیل اور کمزور ہونے کے باوجود غالب آ جاتے ہیں۔
اس کی مثالیں سیرت نبوی ﷺ میں بہت ہیں:
بدر میں جنگ کے لیے کھڑا ہونا پڑا اور اسلحہ استعمال کرنا پڑا۔ باقی کام اللہ پاک کی طرف سے ہوا۔
جادو کے توڑ کے لیے معوذتین نازل کیے گئے، کنگھی پر پڑھے گئے۔ پڑھنے پر جادو اللہ پاک کی طرف سے ٹوٹا۔
زہر کے علاج کے لیے حجامہ کروایا گیا۔ زہر کا اثر اللہ پاک کی طرف سے ٹوٹا۔

اسی طرح آج کے دور کے تمام علوم کا بھی معاملہ ہے کہ اگر ان کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے بھی کوئی مخصوص علم ہی چاہیے ہوگا۔
اگر آپ کو ہپناٹزم، مسمریزم کا مقابلہ کرنا ہے تو چند مہینے نکتہ بینی، شمع بینی کیجیے اور وہ افعال کیجیے جو کرنے پر دل نہ چاہے جیسے سخت سردی میں ٹھنڈے پانی میں نہانا، راتوں کو تہجد کے لیے اٹھنا وغیرہ، تو آپ کی اپنی ذہنی قوت اور قوت ارادی اتنی ہوجائے گی کہ آپ متاثر نہیں ہوں گے۔
ایمان کی مضبوطی آپ کی مدد کرے گی شراب، زنا، لواطت، فلم بینی، مشت زنی، نشہ آور چیزوں وغیرہ سے بچنے میں جو اس لائن میں بہت مہلک ہوتی ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا محترم اشماریہ بهائی ۔ میری درخواست اس فورم پر موجود اہل علم سے ہیکہ وہ رہ نمائی فرمائیں ۔
 
Top