- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,587
- ری ایکشن اسکور
- 6,768
- پوائنٹ
- 1,207
۱۲ربیع الاول میلاد کے دن کو میلاد کے دشمنوں نے تردد کا شکار کر ڈالا
سعیدی: ۱۲ربیع الاول، دنیائے اسلام کا یہ وہ مشہور دن ہے جس دن محبوب خدا سید المرسلین و الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے شہر میں آمنہ کے گھر جلوہ گر ہوئے مگر میلاد النبی کے دشمنوں نے اپنی ریشہ دوانیوں سے اس دن کو بھی معاف نہیں کیا اور بھولے بھالے مسلمانوں کو اس دن کے بارے میں تردد کا شکار کر ڈالا حالانکہ نواب آف غیر مقلد نے لکھا ہے کہ آپ کی ولادت مکہ میں بوقت طلوع فجر بروز دو شنبہ (سوموار) شب دوازدہم (۱۲) ربیع الاول کو ہوئی۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے۔ ابن جوزی نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے… دو ازدہم (۱۲) ماہ مذکور اہل مکہ کا عمل اسی پر ہے (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۷)
محمدی: کیا ۱۲ربیع الاول دنیا و اسلام کا وہ مشہور دن نہیں جس دن محبوب خدا سید المرسلین والانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے شہر میں وفات پائی۔ ۱۲ربیع الاول کو میلادیوں سعیدیوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلوی بھی ۱۲وفات مان چکے ہیں (ملفوظات احمد رضا حصہ دوم ص:۲۲۰) اگر تاریخ میلاد کے دن تردد پیش کرنے والے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں تو: سب سے پہلے تمہارا میلادی گرو ملک مظفر کوکبری ہے جس نے سب سے پہلے میلاد منانے کی رسم کی بنیاد رکھی۔ وہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن نظر آتا ہے کیونکہ اختلاف کی وجہ سے ایک سال ۸ربیع الاول کو اورایک سال ۱۲ربیع الاول کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتا تھا۔
وکان یعملہ سنۃ فی ثامن الشھر وسنۃً فی ثانی عشرۃ لاجل الاختلاف الذی فیہ۔(ابن خلکان ص:۴۳۷دوسری طبع ص:۵۵۲ج:اول)
چونکہ اس اختلاف کو نقل کرنے والے ابن خلکان ہیں لہٰذا بقول سعیدی میلادی، تردد کا شکار کرنے کی وجہ سے وہ بھی دشمن میلاد ہو گئے۔ نیز ولادت کے دن میں اختلاف اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام تابعین عظام سال بہ سال روایتی انداز میں میلاد نبوی نہیں مناتے تھے ورنہ اختلاف نہ ہوتا۔ جیسے حج کی تاریخ میں اختلاف نہیں کیونکہ حج کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام تابعین عظام سال بہ سال مناتے تھے۔
اور علامہ مفتی محمد عمیم الاحسان المجددی البرکتی نے بھی اختلاف نقل کیا ، لکھتے ہیں کہ:
ولدت آمنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل ثمان اوتسع خلون من ربیع الاول او فی الثانی عشر منہ (اوجز السیر ملحق بمشکوٰۃ ص:۵۸۶)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آمنہ نے پیر کے دن عام الفیل میں بتاریخ ۸یا ۹یا ۱۲ربیع الاول کوجنا۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے بھی ولادت کے دن میں اختلاف بتایا ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ یوم و تاریخ سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ تھا اور تاریخ میں اختلاف ہے۔ آٹھویں یا بارھویں (کذا فی الشمامہ) (نشر الطیب ص:۲۸) چونکہ تھانوی صاحب نے یہ اختلاف شمامہ عنبریہ سے نقل کیا ہے اور شمامہ عنبریہ اصل میں مومن شبلنجی کی کتاب کی تلخیص ہے لہٰذا مومن صاحب بھی اختلاف نقل کر کے میلاد کے دشمن بن گئے۔
اور علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی بھی بقول سعیدی میلادی، میلاد کا دشمن ہے کیونکہ اس نے بھی تردد کیا ہے اور تردد نقل کیا ہے اور اس تردد کو خود سعیدی نے بھی نقل کیا ہے:
والمشہور الذی علیہ الجمہور انہ صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الاثنین ثانی عشر من شھر ربیع الاول ۔(حجۃ اللہ علی العالمین ص:۲۳۱) (بحوالہ ہم میلا د کیوں مناتے ہیں ص:۱۸)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا مشہور قول جس پر جمہور علماء ہیں ۱۲ربیع الاول ہے ۔ کیونکہ نبھانی صاحب نے بھی تسلیم کیا کہ جمہور کی رائے اور مشہور قول یہ ہے کہ ولادت نبوی ۱۲ربیع الاول کو ہوئی یعنی غیر مشہور قول اور غیر جمہور کا قول اس کے خلاف ہے اور سعیدی صاحب کے علامہ ابن دحیہ نے بھی اس دن کے بارہ میں تردد نقل کیا ہے (البدایہ والنھایہ ص:۲۶۰، ج:۲) جس کا معنی یہ ہے کہ ابن دحیہ بھی میلاد کا دشمن ہے بلکہ اس نے ۸ربیع الاول کو پیدائش نبوی (میلاد) کی تاریخ کو راجح قرار دیا ہے (التنویر فی مولد البشیر والنذیر بحوالہ البدایہ والنھایہ ص:۲۶۰ج:۲) اور ۱۷ربیع الاول کی تاریخ میلاد بھی ابن دحیہ نے نقل کی ہے (البدایہ والنھایہ ج:۲، ص:۲۶۰) اور احمد رضا بریلوی بھی میلاد کا دشمن ہے کہ اس نے بھی ۱۲میلاد کے موقعہ کو ۱۲وفات تسلیم کیا ہے (ملفوظات احمد رضا حصہ دوم ص:۲۲۰)۔