محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
زیادہ تر شادی جوڑوں کے لئے یہ رات سخت ترین رات ہوتی ہے کیونکہ ایک الگ گھر میں یہ دونوں کے درمیان پہلی ملاقات ہے جس میں کوئی تیسرا شریک نہیں ہے۔ ایسے وقت عموماً گھبرا جاتی ہیں اور کبھی کبھی بڑے عجیب حادثے ہوجاتے ہیں جنہیں بعد میں یاد کرکے میاں بیوی خود لطف اندوز ہوتے ہیں۔
زیادہ تر بیویوں کے لیے یہ رات ایک بہت بڑی رات ہوتی ہے جس میں وہ اکثر گھبراہٹ کا شکار ہوئی ہوتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے ہوتی ہے اس رات میں عورت اپنے شوہر کے ساتھ پہلی مرتبہ جنسی عمل سے گذرنے والی ہوتی ہے۔ اس گھبراہٹ میں عورت کبھی رو بھی پڑتی ہے کبھی منہ پھیر لیتی ہے اور بات نہیں کرتی۔ بعض عورتیں کھانا پینا شروع کر دیتی ہیں اور بعض کو ماہواری کا خون آنے لگتا ہے اور ایسا صرف گھبراہٹ کی وجہ سے ہوتا ہے اور ڈر یا خوف والا خون کہا جاتا ہے۔ اس لیے عقلمند شوہر وہ ہوتا ہے جو عورت کی نفسیات کو سمجھتا ہے اور شروع سے ہی جنسی فعل کے بارے میںنہیں سوچنے لگتا بلکہ صبر سے کام لیتا ہے۔ شروع کے لمحات میں تعارفی گفتگو کرتا ہے اور پر لطف گفتگو کرکے بیوی کی گھبراہٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بیوی کو اللہ کی یاد دلاتا ہے اور جس طریقے سے وہ زندگی گذارنا چاہتا ہے اسے بڑے اچھے طریقے سے اپنی بیوی کو سمجھاتا ہے۔ اگر اس کے بعد وہ جنسی فعل کا خواہشمند ہو اور اسے بیوی کی طرف سے اعراض کا سامناکرنا پڑے تو اسے چاہیے کہ وہ تحمل اور عقلمندی سے آہستہ آہستہ بالتدریج اس کی طرف بڑھے۔ یہ نہ ہو کہ یک دم سارے کپڑے اتارے اس کے سامنے آجائے بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے بستر پر ہوتے وہئے اپنے کپڑے اتارے اور ساتھ میں بیوی کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتا جائے یہاں تک اسے اپنا مقصود مل جائے۔ اور اگر بیوی پھر بھی انکار کرے اور رونے لگے یا بہت خوفزدہ ہو تو شوہر کو چاہیے کہ صبر سے کام لیے کیونکہ بیوی نے ان شاء اللہ ساری عمر اس کے ساتھ رہنا ہے۔ اس لیے جلدی نہ کرے کیونکہ اس مقام پر جلدی کرنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو اس رات میں شوہر کے خراب رویے کے باعث نہ صرف جنسی فعل سے نفرت کرنے لگتی ہیں بلکہ شوہر سے بھی انھیں نفرت ہوجاتی ہے۔
اگر میاں بیوی اس رات میں سنت کی اتباع کریں تو اس سے دونوں کو سکون نصیب ہوگا۔ سنت یہ ہے کہ جب اس رات میں شوہر بیوی کے پاس آئے تو اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھے اور کہے (بسم اللہ) پھر کہے: اللھم انی أسالک منہ خیرھا و خیر ما جبلتھا علیہ و أعوذبک منہ شرھا شرھا جبلتھا علیہ (۱) (بخاری)
ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس کی بھلائی جس پر تو نے اس کو پیدا کیا اور اس کی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اس چیز کی برائی سے جس پر تو نے اسے پیدا کیا۔
پھر اگر اس کے بعد وہ اسے کوئی مشروب پیش کرتا ہے یا کوئی تحفہ دیتا ہے تو یہ ایک اچھا فعل ہے اور اس سے دلوں میں الفت بڑھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے عائشہؓ کو شادی کی رات میں دودھ پیش کیا۔ (۲) (آداب الزفات فی السنہ المطھہرۃ)
اسی طرح سے دونوں کے لئے یہ مستحب ہے کہ دونوں باجماعت دو رکعتیں پڑھیں کیونکہ یہ سلف سے منقول ہے۔ (۳) (ایضاً ص ۹۴)
ایک آدمی ابوحریز ابن مسعودؓ کے پاس آیا اور بولا: میں نے ایک نوجوان کنواری لڑکی سے شادی کی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے مسترد کردے۔ ابن مسعودؓ نے فرمایا: الفت اللہ کی طرف سے ہے اور نظر شیطان کی طرف سے ہے۔ وہ تم دونوں کے نفرت ڈالنا چاہتا ہے اس چیز میں جو اس نے تمہارے لیے حلال کی ہے اس لیے جب لڑکی تمہارے پاس آنے لگے تو اسے اپنے پیچھے دو رکعت نماز پڑھنے کا کہو۔ (۴) (آداب الزفات ص ۹۵۔ ۹۶)
نیز نماز سے دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے اور شادی کی رات میں اکٹھے نماز پڑھنا یہ اعلان ہے کہ وہ اللہ کو کلام پر اکٹھے ہی اور ان کا بننے والا گھر اللہ کی اطاعت پر قائم ہے۔
ہم بستری کے وقت شوہر کے لئے مسنون ہے کہ وہ کہے: بسم اللہ ، اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان مارزقتنا (۱)(بخاری) ترجمہ: اے اللہ ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور جو تو ہمیں دے اس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے بیٹا مقرر کرے گا تو شیطان اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
عقلمند شوہر وہ ہوتا ہے جو اس رات کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتا ہے مثال کے طور پر تحفے کے بارے میں سوچتا ہے کہ کون سا تحفہ دینا اچھا ہوگا۔ کس طرح سے دینا مناسب ہوگا یا تھوڑا وقت ہنس کھیل کر گذارتا ہے اور بیوی کو قصے کہانیاں وغیرہ سناتا ہے تاکہ اس کی گھبرا ہٹ اور پریشانی کم ہوسکے۔