حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
’السنن الکبریٰ‘ کا منہج
امام بیہقی رحمہ اللہ اور منہج کتاب
ہر وہ شخص جو امام بیہقی رحمہ اللہ اور ان کے علمی آثار سے مکمل یا معمولی دلچسپی رکھتا ہے وہ جان جائے گا کہ امام بیہقی ایک علمی منہج والے شخص تھے ۔ انہوں نے اپنی تصانیف کو بھی قاعدہ، قانون اور اصول کے تحت تشکیل دیا ہے ۔ یہ علمی منہج انہیں اپنی تالیف شروع کرنے سے پہلے ممتاز بنا دیتا ہے ۔
امام بیہقی نے اپنی تالیفات کو ایک مرکز کے پروگرام پر ظاہر کیا جس پر وہ ’’المدخل‘‘ کا اطلاق کرتے ہیں اور وہ ان مداخل میں اپنے اہداف اور مقاصد کی تدوین کرتے ہیں ۔ نصوص کی تمیز اور تمحیص میں رد اور قبول کے اعتبار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ان اصول و قوانین کے دلائل کی سفارش کی جاتی ہے جس سے آپ کے منہج کی توثیق ہو جاتی ہے ۔
گویا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کا تاثر ’’المدخل‘‘ کے نظام پر صادر ہوتا ہے اور آپ کے علمی عمل کی اہمیت آپ کے استاد امام حاکم کی طرف سے ہے کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب ’’الأکلیل‘‘ کے لیے مدخل کو وضع کیا۔ (الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة المشرفة لمحمد بن جعفر كتاني:21)
السنن الکبریٰ کا منہج
تنظیمی منہج
امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
’’میں اہل حدیث کے طور طریقے پسند کرتا ہوں کہ میں اپنی کتاب میں جو بھی حکایات اور مسانید کو داخل کروں تو ان کو سند کے ساتھ ہی بیان کروں ۔‘‘(بيان خطأ من أخطا على الشافعى لأحمد بن حسين بهيقي:ص 81)
اس لیے امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں جو بھی حدیث،اثر یا حکایت کو درج کرتے ہیں تو اس کی سند کو بھی ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ ان کے لیے اپنی کتاب میں اسانید کا استعمال کرنا ایک وسیع منہج پر موقوف ہے کبھی وہ ایک سند کے سانچے میں متعدد اسانید کو بھی جمع کر لیتے ہیں ۔
متون میں الفاظ کی مختلف حالتوں کے معانی سے وضاحت
متن میں آپ کا منہج الفاظ کے اختلاف کا انکشاف کرنا ہے ۔ غریب کو بیان کرنا، تصحیف، اضطراب اور اس کے معلول ہونے پر تنبیہ کرنا ہے ۔ امام بیہقی احادیث کے معانی کو بھی بیان کرتے ہیں اور اس سے احکام کا استنباط بھی کرتے ہیں ۔
متون کے موضوعات کی فقہی ترتیب
امام بیہقی نے ’السنن الکبریٰ‘ میں متن کے موضوعات کو فقہی ابواب کے مطابق منظم کیا ہے ۔ ’السنن الکبریٰ‘ کو متعدد کتب پر تقسیم کیا مثلاً کتاب الطہارۃ،کتاب الصلاۃپھر کتب کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا وہ ابواب کہلاتے ہیں ۔ مثلاً جماع أبواب الحدیث،جماع أبواب ما یوجب الغسل پھر امام بیہقی رحمہ اللہ فصول میں سے ہر فصل کے تحت بہت بڑی تعداد میں ابواب لاتے ہیں اور یہ ابواب احادیث پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ انہوں نے ان ابواب کو بھی احادیث سے اخذ کیا ہے ۔ اگرچہ ادنی سے بھی مناسبت کیوں نہ پائی جاتی ہو۔
حدیث کی صحت کی وضاحت
امام بیہقی رحمہ اللہ کو حرص یہ تھا کہ وہ احکام کی احادیث کے لیے ایک ایسی جامع کتاب بنائیں جس میں تمام درجات کی احادیث یا آثار کو جمع کر دیں اور صحت کے اعتبار سے ان میں تمیز کر دیں ۔ کیونکہ وہ خود بھی صحیح حدیث کی وضاحت کرتے ہیں تاکہ اس پر عمل کیا جائے اور ضعیف کی بھی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ اس سے بچا جائے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ میں نے یہ حدیث دو ضعیف سندوں سے روایت کی ہے ان میں سے ایک مرسل اور دوسری موصول ہے ۔‘‘(السنن الكبرى للبيهقي:3/ 128، 6/ 309)
یا پھر کہتے ہیں:
’’اس مسئلہ میں دو ایسی ضعیف حدیثیں ہیں ان جیسی احادیث سے حجت نہیں لی جاسکتی۔‘‘(السنن الکبرى للبيهقي:2/ 222)
یا پھر کہتے ہیں:
’’اس میں دو ایسی ضعیف احادیث ہیں میں نے اختلاف کی وجہ سے ان کو بیان کیا ہے ۔‘‘(أيضا:2/ 96)
حدیث کو مکر ر لانا
امام بیہقی رحمہ اللہ فقہی فوائد کے لیے حدیث کا تکرار کرتے ہیں اور اسے باب میں بیان کرتے ہیں ۔(أیضا:2/ 455-254، 2/ 105) یا سند کی بلندی کے لیے بیان کرتے ہیں ۔ کیونکہ آپ کا منہج استدلال کی بنیاد پر قائم رہتا ہے باب میں نص کو صرف اس لیے بیان کرتے ہیں کہ استدلال کا مقصد ھدف کے پیچھے ایک دوسرا ہدف بھی موجود ہوتا ہے ۔
نقدی منہج
1. معلل ابواب کی تنقیدی وضاحت
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’السنن الکبریٰ‘ کی تصنیف میں ایسا منہج اختیار کیا جس میں وہ معلل ابواب کے طریقہ پر چل پڑے وہ طرق حدیث کو وسیع تنقید کے ساتھ لاتے ہیں۔( السنن الکبری:9/ 403) شاید وہ اس منہج میں امام ترمذی سے متاثر ہوئے کیونکہ انہوں نے اس کی بنیاد رکھی۔(شرح علل الترمذی لأبو الفرج عبدالرحمن بن أحمد ابن رجب:،ص 73،تحقیق صبحی جاسم حمید،مطبعة العانی بغداد)
لیکن مسانید معللہ کے موضوع پر علی بن مدینی، یعقوب بن شیبہ نے کتابیں تصنیف کیں۔(أیضا)
اس منہج کی بنیاد پر امام بیہقی رحمہ اللہ ضعیف حدیث کو بیان کرتے ہیں اس لیے بیان کیا کہ حدیث میں جو بھی علت پائی جاتی ہے اس کا انکشاف آسان بن جائے اور صحیح حدیث نمایاں ہو جائے ۔
تطبیقی منہج
امام بیہقی رحمہ اللہ نے تنقید کی صفت میں تطبیقی منہج کو استعمال کیا ہے۔ ان کے نقد میں شواہد، امثلہ اور براہین پائے جاتے ہیں ۔ آپ کو منہج تطبیقی سے شغف تھالہٰذا آپ نے ایک ہی وقت میں ایجاز و اختصار پر بھی اجتہاد کر دیا اورامام بیہقی رحمہ اللہ نے موقوف حدیث کو بھی بیان کر دیا خصوصاً جن کا تعلق جرح اور تعدیل سے ہے ۔