"حسین رضی اللہ عنہ جب کوفہ کے لیے روانہ ہوئے تو ان کا مقصد کیا تها. اس بارے میں مستند اور صریح روایات پیش کردیں تو غور و فکر میں آسانی ہوجائے گی. براے کرم"
میری اتنی سی گذارش تهی ورنہ متن سے تو بہت کچه اخذ کیا جاسکتا ہے وہ بهی جس کے نہ آپ قائل ہیں نہ ہم.
محترم
متن سے تو بہت کچه اخذ کیا جاسکتا ہے وہ بهی جس کے نہ آپ قائل ہیں نہ ہم
اپ کا اشارہ کس جانب ہے وضاحت کر دیں
دوسری بات اگر متن سے بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے تو پھر ذرا اس کے متن سے دیکھیں اپ کیا اخذ کرتے ہیں۔
خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاء
سنن ابوداودرقم 4646
اس سے اپ کیا اخذ کرتے ہیں یہ ضرور بتائے گا
اب ذرا اس بات کی جانب چلتے ہیں جو اپ نے سوال کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ابن عباس ،ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ان کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ جانا چاہتے تھے
- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ(الطبرانی کبیر رقم2859)
یہ ایک روایت کافی ہے حسین رضی اللہ عنہ کا موقف سمجھنے کے لئے کہ انہوں نے حکومت وقت سے بیعت نہیں کرنی تھی اگر کر لیتے تو یہ اسلامی ریاست بن جاتی اس لئے انہوں نے قتل ہونا منظور کر لیا مگر بیعت نہیں اور کوفے جانا اس لئے تھا کہ ان کو معلوم تھا احادیث میں ان کی شہادت کے بارے میں بتایا گیا ہےاس لئے وہ جانتے تھے انہیں کہاںشہید ہونا ہے اور دوسری بات وہ مکہ اور مدینہ کی حرمت پامال نہیں کرنا چاہتے تھے اورکوفہ میں صحابی رسول سلیمان بن صرد نے ان کو خط لکھ کر بلایا تھا اس لئے بھی وہاں جا رہے تھے۔اللہ سب کو ہدایت دے