یہ لغو اعتراض ہے ۔
معترض کا کہنا ہے کہ امام شعبہ نے بھی ابواسحاق سے اسی روایت کو نقل کیا اور امام شعبہ جب ابواسحاق سے نقل کریں تو ان کا عنعنہ مضر نہیں ہے۔
عرض ہے کہ یہ بات اصول حدیث کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام شعبہ جس طریق میں ابواسحاق سے روایت کریں اس طریق میں ابواسحاق کاعنعنہ مضر نہیں ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام شعبہ والا طریق بالکل ویساہی ہے جیسا الادب المفرد میں امام بخاری کا طریق ہے؟؟ قطعا نہیں ۔
امام شعبہ والے طریق سے ہم نہ صرف واقف ہیں بلکہ ہم نے اوپر کے جواب میں اسے نقل بھی کررکھا ہے ، ملاحظہ ہو وہیں سے یہ اقتباس:
کبھی اپنے شیخ کا نام مبہم رکھا ، چنانچہ :
امام إبراهيم بن إسحاق الحربي رحمه الله (المتوفى285)نے کہا:
حَدَّثنَا عَفَّانُ حَدَّثنَا شُعْبَةٌ عَنْ أَبى إٍسْحِاقَ عَمَّنْ سمِعَ ابن عُمَرَ قَالَ خَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقَيِلَ : اذْكُرَ أَحَبَّ النَّاسٍ . قَالَ : يَا مُحَمَّدُ [غريب الحديث للحربي 2/ 673 ، اسنادہ صحیح الی شعبہ]۔
غورکریں اس طریق میں امام شعبہ ابواسحاق سے ضرور روایت کررہے ہیں لیکن یہاں ابواسحاق کے استاذ کا نام ہی مذکور نہیں ، اس لئے یہاں یہ قطعا معلوم نہیں کہ اس موقع پر ابواسحاق کے کون سے استاذ تھے۔
مثلا الادب المفر د والے طریق میں ابواسحاق کے استاذ
’’عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ‘‘ ہیں ، اور ان سے ابواسحاق نے سنا ہے یا نہیں ، یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے ، اور شعبہ والے طریق سے یہ قطعا معلوم نہیں ہوتا کہ ابواسحاق نے عبدالرحمن سے سنا ہے کیونکہ اس طریق میں پتہ نہیں ابواسحاق نے اپنے کس استاذ سے روایت کو بیان کیا ہے ، بالخصوص جب کہ یہ بھی ثابت ہے ابو اسحاق نے اسی روایت بیان کرتے ہوئے متعدد شیوخ کا نام لیا ہے۔
شعبہ والے طریق سے صرف یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اس طریق میں ابواسحاق نے اپنے جس استاذسے روایت نقل کی ہے اس سے سن رکھا ہے ۔
مثلا اگرکسی طریق میں ابواسحاق کے استاذ ’’زید‘‘ ہیں تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ابواسحاق نے اپنے استاذ ’’زید‘‘ سے یہ روایت سن رکھی ہے لیکن اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوگا کہ ابواسحاق اسی روایت کو بکر ، عمر ، وغیرہ سے بھی بیان کریں تو ان سے بھی موصوف نے یہ رویات سنی ہو ،کیونکہ ان دیگر اساتذہ سے نقل کی گئی روایات کو ابواسحاق سے شعبہ نے روایت نہیں کیا ۔
یعنی امام شعبہ نے ’’زید‘‘ والے جس طریق سے روایت کیا ہے محض اسی طریق میں ابو اسحاق کا عنعنہ مضر نہیں ہوگا پھر اس بنیا پر ابو اسحاق کا یہ استاذ ’’زید‘‘ جس جس طریق میں آئے گا گرچہ اس میں شعبہ نہ ہوں وہاں بھی ابواسحاق کا ’’زید‘‘ سے عنعنہ مضر نہ ہوگا۔
لیکن اگرکسی طریق میں ابواسحاق کا استاذ ’’زید‘‘ کے بجاے دوسرا آگیا تو وہاں ابواسحاق کاعنعنہ قابل قبول نہ ہوگا ، کیونکہ اس طریق والی روایت کو ابو اسحاق سے شعبہ نے نقل نہیں کیا ۔
اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ زیربحث روایت کے جس طریق میں ابواسحاق سے روایت کرنے والے شعبہ ہیں اس طریق میں ابواسحاق کے استاذ کے نام کی صراحت ہی نہیں ، لہٰذا گرچہ اس طریق میں ابواسحاق کا ععنعنہ مضر نہیں لیکن یہ طریق مردود ہے کیونکہ اس میں مبھم راوی ہے ۔
اورچونکہ یہاں ابو اسحاق کا استاذ مبہم ہے اس لئے اس بات کا بھی ثبوت نہیں ملا کہ دیگرطریق میں ابواسحاق نے اپنے کسی استاذ سے یہ روایت سنی ہو ۔
لہٰذا امام شعبہ کی روایت بہر صوررت بے سود ہے۔
اور بجائے ابو اسحاق کے اپنے شیوخ کے بارے میں اضطراب کو بیان کرنے کے ابواسحاق کے ایک سے زائد استاذوں سے سننے کا قول بھی تو آپ کرسکتے تھے۔مگر یہ آپ نے نہ کیا۔
ایک سے زائد استاذوں سے سننے کی بات تب کی جاسکتی تھی جب انہوں نے اپنے کسی ایک ہی شاگر کے سامنے اس روایت کو متعدد شیوخ سے نقل کیا ہوتا یا پھر ابواسحاق کے متابعین ہوتے ۔
لیکن ہم دیکھ رہے ہیں ابو اسحاق اپنے ایک شاگرد کے سامنے اپنے ایک ہی استاذ کا نام لے رہے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں ان کا استاذ ایک ہی ہے لیکن ابواسحاق کو بالضبط معلوم نہیں کہ یہ کون ہے۔
یادرہے کہ ابو اسحاق کا کوئی بھی متابع موجود نہیں ہے۔