اچھا یہ تو بتائیے کہ میڈیکل طالبہ کا فرینڈ کیا کارنامہ انجام دے رہا تھا؟ اس بیچارے کو تو پس منظر سے غائب ہی کردیا گیا جو میڈیا ”گئی عاشق کی جان“/ ” محبت کرے والا بیچارہ جوڑا تباہ“ کی سرخیاں لگاتا ہے اس نے اس بار تو اس طرح کا کوئی عنوان ہی قائم نہ کیا ۔
خیر مجھ سے پوچھئے تو بتاوٴں ! کہ یہ جوڑے جس انداز میں حسین یا غلیظ ( علی اختلاف الاقوال) حرکتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اوردوران سفر تو خصوصیت کے ساتھ ان کی طبیعت میں پتہ نہیں کونسا رومان گھس جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ اگر کوئی جرات مند بگڑا جوان ہو اور لوگوں کا خوف نہ ہو تو چھین لے : ظالم کچھ کرنا ہے تو کہیں اور ورنہ…
پولس کو گالیاں دینے والے اس سوال کا جواب بتائیں گے کہ
اگر وہ طالبہ ، جبر کرنے والوں کے ساتھ مرضی سے معاملہ کرتی اور سب کچھ بآسانی گزر جاتا تو یہ لوگ کیا ارشاد فرماتے؟
ایک لڑکی مال میں فلم دیکھ کر ساڑھے نو بجے رات میں اپنے بوائے فرینڈ یعنی عارضی یا جز وقتی شوہر کے ساتھ واپس لوٹتی ہے، اپنی سیٹوں پر انھوں نے اپنے الگ اسٹائل کا اظہار ضرور کیا ہوگا۔
بھلا بتا ئیے کہ کالی رات میں سفید بدن، سرد رات میں جسم کے سرخ انگارے!کون نہیں ہاتھ سینکنا چاہے گا۔ شراب بھی ہے، شباب بھی ہے اور پرکیف ماحول بھی !
میری سنئے تو عورتوں کو بھی چار شادیوں کی اجازت ہو، اس کا مطالبہ زمانے سے ہے۔ اگر تشدد ختم کرکے آپسی رضامندی کا طریقہ اختیار کیا جائے تو بہتر شروعات ہوسکتی ہے۔ آگے چل کر خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جائے گا ۔
قارئین! بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوجاتی ہیں۔
کسی نے کبھی کہا تھا گجرات میں پیٹ کا بچہ نیزوں پر اچھالاگیا اس سے آسمان تو نہیں ٹوٹ پڑا ۔
میں کہتا ہوں دہلی میں ایک لڑکی کی حادثاتی موت ہوگئی، اس سے انڈیا تو نہیں تھم گیا ۔
###
20 دسمبر 2012 اردو ٹائمز کی ایک خبر ملاحظہ ہو، ایسی دوچار خبریں ہر اخبار کی زینت بنتی ہیں:
شادی کا جھانسہ دے کر دو مہینے تک کرتا رہا عصمت دری
ہوس پورا کرنے کے بعد متاثرہ سے شادی کرنے کے لیے دو لاکھ کا مطالبہ
خبر کے اندر آدمی کو درندہ صفت اور اغوا کار بتلایا گیا ہے ، اب سر پیٹنے کے علاوہ کیاکیجیے،
بھلا یہ بھی کوئی اغوا ہے کہ لڑکی بوائے فرینڈ کی محبت میں حاجی ملنگ جاکر مزے اڑارہی ہے ۔ بس شادی سے انکارکر تے ہی درندہ صفت ٹھہرا ۔ اور
ماہ دو ماہ کی موج مستی اغوا کہلائی اور جو کارنامہ وہ پورے ذوق سے انجام دیتی رہی وہ عصمت دری ٹھہری ۔
یہ ہے ہماری صحافتی ذہنیت جس سے ہم نکل نہیں سکتے۔
یہ صرف ایک معاہدہ تھا۔ جو ایفاء عہد تک نہیں پہنچا، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سودے میں وعدے کی خلاف ورزی ہوئی اس کا عصمت دری سے کیا تعلق ؟ فلمی دنیا نے تو یہ اصول دے ہی دیا ہے کہ جنس پہلے الفت بعد میں تو خطا کسی کی ؟
مظاہرین اس پر بھی پھانسی کا مطالبہ کریں، اگر پھانسی کا مطالبہ واقعی عصمت دری پر مبنی ہے ۔
ایک عصمت دری یہ بھی ہے کہ
پوئی علاقہ میں ملزم اور معمر خاتون کے مابین ناجائز تعلقات ہیں مگر بیٹی کی وجہ سے خاتون ایف آئی آر درج کراتی ہے، اس پر بھی پھانسی کا مطالبہ کیوں نہیں ؟ (اردو ٹائمز ص12/20-12-2012)
روزنامہ انقلاب میں ”ہر ش مندر“ کا ایک مضمون چھپا تھا جس میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کا نوحہ کیا گیا تھا ۔ کملا بھیسن کے خیالات اہمیت کے ساتھ بیان میں آئے تھے جو واقعی بڑے فکر انگیزتھے۔ اختلاف اس بات پر ہے کہ ”عصمت دری“ کے خاتمے کے لیے جنسی مساوات اور عدم مساوات کی بحث چھیڑی گئی تھی جبکہ جدید خیالات کے حاملین کبھی عدم مساوات کے قائل نہیں رہے۔ انہی کی سعی مسلسل ہے کہ ”مساوات جنسی“ آج کے مہذب سماج کا تسلیم شدہ نظریہ بن چکا ہے، اس کے باوجود نوحہ کرنے کا مطلب پوری طرح ہضم نہیں ہورہا ہے ۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ جن لوگوں نے جنسی مساوات اور حیاتیاتی یکسانیت کی گہار لگائی وہ کبھی اپنی گہار میں مخلص نہیں رہے ، اور نہ آئندہ اس طرح کی کوئی امید ہے کیونکہ اس چیخ و پکار کی پہلی اور آخری خصلت منافقت ہے۔ مساوات کی یہ آواز کم ازکم بعد کے ادوار میں صرف تسکین ذات کے لیے اٹھائی گئی اور اسی حیثیت سے اس کا استعمال بھی ہوتا رہا ۔
ہمارے روشن خیالوں نے یہ کبھی گوارا نہ کیا کہ عورت لذت نظر اور بوئے دہن کا ٹیکس دیے بغیر آزادانہ سماجی زندگی جی سکے ۔
”کملا“ صاحبہ کا یہ بھی شکوہ ہے کہ مرد خواتین پر تشدد کرتے ہیں “
یہ موجودہ صدی کے بڑے بڑے کذبات میں سے ایک کذب ہے ۔ مرد بھی خواتین پر تشدد کرتے ہیں اور خواتین ہی خواتین پر تشدد کرتی ہیں زیادہ مناسب تعبیرہے۔ تشدد کا بنیادی دائرہ جو کہ گھر ہے وہاں خواتین 95 فیصد تشدد کی ذمہ دار ہیں ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد عورتوں کو دبانے کے لیے ”عصمت دری“ سے بھی باز نہیں آتے ۔ اگر شذوذ کو بنیاد بنانا جائز ہو تو الگ بات ہے۔ ورنہ عورتوں کو دبانے کے لیے ”عصمت دری“ ایک نرالا خیال ہے اور کچھ نہیں ۔ اور اگر فی الواقع یہ صحیح ہے تو عصمت سے کھیلنے والے 99 فیصد وہی ہیں جو جنسی مساوات کے قائل ہیں یا پھر اسی قبیلے کے ہیں آخر ایسا کیوں؟
14فروری 2013 کو دنیا بھر میں ایک ارب خواتین اپنے اجتماعی عزم کا اعلان کرنے جارہی ہیں تاکہ دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ ہو رہی نا انصافی ختم کی جائے ۔
ہمیں یہ بتایا جائے کہ یورپ نے عورتوں کو جو موافق مطلب حقوق دیے ہیں کیا اتنے فراخ دلانہ حقوق تاریخ نے اب تک دیے ہیں، اگر نہیں دیے ہیں اور واقعی نہیں دیے ہیں تو ہم پہلے سے کہے دے رہے ہیں کہ اس سے اوپر کسی حق کا وجود نہیں ہے آپ کو ناکامی ہاتھ لگے گی ۔
اگر یورپ کا عطا کردہ نظام خواتین کو جنسی انصاف دینے میں فیل ہے تو ”موجود سسٹم “ کو اس اجتماع میں اپنی ہار کا اعلان کردینا چاہے اور دور و نزدیک کسی اور نظریاتی جزیرے کی تلاش کردینی چاہیے ، دیکھئے کوئی کولمبس ملتا ہے کہ نہیں ۔
”وشوہند سینا “ کا بیا ن ہے کہ زانیوں کو سزا دینے کے لیے اسلامی قانون نافذ کیا جائے“
ملا کہ چپ نہ شود ! حضرت مولانا نے تو گویا یہ سمجھ لیا اب انڈیا میں اسلامی حکومت آگئی ہے۔ ہاں ہاں بالکل ! اسلامی قانون سزا ہی اس کا حل ہے۔ اسلام کے ماہرین بھی اتنی غلط بات کرنے لگے ہیں، بھلا اسلامی نظام کے بغیر بیچارہ اسلامی قانون سزا کیا کرسکتا ہے۔ مشاعرے کے ایک شاعر غالباً رفیق شادانی نے کہا تھا:
سعودی میں ہے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا
ڈھونڈھو تو وہاں ہاتھ کٹا ایک نہ پیہو
قانون یہی ہند میں لاگو اگر ہوئیجائے
دعوی ہے مورا ہاتھ بچا ایک نہ پیہو
آخر کیا اسلامی قانون کوئی جادو کی چھڑی ہے ، جسے گھماتے ہی آن واحد میں مسائل حل ہوجائیں گے۔
نئی تہذیب میں بلا شادی کے زندگی آسان ہے اس کا مطلب ہے یہ سماج زنا کے بغیر زندہ نہیں رہ پائے گا اور نصف آبادی یا کم از کم ایک تہائی آبادی تو ہلاک ہو کر رہ جائے گی ۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ جرائم میں اضافہ کا سبب خواتین پولس اہلکاروں کی کمی ہے ۔ لیکن مرد پولس اہلکاروں کے جنسی تشدد سے خواتین پولس اہلکاروں کو بچانے کی ذمہ داری کون لے گا ۔
ہم نے پھانسی کو کھانسی لکھا تھا کہ سزاوٴں سے قابو پانا حد درجہ مشکل ہے اور
3 جنوری کو خبر لگی کہ دہلی میں پھر اجتماعی عصمت دری ہوئی ہے۔ سال نو کے جشن میں ایسا بھی جشن منالیا گیا ۔ ہم کہیں گے اسے عصمت دری مت کہیے یہ طبعی اور فطری عمل ہے۔ سال نو کے جشن کا رومانوی ماحول اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے اور تقاضے بہت شدید ہوتے ہیں۔ میڈیا کے بارے میں (جو آج ٹی آرپی کے چکر میں بڑی متحرک ہے) مبارک کا پڑی کی ایک بات پر بات ختم کرتا ہوں: ”میڈیا کا رویہ یہ تھا کہ اگر پچاس سال کا عرب پندرہ سال کی لڑکی سے نکاح کرتا ہے تو اسے اخبارات صفحہ اول پر چوکھٹے میں جگہ بناتے اور بڑا واویلا مچایا جاتا البتہ اگر کوئی ساٹھ سال کا بوڑھا کسی پانچ سالہ بچی سے منہ کالا کرتا تو وہ نیوز اس اخبار کے صفحہ نمبر18 پر چار سطروں کی صرف ایک کالمی خبر بنتی ۔“
واقعہ یہ ہے کہ میڈیا کے اس طرح کے رویے ہی ذمہ دار ہیں اور ہاں جان، مال، عصمت تین چیزیں اسلام میں یکساں مقام رکھتی ہیں، نوعیت کا تھوڑا سا فرق ہے۔ اگر عصمت واقعی کوئی شئے ہے تو اس کے ساتھ جان لینے والوں کے ساتھ یہ معاملہ کیوں نہیں۔ جدید نظریات کے اعتبار سے تو عصمت بہر صورت جان کے برابر نہیں ہے ، اور اسلامی قانون میں بھی بعض صورتوں کو چھوڑ کر جان اور عصمت کو برابر نہیں رکھاگیا، پھر یہ دوغلاپن کیوں ؟ قتل عام اور قتل کے ملزمین کے لیے اسی سزا کا مطالبہ کیوں نہیں ؟
رہ گئی عصمت کی حقیقت جدید سماج اور نئے نظریات کے تناظر میں تو وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر معاملہ راضی بہ رضا ہے تو عصمت نہیں جاتی اور جبر ہے تو عصمت چلی جاتی ہے، کتنی غیر سائنٹفک اور غیر منطقی بات ہے جناب