جزاک اللہ اسحاق سلفی برادر
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
یہاں بھی میرا سوال وہی ہے۔ کیا تینوں جگہ لفظ مِلَّةً کے ایک ہی معنی ہیں ؟ یا ابتدائی دو الفاظ ”ہم معنی“ اور تیسرا ان سے جدا معنی رکھتا ہے ۔
آپ شاید میرا سوال نہیں سمجھ پائے : آپ کا لکھا ہوا ترجمہ تو واضح اور صاف ہے، حقیقت بھی یہی ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے، جب ایک ہی لفظ کے دو الگ الگ ترجمے کئے جائیں۔ اگر دونوں جگہ ایک ہی ترجمہ کیا جائے، ”مسئلہ“ تب پیدا ہوتا ہے اور جملہ فرقہ پرست جماعتیں اپنے آپ کو ”جنتی فرقہ“ قرار دیکر اپنے اپنے فرقہ کا ”جواز“ پیش کرتی ہیں۔ یوں فرقہ پرستی پھیلتی پھولتی جارہی ہے۔
السلام و علیکم و رحمت الله -
اوپر دی گئی حدیث میں
مِلَّةً سے مراد جماعت ہے- جب کوئی جماعت حق سے پہلو تہی کرتی ہے تو وہ باقیوں سے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لئے ہی کرتی ہے - لفظ
فرقہ "فرق" سے ہے چاہے اس کا تعلق حق سے ہو یا باطل سے - (یوم بدر کو یوم
فرقان اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ اس دن نے حق و باطل میں فرق کو واضح کردیا)-
حدیث میں لفظ
مِلَّةً بولا گیا ہے - ٧٢ جماعتیں حق سے ہٹی ہوئی ہونگی اور اہل نار میں سے ہونگی - صرف ایک جماعت حق پر ہوگی اور وہ اہل جنّت ہیں جو "
أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي" کے شرائط کو پورا کرتی ہے-
قرآن کریم میں "اصحاب سبت" سے متعلق بیان کیا گیا ہے-
بنى اسرائیل کا ایک گروہ جو ایک سمندر (بظاہر بحیرہ احمر جو فلسطین کے پاس ہے) کے کنارے شہر ایلہ میں رہتے تھے،ان کى آزمائش کے لئے اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ ہفتہ کے روز مچھلى کا شکار ہرگز نہ کریں- البتہ باقی دنوں میں وہ جب مرضی شکار کری-ں صرف ایک دن تعطیل کردیا کریں لیکن ان لوگوں نے اس حکم کى صریح مخالفت کى جس کے نتیجے میں وہ درد ناک عذاب میں مبتلا ہوئے -لیکن اس آزمائش کے نتیجے میں تین گروہ وجود میں آے -
پہلا گروہ وہ تھا جو الله کے حکم کی صریح نافرمانی کرتے ہوے سبت (ہفتہ) کے دن مچھلیوں کا شکار کرتا تھا-
دوسرا گروہ وہ تھا جو مچھلیوں کا شکار تو نہیں کرتا تھا لیکن شکار کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتا تھا -
تیسرا گروہ وہ تھا جو الله کے نافرمانوں کو بار بار الله کی صریح نا فرمانی (یعنی سبت کے دن مچھلیوں کے شکار) سے منع کرتا تھا-
قرآن کے مطابق الله رب العزت کے عذاب سے صرف تیسرا گروہ ہی نجات پا سکا -
وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ -وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ - فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ سوره الاعراف ١٦٣-١٦٥
ترجمہ : اور ان سے اس بستی کا حال پوچھ جو دریا کے کنارے پر تھی جب ہفتہ کے معاملہ میں حد سے بڑھنے لگے جب ان کے پاس مچھلیاں ہفتہ کے دن پانی کے اوپر آنے لگیں اور جس دن ہفتہ نہ ہو تو نہ آتی تھیں ہم نے انہیں اس طرح آزمایا اس لیے کہ وہ نافرمان تھے- اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں الله ہلاک کرنے والا ہے انہیں سخت عذاب دینے والا ہے؟؟ انہوں نے کہا تمہارے رب کے روبر عذر کرنے کے لیے اور شاید کہ یہ ڈر جائیں- پھر جب وہ بھول گئے اس چیز کو جو انہیں سمجھائی گئی تھی
تو ہم نے انہیں نجات دی جو برے کام سے منع کرتے تھے اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کے باعث برے عذاب میں پکڑا-
یعنی تین میں سے دو جماعتیں جنہوں نے حق سے پہلو تہی کی تھی- الله کے عذاب کا شکار ہوئیں اور ایک جماعت نے اپنے نیک عمل کی بنیاد پر نجات پائی- لہذا حدیث کے مطابق ٧٣ میں سے جو ایک حق پر ہو گا وہی نجات پاے گا- اور اس کی نشانی "
أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي" ہے -
الله رب العزت ہم کو اپنی سیدھی راہ پر گامزن کرے (آمین)-