• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

” جنتی فرقہ “ کون سا ہے ؟

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
باقی موضوع پر وقت ملتے ہی عرض کرتا ہوں ۔۔۔ان شاء اللہ
ان شاء اللہ. ضرور.
جب وقت ملے تب. کوئ جلدی نہیں ھے.
بس میں تہتر فرقوں والی حدیث کو سمجھنا چاہتا ھوں. اور یہ جاننا چاہتا ھوں کہ ھمارے اسلاف نے اس حدیث کو کیسے سمجھا ھے؟
جب سمجھنا چاہتا ھوں (خود سے) تو ولا تفرقوا والی آیت سامنے آجاتی ھے.
جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
میرے خیال میں تو یہ الفاظ کا ہی اختلاف ہے ، حقیقت ایک ہی ہے ۔ کیونکہ جو ’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ‘‘ کی پیروی کرنے والے ہیں وہ بھی تو ایک فرقہ ہیں ۔ بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ’’ جنتی فرقہ ‘‘ قرار دیا ہے ۔
آپ کے لیے پریشانی کا باعث دو چیزیں بن رہی ہیں :
اول : قرآن مجید نے فرقے بنانے سے منع کیا ہے ۔ لیکن حدیث میں جنت میں جانے والوں کو بھی فرقہ ہی قرار دیا گیا ہے ۔
اس تعارض کو دو طرح سے حل کیا جاسکتا ہے :

حدیث میں جنتی فرقہ سے مراد ’’ جماعت ‘‘ اور ’’ گروہ ‘‘ ہے ، اور اس سے مراد وہ ’’ فرقہ ‘‘ نہیں ہے جس کی قرآنی الفاظ ’’ و لا تفرقوا ‘‘ میں مذمت کی گئی ہے ۔

قرآن کی آیت ’’ ولا تفرقوا ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ’’ حق راستہ ایک ہی ہے ، لوگ اس کو مضبوطی سے تھام لیں ، اور حق کو چھوڑ کر مختلف فرقوں میں نہ بٹ جائیں ۔
گویا ایک حق رستہ چھوڑنے کو مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے کا سبب ذکر کیا گیا ہے ۔

دوم : جنت میں ایک ہی فرقے نے جانا ہے ، جبکہ یہاں ہر ایک فرقہ کہتا ہے کہ میں جنتی اور میرا مخالف جہنمی ہے ۔
تو اس کا جواب یہ ہےکہ ’’ جنتی فرقے ‘‘ کا حتمی فیصلہ اللہ کی ذات نے کرنا ہے ، جو یقینا ایک ہی ہوگا ۔ اللہ کا اختیار لوگوں کے دعووں کا پابند نہیں ۔ اب ہر کوئی اپنے آپ کو وہ فرقہ سمجھ رہا ہے تو اس کی مثال آپ انتخابات کے نظام سے سمجھ سکتے ہیں ، ہر جماعت کہتی ہے کہ ہم حکومت کے زیادہ مستحق ہیں اور ہمارا مخالف اس منصب کے لائق نہیں ۔ لیکن جب وقت آتا ہے تو تو سب کو ان کے دعووں کی بنیاد پر اختیار نہیں کر لیا جاتا بلکہ کوئی ایک جماعت ہی آگے آتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
سوچتے ہوئے ۔ ۔ ۔
  1. ”مختلف فرقوں“ سے وابستہ لوگ بالعموم اپنے اپنے فرقے کے ”بانیان اور اکابرین“ کے عقائد، قول اور فعل کو ہی ”سند“ اور حق پر قائم مانتے ہیں۔ جبکہ اپنے فرقہ کے علاوہ دوسرے فرقے کے جملہ افراد کو بلا امتیاز باطل تصور کرتے ہیں۔ یوں یہ لوگ عملاً ”فرقہ پرست“ بن جاتے ہیں۔ ”اپنوں“ سے محبت اور ”غیروں“ سے نفرت ان کا ”شعار“ بن جاتا ہے۔ بس انہیں یہ معلوم ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ فلاں ”اپنے فرقہ“ سے ہے یا نہیں۔
  2. قرآن و حدیث کی مجموعی تعلیمات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں حساب کتاب ”انفرادی“ ہوگا، ”اجتماعی“ نہیں۔ جب حساب کتاب انفرادی ہوگا تو کسی بھی (ایک یا زائد) ”فرقہ“ سے وابستہ تمام کے تمام لوگ جہنم میں تو جاسکتے ہیں (اس فرقہ کے بنیادی باطل عقائد و اعمال کے سبب) لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ایک ”فرقہ“ (اگر وہ سو فیصد درست اور برحق بھی ہو تو) سے وابستہ تمام کے تمام لوگ جنتی ہوں۔ کیا ”درست فرقہ“ میں ”داخل“ ہونے کے بعد ان کے انفرادی اعمال کا کوئی حساب کتاب نہ ہوگا؟ اگر حساب کتاب ہوگا تو ان میں سے کچھ افراد پاس ہو کر جنت میں اور کچھ فیل ہوکر جہنم میں بھی جاسکتے ہیں۔ کسی ایک فرقہ میں ”داخلہ“ جنتی ہونے کی ”گارنٹی“ تو نہیں بن سکتا۔
  3. اسی لئے تو قرآن میں ”لا تفرقو“ بھی کہا گیا ہے (تاکہ ہم ”فرقوں“ سے دور رہیں) اور ”اللہ کی رسی“ کو مضبوطی سے تھامنے کو بھی کہا گیا ہے تاکہ ہم (فرقوں میں نہیں بلکہ) دین اسلام سے جڑے رہیں۔ اسی بات کی مزید ”تشریح“ احادیث میں یوں کی گئی ہے کہ ”تمام فرقے جہنمی ہیں“
  4. جنت میں صرف ”وہی لوگ“ (انفرادی حساب کتاب میں کامیابی کی بنیاد پر نہ کہ کسی فرقہ اور گروہ سے وابستگی کی بنیاد پر) جائیں گے جن کی نشاندہی قرآن و حدیث میں جا بجا کی گئی ہے۔ اور ”تمام فرقے جہنم میں جائیں گے، مگر ۔۔۔ “ والی حدیث میں بھی ”جنت جانے والوں“ کی صاف صاف نشاندہی کی گئی ہے۔
  5. ”اجتماعی“ طور پر ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”کافر“ جہنمی ہیں اور ”مسلمان“ (حساب و کتاب میں کامیابی کے بعد) جنت میں جائیں گے۔ ”مسلم فرقوں“ کے بارے میں قرآن و حدیث سے ایسی کوئی ”گارنٹی“ نہیں ملتی کہ ”فلاں فرقہ“ ہی جنت میں جائے گا۔ جبکہ ایسی ”گارنٹی“ تو بارہا نظر آتی ہے کہ ”تمام فرقے جہنمی ہیں“
واللہ اعلم بالصواب

پس تحریر: عوام الناس کے لئے تحریر کردہ مندرجہ بالا بیان میں اگر کہیں کوئی علمی و شرعی کمی یا خامی ہو تو اس کی ضرور نشاندہی کی جائے۔ احقر شکر گذار ہوگا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جزاک اللہ اسحاق سلفی برادر

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

یہاں بھی میرا سوال وہی ہے۔ کیا تینوں جگہ لفظ مِلَّةً کے ایک ہی معنی ہیں ؟ یا ابتدائی دو الفاظ ”ہم معنی“ اور تیسرا ان سے جدا معنی رکھتا ہے ۔



آپ شاید میرا سوال نہیں سمجھ پائے : آپ کا لکھا ہوا ترجمہ تو واضح اور صاف ہے، حقیقت بھی یہی ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے، جب ایک ہی لفظ کے دو الگ الگ ترجمے کئے جائیں۔ اگر دونوں جگہ ایک ہی ترجمہ کیا جائے، ”مسئلہ“ تب پیدا ہوتا ہے اور جملہ فرقہ پرست جماعتیں اپنے آپ کو ”جنتی فرقہ“ قرار دیکر اپنے اپنے فرقہ کا ”جواز“ پیش کرتی ہیں۔ یوں فرقہ پرستی پھیلتی پھولتی جارہی ہے۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

اوپر دی گئی حدیث میں مِلَّةً سے مراد جماعت ہے- جب کوئی جماعت حق سے پہلو تہی کرتی ہے تو وہ باقیوں سے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لئے ہی کرتی ہے - لفظ فرقہ "فرق" سے ہے چاہے اس کا تعلق حق سے ہو یا باطل سے - (یوم بدر کو یوم فرقان اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ اس دن نے حق و باطل میں فرق کو واضح کردیا)-

حدیث میں لفظ مِلَّةً بولا گیا ہے - ٧٢ جماعتیں حق سے ہٹی ہوئی ہونگی اور اہل نار میں سے ہونگی - صرف ایک جماعت حق پر ہوگی اور وہ اہل جنّت ہیں جو " أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي" کے شرائط کو پورا کرتی ہے-

قرآن کریم میں "اصحاب سبت" سے متعلق بیان کیا گیا ہے-

بنى اسرائیل کا ایک گروہ جو ایک سمندر (بظاہر بحیرہ احمر جو فلسطین کے پاس ہے) کے کنارے شہر ایلہ میں رہتے تھے،ان کى آزمائش کے لئے اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ ہفتہ کے روز مچھلى کا شکار ہرگز نہ کریں- البتہ باقی دنوں میں وہ جب مرضی شکار کری-ں صرف ایک دن تعطیل کردیا کریں لیکن ان لوگوں نے اس حکم کى صریح مخالفت کى جس کے نتیجے میں وہ درد ناک عذاب میں مبتلا ہوئے -لیکن اس آزمائش کے نتیجے میں تین گروہ وجود میں آے -

پہلا گروہ وہ تھا جو الله کے حکم کی صریح نافرمانی کرتے ہوے سبت (ہفتہ) کے دن مچھلیوں کا شکار کرتا تھا-
دوسرا گروہ وہ تھا جو مچھلیوں کا شکار تو نہیں کرتا تھا لیکن شکار کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتا تھا -
تیسرا گروہ وہ تھا جو الله کے نافرمانوں کو بار بار الله کی صریح نا فرمانی (یعنی سبت کے دن مچھلیوں کے شکار) سے منع کرتا تھا-

قرآن کے مطابق الله رب العزت کے عذاب سے صرف تیسرا گروہ ہی نجات پا سکا -

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ -وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ - فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ سوره الاعراف ١٦٣-١٦٥
ترجمہ : اور ان سے اس بستی کا حال پوچھ جو دریا کے کنارے پر تھی جب ہفتہ کے معاملہ میں حد سے بڑھنے لگے جب ان کے پاس مچھلیاں ہفتہ کے دن پانی کے اوپر آنے لگیں اور جس دن ہفتہ نہ ہو تو نہ آتی تھیں ہم نے انہیں اس طرح آزمایا اس لیے کہ وہ نافرمان تھے- اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں الله ہلاک کرنے والا ہے انہیں سخت عذاب دینے والا ہے؟؟ انہوں نے کہا تمہارے رب کے روبر عذر کرنے کے لیے اور شاید کہ یہ ڈر جائیں- پھر جب وہ بھول گئے اس چیز کو جو انہیں سمجھائی گئی تھی تو ہم نے انہیں نجات دی جو برے کام سے منع کرتے تھے اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کے باعث برے عذاب میں پکڑا-

یعنی تین میں سے دو جماعتیں جنہوں نے حق سے پہلو تہی کی تھی- الله کے عذاب کا شکار ہوئیں اور ایک جماعت نے اپنے نیک عمل کی بنیاد پر نجات پائی- لہذا حدیث کے مطابق ٧٣ میں سے جو ایک حق پر ہو گا وہی نجات پاے گا- اور اس کی نشانی " أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي" ہے -

الله رب العزت ہم کو اپنی سیدھی راہ پر گامزن کرے (آمین)-
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام و علیکم و رحمت الله -

اوپر دی گئی حدیث میں مِلَّةً سے مراد جماعت ہے- جب کوئی جماعت حق سے پہلو تہی کرتی ہے تو وہ باقیوں سے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لئے ہی کرتی ہے - لفظ فرقہ "فرق" سے ہے چاہے اس کا تعلق حق سے ہو یا باطل سے - (یوم بدر کو یوم فرقان اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ اس دن نے حق و باطل میں فرق کو واضح کردیا)-

حدیث میں لفظ مِلَّةً بولا گیا ہے - ٧٢ جماعتیں حق سے ہٹی ہوئی ہونگی اور اہل نار میں سے ہونگی - صرف ایک جماعت حق پر ہوگی اور وہ اہل جنّت ہیں جو " أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي" کے شرائط کو پورا کرتی ہے-
-
وعلیکم السلام برادر محمد علی!
ازراہ کرم میرے مراسلہ نمبر ایک، پانچ اور چودہ کو بغور پڑھئے اور ممکن ہو تو میرے ”اصل سوال“ کا جواب دیجئے۔ پیشگی شکریہ ۔ جو کچھ آپ نے لکھا ہے، وہ سو فیصد درست ہے۔ اس سے اختلاف نہیں ہے۔ مگر میرا سوال ”کچھ اور“ ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کسی ایک فقرہ میں ایک ہی لفظ ایک سے زائد مرتبہ آئے اور ہر مرتبہ اس لفظ کے معنی الگ ہوں، یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ بشرطیکہ لغت اور زبان و ادب میں اس کی اجازت ہو۔ جیسے:
  • زندگی کا دیا، وہ دیا نہیں، جسے پھونکوں سے بجھا دیا جائے۔
اس فقرہ میں ایک ہی لفظ تین مرتبہ آیا ہے اور تینوں مرتبہ اس کا مفہوم الگ الگ ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
کسی ایک فقرہ میں ایک ہی لفظ ایک سے زائد مرتبہ آئے اور ہر مرتبہ اس لفظ کے معنی الگ ہوں، یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ بشرطیکہ لغت اور زبان و ادب میں اس کی اجازت ہو۔ جیسے:
عربی کی مثال زیادہ مناسب ھے یہاں پر اردو کی نہیں کیونکہ اردو اور عربی الگ الگ ھیں. اور جناب اگر آپ اس معنی سے پھیر رھے ھیں تو قرینہ کیا ھے؟؟؟
 
Top