براہِ کرم ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر جواب دیجئے گا۔
پیارے بھائی جان بہت معذرت کے ساتھ اگر آپ غیر مقلد پہ نفس کا بندہ بننے کا الزام لگائیں گے تو پھر شیشے کے گھر میں کھڑے ہو کر مارے جانے والے پتھروں کی طرح ہی ہوں گے کیونکہ نفس کا بندہ بنتے تو ہمیں تقلید کرنے والے بھی نظر آتے ہیں جب ہمارے علماء کے پاس روزانہ سیکڑوں اکٹھی تین طلاقیں دینے والے آتے ہیںدین ایک ہی چیز ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت۔ اختلاف کی صورت میں اس مین کسی ایک ہی کی فہم کو معتبر رکھنا ہوگا وگرنہ وہ نفس کا بندہ بن جائے گا۔
یہاں دو باتیں ہیںہاں البتہ کوئی کسی خاص شعبہ مین ماہر ہے اور دوسرا کسی دوسرے شعبہ میں تو جو جس شعبہ مین ماہر ہے تو اس فیلڈ میں صرف اسی کی بات مانی جائے گی دوسرون کی لفاظیوں پر نہیں جایا جائے گا (اگر کو جائے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا دوسروں کا کیا جائے گا)۔
جی بھائی جان میں نے تو طبیب کے پاس ہی جانے کا کہا ہے پٹواری کے پاس نہیں البتہ یہ کہا ہے کہ ایک طبیب کو فکس کوئی بھی نہیں کرتا بلکہ اپنے مشاہدے اور تجربے (چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو) اور مختلف طبیبوں میں بہتر کا چناو کرتا ہے کہ جسکی درست معلوم ہوتی ہویہ بعین اسی طرح ہے کہ علاج کے لئے طبیب کے پاس جائین گے پٹواری کے پاس نہیں۔
پیارے بھائی جان آپ کس چیز کو اجتہاد سمجھ رہے ہیںپیارے بھائی کیا آپ اجتہاد کی اہلیت رکھتے ہیں؟
جانِ من آج کتنے ہیں جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں؟ ہاں البتہ دھوکہ بازون سے جہاں بھرا پڑا ہے۔
اس میں ہمارا کیا قصور ہے بھائی جان یہ تو خود آپکے ہی خلاف جاتی ہے کہ آپ لوگوں کو اہل الرائے کہا جاتا ہے جبکہ ہم کو کہا جاتا ہے کہ جب تک حدیث نہیں ملتی عمل نہیں کرتے اور ہمارے لئے ہی وہ امام مالک رحمہ اللہ کا وہ قول بیان کیا جاتا ہے کہ میرے سامنے قرآن یا حدیث لے آو میں مان جاوں گا اور یہی ہماری حالت ہے پھر آپ کیا کہنا چاہتے ہیںعمر رضی اللہ تعالیی عنہ تو عرب ہو کر عربی کی تفہیم رکھنے کے باوجود تیمم کی آیت پر اس وقت تک عمل نہیں کرتے جب تک اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرما دیں اور آج لفظوں کا کھیل کیلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیی کے حضور حاضری کا ڈر دلوں سے نکل چکا۔
یہ میں نے اوپر بیان کر دیا ہے کہ اگر آپ کی اجتہاد سے مراد قرآن و حدیث سے فقہی مسائل کا استنباط ہے تو اس معنی میں عامی لوگوں کو میں مجتہد نہیں بنا رہا البتہ اوپر دی گئی جج کی مثال کی طرح مخٹلف ججوں کے فیصلوں میں بہتر فیصلہ کی کوشش کو آپ فقہاء کے اجتہاد کی طرح سمجھتے ہیں تو اس کی بارے بھائی جان میرے ترغیب دینے یا نا دینے سے کیا ہوتا ہے جب اللہ نے خﷺد قرآن میں انکو ترغیب دی ہوئی ہے بلکہ بشارت دی ہوئی ہےتیسری بات یہ کہ آپ ایک جاہل (لکھ پڑھ لینے سے جہالت ختم نہیں ہوتی جہالت ختم ہوتی ہے اللہ کا ڈر پیدا ہونے سے) کو مجتہد کے مقام پر کھڑا ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
بھائی جان خالی گمان کو دیکھنا ہے یعنی احتمال کو دیکھنا ہے تو احتمالات تو اور بھی بہت سے ہو سکتے ہیں خالی آپ والا ہی کیوںفساد کی جڑ یہی ہے کہ جب اجتہاد کی صلاحیت نہ رکھنے والا جج بن کر مختلف فقہا کے ’’صحیح‘‘ پر عمل کی کوشش کرے گا تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سب کی ان باتوں پر عامل ہو جن مین ان سے اجتہادی ’’خطا‘‘ ہوئی۔
جی فقیہ اپنی غلطی سے مطلع نہیں ہوتا کیونکہ بعض دفعہ اسکا علم محدود ہوتا ہے اور بعد والے عامی کے پاس نص کا علم زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ اسکو دوسرے مجتہد سے یا کسی دوسرے محدث سے دوسری احادیث پہنچی ہوتی ہیں جو اس غلطی کرنے والے مجتہد کو نہیں پہنچی ہوتیں جیسا کہ احناف کی کتابوں میں اسکی صراحت موجود ہےکیون کہ فقیہ اپنی خطا پر مطلع نہیں ہوتا۔ اگر وہ مطلع ہوتا تو اس سے رجوع کرتا۔ غیر فقیہ کس دلیل سے کسی فقیہ کی صحیح اور غلط کو پرکھے گا اور اگر وہ خود فقیہ ہے تو اسے پرکھنے کی ضرورت ہی نہیں وہ برہِ راست قرآن و حدیث سے ’’مسنون‘‘ طریقہ ڈھونڈھ لے گا۔
نہیں بھائی جان آپ کی بات خود آپکے مطابق ہی غلط ہو گی کیونکہ پھر آپ دنیا میں سارے صحابہ کو کیا کریں گے کیا سارے صحابہ فقیہ تھے تو پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو غیر فقیہ کیوں کہا جاتا ہے اور اگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مقلد تھے تو کس کے مقلد تھے پھر وہ تقلید کرنے کی بجائے آپ کے مطابق غیر فقیہانہ احادیثیں کیوں بیان کرتے تھےلہٰذا دنیا میں صرف دو قسم کے ہی لوگ ہیں ’’مقلد‘‘ یا ’’فقیہ‘‘کوئی تیسری مخلوق نہیں۔ اگر کوئی اس تیسری مخلوق میں سے بننے کی کوشش کرے گا تو وہ ’’لا ولد‘‘ ہی رہے گا۔
آپ نے بالکل صحیح نشاندہی کی کہ جب کوئی حنفی اکٹھی تین طلاق دے بیٹھتا ہے تو ایسون مین سے چند ایک لا علم غیر مقلد بن جاتے ہین دنیاوی فائدہ کی خاطر۔پیارے بھائی جان بہت معذرت کے ساتھ اگر آپ غیر مقلد پہ نفس کا بندہ بننے کا الزام لگائیں گے تو پھر شیشے کے گھر میں کھڑے ہو کر مارے جانے والے پتھروں کی طرح ہی ہوں گے کیونکہ نفس کا بندہ بنتے تو ہمیں تقلید کرنے والے بھی نظر آتے ہیں جب ہمارے علماء کے پاس روزانہ سیکڑوں اکٹھی تین طلاقیں دینے والے آتے ہیں
مجھے کسی کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں میں تو حقائق پیش کروں گا ان شاء اللہ۔پس بھائی جان یہ یاد رکھیں کہ کسی کے بارے نفس کا بندے بننے کا بلاوجہ گمان کرنا درست نہیں اس طرح تو لوگ اگر فقہاء کے بارے گمان کرنے لگیں کہ وہ بھی نفس کا بندہ بننے کی وجہ سے رائے سے فیصلہ دیتے تھے جنکو اہل الرائے کہا جاتا ہے تو اس پہ آپ کیا صفائی پیش کریں گے جو صفائی آپ پیش کریں گے کیا وہ غیر مقلد نہیں پیش کر سکتا
اختلاف اس میں نہیں کہ ابو حنیفہ رحمۃ غلط ہو سکتے ہیں کہ نہیں۔ اختلاف یہ ہے کہ کسی مجتہد فقیہ کو خطا پر ثابت کرنے والا اس کا ’’اہل‘‘ ہونا چاہیئے یا کہ ہر کس و ناکس کو یہ اختیار حاصل ہے۔یہاں دو باتیں ہیں
1-ہمیشہ ہر معاملے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے ہی درست ہو گی
2-بعض معاملوں میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے درست ہوتی ہے اور بعض معاملوں میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے غلط ہوتی ہے
پس اگر آپ کے نزدیک پہلا نمبر درست ہے تو بتائیں (جو یقینا نہیں ہے کوئی حنفی اسکا دعوی نہیں کرے گا)
اور اگر دوسرا نمبر درست ہے تو پھر ثابت ہوا کہ ایک ماہر کی ایک بات درست اور دوسری غلط بھی ہو سکتی ہے
آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کہ اگر کہیں ایک سے زیاداہ طبیب ہوں تو بہتر کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔جی بھائی جان میں نے تو طبیب کے پاس ہی جانے کا کہا ہے پٹواری کے پاس نہیں البتہ یہ کہا ہے کہ ایک طبیب کو فکس کوئی بھی نہیں کرتا بلکہ اپنے مشاہدے اور تجربے (چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو) اور مختلف طبیبوں میں بہتر کا چناو کرتا ہے کہ جسکی درست معلوم ہوتی ہو
بھائی یہی تو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جسے تم طبیب سمجھ رہے ہو کہیں وہ لبادہ اوڑے شکاری نہ ہو۔ بچ جاؤ اسی میں بہتری ہے2-دوسرا کوئی آگے سے یہ کہ دے کہ جی ہم پٹواری کے پاس نہیں جاتے بلکہ طبیب کو تبدیل کرتے ہیں کیونکہ آپکا (اہل الرائے کا) طبیب دیسی دوائیاں (رائے) شروع کر دیتا ہے اور دوسرا ڈاکٹر درست دوائیاں (احادیث) دیتا ہے تو ہم ایک طبیب کو چھوڑ کر پٹواری کے پیچھے جانےکی بجائے مستند ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں (صرف الزامی جواب ہے حقیقی نہیں)
آپ کو تبصرہ اور فیصلہ کا فرق ہی معلوم نہین۔19174 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
چلیں بھائی جان میں نے بات تو کسی اور لحاظ سے کی تھی لیکن اگر آپ آپ وکیل کا نام نہیں لینا چاہتے بلکہ جج کو عامی سے کمپیئر کرنا چاہتے ہیں تو اسکو لے لیتے ہیں
دیکھیں مختلف جج مختلف فیصلے کرتے ہیں مثلا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کسی جج نے کیا تھا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ کسی جج نے کیا تھا اور سیکڑوں ایسے فیصلے ملتے ہیں جس پہ عامی باتیں کرتے نظر آتے ہیں تو کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ جج کا فہم عامی سے کم ہے
دیکھیں توہین رسالت کے کیس میں ایک جج نے جو باتیں کی ہیں اس کی بنیاد انہوں نے قانون کو ہی بنایا ہے مگر اسکے مقابلے میں دوسرے ججوں نے جو باتیں کی ہیں اسکی بنیاد بھی انہوں نے قانون کے سیکشنز کو ہی بنایا ہے اور باقاعدہ ان سیکشنز کا حوالہ بھی دیا ہے اسی طرح سود کے معاملہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ججوں نے جو حرام ہونے کا فتوی دیا ہے وہ قانون کی شکوں کو بنیاد بنا کر ہی دیا ہے اور اسکے مقابلے میں سپریم کورٹ کے ججوں نے جب اس کو رد کیا تو انہوں نے بھی قانون کا ہی حوالہ دیا
ابھی پچھلے دنوں سندھ ہائی کورٹ کے جج نے شراب پہ پابندی لگائی تو وہ بھی حوالوں سے ہی لگائی اور بعد میں سپریک کورٹ نے اسکو معطل کیا تو وہ بھی قانون کے حوالوں کے ساتھ ہی تھا
اب آپ بتائیں کہ
کیا ہم دینی رجحان رکھنے والے ان فیصلوں پہ اپنی رائے دیتے ہیں یا نہیں کہ فلاں جج نے درست کیا اور فلاں نے درست نہیں کیا
تو بھائی کیا ہم ججوں سے زیادہ قانون کو جاننے والے ہوتے ہیں؟
اللہ آپ کو دعوت دین کے خلاص پہ اجر عظیم عطا فرمائے امین