• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

100سے زائد حافظ قرآن بچوں کو شہید کر دیا گیا.

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
29598065_781854925337875_5463987508937572478_n.jpg

ملالہ کو ایک گولی( فرضی )لگنے پر ماں کا درجہ دے ڈالنے والوں نے سو سے زائد ننھی منھی کلیاں مسل ڈالیں ،،،
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سري ديوي مری تو یوں لگا جیسے ہمارے میڈیا کی بالخصوص جیو والوں کی ماں مری ہے ۔
ساری عمر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف آواز اٹھانے والی عاصمہ جہانگیر مری تو حامد میر کا حال دیکھنے کو تھا۔اسلامی تاریخ میں کہیں بھی ایسا بھیانک جنازہ آپ کو کہیں بھی نہیں ملے گا جسے توپوں کی سلامی کا جناب زور لگا رہے تھے اور نہ ملنے پر ابتر حال دیدنی تھا۔

ہم مسلمان ہیں کیا۔۔۔۔؟
کیا ہمارے اندر رتّی برابر اخوت اور ہمدردی ہے۔۔۔؟
مسلمان بھائی بھائی ہیں اس کی وضاحت آج کل میڈیا یا ہمارے اینکر حامد میر ،کاشف عباسی،مبشر لقمان،جاوید چودھری اور دیگر کتنا دکھا رہے ہیں اور بیان کر رہے ہیں۔اگر کوئی بات کرے تو بات کو بدلنا کوئی ہمارے اینکروں سے سیکھے۔
محسوس ایسے ہوتا ہے جیسے یہی اصل گرگھٹ ہیں۔آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

امریکہ امن پسند ہے ۔۔؟
تو ان بچوں کو کیا نام دیا جاۓ گا۔۔۔؟
ڈرون گرانے والے اگر امن پسند ہیں ۔۔۔؟
تو بچے کیا ہیں۔۔۔؟
کیا امریکی،روسی،برطانوی ٹیکنالوجی اور فوجی تجربہ یہی ہے کہ فضا سے بے گناہوں کو مار دیا جاۓ۔

مسلمانوں ہم کسے سمجھائیں ہم خود ہماری وضع قطع ہماری عکاسی ہے۔کہ ہم کس طرف ہیں۔ہم کتنے مسلمان ہیں کتنے فیصد ہم میں اخوت ہے کس طرف ہے۔
اور کتنا درد ہے۔ہم،ہمارے لیڈر،ہمارے ججز کتنے غیرت مند ہیں ذرا سوچیۓ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس قسم کے واقعات مردہ لوگوں کے لیے بجلی کے آخری جھٹکے ہوتے ہیں، یا تو سنبھل جاتے ہیں، یا پھر بالکل ہی ختم ہوجاتےہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
افسوس کہ میڈیا پر سکول اور مدرسے کے طلبہ میں امتیاز برتا گیا !!


30127700_1496392627137492_4407240915098271744_n.jpg

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
"خدا کی قسم خود کش بمبار بن جاؤں گا "..

از قلم ابوبکر قدوسی

ہسپتال کے باہر روتے اور چیختے جب اس نے یہ الفاظ کہے تو اصل میں تمام اہل مغرب اور مشرق کی مجموعی دانش کے منہ پر جوتا رسید کیا تھا ....
میں نے آج سے دو سال پہلے بھی لکھا تھا کہ خود کش بمبار آپ کی پالیسی پیدا کرتی ہے ....آپ کے ظلم لوگوں کو خود کش بمبار بنا رہے ہیں ، انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کے مجرم آپ اور آپ کی پالیسیاں ہیں ...دنیا کو رہنے کے ناقابل بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک کا ہے -
خود ہی سوچئے کہ جب کوئی فضائی حملہ ہوتا ہے اس میں اگر کسی کے تین یا چار بچے مارے جائیں ، یا اس کا کنبہ ختم ہو جائے ، یا اس کے دو چار جوان بھائی مارے جائیں ........تو اس کی زندگی زندگی ہو گی ؟
جناب وہ بھی کسی ہسپتال کے باہر کھڑا ہو کر کے خود سے عہد کر رہا ہو گا کہ میں نے اس قتل ناحق کے بدلے خود کش بمبار بننا ہے - تو اس کے اس ارادے کا سبب اور مجرم کون ہو گا ؟؟
اور پھر خود کش بمبار جب ایسا کر گزرتا ہے تو آپ کے زرخرید ، بھاڑے کے دانش ور چینلز پر بیٹھ کر فلسفہ بھگارتے ہیں - کیا ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ اصل وجہ قندوز جیسے مظالم اور ہمارے دیسی حکمرانوں کی کاسہ لیسی ہے -
کل اشرف غنی کہہ رہا تھا کہ تحقیقات ہوں گی ...
خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرم سرور کون مکاں گئی
ان ظالموں کے سینے میں دل ہے نہ ضمیر - لوگوں کو پاگل سمجھتے ہیں --- کون سی تحقیقات کہاں کی تحقیقات ؟؟
اندھوں کو بھی خبر ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے - احمق سے احمق بھی جانتا ہے کہ حملہ آور طیارے امریکی تھی ، جنہوں نے اپنی مذہبی اور نسلی نفرت کا ثبوت دیا ----
کیا انہیں ظالموں نے شام اور عراق میں تاک تاک کے نشانے لگا کے ہسپتال ختم نہیں کیے ...اس کے بعد کون سی تحقیقات ---- اب کوئی مسلمان بھی اس بارے میں خوش فہمی میں مبتلا نہیں کہ یہ مغربی طاقتیں اپنی مذہبی نفرت کے سبب عام اور غیر مسلح پرامن مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں - اور ہمارے ہاں خود کش بمبار پیدا کر رہے ہیں -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ہم حافظ قرآن ہیں ، ہم حافظ قرآن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاء الله ، خوب ترجمانی کی ہے، جعفر طیار صاحب نے۔
جس طرح بڑا دشمن بنا پھرتاہے، مشہور کیا گیا، قندوز کی معصوم کلیوں کو پیش کیا گیا یہ خراج عقیدت بھي ٹرینڈ بننا چاہیے۔
#ہمـحافظـقرآن
#قندوزـلہوـلہو
#شکریہـجعفـطیار
#NATOterrorism
ہیش ٹیگ کے ساتھ، اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔
اپنی اپنی آئی ڈیز سے اپلوڈ کریں۔
جس سے جو ہوسکتاہے، کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔
Jaffar Tayyar کے یوٹیوب چینل سے بھی اسے ضرور دیکھیں
درج ذیل الفاظ کے ساتھ اسے سرچ بھی کریں:
Hum Hafiz e Quran hain by jaffar tayyar
تاکہ یوٹیوب رینکنگ میں بہتری آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکوہ نہیں کافر سے کہ وہ ٹہرا جو کافر
تم لوگ تو اپنے تھے مسلمان تھے آخر
کچھ کرنے سے کچھ کہنے سے کیوں تم رہے قاصر
مظلوم سے تھا بغض یا ظالم کے محبان
ہم حافظ قرآن ہیں ہم حافظ قرآن
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
سو سے زائد حفاظ کرام ؒ کو ہی نہیں بلکہ سو سے زائد خاندانوں، مکاتیب ِ فکر اور اُمتِ محمدیہ ﷺ کے بہترین انسانوں یک لخت شہید کر دیا گیا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ملالہ دیوی اور قندوز و کشمیر کے شہداء

ازقلم: حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب
ملالہ دیوی کی وطن واپسی اور قندوز کے دینی مدرسہ پر امریکی ڈرون حملہ کی خبریں ایک ہی دن قومی اخبارات میں پڑھنے کو ملیں اور ذہن میں ان دونوں خبروں کے باہمی تعلق کے حوالہ سے کئی سوالات گردش کرنے لگے۔ دیوی کے درشن میں ہمارے محترم وزیراعظم شریک تھے اور یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ ملالہ نے کہا ہے کہ میں وزیراعظم نہیں بننا چاہتی، جبکہ مستقبل میں وزیراعظم کے عہدہ کے ایک بڑے امیدوار سیاستدان نے کہا ہے کہ وہ اسے وزیرتعلیم بنائیں گے۔
سوشل میڈیا میں مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے بہت کچھ پڑھنے میں آیا اور مجھے تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر ایک صدی قبل کا وہ منظر یاد آگیا کہ جب خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے بہت سے خاندانوں کو اس علاقہ کی بندر بانٹ میں شریک کر کے ان کی خاندانی حکمرانی کو جمہوریت کے علمبرداروں نے ان کا حق قرار دے دیا تھا اور ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدات کیے تھے کہ یہ خاندان عالمی آقاؤں کے مفادات کی نگہبانی کریں گے اور اس کے بدلے میں یہ آقا ان کی خاندانی حکومتوں کو تحفظ دیتے رہیں گے تو مصر، لیبیا، عراق، یمن اور بعض دیگر علاقوں کے خاندانی حکمران فوجی اور عوامی بغاوتوں کا سامنا نہ کر سکے اور منظر سے غائب ہوگئے۔
جبکہ بعض خاندان بدستور ان معاہدات کے مطابق پوری وفاداری کے ساتھ حکمرانی کر رہے ہیں اور حق الخدمت بھی ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر شام کے حکمران خاندان کو دیکھا جا سکتا ہے کہ موجودہ صدر بشار الاسد کے دادا کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا کہ شام کی سنی مذہبیت اور علمیت کو کارنر کرنے یا کم از کم کنٹرول میں رکھنے کے لیے وہ شام کا نظم سنبھالیں گے۔ ایک مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے کے باوجود اس خاندان کو جس طرح اقتدار میں لایا گیا یہ عالمی حکمرانوں کی چابکدستی اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دادا کے ساتھ معاہدہ کے بعد بشار کے والد حافظ الاسد کو شام سونپ دیا گیا اور اس نے شام کو بہرحال اپنے ڈھب پر لگا لیا۔ اب اس خاندان کی تیسری پشت بشار الاسد کی صورت میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے اور بالاتر قوتیں اپنے تمام تر اختلافات اور باہمی مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود بشار الاسد کے ہر حال میں تحفظ پر نہ صرف پوری طرح متفق ہیں بلکہ عملاً کر بھی رہی ہیں۔
اسی آئینے میں مشرق وسطیٰ کے دیگر خاندانی حکمرانوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے اور تاریخ کے جن طلبہ نے ان خاندانوں کے ساتھ عالمی حکمرانوں کے وہ معاہدات پڑھ رکھے ہیں وہ اس بات پر ان سب کو داد دینے پر مجبور ہیں کہ ایک صدی قبل کے ان معاہدات کے کم و بیش سبھی فریق پوری دل جمعی کے ساتھ نسل در نسل ان کے پابند ہیں اور حقِ وفاداری ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کے قیام کے موقع پر کسی خاندان سے تو اس قسم کا معاہدہ ممکن نہیں تھا البتہ ایک خود ساختہ مذہبی اقلیت کو اس کے لیے تیار کیا گیا اور نوزائیدہ ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں دینے کے سارے جتن کیے گئے۔ جس کی ایک جھلک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے اس تبصرہ میں دیکھی جا سکتی ہے کہ قادیانی گروہ اس ملک میں وہ حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے تاکہ ملک کی کوئی پالیسی اور فیصلہ ان کی منشا کے خلاف طے نہ ہونے پائے۔ مگر پاکستان کا ’’مولوی‘‘ مشرق وسطی کی مذہبی قیادت سے مختلف نکلا اور یہ ٹیڑھی پسلی والا مولوی اس منصوبے میں کباب کی ہڈی بن گیا، اس نے نہ صرف بھرپور مزاحمت کی بلکہ مسلسل محنت کے ساتھ پوری قوم کو اپنا ہمنوا بنا لیا اور شام کی طرح پاکستان میں ایک معمولی مذہبی اقلیت کے ہاتھ میں پورے ملک کی باگ ڈور تھما دینے کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔
اس پس منظر میں ملالہ دیوی کے عالمی پروٹوکول اور اسے دھیرے دھیرے آگے بڑھاتے ہوئے اس کے منہ سے ملک کا وزیر اعظم بننے اور نہ بننے کی باتیں سن کر بسا اوقات ہنسی آنے لگتی ہے کہ ’’نوبت بایں جا رسید‘‘۔ گزشتہ روز وزیراعظم اور وزیرتعلیم کے حوالہ سے مذکورہ خبریں پڑھ کر دوسری جنگ عظیم کے دوران کا ایک لطیفہ ذہن میں تازہ ہوگیا کہ برطانوی فوج کے لیے پنجاب میں جبری بھرتی کے دوران ایک میراثی خاندان کا نوجوان بھی پکڑ کر بھرتی کر لیا گیا تو اس کی ماں فریاد لے کر بھرتی آفس پہنچ گئی اور کہا کہ مجھ غریب عورت کے بیٹے کو آخر کیوں پکڑ لیا گیا ہے؟ بھرتی افسر نے اس عورت سے پوچھا کہ کیا وہ اس اعزاز کو پسند نہیں کرتی کہ اس کا بیٹا برطانیہ عظمیٰ کی ملکہ معظمہ کی فوج کا سپاہی بنے؟ اس خاتون نے جواب دیا کہ مجھے اس پر اعتراض تو نہیں ہے مگر جب معاملہ اس نوبت تک آ پہنچا ہے تو ملکہ معظمہ کو میرا مشورہ ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اب جرمنوں سے صلح ہی کر لے۔
بہرحال اس فضا میں ملالہ دیوی پاکستان کا چار روزہ دورہ مکمل کر کے اپنے خاندان سمیت وطن واپس سدھار گئی ہے مگر اس کے جاتے ہی قوم کو قندوز کے دینی مدرسہ پر امریکی ڈرون حملہ میں قرآن کریم حفظ کرنے والے سو سے زائد بچوں کی شہادت کی خبر بھی مل گئی ہے جو شاید ملالہ دیوی کو الوداعی سلامی کی کوئی صورت ہو۔ جہاں تک ان معصوم بچوں کی مظلومانہ شہادت کا تعلق ہے وہ اسی تگ و دو کا تسلسل ہے جو غیور و جسور افغان قوم پہلے ایک عرصہ تک سوویت یونین کی فوجی جارحیت اور پھر امریکی اتحاد کی لشکرکشی کا سامنا کرتے ہوئے گزشتہ تین نسلوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور اس با حمیت قوم نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ یہ مزاحمت افغانستان کی سرزمین پر بیرونی جارحیت کے مکمل خاتمہ اور اس کے آئندہ امکانات کے سدباب تک بہرحال جاری رہے گی۔
افغانستان کے ان شہداء کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کا شکار ہونے والے مظلوم کشمیر شہداء کا تازہ خون بھی شامل ہوگیا ہے کہ وہ بھی بھارت کی فوجی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنے وطن کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم قندوز اور مقبوضہ کشمیر کے شہداء کی تازہ ترین قربانیوں پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور اس سے کشمیر اور افغانستان کی آزادی کی منزل ان شاء اللہ تعالیٰ قریب آئے گی:
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ




امریکی حکومت کے ليۓ کسی بھی تنازعہ ميں معصوم انسانی جانوں کا ضياع باعث تشويش ہے

 
Top