- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
میں نے دونوں صورتیں ذکر کردی تھیں ، جواب بھی میں نے اسی لیے نقل نہیں کیا تھا کہ بظاہر بعید محسوس ہوتا ہے ، اسی لیے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ منکرین حدیث کو ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ، کسی بھی جگہ پر جو بھی نقد کی گنجائش نکل سکتی تھی ، محدثین نے اس پر تفصیل سے گفتگو کردی ہے ، اور ساتھ وجہ بھی ذکر کردی ہے ۔امام بخاری کے نزدیک سوره النجم کی آیات جن کا ذکر اس حدیث میں ہے الله کے متعلق ہیں جیسا اس روایت میں آیا ہے
اب کیا رسول الله بعثت سے پہلے نبی تھے ؟ نہیں تھے کیونکہ قرآن میں ہے
سوره الشوری
وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
﴿52﴾
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں، بیشک آپ راه راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
لہذا بعثت سے پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر کوئی الوحی نہیں ہوئی نہ خواب میں نہ اصل میں
یہ روایت اس طرح خلاف قرآن ہے
معراج نبوت سے پہلے ممکن نہیں
امام مسلم نے بھی اس طرف اشارہ کیا کہ اس میں شریک غلطی کر رہا ہے اور انہوں نے اس کو مکمل نقل کرنا بھی مناسب نہ سمجھا-
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔
حدثنا هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، قال: اخبرني سليمان وهو ابن بلال ، قال: حدثني شريك بن عبد الله بن ابي نمر ، قال: سمعت انس بن مالك يحدثنا، عن ليلة اسري برسول الله صلى الله عليه وسلم من مسجد الكعبة، " انه جاءه ثلاثة نفر قبل ان يوحى إليه وهو نائم في المسجد الحرام "، وساق الحديث بقصته نحو حديث ثابت البناني، وقدم فيه شيئا واخر، وزاد ونقص.
شریک بن عبداللہ سے روایت ہے، میں نے سنا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ بیان کرتے تھے اس رات کا جس میں معراج ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کی مسجد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین فرشتے آئے وحی آنے سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سو رہے تھے پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے ثابت نے روایت کیا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے، لیکن آگے بیان کیا بعض باتوں کو اور پیچھے بیان کیا بعض باتوں کو اور زیادہ کیا اور کم کیا۔
بلکہ اس کے بعد مکمل روایت دوسری سند سے دی-
اااااااااااااا
کتاب التوشيح شرح الجامع الصحيح از السيوطي کے مطابق
فمما أنكر عليه فيه قوله: “قبل أن يوحى إليه”، فإن الإجماع على أنه كان من النبوة، وأجيب عنه بأن الإسراء وقع مرتين، مرة في المنام قبل البعثة وهي رواية شريك، ومرة في اليقظة بعدها.
شریک کی روایت کا جو انکار کیا گیا ہے اس میں یہ قول ہے کہ یہ الوحی کی آمد سے پہلے ہوا پس اجماع ہے کہ معراج نبوت میں ہوئی اور اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ دو بار ہوئی ایک دفعہ نیند میں بعثت سے پہلے اور دوسری بار جاگتے ہیں
روایت صحیح نہیں لیکن زبر دستی اس کو صحیح قرار دیا جا رہا ہے-
اس کا ذکر الشیخ محمد صالح المنجد نے بھی کیا اپنے فتویٰ میں کرتے ہیں -
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرا دو مرتبہ ہوا ہے، ایک بار بیداری میں اور دوسری بار نیند کی حالت میں۔۔۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک بار وحی نازل ہونے سے پہلے اور ایک بار وحی نازل ہونے کے بعد ۔
اسی طرح کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ : معراج تین بار ہوا ہے، ایک بار وحی نازل ہونے سے پہلے اور دو بار وحی نازل ہونے کے بعد ؛ یعنی جب بھی معراج کے واقعات سے متعلق کوئی اشکال پیدا ہوا تو تطبیق دینے کیلیے انہوں نے معراج کے واقعات کو بھی اسی طرح بڑھانا شروع کر دیا، لیکن یہ وطیرہ قدرے کمزور محدثین کا ہے؛
الشیخ محمد صالح المنجد اسی فتویٰ میں آگے جا کر لکھتے ہیں کہ
ائمہ محدثین معراج کے بارے میں جو بات نقل کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ معراج اصل میں ایک ہی بار مکہ میں بعثت کے بعد
اب اس طرح کے چند مقامات لیکر کوئی ساری بخاری یا مسلم یا پورے ذخیرہ احادیث کی تحقیق کے اصول ہی نئے وضع کرلے تو یہ خواہشیں ہیں ، کبھی پوری نہ ہوں گی ۔