• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

27 رجب اسراء و معراج کی رات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
امام بخاری کے نزدیک سوره النجم کی آیات جن کا ذکر اس حدیث میں ہے الله کے متعلق ہیں جیسا اس روایت میں آیا ہے

اب کیا رسول الله بعثت سے پہلے نبی تھے ؟ نہیں تھے کیونکہ قرآن میں ہے

سوره الشوری

وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ


﴿52﴾

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں، بیشک آپ راه راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

لہذا بعثت سے پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر کوئی الوحی نہیں ہوئی نہ خواب میں نہ اصل میں
یہ روایت اس طرح خلاف قرآن ہے

معراج نبوت سے پہلے ممکن نہیں

امام مسلم نے بھی اس طرف اشارہ کیا کہ اس میں شریک غلطی کر رہا ہے اور انہوں نے اس کو مکمل نقل کرنا بھی مناسب نہ سمجھا-



باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔

حدثنا هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، قال:‏‏‏‏ اخبرني سليمان وهو ابن بلال ، قال:‏‏‏‏ حدثني شريك بن عبد الله بن ابي نمر ، قال:‏‏‏‏ سمعت انس بن مالك يحدثنا، ‏‏‏‏‏‏عن ليلة اسري برسول الله صلى الله عليه وسلم من مسجد الكعبة، ‏‏‏‏‏‏" انه جاءه ثلاثة نفر قبل ان يوحى إليه وهو نائم في المسجد الحرام "، ‏‏‏‏‏‏وساق الحديث بقصته نحو حديث ثابت البناني، ‏‏‏‏‏‏وقدم فيه شيئا واخر، ‏‏‏‏‏‏وزاد ونقص.

شریک بن عبداللہ سے روایت ہے، میں نے سنا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ بیان کرتے تھے اس رات کا جس میں معراج ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کی مسجد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین فرشتے آئے وحی آنے سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سو رہے تھے پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے ثابت نے روایت کیا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے، لیکن آگے بیان کیا بعض باتوں کو اور پیچھے بیان کیا بعض باتوں کو اور زیادہ کیا اور کم کیا۔

بلکہ اس کے بعد مکمل روایت دوسری سند سے دی-

اااااااااااااا

کتاب التوشيح شرح الجامع الصحيح از السيوطي کے مطابق

فمما أنكر عليه فيه قوله: “قبل أن يوحى إليه”، فإن الإجماع على أنه كان من النبوة، وأجيب عنه بأن الإسراء وقع مرتين، مرة في المنام قبل البعثة وهي رواية شريك، ومرة في اليقظة بعدها.

شریک کی روایت کا جو انکار کیا گیا ہے اس میں یہ قول ہے کہ یہ الوحی کی آمد سے پہلے ہوا پس اجماع ہے کہ معراج نبوت میں ہوئی اور اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ دو بار ہوئی ایک دفعہ نیند میں بعثت سے پہلے اور دوسری بار جاگتے ہیں

روایت صحیح نہیں لیکن زبر دستی اس کو صحیح قرار دیا جا رہا ہے-

اس کا ذکر الشیخ محمد صالح المنجد نے بھی کیا اپنے فتویٰ میں کرتے ہیں -

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرا دو مرتبہ ہوا ہے، ایک بار بیداری میں اور دوسری بار نیند کی حالت میں۔۔۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک بار وحی نازل ہونے سے پہلے اور ایک بار وحی نازل ہونے کے بعد ۔

اسی طرح کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ : معراج تین بار ہوا ہے، ایک بار وحی نازل ہونے سے پہلے اور دو بار وحی نازل ہونے کے بعد ؛ یعنی جب بھی معراج کے واقعات سے متعلق کوئی اشکال پیدا ہوا تو تطبیق دینے کیلیے انہوں نے معراج کے واقعات کو بھی اسی طرح بڑھانا شروع کر دیا، لیکن یہ وطیرہ قدرے کمزور محدثین کا ہے؛


الشیخ محمد صالح المنجد اسی فتویٰ میں آگے جا کر لکھتے ہیں کہ

ائمہ محدثین معراج کے بارے میں جو بات نقل کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ معراج اصل میں ایک ہی بار مکہ میں بعثت کے
بعد
میں نے دونوں صورتیں ذکر کردی تھیں ، جواب بھی میں نے اسی لیے نقل نہیں کیا تھا کہ بظاہر بعید محسوس ہوتا ہے ، اسی لیے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ منکرین حدیث کو ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ، کسی بھی جگہ پر جو بھی نقد کی گنجائش نکل سکتی تھی ، محدثین نے اس پر تفصیل سے گفتگو کردی ہے ، اور ساتھ وجہ بھی ذکر کردی ہے ۔
اب اس طرح کے چند مقامات لیکر کوئی ساری بخاری یا مسلم یا پورے ذخیرہ احادیث کی تحقیق کے اصول ہی نئے وضع کرلے تو یہ خواہشیں ہیں ، کبھی پوری نہ ہوں گی ۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
میں نے دونوں صورتیں ذکر کردی تھیں ، جواب بھی میں نے اسی لیے نقل نہیں کیا تھا کہ بظاہر بعید محسوس ہوتا ہے ، اسی لیے تو ہم عرض کرتے ہیں کہ منکرین حدیث کو ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ، کسی بھی جگہ پر جو بھی نقد کی گنجائش نکل سکتی تھی ، محدثین نے اس پر تفصیل سے گفتگو کردی ہے ، اور ساتھ وجہ بھی ذکر کردی ہے ۔
اب اس طرح کے چند مقامات لیکر کوئی ساری بخاری یا مسلم یا پورے ذخیرہ احادیث کی تحقیق کے اصول ہی نئے وضع کرلے تو یہ خواہشیں ہیں ، کبھی پوری نہ ہوں گی ۔
صحیح بخاری و مسلم پر مجھے کوئی اعتراض نہیں نہ یہ کہا ہے ہاں یہ کہا جاتا ہے کہ امام بخاری و مسلم سے غلطی ہوئی چند روایات کی تصحیح میں

اور کیا یہ امام ابو زرعہ نے صحیح مسلم کے متعلق نہیں کہا؟

امام ابو زرعہ بڑے پائے کے محدث ہیں امام بخاری و مسلم کے استاد ہیں یہاں ان کا تبصرہ صحیح مسلم پر پیش خدمت ہے


قال البرذعي في سؤالاته ( أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية ترجمہ ٦٧٤ ج ٢ ص 674): ((شهدتُ أبا زرعة ذكر كتاب الصحيح الذي ألفه مسلم بن الحجاج، ثم الفضل الصائغ على مثاله، فقال لي أبو زرعة: “هؤلاء قومٌ أرادوا التقدم قبل أوانه، فعملوا شيئاً يتشوفون به. ألفوا كتاباً لم يُسبقوا إليه، ليقيموا لأنفسهم رياسةً قبل وقتها”. وأتاه ذات يومٍ – وأنا شاهدٌ – رجلٌ بكتاب الصحيح مِن رواية مسلم، فجعل ينظر فيه. فإذا حديثٌ عن إسباط بن نصر، فقال لي أبو زرعة: “ما أبعد هذا من الصحيح! يُدخل في كتابه أسباط بن نصر!” ثم رأى في الكتاب قطن بن نسير، فقال لي: “وهذا أطمُّ مِن الأول! قطن بن نسير وصل أحاديث عن ثابت جعلها عن أنس”. ثم نظر فقال: “يروي عن أحمد بن عيسى المصري في كتابه الصحيح”. قال لي أبو زرعة: “ما رأيت أهل مصرٍ يَشُكُّون في أنَّ أحمد بن عيسى” وأشار أبو زرعة بيده إلى لسانه كأنه يقول: الكذب. ثم قال لي: “يُحدِّث عن أمثال هؤلاء، ويترك عن محمد بن عجلان ونظرائه! ويُطرِّق لأهل البدع علينا، فيجدون السبيل بأن يقولوا لحديثٍ إذا احتُجَّ عليهم به: ليس هذا في كتاب الصحيح”. ورأيته يذمُّ وَضْعَ هذا الكتاب ويؤنِّبه. فلما رجعتُ إلى نيسابور في المرة الثانية، ذكرت لمسلم بن الحجاج إنكار أبي زرعة عليه روايته في هذا الكتاب عن أسباط بن نصر وقطن بن نسير وأحمد بن عيسى. فقال لي مسلم: “إنما قلتُ: صحيح، وإنما أدخلتُ مِن حديث أسبط وقطن وأحمد ما قد رواه الثقات عن شيوخهم. إلا أنه ربما وقع إليَّ عنهم بارتفاعٍ، ويكون عندي مِن رواية مَن هو أوثق منهم بنزولٍ، فأقتصر على أولئك. وأصل الحديث معروفٌ مِن رواية الثقات)). اهـ


البرذعي کہتے ہیں میں نے ابو زرعہ کو دیکھا اور ان سے الصحیح کا ذکر کیا جس کی تالیف مسلم بن حجاج نے کی … پس ابو زرعہ نے کہا یہ محدثین کی ایک قوم ہے جو وقت سے پہلے پہلے کام کرنا چاھتے ہیں … لہذا انہوں نے کتابیں تالیف کیں جس کو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تاکہ اپنے تئیں دوسروں پر سردار بنیں وقت سے پہلے اور آج یہ دن ا ہی گیا جسے میں دیکھ رہا ہوں یہ آدمی جس کی کتاب صحیح مسلم ہے اس کی کتاب پر نظر ڈالی تو اس میں اسباط سے روایت کرتا ہے پس ابو زرعہ نے کہا یہ کتاب تو صحیح سے بہت دور ہے اپنی کتاب میں اسباط بن نصر سے روایت کر ڈالی ! پھر انہوں نے دیکھا کتاب میں قطن بن نسیر بھی ہے پس انہوں نے کہا یہ تو اس سے بھی خراب ہے قطن نے ثابت سے اور پھر انس سے روایت ملا دی ہیں پھر ابو زرعہ نے دیکھا احمد بن عیسیٰ المصری پس انہوں نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ اہل مصر اس کے بارے میں شکایت کرتے ہوں سوائے اس کے ، پھر انہوں نے زبان کی طرف اشارہ کیا، کہ یہ جھوٹا ہے پھر کہا اس قسم کے لوگوں سے روایت لے لی ہے اور محمد بن عجلان اور ان کے جیسوں کو چھوڑ دیا ہے اور اہل بدعت کو ہمارے لئے ایک رستہ بنا کر دے دیا ہے پس وہ اس پر ہم سے سبیل پائیں گے اس روایت سے دلیل لی گئی ہے کیا یہ صحیح میں نہیں ؟ اور ان کو دیکھا وہ اس کتاب کو بنانے پر مذمت کرتے پس جب دوسری دفعہ نیشا پور لوٹے پھر امام مسلم کا ذکر ہوا تو ابو زرعہ نے ان کا انکار کیا اور ان کی اسباط بن نصر سے اور قطن سے اور احمد بن عیسیٰ سے روایت کا پس امام مسلم نے مجھ سے کہا میں ان روایات کو صحیح کہا کیونکہ ان راویوں سے شیوخ نے روایت کیا ہے بلاشہ کبھی کبھی میرا (ایمان) ان سے اٹھ جاتا ہے اور میرے پاس ان سے زیادہ ثقہ کی روایت ہوتی ہے تو میں اس کو چھوٹا کر دیتا ہوں اور اصل حدیث تو معروف ہوتی ہے ثقات کی روایت سے


کوئی ساری بخاری یا مسلم یا پورے ذخیرہ احادیث کی تحقیق کے اصول ہی نئے وضع کرلے تو یہ خواہشیں ہیں ، کبھی پوری نہ ہوں گی ۔
نئے کون سے اصول ہیں ؟
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم وجاہت بھائی
آپ بخاری اور مسلم سے ایسی روایات کیوں پیش کر تے ہیں جن پر کچھ کلام ہے ۔ جو شاید چند ہی ہوں۔ اس سے بہتر ہے کچھ ترغیب اور ترہیب کی احادیث پیش کریں۔تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو۔ ایسی چیزیں جس سے لوگ شبہ میں پڑیں اس کو پھیلانے سے کوئی ثواب نہیں ملے گا۔
میری ذاتی رائے باقی آپ آزاد ہیں۔جیسے چاہیں رویہ رکھ سکتےہیں۔
 
شمولیت
جون 10، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
52
محترم وجاہت بھائی
آپ بخاری اور مسلم سے ایسی روایات کیوں پیش کر تے ہیں جن پر کچھ کلام ہے ۔ جو شاید چند ہی ہوں۔ اس سے بہتر ہے کچھ ترغیب اور ترہیب کی احادیث پیش کریں۔تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو۔ ایسی چیزیں جس سے لوگ شبہ میں پڑیں اس کو پھیلانے سے کوئی ثواب نہیں ملے گا۔
میری ذاتی رائے باقی آپ آزاد ہیں۔جیسے چاہیں رویہ رکھ سکتےہیں۔
السلام علیکم میرے خیال سے ان فورمز پر علماء کے مابین اسک قسم کی بحوث ضروری ہیں تاکہ ہم جیسے کم علم کو کوئی منکر حدیث ٹکر جائے تو کم از کم ہمیں بیک گراؤنڈ کا تو پتا ہو۔ یہ شیعہ اور دوسرے لوگوں میں بھی محقق بیٹھے ہیں جو لوگوں کو دین سے پھیرنے میں ساری محنتیں لگا رہے ہیں تو ھمارے علماء حق کی ترویج کے لیے کیوں نہیں

میں نے سنا ہے امام بخاری کی لائی ہوئی تین یا چار احادیث تھیں جس پر اس وقت کے علماء جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اعتراض کیا تھا اس بارے میں بھی تفصیل ہو تو آگاہ فرمائیں
 
Top