• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استشراقی نظریہ ارتقاء اورقراء اتِ قرآنیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’لم یقصـد عثمان قصـد أبی بکر فـی جمـع القرآن بین لوحیـن،وإنما قصـد جمعہـم علی القراء ات الثابتۃ المتواترۃ المعروفۃ عن النبی ﷺ والغاء مالیس کذلک ‘‘(۴۱)
’’یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کامیلان اور قصد قرآن کو دوتختیوں میں جمع کرنا نہیں تھا بلکہ متواتر اورثابت قراء ات کاجمع وتحفظ مقصودتھاجوپوراہوا۔‘‘
٭ حافظ ابوعمروالدانی رحمہ اللہ کاقول ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے باطل اورغیر معروف قراء ات کی گنجائش کومصحف سے نکال باہر کیااورصرف منقول اورمتواتر قراء ات کومحفوظ کر دیا۔مزید لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کایہ فعل اورقصد حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے قصد، قرآن کو دوگتوں میں محفوظ کرنے، کی طرح نہ تھا بلکہ یہ قراء ات ِثابتہ کوجمع کرنا تھا۔(۴۲)
٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآنی متن کونقاط اوراعراب سے خالی رکھا جس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کامیلان اوررغبت لوگوں کو متواتر قراء ات پرجمع کرنا تھا اورمنسوخ وشاذ قراء ات سے چھٹکارا دیناتھا۔(۴۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصد توحیدنصِ قرآنی ہوتا تو وہ مصاحف کو ایک ہی صورت میں لکھواتے اور ان کے مابین کوئی اختلاف بھی موجودنہ ہوتا۔پس مختلف صورتوں اورمتعددکیفیات پر اس کی کتابت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے توحید نصِ قرآنی کاارادہ نہیں کیا بلکہ بطریقِ تواتر منقول قراء ات پر لوگوں کوجمع کرنا مقصود تھا۔(۴۴)بالفرض اگر انہوں نے نص کو ایک کیا ہے تو یہ مروجہ قراء اتِ مختلفہ کیا ہیں؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصاحف اور قرا ء ات کے مطالعہ میں جیفری کا نظریہ ارتقاء
مشہورمستشرق آرتھرجیفری نے مصاحف عثمانیہ سے قبل بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول قراء ات (جنہیں وہ مصاحف شمار کرتاہے)پرنقدوجرح کی غرض سے ابن ابی داؤد(م۳۱۶ھ)کی’کتاب المصاحف‘ کاانتخاب کیا۔ جس سے اس کامقصد قرآنی نص کومضطرب اورمشکوک انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے متعدد متون میں ارتقاء ثابت کرناہے۔ہم اس بحث میں آرتھر جیفری کے منہجِ تحقیق وتنقید پر اُصولی بحث کرتے ہیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ دراصل تحقیق میں دیانتدارانہ طریقۂ کار کبھی بھی مستشرقین کے حصہ میں نہیں آیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری کے منہجِ تحقیق کی تقییم
٭ آرتھرجیفری نے اس کتاب کی Editingکیلئے نسخۂ ظاہریہ پر اعتماد کیا ہے اور اس کا تقابل دارالکتب المصریۃ والے مخطوط سے کیا ہے ،حالانکہ مؤخر الذکر نسخہ ،نسخہ ظاہریہ سے ہی نقل کیاگیا ہے اور دراصل یہ دونوں ایک ہی نسخہ کی دوشکلیں ہیں نہ کہ دوالگ الگ نسخے۔ اس کے باوجود مستشرق موصوف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ متقابل نسخہ ہے۔(۴۵)
٭ جیفری نے اپنے مقدمہ میں اس نسخہ کے پہلے ایک دو اَوراق کے سقوط کاذکر کرتے ہوئے جس گمان کا اِظہار کیا ہے وہ اس کے پہلے سے طے شدہ نتائج کی بھر پور غمازی کرتا ہے۔اس کے زعم میں اس کتاب کے اصل نسخہ سے کئی صحف ساقط ہیں خصوصاً ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ات اورطلحہ بن مصرف رضی اللہ عنہ کی قراء ات پر مشتمل فصول (۴۶) حالانکہ یہ گمان بلا دلیل ہے۔
٭ مقدمہ کے آخر میں جہاں ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے کچھ حالات ذکر کیے گئے ہیں، وہیں مخطوط نسخہ میں بعض سماعات کابھی ذکر کیاگیا ہے جن میں سے بہت زیادہ تعداد میں سماعات کو جیفری نے ترک کیا ہے۔اس کی وجہ سماعات کی اہمیت،فوائد اوران کے نتائج ومقاصدسے ناواقفیت ہے۔(۴۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ہمیشہ کسی مخطوط کی تحقیق اس اصول کی روشنی میں ہوتی ہے کہ مصنفِ کتاب کی اصل عبارت جوں کی توں رہے اور محقق کے وضاحتی نوٹس بریکٹس([ ])یا حاشیہ میں جگہ پائیں،لیکن آرتھرجیفری نے اس کے برعکس کتاب المصاحف کی تحقیق میں اس اہم اصول سے عدول کرتے ہوئے کئی مقامات پر متن کتاب میں اَبواب کے اِضافے کیے ہیں۔مثلاً مخطوط نسخہ کے مطابق آغاز کسی اثر کی سند سے ہورہا ہے جس کا پہلاحصہ حذف ہے، لیکن جیفری نے اپنی طرف سے باب کا عنوان باندھا ہے مثلاً’’باب من کتب الوحی لرسول اﷲ ﷺ‘‘ اسی طرح کتاب کے مزید کئی مقامات پر اس روش پر عمل کرتے ہوئے عنوان کے ساتھ باب کااضافہ کیاگیا ہے۔مثلاً مصنف کے عنوان’’جمع ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ القرآن فی المصاحف بعد رسول اﷲ ﷺ‘‘(۴۸)سے قبل ’’باب من جمع القرآن‘‘ کااضافہ کیا ہے۔اسی طرح اثر نمبر ۳۴۴سے پہلے اپنی طرف سے ’’ما اجتمع علیہ کُتّاب المصاحف‘‘ عنوان کا اضافہ کیا۔(۴۹)
لطف کی بات تویہ ہے کہ جیفری کی تحقیق کے دوران چند ایسے مقامات بھی نظر سے گذرے ہیں جہاں لفظ باب کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن اس کو رقم کرنے میں حرج نہ سمجھاگیا ۔شاید اس کی وجہ مخطوطہ کی تصحیح سے زیادہ صاحب کتاب کی تصحیح مقصود تھی مثلاً ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے عنوان’’اختلاف خطوط المصاحف‘‘(۵۰)کو’’باب اختلاف خطوط المصاحف‘‘لکھاگیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ متعددمقامات پر اپنی طرف سے کلمات کے بے جا اضافہ جات بھی جیفری کے منہجِ تحقیق کو غیر محکم اورپرنقص بناتے ہیں،غالباً جیفری نے ان کلمات کااِضافہ کسی’اثر‘کے معنی کی تکمیل کی غرض سے کیا ہوگا،لیکن حقیقت میں درست مفہوم زیادتی کلمہ کے بغیر زیادہ درست اورواضح تھااورعین مخطوطہ کے الفاظ ہی حقیقی اورمعنی کی تکمیلی شکل تھے۔ مثال کے طور پر اثرنمبر۲۶ میں جیفری نے حرف ’’فی‘‘کااضافہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی عبارت ’’فنسخہا عثمان ہذہ المصاحف‘‘میں’’فی ہذہ المصاحف‘‘(۵۱)کے ساتھ کیا ہے حالانکہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اسی اثر کو ’فی‘کے بغیر ذکر کیاہے اور وہی صحیح ہے۔(۵۲)
٭ کتاب المصاحف میں مذکور بعض آثار کی اسناد بیان کرنے میں بھی جیفری سے بہت زیادہ اغلاط سرزد ہوئی ہیں جو یقینا تحریف کے زمرے میں آتی ہیں۔مصادر ومراجع کی قطعیت (Authenticity) جس طرح مستشرقین کے نزدیک غیر اہم ہے، جس کی بناء پرعموماً ان کے ساتھ غیرمحققانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے، اور مسلم علماء ومحققین ان کی نام نہاد تحقیقات کو قابل اعتناء نہیں گردانتے، اسی طرح اس کتاب کی تحقیق میں بھی غیر محتاط اور غیر سنجیدہ اُسلوب اختیار کیاگیا ہے ۔ہمیں مستشرق موصوف کی عربی لغت میں عدمِ مہارت کا بخوبی احساس ہے، لیکن اس قدر حساس اور نازک موضوع پر جسارت سے قبل کم از کم اس کااحساس ضروری تھا جس کا لحاظ نہیں رکھاگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ محقَق نسخہ میں کئی مقامات پر باہم مشابہ حروف کو ایک دوسرے کی جگہ لکھ دیا گیا ہے مثلاً: اثرنمبر۳۱۶ میں مصنف کاقول ہے:’’والحسن بن أبی الربیع أن عبد الرزاق‘‘کو مستشرق نے’’بن عبد الرزاق‘‘کردیا ہے۔(۵۳)
اسی طرح اثرنمبر ۴۱۴میں ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کاقول ہے:’نا محمد نا شعبۃ‘جبکہ جیفری نے ’محمد بن شعبۃ‘ لکھا ہے۔(۵۴)اس میں پہلے ’نا‘کو غیر ضروری سمجھ کر حذف کردیاگیا اوردوسرے ’نا‘ کو ’بن‘ کر دیاگیا۔ حالانکہ حدیث کی اصطلاح میں یہ الفاظ ’حدثناوأخبرنا‘کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔
اثرنمبر ۴۲۴میں مصنف کا قول ہے: ’محمد عن سفیان‘‘میں مستشرق موصوف نے اس کو ’محمد بن سفیان‘کردیا ہے۔(۵۵)
٭ اکثر مقامات پر جیفری نے آثارِ منقولہ کے رجال کی تعیین میں خطا کی ہے مثلاً وہ عموماً کہتا ہے ’لعلہ فلانٌ‘یعنی شاید یہ وہ ہیں حالانکہ صحیح اس کے علاوہ کوئی اور ہوتا ہے۔ مثلاً اثرنمبر ۳۲۱میں ’’عن (یونس)‘‘کے متعلق کہتا ہے کہ اس سے مراد ابن حبیب رحمہ اللہ ہیں جبکہ صحیح یہ ہے کہ وہ یونس بن یزید الدیلی رحمہ اللہ ہیں۔(۵۶) اسی طرح کی غلطی اثرنمبر ۵۱۸ میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔(۵۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے چچا کی تعیین میں جیفری سے سخت غلطی ہوئی ہے اس کے نزدیک ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے چچا یعقوب بن سفیان رحمہ اللہ ہیں جن کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔(۵۸)جیفری کی اس خطاء کا سبب اس کاعبارت نقل کرنے میں غیر محتاط اسلوب ِتحقیق ہے،چنانچہ اس نے مولف کے اس قول ’’حدثنا عمی ویعقوب بن سفیان‘‘میں ’عمی‘ کے بعد واؤ عاطفہ کو حذف کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اس کویہ گمان ہوا کہ یعقوب رحمہ اللہ مولف کے چچا ہیں حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ یعقوب رحمہ اللہ، ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے شیخ تھے اور آپ کے چچا محمد بن الاشعث السجستانی رحمہ اللہ ہیں۔(۵۹)
ہم یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں کہ باشعور قاری کے لیے کسی درست نتیجہ تک پہنچنے کے لیے سند کا کس قد ر اہم کردار ہوتا ہے اور اگر وہی غیر صحیح اور محرف حالت میں ہو تو روایت سے وہ نتائج اخذ نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ کوئی ٹھوس حقیقت یا دعویٰ کی صورت اختیار کرتی ہے ۔ سلسلۂ سند میں رجال کی معرفت اور اس کا ایصال صحیح سلسلوں سے مؤکد ہونا سب سے ضروری ہوتا ہے،جس کے اِدراک سے جیفری قطعاً عاری نظر آتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ Materialsمیں مختلف قراء ات ِقرآنیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جیفری نے ’’دلنا بدل اھدنا‘‘ کی بجائے ’’دلنا یدک اھدنا‘‘لکھا ہے۔(۶۰)بقول ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری’’ جب تک جیفری اپنے مصادر کا تعین نہ کرے کہ وہ یہ الفاظ کہاں سے لے رہا ہے اس وقت تک حصولِ اطمینان محال ہے۔‘‘(۶۱)
٭ ایک محققِ کتاب کے لیے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ صاحب کتاب کے ان اَقوال وروایات پر بھی بحث کرے جو جمہور علماء کے خلاف ہوں یا جن کی سند میں نقص ہو،صاحب کتاب کے متضاد اورغیر منطقی اَقوال ودلائل پر بھی کڑی نظر رکھتے ہوئے ان کی نشاندہی کرے۔چنانچہ بالغ النظر اوردیانتدار محقق ہمیشہ ان اُصول وقواعد کومدنظر رکھتا ہے، لیکن بدقسمتی سے جیفری ان اصولوں کی پاسداری نہیں کر سکا۔ہم اس کی وجوہات ذکرکرنے کی بجائے ان چند مقامات کی نشاندہی کئے دیتے ہیں جو ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی ’کتاب المصاحف‘میں ایک عام فہم آدمی کے نزدیک بھی قابلِ گرفت شمار ہوتے ہیں۔لیکن جیفری نے ان سے تغافل برتا ہے۔
٭ جیفری ، ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی استعمال کردہ ’مصحف یا مصاحف‘کی اصطلاح کو واضح نہیں کر سکا اورنہ ہی اس بات کو ذکر کیا ہے کہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ اس کو کتنے معانی ومفاہیم میں استعمال کرتا ہے۔(۶۲)مثلاً اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب مختلف قراء ات کو مصحف کے عنوان سے بیان کیا ہے،اسی طرح مصحف کو حرف یا قراء ت کے معانی میں بھی استعمال کیا ہے۔(۶۳) لہٰذا اس اصطلاح سے قطعی طور پر یہ مفہوم اخذ کرنا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف جمع تھے،بذاتِ خود دومختلف معنوں کا شبہ پیداکرتاہے: اوّل:اس سے مراد صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول زبانی روایات ہیں۔(۶۴) دوم: تحریری شکل میں نسخے موجود تھے۔
پہلی رائے کے دلائل کی موجودگی کے باوجود جیفری نے دوسری رائے پر ہی اصرار کیا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کو ’مقابل قرآن ‘کا عنوان دیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مختلف اورمتناقض روایات کو ذکر کرتے ہوئے ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے’’باب اختلاف مصاحف الصحابۃ‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’إنما قلنا مصحف فلان لما خالف مصحفنا ہذا من الخط أو الزیادۃ أو النقصان‘‘(۶۵)
’’ہم جب کہتے ہیں فلاں کا مصحف ،تو وہ دراصل خط کی وجہ سے ہمارے مصحف کے مخالف ہوتا ہے یا زیادتی یا نقصان کی وجہ سے۔ ‘‘
غالباً جیفری نے اسی عبارت سے Rival Codexیا مقابل مصاحف کے نظریہ کا استدلال کیا ہے حالانکہ خط کی مخالفت کی وجہ سے اگر یہ مان لیا جائے تو زیادتی ونقصان کی اِمکانی توجیہات کو قبول نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسے مصاحف کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا جا سکتا ہے جبکہ طرزِ روایت بھی کمزور ہو۔
بالفرض اگران روایات کی صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف نسبت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی وہ تفسیری روایات یا شاذ قراء ات کے درجہ میں رہتی ہیں۔ ان روایات میں زیادہ اختلافات قرآنی سورتوں کی ترتیب کے ملتے ہیں جو دراصل صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان سورتوں کے درجہ بدرجہ میسر آنے کے لحاظ سے فطری طور پرواقع ہوئے ہیں۔لہٰذا مستشرق موصوف کو کسی بھی طرح روا نہ تھا کہ’مقابل قرآن‘ کاعنوان قائم کر تا بلکہ اس کو چاہئے تھا کہ وہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے اس منہج کو تنقید کا نشانہ بناتا۔(۶۶)
 
Top