آیات قرض حسنہ
اسی طرح قرض حسنہ کے تعلق سے اللہ رب العلمین نے کئی مقام پر ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے راستے میں خرچ کریں اللہ کا ارشاد ہے :
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّـهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٤٥﴾البقرہ
ترجمہ :ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے ، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
توضیح : اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا ہے یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گناہ اضافہ فرماتا ہے ، حساب کے دن میں تو یقیناً اس میں اضافہ حیران کن ہو گا جہاں انسان کو ایک ایک نیکی کی ضرورت ہو گی۔
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ ﴿١١﴾الحدید
ترجمہ :کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے پسندیدہ عزت والا ثواب ہے ۔
توضیح :خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے فضل کو امانت سمجھتے ہوئے ضرورت مندوں کو دیں اور بشارت الٰہی کے مستحق ہوں ۔
إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ ﴿١٨﴾الحدید
ترجمہ :بے شک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں ان کے لیے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے پسندیدہ اجر و ثواب ہے ۔
توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان مردوں اور عورتوں کی تعریف فرمائی ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اس اللہ کو قرض حسنہ دے رہے ہیں جس نے اتنی عظیم کائنات کی ساری چیزوں کو احسن اندازے میں پیدا فرمایا اور ہر ایک کی وہ ضرورتیں پوری فرما رہا ہے وہی آخرت میں اس کے بدل وہ اجر دے گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
إِن تُقْرِضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ ﴿١٧﴾التغابن
ترجمہ :اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے (یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو گے ) تو وہ اسے تمہارے لیے بڑھاتا جائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا اللہ بڑا قدردان بڑا بردبار ہے ۔
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک خاص انعام کا اشارہ فرمایا ہے کہ انسان خطاکار ہے اس سے خطائیں سر زد ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ اس قرض حسنہ کی وجہ سے در گزر کا معاملہ فرمائے گا کہ میرے بندے نے میری رضا و خوشنودی کے لیے میری راہ میں خرچ کیا تھا آج ہم اسے اس کا اجر دیں گے ۔
وَأَقْرِضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٢٠﴾المزمل
ترجمہ :اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ۔
توضیح : فی سبیل اللہ خرچ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے چونکہ اس کی صفت ہی غفورالرحیم ہے یہاں ہم سب کچھ چھوڑ جائیں گے مگر جو کچھ ہم نے خرچ کیا اللہ کی راہ میں اللہ کے یہاں اضافے کے ساتھ ہمیں نصیب ہو گا۔
جب یہ آیت نازل ہوئیں تو حضرت ابولدحداح رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہو اللہ تعالیٰ ہم نے قرض مانگتے ہیں حالانکہ وہ ذات قرض سے بے نیاز ہے آپ نے فرمایا ہاں اللہ ہی قرض مانگتے ہیں تاکہ اس کے بدلے میں وہ تمہیں جنت میں داخل کر دے انھوں نے عرض کی تومیں اپنے پروردگار کو قرض دیتا ہوں کیا وہ مجھے اور میری بچی دحداحہ کو جنت میں داخل کرے گا؟آپ نے فرمایا ہاں تو انھوں نے کہا لائیے اپنا دست مبارک بڑھائیے تو آپﷺ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا تو اسے پکڑ کر کہنے لگے دو باغ میری ملکیت میں ہے ایک مدینے کے زیریں علاقہ میں ہے اور دوسرا بالائی حصہ میں ہے ان دو باغوں کے علاوہ اللہ کی قسم اور کوئی چیز میرے پاس نہیں میں یہ دونوں باغ اللہ کو قرض دیتا ہوں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں دے دو اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گزر اوقات کے لئے رکھ لو اس پر ابو الداحدح رضی اللہ عنہ نے کہا پھر اے اللہ کے رسول ان میں سے جو بہتر ہے وہ اللہ کی راہ میں دیتا بہوں آپ گواہ رہیں اس باغ میں چھ سو کھجور کے درخت ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس انفاق کے بدلے میں اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں داخل کرے گا تو آپ رضی اللہ عنہ یہ کہہ کر چل دیئے اور باغ میں پہنچے جہاں ام لداحداح اپنے بچوں کے ہمراہ کھجوروں کے درختوں میں پھر رہی تھیں انھیں دیکھ کر آپ نے یہ کہا:میں یہ باغ اللہ کو بطور قرض خوش دلی سے دے دیا ہے یہ سنتے ہی آپ کی بیوی نے اپنے شوہر کی تحسین فرماتے ہوئے بچوں کو لے کر باغ سے نکل گئی اور بچوں کے دامن و جیب میں جو کھجوریں تھیں اور جو ان کے منہ میں تھی سب نکلوا کر وہیں ڈھیر کر دی۔
انہیں آیات کے پیش نظر نبی اکرم ﷺ نے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دلائی تو حضرت ابو عقیل انصاری رضی اللہ عنہ ایک عجیب و غریب مثال قائم فرمائی خود اپنی زبانی وہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کا حکم پاتے ہی میں تڑپ اٹھا اور اس وقت میرے پاس کچھ نہ تھا کہ خرچ کروں آخر کام کی تلاش میں نکل پڑا تو اللہ تعالیٰ نے میری تمنا پوری فرما دیا دی مجھے ایک جگہ مزدوری مل گئی ایک یہودی کا کھیت سیراب کرنے کا کام دو صاع کھجور کے بدلے تومیں نے ساری رات اپنی پیٹھ پر پانی لاد کر سنچائی کرتا رہا صبح تک پورا کام کیا، صبح ہوئی تو اس یہودی نے دو صاع کھجوریں مزدوری میں دیں تو ایک صاع نکال کر اپنے گھر والوں کے لئے لے گیا اور دوسرا صاع اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے دربار رسالت مآب ﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر کر دیا (الطبرانی)صحابہ رسولﷺ کے اس نیک عمل سے اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر سورۂ التوبہ، آیت نمبر ۷۹ نازل فرمائی سبحان اللہ۔
اسی طرح احادیث نبوی ﷺ میں بھی نماز اور زکوٰۃ کو یوں بیان کیا گیا ہے :
عن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ قال بینما نحن عند رسول اللہ ﷺ ذات یوم اذاطلع علینا رجل الحدیث رواہ مسلم
''حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے آیا جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی سیاہ تھے ، نہ اس پر سفر کا کوئی اثر نمایاں تھا اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا یہاں تک کہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اس نے اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملا دئیے اور اپنے ہاتھ آپ ﷺ کی رانوں پر رکھ دئیے اور کہا:اے محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم یہ شہادت دوکہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور اللہ کے گھرکا حج کرو، اگر اس کے راستے کی استطاعت رکھتے ہو
اس نے کہا:آپ نے سچ کہا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور اس کی تصدیق بھی کرتا ہے
پھر اس نے کہا:مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ۔
آپﷺ نے فرمایا:ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور یوم آخر اور تقدیر کے خیرو شر پر ایمان لاؤ۔
اس نے کہا:آپ نے سچ کہا۔
پھر کہا:مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ۔
آپﷺ نے فرمایا:احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو کیونکہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے ہو تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
اس نے پھر کہا:مجھے اس گھڑی قیامت کے بارے میں بتائیے ۔
آپ نے فرمایا:جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ اسے پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔
اس نے کہا:اچھا، مجھے اس کی نشانیوں سے آگاہ کیجئے ۔
آپ نے فرمایا:نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تم ننگے پاؤں اور ننگے جسم والے کنگالوں اور بکریاں چرانے والوں کو دیکھو گے کہ وہ عمارتوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رہنا چاہتے ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر وہ چلا گیا اور میں کچھ دیر ٹھہرا رہا پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:اے عمر!کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کو ن تھا؟
میں نے کہا:اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ۔
آپﷺ نے فرمایا:وہ جبرئیل علیہ السلام تھے ، تمہارے پاس آئے تھے کہ تمہیں تمہارے دین کی تعلیم سکھا دیں ۔
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیمات کے اہم ستون کو بتانے کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا جو انسانی شکل میں تشریف لائے تھے اس اہم ستونوں میں نماز اور زکوٰۃ بھی ہے جواس کا منکر ہو گا یا تساہل برتے گا وہ کافر ہو گا۔
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال نھینا ان نسال رسول اللہ ﷺ عن شی فکان یعحبنا ان یجیٔ الرجل(الحدیث متفق علیہ)
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ پوچھیں تو ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھ دار بدوی آئے اور آپﷺ سے کچھ پوچھے اور ہم سنیں چنانچہ اہل بادیہ میں سے ایک شخص آیا اس نے کہا:اے محمد!آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور ہم سے بیان کیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے آپﷺ نے فرمایا:اس نے سچ کہا پھر اس شخص نے کہا:آسمان کو کس نے پیدا کیا؟آپﷺ نے فرمایا:اللہ نے اس نے کہا: زمین کو کس نے پیدا کیا آپﷺ نے فرمایا: اللہ نے پھر اس نے کہا:یہ پہاڑ کس نے کھڑے کئے ہیں اور ان میں جو کچھ بنایا ہے وہ کس نے بنایا ہے ؟ آپ نے فرمایا:اللہ نے اس نے کہا:پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور یہ پہاڑ کھڑے کئے ، کیا اللہ نے آپﷺ کو بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں اس نے کہا:آپﷺ کے قاصد نے بیان کیا کہ ہمارے دن اور رات میں ہم پر پانچ نمازیں فرض ہیں آپﷺ نے فرمایا: اس نے سچ کہا اس نے کہا:قسم ہے اس کی جس نے آپﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپﷺ کو اس کا حکم دیا ہے ؟فرمایا:ہاں اس نے کیا:اور آپﷺ کے قاصد نے بیان کیا کہ ہم پر ہمارے مالوں میں زکوٰۃ بھی فرض ہے فرمایا: اس نے سچ کہا اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ فرمایا: ہاں اس نے کہا:آپ کے قاصد نے بیان کیا تھا کہ سال میں رمضان کے روزے بھی ہم پر فرض ہے فرمایا:اس نے سچ کہا اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے فرمایا: ہاں اس نے کہا:آپ کے قاصد نے یہ بھی بیان کیا کہ ہم میں سے اس پربتی اللہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو فرمایا:اس نے سچ کہا (راوی) بیان کرتے ہیں کہ پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا واپس ہوا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ، میں ان میں اپنی طرف سے نہ کچھ بڑھاؤں گا اور نہ ان میں کوئی کمی کروں گا اس پر نبی ﷺ نے فرمایا اگر یہ سچا ہے تو ضرور جنت میں داخل ہو گا'' (بخاری ومسلم)
اسلام میں نماز اور زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس کے بغیر ایمان ادھورا ہے ۔