- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
باب: ۳
تعلیم:
علم الصرف میں لفظ تعلیم ، تفعیل کے وزن پر ہے۔ جس کی خصوصیت میں تصییر(ہوجانا، بنانا) کا معنی ہوتا ہے۔ جیسے
وَتَّرَ القَوْسَ۔
اس نے کمان کو زرہ دار بنایا۔
اسی طرح تعلیم کا معنی ہوگا کہ بتدریج مگر تسلسل کے ساتھ کسی کو علم کی روشنی سے منور کرنا۔ تاکہ وہ تاریکیوں میں نہ بھٹکے۔ عربی میں لفظ تعلیم میں علم دینے کے ساتھ دینی، اخلاقی اور عملی تربیت و صحیح راہنمائی کا پہلو بھی ہے۔اس لئے تعلیم القرآن کا مطلب کسی ناواقف کو بتدریج قرآنی علم سے آراستہ کرکے اسے عملی اور اخلاقی اعتبار سے صاحب قرآن بنانا۔ اسے ایسے علم سے مزین کرنا جو قرآن کے الفاظ وعبارات کو اور ان کے مفاہیم کو رسوخ سے پہچان پائے اور عالم ربانی کہلائے۔ظاہر ہے یہ تعلیم، قرآن کو ایک بار پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ بار بار پڑھنے اور غورو فکر سے حاصل ہوتی ہے۔
اس کی اہمیت وضرورت :
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ اس کے بے شمار ایسے پہلو ہیں جن کا جاننا از بس ضروری ہے۔ اس میں اس کی اپنی لغت ہے ضرب الأمثال ہیں،غریب، مشکل، مترادف الفاظ ہیں مثلاً: قلب، فؤاد اور صدر میں کیا فرق ہے۔، اور متباین کلمات ہیں، یَشْرِیْ، المَولٰی وغیرہ یا اضداد میں سے ہیں جیسے لفظ ظن اور زعم وغیرہ ہیں۔ بعض کلمات ہیں ان کا لفظی مطلب کچھ اور بنتا ہے مگر اس سے مراد کیا ہے۔جیسے رَیْبَ الْمَنُونِ وغیرہ۔ ان سب کو جاننے کے لئے فقہ اللغہ کا علم بہت ضروری ہے۔
تعلیم قرآن
تعلیم:
علم الصرف میں لفظ تعلیم ، تفعیل کے وزن پر ہے۔ جس کی خصوصیت میں تصییر(ہوجانا، بنانا) کا معنی ہوتا ہے۔ جیسے
وَتَّرَ القَوْسَ۔
اس نے کمان کو زرہ دار بنایا۔
اسی طرح تعلیم کا معنی ہوگا کہ بتدریج مگر تسلسل کے ساتھ کسی کو علم کی روشنی سے منور کرنا۔ تاکہ وہ تاریکیوں میں نہ بھٹکے۔ عربی میں لفظ تعلیم میں علم دینے کے ساتھ دینی، اخلاقی اور عملی تربیت و صحیح راہنمائی کا پہلو بھی ہے۔اس لئے تعلیم القرآن کا مطلب کسی ناواقف کو بتدریج قرآنی علم سے آراستہ کرکے اسے عملی اور اخلاقی اعتبار سے صاحب قرآن بنانا۔ اسے ایسے علم سے مزین کرنا جو قرآن کے الفاظ وعبارات کو اور ان کے مفاہیم کو رسوخ سے پہچان پائے اور عالم ربانی کہلائے۔ظاہر ہے یہ تعلیم، قرآن کو ایک بار پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ بار بار پڑھنے اور غورو فکر سے حاصل ہوتی ہے۔
اس کی اہمیت وضرورت :
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ اس کے بے شمار ایسے پہلو ہیں جن کا جاننا از بس ضروری ہے۔ اس میں اس کی اپنی لغت ہے ضرب الأمثال ہیں،غریب، مشکل، مترادف الفاظ ہیں مثلاً: قلب، فؤاد اور صدر میں کیا فرق ہے۔، اور متباین کلمات ہیں، یَشْرِیْ، المَولٰی وغیرہ یا اضداد میں سے ہیں جیسے لفظ ظن اور زعم وغیرہ ہیں۔ بعض کلمات ہیں ان کا لفظی مطلب کچھ اور بنتا ہے مگر اس سے مراد کیا ہے۔جیسے رَیْبَ الْمَنُونِ وغیرہ۔ ان سب کو جاننے کے لئے فقہ اللغہ کا علم بہت ضروری ہے۔