ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
ان روایات کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے علمائے اسلام نے حضرت عثمان غنی کے عمل کی یہی تشریح کی ہے کہ حضرت عثمان غنی کا مقصد قرآن مجید کے کسی ’حرف‘ کو ختم کرنا نہ تھا بلکہ انہیں تو اس بات کا افسوس تھا کہ بعض لوگ درست حروف کا انکار کر رہے ہیں۔ اور بعض لوگ آپس میں جھگڑنے لگے تھے۔ اسی مقصد کے لیے آپ نے معیاری نسخہ تیار کروایا۔ یہی نقطہ نگاہ ابن حزم نے الفصل في الملل میں ، مولانا عبدالحق نے تفسیر حقانی کے مقدمہ البیان میں اور علامہ زرقانی نے ’مناھل العرفان‘ میں نقل کیا ہے۔ آپنے تو ایسا رسم الخط اختیار فرمایا کہ اس کے اختیار کرنے سے ایک ہی لفظ کو تمام جائز حروف میں پڑھنے والے اپنے اپنے ’حرف‘ کے مطابق پڑھ سکیں ۔ یہ اقدام ’سبعہ احرف‘ کو محفوظ کرنا تھانہ کہ انہیں ضائع کر دینا۔
اگرچہ قرآن کریم بے شمار صحابہ کو زبانی یاد تھا۔ تاہم لوگوں نے اپنے اپنے ہاں لکھا بھی ہوا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے جو نسخہ تیار کروایا تھا اس میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا کہ سبعہ احرف کے نتیجے میں لکھے گئے ان ذاتی مصاحف کو ختم کر دیا جائے ۔ لوگوں کے پاس ذاتی مصاحف بھی موجود رہے۔عہدِ نبویﷺ کے قریب کے زمانے میں اس قسم کا کوئی امکان نہ تھا کہ قرآن کے بارے میں مسلمان کسی مشکل کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ اس وقت تک اسلام ابھی ایک علاقے تک محدود تھا لیکن جب اسلام بلا دو امصار میں پھیل گیا تو حافظے کے ساتھ ساتھ کتابت کی بھی یکساں اہمیت محسوس کی جانے لگی۔ بلا دو امصار کے مسلمانوں کو اب ایک ایک طریقے کے مطابق قرآن پڑھایا گیاکہیہ بات ان میں عملاً معروف نہ ہوئی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے ۔اس لئے ان میں اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ ساتھ ہی انفرادی طور پر تیار کئے ہوئے مصاحف بھی کسی نہ کسی حرف کے مطابق تھے اور ان کے آپس میں اختلافات تھے ۔ لیکن ایک معیاری نسخہ موجود نہ تھا۔
اگرچہ قرآن کریم بے شمار صحابہ کو زبانی یاد تھا۔ تاہم لوگوں نے اپنے اپنے ہاں لکھا بھی ہوا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے جو نسخہ تیار کروایا تھا اس میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا کہ سبعہ احرف کے نتیجے میں لکھے گئے ان ذاتی مصاحف کو ختم کر دیا جائے ۔ لوگوں کے پاس ذاتی مصاحف بھی موجود رہے۔عہدِ نبویﷺ کے قریب کے زمانے میں اس قسم کا کوئی امکان نہ تھا کہ قرآن کے بارے میں مسلمان کسی مشکل کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ اس وقت تک اسلام ابھی ایک علاقے تک محدود تھا لیکن جب اسلام بلا دو امصار میں پھیل گیا تو حافظے کے ساتھ ساتھ کتابت کی بھی یکساں اہمیت محسوس کی جانے لگی۔ بلا دو امصار کے مسلمانوں کو اب ایک ایک طریقے کے مطابق قرآن پڑھایا گیاکہیہ بات ان میں عملاً معروف نہ ہوئی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے ۔اس لئے ان میں اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ ساتھ ہی انفرادی طور پر تیار کئے ہوئے مصاحف بھی کسی نہ کسی حرف کے مطابق تھے اور ان کے آپس میں اختلافات تھے ۔ لیکن ایک معیاری نسخہ موجود نہ تھا۔