• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی﷜ اور مستشرقین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان روایات کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے علمائے اسلام نے حضرت عثمان غنی﷜ کے عمل کی یہی تشریح کی ہے کہ حضرت عثمان غنی﷜ کا مقصد قرآن مجید کے کسی ’حرف‘ کو ختم کرنا نہ تھا بلکہ انہیں تو اس بات کا افسوس تھا کہ بعض لوگ درست حروف کا انکار کر رہے ہیں۔ اور بعض لوگ آپس میں جھگڑنے لگے تھے۔ اسی مقصد کے لیے آپ﷜ نے معیاری نسخہ تیار کروایا۔ یہی نقطہ نگاہ ابن حزم﷫ نے الفصل في الملل میں ، مولانا عبدالحق﷫ نے تفسیر حقانی کے مقدمہ البیان میں اور علامہ زرقانی﷫ نے ’مناھل العرفان‘ میں نقل کیا ہے۔ آپ﷜نے تو ایسا رسم الخط اختیار فرمایا کہ اس کے اختیار کرنے سے ایک ہی لفظ کو تمام جائز حروف میں پڑھنے والے اپنے اپنے ’حرف‘ کے مطابق پڑھ سکیں ۔ یہ اقدام ’سبعہ احرف‘ کو محفوظ کرنا تھانہ کہ انہیں ضائع کر دینا۔
اگرچہ قرآن کریم بے شمار صحابہ﷢ کو زبانی یاد تھا۔ تاہم لوگوں نے اپنے اپنے ہاں لکھا بھی ہوا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے جو نسخہ تیار کروایا تھا اس میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا کہ سبعہ احرف کے نتیجے میں لکھے گئے ان ذاتی مصاحف کو ختم کر دیا جائے ۔ لوگوں کے پاس ذاتی مصاحف بھی موجود رہے۔عہدِ نبویﷺ کے قریب کے زمانے میں اس قسم کا کوئی امکان نہ تھا کہ قرآن کے بارے میں مسلمان کسی مشکل کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ اس وقت تک اسلام ابھی ایک علاقے تک محدود تھا لیکن جب اسلام بلا دو امصار میں پھیل گیا تو حافظے کے ساتھ ساتھ کتابت کی بھی یکساں اہمیت محسوس کی جانے لگی۔ بلا دو امصار کے مسلمانوں کو اب ایک ایک طریقے کے مطابق قرآن پڑھایا گیاکہیہ بات ان میں عملاً معروف نہ ہوئی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے ۔اس لئے ان میں اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ ساتھ ہی انفرادی طور پر تیار کئے ہوئے مصاحف بھی کسی نہ کسی حرف کے مطابق تھے اور ان کے آپس میں اختلافات تھے ۔ لیکن ایک معیاری نسخہ موجود نہ تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا حضرت عثمان غنی﷜ نے سیاسی مقاصدکے لئے قرآن جمع کروایا تھا؟
گذشتہ صفحات میں ہم نے عہد عثمان غنی﷜ میں قرآن مجید کے ایک متفقہ نسخہ کی تیاری کا پس منظر ، ضرورت اُس کی تیاری اور اس کے بعد اس کے نفاذ کی تفصیلات بیان کر دی ہیں۔ ان تفصیلات کی روشنی میں مستشرقین کے پیدا کردہ کئی ایک ابہام خود بخود ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔ مثلاً ان تفصیلات سے مندرجہ ذیل اعتراض خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔
(١) مصحفِ عثمان غنی﷜ کی تیاری محض بے مقصد کام نہ تھا بلکہ اس کی تیاری کا جواز اور ضرورت موجود تھی۔
(٢) یہ نسخہ کوئی نیا نسخہ نہ تھا بلکہ مصحف صدیق﷜ کی مکمل نقل تھی۔
(٣) بعض پہلوؤں سے یہ مصحف ، مصحف صدیق﷜ سے مختلف تھا (مصحف صدیق﷜ میں سبعہ احرف سے تعرض نہیں کیا تھا جبکہ مصحف عثمان﷜ میں ایسا رسم الخط اختیار کیا گیا ہے کہ جس میں تمام جائز قراء تیں سما سکیں)
مستشرقین کے مزید اعتراضات کے جواب ہم آئندہ صفحات میں پیش کریں گے ۔ ہمارے جوابات مندرجہ ذیل ترتیب کے حامل ہیں ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) کیا حضرت عثمان غنی﷜ نے سیاسی مقاصد کے لیے قرآن مجید کو جمع کروایا تھا؟ اور کیا یہ ان کی ذاتی کاروائی تھی اور دیگر اراکین کمیٹی ان کے ہمنوا بن گئے تھے؟
(٢) کیا حضرت عثمان غنی﷜ نے قرآن مجید سے وہ حصے حذف کردیئے تھے جن میں حضرت علی﷜اور اہل بیت کے مناقب کا ذکر تھا؟
(٣) آپ﷜ نے قرآن مجید کا 6/7 حصہ ضائع کر دیا اور صرف1/7 حصہ باقی رہنے دیا۔
(٤) حضرت زید بن ثابت﷜ کہتے ہیں کہ سورۃ الاحزاب کی آیت من المؤمنین رجال…صرف حضرت خزیمہ انصاری﷜ سے ہی ملی۔
(٥) یہ اعتراض کہ حضرت عثمان غنی﷜ نے ایک طرف فرمایا کہ اگر لکھنے والوں میں اختلاف ہوتو قریش کے رسم الخط کو ترجیح دی جائے اور دوسری طرف کہا گیا کہ انہوں نے ساتوں حروف کو باقی رکھا اس طرح قریش کے رسم الخط کو باقی رکھنے کا مطلب کیاہوا؟
(٦) حضرت عثمان غنی﷜ نے جمع قرآن کی جو کاروائی کی اس کی ضرورت نہ تھی۔
(٧) اگر قرآن عہد نبوی اور اس کے بعد عہد صدیق اکبر﷜ میں جمع ہو چکا تھا تو پھر حضرت عثمان غنی﷜ کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) حضرت عثمان غنی﷜ کے سامنے ان کا تیار کروایا ہوا مصحف پیش کیا گیا تو آپ﷜ نے فرمایا کہ اس میں ’لحن‘ ہے۔ لوگ خود ہی درست کر لیں گے۔ گویا آپ﷜ نے اپنی اس کاروائی کی ناکامی کا اعتراف کر لیا۔
کیا حضرت عثمان غنی﷜ نے سیاسی مصلحت اور مقاصد کے تحت قرآن مجید کا نسخہ تیار کروایا تھا؟
اس اعتراض کا ردّ ہم مندرجہ ذیل حقائق کی روشنی میں کرسکتے ہیں:
(١) یہ کاروائی محض آناً فاناً عمل میں نہیں آگئی بلکہ حضرت حذیفہ بن الیمان﷜کی شکایت اور حالات کی سنگینی کے بعد حضرت عثمان غنی﷜ نے ایک مصحف کی تیاری کا حکم فرمایا تھا۔ (حضرت حذیفہ﷜ کی شکایت اور آذر بائیجان کے سفر کی رپورٹ گذشتہ صفحات میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے)
(٢) آپ﷜ نے یہ کاروائی اکیلے ہی نہیں کی بلکہ صحابہ﷢ کا مشورہ اس میں شامل تھا۔
حضرت عثمان غنی﷜ نے یہ کاروائی ذاتی طور پر نہیں کی بلکہ اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ بخاری شریف اور الاتقان میں ان حضرات کی تعداد چار بیان کی گئی ہے ۔ ان میں
(١) حضرت زیدبن ثابت﷜ (٢) حضرت عبداﷲ بن زبیر﷜
(٣) حضرت سعید بن العاص﷜ (٤) حضرت عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام﷜
شامل تھے۔ جبکہ ابن ابی داؤد نے محمد بن سیر ین کے طریق پر کثیر بن افلح سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہاجس وقت حضرت عثمان غنی﷜ نے مصحف لکھوانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس غرض سے بارہ مشہور آدمی قریش اور انصار میں سے جمع کئے اور ان کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ قرآن لکھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ نے فتح الباری میں اس سلسلے میں تفصیلات بیان کی ہیں اور ان دو متناقض روایات کی وضاحت کی ہے کہ اس کمیٹی کے ارکان کی تعداد چار تھی یا بارہ؟ ان کی اس وضاحت کا خلاصہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر یہ کام چار اصحاب﷢ ہی کے سپرد تھا لیکن دیگر صحابہ﷢ کو بھی ان کی مدد پر مامور کر دیا گیا تھا۔ ان اصحاب﷢ میں ابیّ ابن کعب ،کثیر بن افلح، مالک بن ابی عامر، انس بن مالک ، ابن عباس﷢ وغیرہ شامل تھے۔
بارہ اصحاب﷜ والی روایت کا تنقیدی جائزہ صبحی صالح نے ’مباحث فی علوم القرآن‘ میں لیا ہے ۔ وہ اس روایت کو معتبر نہیں سمجھتے ڈاکٹر صبحی صالح نے اس ضمن میں مستشرقین جن میں بلاشر وغیرہ شامل ہیں، کے خیالات کا بڑے مؤثر انداز سے ردّ کیا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم مستشرقین کے اس موقف کا ردّ ڈاکٹر صبحی صالح کے بیان کی روشنی میں کریں گے کہ حضرت عثمان غنی﷜ نے محض سیاسی مقاصد کے حصول اور سیاسی پالیسی کے طور پر قرآن میں مداخلت کی تھی اور اپنی مرضی کا ایک نسخہ تیار کروا لیا تھا۔ اور اس کمیٹی کے ارکان ، حضرت عثمان غنی﷜ کے آلہ کار بن گئے اور گٹھ جوڑ کر کے ایک نیا نسخہ تیار کر لیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں :
حضرت عثمان غنی﷜ کی اس کاروائی کا اصل محرک وہ اختلافات تھے جن کی نشاندہی حضرت حذیفہ بن الیمان﷜ نے آذر بائیجان سے واپسی پر کی تھی۔ لیکن مستشرقین اس کاروائی کا محرک سیاسی مقاصد کا حصول قرار دیتے ہیں ۔
اس سلسلے میں بلا شر پیش پیش ہے جس نے جمع و تدوین قرآن کے بارے میں حضرت عثمان غنی﷜ کی نیت پر حملے کئے ہیں یہ تمام حملے بالکل بے بنیاد ہیں ۔ مستشرقین کے پاس کوئی بنیاد نہیں ہے کہ جس سے ثابت کیا جاسکے کہ حضرت عثمان غنی﷜ کے پیش نظر سیاسی مقاصد کا حصول تھا اور آپ نے یہ کاروائی اس لئے بھی کی کہ مہاجرین کی اہمیت جتائی جاسکے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صبحی صالح نے بلا شر کا حوالہ دیا ہے۔
ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ یہ اتہام محض مستشرقین کی الزام تراشی ہے اور عبث قیاس آرائیوں کاآئینہ دار ہے اور کسی تاریخی روایت سے ان کے اس دعویٰ کی تائید نہیں ہوتی ۔ کوئی دانشمند شخص یہ بات درست تسلیم نہیں کر سکتا کہ امام بخاری جیسے محدّث کے مقابلے میں جو کہ ثقاہت و امانت اور حفظ و ضبط میں اپنی نظیر نہیں رکھتے،مستشرقین کی ان بے سروپا باتوں کو ترجیح دی جائے۔حضرت عثمان غنی﷜ نے اس سلسلے میں جو کمیٹی بنائی تھی اس بارے میں بھی مستشرقین نے بے سروپا باتیں کی ہیں ۔ یہ کمیٹی چار حضرات پر مشتمل تھی۔ ڈاکٹر صبحی صالح لکھتے ہیں کہ عجیب بات ہے کہ محدث ابن ابی داؤد ایک ہی مسئلہ کے بارے میں مختلف روایات نقل کرنے کے شائق رہتے ہیں اگرچہ ان میں واضح تضاد پایا جاتا ہو اس پر مزید یہ کہ وہ مسئلہ زیر بحث میں امام بخاری﷫ کی ذکر کردہ چار اشخاص پر مشتمل کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جو دو صحابہ﷢ حضرت زید بن ثابت﷜ اور سعید بن العاص﷜ پر مشتمل تھی۔ اس طرح ایک کمیٹی کا ذکر کرتے ہیں جو بارہ صحابہ﷢ پر مشتمل تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے ان خیالات پر ایک مستشرق ہی نے کلام کیا ہے۔ یہ مستشرق سچوالےSchwally)) ہے ۔ اس نے جرح و قدح کی ہے۔ مستشرق بلاشر (Blachere) اس پر تعجب وحیرت کا اظہار کرتا ہے کہ حضرت ابن ابی داؤد﷜ نے ایک ایسی کمیٹی کا بھی ذکر کیا ہے جس کے ایک رکن حضرت ابی بن کعب﷜ بھی تھے۔ حالانکہ وہ اس کاروائی سے دو برس قبل وفات پا چکے تھے۔کمیٹی کی تشکیل اور اس کے ارکان کی تعداد میں اس طرح کی روایات کا ذکر کرنے کا مقصد ان کے نزدیک یہ ہے کہ حفاظت قرآن کی ساری تاریخ کو مشکوک بنا دیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کمیٹی کے ارکان کی تعداد کے علاوہ مستشرقین نے ان حضرات کی ذات پر بھی اعتراضات کئے ہیں ۔ اس سلسلے میں بلاشر نے طرح طرح کی قیاس آرائیوں سے کام لیا ہے وہ پہلے تینوں قریشی صحابہ﷢ کو حضرت عثمان غنی﷜ کی طرح امراء و خواص میں شمار کرتا ہے۔ یہ مستشرقین یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حضرت عثمان﷜ کی شخصیت و کردار کا کیا عالم تھا اس معاشرے کا نقشہ بھی ان کے ذہنوں میں موجود نہیں ہے۔ اس معاشرے میں عوام اور خواص کا تصور کہاں باقی رہ گیا تھا۔ اس معاشرے میں تو خلیفہ رسول اﷲﷺ، خلیفہ ہوتے ہوئے لوگوں کی بکریوں کا دودھ دوھا کرتے تھے ۔ خلیفہ ثانی جن کی ہیبت سے دشمنوں کے دل کانپتے تھے۔ راتوں کو بھیس بدل کر لوگوں کی خدمت کے لیے مدینہ کی گلیوں کا چکر لگایا کرتے تھے ۔ ہم خود مستشرقین کی کتابوں سے ایسی سینکڑوں مثالیں پیش کر سکتے ہیں کہ یہ بزرگ تقویٰ اور پرہیز گاری میں کس مقام پر فائز تھے۔ کیا یہ لوگ تقویٰ کے اس اعلٰی مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھی قرآن میں من مانی تبدیلیاں کرنے کی خاطر مختلف حربے اختیار کرسکتے تھے۔ اس معاشرے میں نہ اس قسم کی کسی کاروائی کا امکان ہو سکتا تھا اور نہ ہی ’خواص و عوام‘ کی کوئی تقسیم وہاں موجود تھی۔ جہاں حضرت عمر﷜ جیسی شخصیت سے برسر منبر مواخذہ ہوسکتا تھا وہاں حضرت عثمان غنی﷜ کی اس قسم کی کاروائیوں پر لوگ کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بلاشر مزید لکھتا ہے کہ یہ تینوں مکی صحابہ﷢ ، حضرت عثمان غنی﷜ کے رشتہ دار تھے۔ اس لئے وہ ایک مشترکہ مصلحت کے حصول کی خاطر باہم متفق ہو گئے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کتابت قرآن کے کام کی تکمیل کسی ایسے شخص کے ہاتھوں ہوجومکہ کے علاوہ کسی اور جگہ کا رہنے والا ہو ۔ بلاشر اس من گھڑت قصہ کی تکمیل یوں کرتا ہے کہ حضرت زید بن ثابت﷜ ان مکی صحابیوں﷢ کے ہم خیال بن گئے تھے اور ان کی خوشامد کیا کرتے تھے۔ حضرت زید﷜ جانتے تھے کہ وہ قریش مکہ کے طبقہ خواص میں شامل نہیں ہیں اس لئے وہ ان صحابہ﷢ کی خوشامد کو قرین مصلحت خیال کرتے تھے۔
بلاشر کے یہ خیالات دور از عقل وقیاس اور لایعنی ہیں ان خیالات میں تناقض و تضاد پایا جاتا ہے۔ اگرہم صحابہy کے معاشرے کے تقویٰ اور احتیاط کی ایک جھلک ذہن میں رکھیں تو اس قسم کی حرکت کسی ذی ہوش انسان کے قلب و دماغ سے کوسوں دور بھاگتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کے نظریات کے بطلان کے لئے اتنی بات ہی کافی ہے کہ بلاشر نے حضرت زید بن ثابت﷜ کو تینوں مکی صحابہ﷢ کے ساتھ گٹھ جوڑ میں ملوث کر کے انہیں بلاوجہ متہم کیا ہے ۔ اس کی کوئی نقلی یا عقلی دلیل موجود نہیں ہے۔ بلا شر کے خیالات کے ردّ کے لیے مندرجہ ذیل باتیں قابل غور ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) تحقیق ہمیشہ استدلال کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ استدلال یا تو تاریخی شواہد کی بنا پر ہوتا ہے یا مختلف شواہد سے بالواسطہ طور پر نتائج اخذ کئے جاتے ہیں لیکن بلاشر کے اس نقطہ نگاہ کے پیچھے کوئی بلا واسطہ یا بالواسطہ استدلال موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف انصاف اور اصول کا تقاضا ہے کہ جب وہ کوئی دلیل اپنے نقطہ نگاہ کی تائید میں پیش نہیں کرتا توا س کی بات تسلیم نہ کی جائے۔ خصوصاً جب وہ ایسی بات کر رہا ہو جو مسلّمات کے برعکس ہو۔ اس صورت میں مسلمانوں ہی کے اس نقطہ نگاہ کودرست تسلیم کیا جائے گا کہ حضرت عثمان غنی﷜ کی اس کاروائی کے پیچھے نہ کوئی سازش کار فرما تھی ،نہ کوئی گٹھ جوڑہوا اور نہ ہی اس کاروائی سے حضرت عثمان غنی﷜ خصوصی اغراض حاصل کرنا چاہتے تھے۔
(٢) صحابہ﷢ جہاں تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے وہاں وہ قرآن و حدیث کے بارے میں حد درجہ محتاط بھی تھے۔ وہ حضور ﷤ کے ان ارشادات کی اہمیت خوب جانتے اور ان پر عمل پیرا تھے۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘‘۔
’’جس نے میرے بارے میں جھوٹ بات کہی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
ابن کثیر﷫ نے ابن عباس﷜سے حضور اکرمﷺ کا یہ فرمان نقل کیا ہے ’’مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيٍ فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔‘‘
جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) یہی مستشرق خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس کمیٹی کے ارکان حد درجہ متقی اور محتاط تھے ۔
بلاشر (Blachare) لکھتا ہے:
’’اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ کمیٹی کے ارکان کو اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس تھا۔ اگرچہ وہ ان دنوں تنقید و تبصرہ کے طرزو اندازسے پوری طرح آشنا نہ تھے‘‘۔
اس کی دونوں باتوں میں تضاد ہے ایک طرف ان کو ذمہ دار اور متقی قرار دیتا ہے اور دوسری طرف قرآن جیسی کتاب میں تحریف کی سازش میں ملوث قراردیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک بات ہی درست ہوسکتی ہے اور ہم اس بات کو درست کہیں گے جسے تاریخ اور دلائل و شواہد درست قرار دیں۔
ہم اس سلسلے میں ولیم میور کی وضاحت بھی پیش کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے ساتھی مستشرقین کے موقف کو ردّ کرتا ہے وہ لکھتا ہے کہ اس نظر ثانی میں علماء نے آیات اور قراء توں میں سے ایک ایک آیت کا پہلے نسخے سے مقابلہ کیا۔ اس کمیٹی میں قریشی صحابہ﷢ ہی کو اس لئے شامل کیا گیا کہ قرآن انہی کے لب ولہجہ میں نازل ہوا تھا۔میور نے بھی اس مصحف کی تیار ی کا یہ جواز تسلیم کیا ہے کہ آذر بائیجان میں لوگوں کے اندر قرآن کی تلاوت پر اختلافات دیکھنے میں آئے تھے۔
 
Top